اسلام آباد:

جسٹس بابرستار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کے ٹرانسفر تین ججوں سے متعلق اقدامات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے تفصیلی خط لکھ دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہونے والے 3 ججوں کے معاملے چیف جسٹس عامر فاروق کو 6 صفحات پر مشتمل خط لکھ دیا۔

جسٹس بابر ستار نے ٹرانسفر ججوں کی سینیارٹی لسٹ جاری کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا اور خط میں چیف جسٹس عامر فاروق کے ہائی کورٹ ایڈمنسٹریشن کمیٹی تبدیلی کو بھی غیر قانونی کہہ دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے انہوں نے مطالبہ کیا کہ سینیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے نوٹیفکیشن واپس لیے جائیں اور اپنے خط انہوں نے سینیارٹی لسٹ کے خلاف ریپریزنٹیشن فائل کرنے کا بھی ذکر کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ججز تعیناتی مؤخر اور آئینی ترمیم پر فل کورٹ بنایا جائے، سپریم کورٹ کے چار ججز کا چیف جسٹس کو خط

جسٹس بابرستار نے کہا کہ سینیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھائے بغیر ٹرانسفر ججوں کو کمیٹی میں رکھنا غیر قانونی ہے۔

خط میں کہا گیا کہ ٹرانسفر نوٹیفکیشن میں کہیں نہیں لکھا ٹرانسفر عارضی ہے یا مستقل ہے، آرٹیکل 194 کے تحت ہمارے معزز ساتھی ججوں نے اپنی اپنی ہائی کورٹس کا حلف اٹھا رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حلف میں تینوں ججوں نے کہہ رکھا ہے کہ وہ اپنی اپنی ہائی کورٹس میں بطور جج اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کے بعد تینوں ججوں نے حلف نہیں اٹھایا جو ضروری تھا۔

 جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ حلف کے بغیر وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی ڈیوٹی شروع نہیں کر سکتے تھے، ان کو حلف کے بغیر جوڈیشل اور انتظامی کام کے لحاظ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج نہیں کہا جا سکتا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط میں مزید کہا گیا ہے کہ آپ کی زیر نگرانی تینوں ججز آرٹیکل 194 کی خلاف ورزی میں بغیر حلف 3 فروری سے جوڈیشل کام شروع کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 194 کے تحت بطور چیف جسٹس آپ کی ذمہ داری تھی کہ آپ تینوں ججوں سے حلف لیتے، بغیر حلف ججوں سے جوڈیشل اور انتظامی کام لینا ان کے لیے بعد میں شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔

جسٹس بابرستار نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز 2011 کی خلاف ورزی ہے، اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز کے مطابق ایڈمنسٹریشن کمیٹی چیف جسٹس اور دو ججوں پر مشتمل ہو گی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے خط میں رولز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس لحاظ سے 9 ویں نمبر کے جج جسٹس خالد سومرو کو کمیٹی میں شامل نہیں کر سکتے تھے، بے تکے طریقے سے ایڈمنسٹریشن کمیٹی کی دوبارہ  تشکیل کی گئی۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں سندھ اور لاہور ہائی کورٹ کے دو ججوں کو شامل کر لیا گیا جن کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا ابھی انتظامی کوئی تجربہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ تین دن پہلے ان کی ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری ہوا اور ساتھ ہی کمیٹی میں شامل بھی کر لیا گیا، ہم تقریباً روزانہ جوڈیشل سائیڈ پر کہہ رہے ہوتے ہیں ایگزیکٹو قانون کے مطابق شفاف طریقے سے اختیار استعمال کر سکتا ہے۔

جسٹس بابرستار نے چیف جسٹس عامر فاروق کو خط میں کہا کہ آپ اتفاق کریں گے ججوں کو بھی صوابدیدی اختیارات استعمال کے اتنے ہی پابند ہیں جتنا ہم ایگزیکٹو کو کہتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق جسٹس بابرستار نے جسٹس بابر ستار سینیارٹی لسٹ کمیٹی میں نے کہا کہ انہوں نے ستار نے

پڑھیں:

