8 فروری کے انتخابات تاریخ کے سب سے متنازعہ تھے، فواد چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ 8 فروری 2024 کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے اور ان کے نتائج کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا۔، ایسا انتخابی عمل ماضی میں کبھی نہیں دیکھا گیا، جس میں نتائج کو بڑے پیمانے پر بدلا گیا ہو۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ 18 نشستیں جیتنے والی جماعت نے حکومت بنا لی، جبکہ 27 سیٹیں حاصل کرنے والی جماعت کو صدر سمیت اہم آئینی عہدے دیے گئے، 2018 کے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف الیکشن تھے، لیکن 2024 میں انتخابات کا پورا عمل مشکوک بنا دیا گیا۔
“حکومت کو پی ٹی آئی سے زیادہ اسٹیشلمنٹ سے مذاکرات کی ضرورت”
فواد چوہدری نے کہا کہ اس وقت حکومت کو پی ٹی آئی کے بجائے اسٹیشلمنٹ سے مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی استحکام پیدا کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیصل چوہدری کی گرفتاری عمران خان کی آواز کو دبانے کی ایک کوشش تھی۔
“پی ٹی آئی، جے یو آئی اور وکلا کو اکٹھا ہونا ہوگا”
سابق وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صرف پی ٹی آئی، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) اور وکلا کے پاس عوامی طاقت موجود ہے، اور ان تینوں قوتوں کو فسطائیت کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور وکلا کے ساتھ مل کر چلے تاکہ حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فواد چوہدری پی ٹی آئی نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
بھارت کی وکلا تنظیم نے وقف ایکٹ کو متعصبانہ قانون قرار دے دیا
وکلاء تنظیم نے کہا کہ ترمیم کو ایک سوچے سمجھے ایجنڈے کاحصہ کہا جا سکتا ہے تاکہ طریقہ کار میں رکاوٹوں، جانبدارانہ تحقیقات اور اکثریتی برادری کی طرف سے زمینوں پر قبضے کو قانونی حیثیت دی جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا لائرز ایسوسی ایشن فار جسٹس (AILAJ) نے وقف قانون میں حالیہ ترامیم کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے متعصبانہ قانون قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے نافذ ہونے والے اس قانون سے بھارت بھر میں بالخصوص مسلمانوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوا ہے۔ وکلاء تنظیم نے ایک بیان میں حکومت کی جانب سے وقف املاک پر ممکنہ قبضے سمیت اس قانون کے کئی اہم پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ تنظیم نے کہا کہ کہ یہ قانون پانچ سال تک اسلام پر عمل کرنے والے مسلمانوں کے وقف املاک پر پابندی لگاتا ہے جسے غیر مسلموں اور اس معیار پر پورا نہ اترنے والے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تنظیم نے کہا کہ قانون ضلع کلکٹر میں اختیارات کو مرکوز کرنے کی کوشش ہے جس سے متنازعہ زمینوں پر بغیر کسی کارروائی کے ریاستی قبضے کو ممکن بنایا گیا ہے۔ نیا قانون وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی نمائندگی کو لازمی قرار دیتا ہے جو ادارہ جاتی خودمختاری کو کمزور کرتا ہے اور جبری قبضے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ترمیم کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف منظم امتیاز، ریاست کی سرپرستی میں اراضی پر قبضے اور مسلمانوں کے دعوئوں کو خارج کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 25 اور 300A کی خلاف ورزی ہے جو مذہب کی آزادی اور جائیداد کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ وکلاء تنظیم نے کہا کہ ترمیم کو ایک سوچے سمجھے ایجنڈے کاحصہ کہا جا سکتا ہے تاکہ طریقہ کار میں رکاوٹوں، جانبدارانہ تحقیقات اور اکثریتی برادری کی طرف سے زمینوں پر قبضے کو قانونی حیثیت دی جا سکے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وقف ترمیمی قانون 2025ء مسلمانوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنانے اور پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی حکومت کی کوششوں کا تسلسل ہے۔