ججز کے تبادلے کا معاملہ، جسٹس بابر ستارنے بھی چیف جسٹس عامرفاروق کو خط لکھ دیا

اسلام آباد ہائیکورٹ میں صوبوں سے تین ججز کے تبادلے کے معاملے پر جسٹس بابر ستار نے بھی چیف جسٹس عامر فاروق کو خط لکھ د یا جس میں ٹرانسفر ججرز کی سنیارٹی لسٹ کے اجراء پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ۔

جسٹس بابر ستار نے خط کے متن میں کہا کہ ہائیکورٹ ایڈمنسٹریشن کمیٹیز کی تبدیلی غیر قانونی ہے، سینیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے نوٹیفکیشن واپس لئے جائیں ۔ خط میں سینیارٹی لسٹ کے خلاف ریپریزنٹیشن فائل کرنے کا بھی تذکرہ کیا گیاہے ۔
خط کے مطابق بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ حلف اٹھائے بغیر ٹرانسفر ججز کو کمیٹی میں رکھنا غیرقانونی ہے، ججز کے ٹرانسفر نوٹیفکیشن میں کہیں نہیں لکھا ٹرانسفر عارضی ہے یا مستقل ہے ، آرٹیکل 194 کے تحت اِن ججز نے اپنی اپنی ہائیکورٹس کا حلف اٹھا رکھا ہے ، تینوں ججز نے حلف اٹھایا کہ وہ اپنی اپنی ہائیکورٹس میں ذمہ داریاں نبھائیں گے ، اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کے بعد تینوں ججز نے حلف نہیں اٹھایا جو ضروری تھا ، حلف کے بغیر وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنی ڈیوٹی شروع نہیں کر سکتے تھے ۔
خط کے متن میں کہا گیا کہ حلف کے بغیراُنہیں جوڈیشل اور انتظامی لحاظ سے اسلام آباد ہائیکورٹ کا جج نہیں کہا جا سکتا، آپ کی زیر نگرانی تینوں ججز آرٹیکل 194 کی خلاف ورزی میں بغیر حلف کام شروع کر چکے ہیں ، آرٹیکل 194 کے تحت بطور چیف جسٹس آپ کی ذمہ داری تھی آپ تینوں ججز سےحلف لیتے، بغیر حلف ججز سے جوڈیشل اور انتظامی کام لینا اُن کیلئے بعد میں شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے، ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز 2011 کی خلاف ورزی ہے۔
خط کے مطابق اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز کے تحٹ ایڈمنسٹریشن کمیٹی چیف جسٹس اور دو ججز پر مشتمل ہو گی، اس لحاظ سے9 ویں نمبر کے جج جسٹس خالد سومرو کو کمیٹی میں شامل نہیں کیا جاسکتا تھا، سندھ اور لاہورہائیکورٹ کے دو ججز کو کمیٹی میں شامل کیا گیا جن کا اسلام آباد ہائیکورٹ کا انتظامی تجربہ نہیں، تین دن پہلےان کی ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری ہوا اور ساتھ ہی کمیٹی میں شامل کر لیا گیا ، ہم روزانہ کہہ رہے ہوتے ہیں ایگزیکٹو قانون کے مطابق شفاف طریقے سے اختیار استعمال کر سکتا ہے، آپ اتفاق کریں گے ججز بھی صوابدیدی اختیارات استعمال کے اتنے ہی پابند ہیں جتنا ہم ایگزیکٹو کو کہتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کا تبادلہ غیر قانونی: جسٹس بابرستار کا چیف جسٹس کوخط
  • نوویں نمبرکے جسٹس خادم کوانتظامی کمیٹی میں شامل نہیں کرسکتے تھے، جسٹس بابر کا ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو خط
  • ججز کے تبادلے کا معاملہ، جسٹس بابر ستارنے بھی چیف جسٹس عامرفاروق کو خط لکھ دیا
  • ججز کی تعیناتی کے معاملے پر سپریم کورٹ کے 4 ججز کا چیف جسٹس کو خط
  • سپریم کورٹ کے 4 ججوں کا چیف جسٹس کو خط، جوڈیشل کمیشن اجلاس موخر کرنے کی درخواست
  • تنازعات کے حل کیلئے اے ڈی آر ایک اچھا نظام ہے، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ
  • آخری مورچہ بھی چلا گیا
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5ججز نے سینیارٹی کا معاملہ پھر اٹھادیا
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز نے سینیارٹی کا معاملہ پھر اٹھادیا،3 نئے ججز کی آمد سے بڑی انتظامی تبدیلیاں