Daily Ausaf:
2025-04-13@16:52:06 GMT

یو ایس ایڈ خاتمےکےقریب، تقریباً تمام عملہ فارغ

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیرملکی امداد روکنے کے احکامات کے بعد یو ایس ایڈ خاتمےکےقریب پہنچ گی۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی کے تقریباً تمام عملے کو فارغ کرنے کا ارادہ کر لیا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے یوایس ایڈ کے 300 ارکان کے علاوہ باقی سب کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یو ایس ایڈ عملے کو بھیجے نوٹس کے مطابق تقریباً 10 ہزار ارکان کو فارغ کر دیا جائے گا۔امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ نوٹس میں لکھا گیا ہے کہ یوایس ایڈ میں صرف 611 ملازمین کو رکھا جائے گا۔ یہ اقدام ٹرمپ کا افرادی قوت کو کم کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد سامنے آیا۔امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ یو ایس ایڈ کو پاگل چلاتے ہیں۔ امریکا 180 ممالک کو 72 بلین ڈالر یو ایس ایڈ کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔

عالمی فنڈنگ پر کنٹرول اور یو ایس ایڈ ایجنسی کی سرگرمیوں کو سمجھنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر خارجہ مارکو روبیو کو یو ایس ایڈ کا عبوری منتظم مقرر کر دیا ہے۔مارکو روبیو نے ادارے کی ممکنہ تنظیم نو پر کام شروع کر دیا ہے، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی ایجنسی برائے عالمی ترقی (USAID) طویل عرصے سے اپنے ہدف سے بھٹکی ہوئی تھی، اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ یو ایس ایڈ کا قابل ذکر حصہ امریکا کے قومی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ مارکو روبیو نے یو ایس ایڈ کا جائزہ لینے اور ممکنہ طور پر اسے ختم کرنے کے منصوبے کی نقاب کشائی کر دی ہے۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ نے ایجنسی پر الزام عائد کیا کہ یہ امریکی مفادات کے مطابق نہیں ہے، خیال رہے کہ یہ ایجنسی 100 سے زائد ممالک میں خوراک کی امداد، ہنگامی امداد اور صحت کے پروگراموں کی نگرانی کرتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: یو ایس ایڈ

پڑھیں:

تجارتی جنگ اور ہم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو اپریل کو درآمدات پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تو مالیاتی مارکیٹوں میں تہلکہ مچ گیا۔ ’’متاثرہ ملکوں‘‘ کو یہ اقدام دس ریکٹر اسکیل کا تجارتی زلزلہ لگا جس نے ورلڈ سپلائی چین اور فری مارکیٹ اکانومی سسٹم کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔

ان ممالک کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ پچھلے 40 برسوں سے جس’’ رول بیسڈ ورلڈ ٹریڈ آرڈر‘‘ کے وہ عادی اور خوشہ چیں تھے،اس ورلڈ آرڈر کو تشکیل دینے اور قائم رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والا ملک اپنے ہاتھوں سے اس ورلڈ آرڈر کو تہہ کر کے یوں آسانی سے سائیڈ پہ رکھ دے گا! تاہم حقیقت یہی ہے کہ صدر ٹرمپ نے انہونی کو ہونی کر دیا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے 65 ممالک پر بھاری بھرکم ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ ایک تہلکہ خیز واقعہ تھا جس کے باعث فنانشل مارکیٹس میں شدید ترین گراوٹ دیکھی گئی۔ ایک ہی روز میں اربوں کھربوں ڈالرز کی حصص ویلیو ہوا ہو گئی۔

عالمی مالیاتی مارکیٹوں میں شدید گراوٹ اور معاشی بے یقینی کی گرج چمک نے دنیا بھر کے کے ممالک کو چکرا کر رکھ دیا۔ صدر ٹرمپ نے اس پر ایک اور ترپ کا پتہ کھیل کر دنیا کو نہ صرف حیران کر دیا بلکہ کم از کم اگلے90 دن کے لیے انھیں انتظار کی سولی پر بھی لٹکا دیا۔صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے فوری نفاذ کو چین، کینیڈا، میکسیکو کے سوا باقی ممالک کے لیے 90 دنوں تک موخر کر دیا۔ البتہ اس دوران سب پر 10فیصد یکساں ٹیرف عائد کر دیا۔

چین نے امریکی ٹیرف کے جواب میں ترکی بہ ترکی ٹیرف عائد کیے جس پر سیخ پا ہو کر امریکا نے چین پر عائد ٹیرف بڑھا کر 125فیصد کر دیا۔ امریکی حکام کے بقول دنیا کے 70 ممالک ان سے مذاکرات کے لیے رابطہ کر چکے ہیں ،کئی سربراہان نے فون یا وائٹ ہاؤس یاترا کرکے معاملات کی درستی کے لیے پیش قدمی کی لیکن چین ٹس سے مس نہ ہوا۔

بلکہ چینی صدر فار ایسٹ ایشیاء کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے۔ مقصود یہ کہ علاقائی ملکوں کے ساتھ نئے تجارتی بندوبست کا اہتمام کیا جا سکے۔ امریکی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے مایوسی کا اظہار بھی کیا کہ ایک فون کی تو بات تھی لیکن چین کو سمجھ نہیں آئی !

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی موجودگی اور ملٹی لیٹرل ٹریڈ سسٹم کے طے شدہ اصولوں کے باوجود امریکی صدر نے ورلڈ ٹریڈ سسٹم کو بائی پاس کر دیا اور یکطرفہ طور پر کم ازکم 65 ممالک پر ٹیرف عائد کر دیے۔ ورلڈ سسٹم کو بائی پاس کرتے ہوئے بھاری بھرکم ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ صدر ٹرمپ کا انفرادی تھا یا اس فیصلے کے پیچھے سوچی سمجھی اسٹرٹیجی ہے ؟ یعنی There is method behind this madness۔

امریکی سیاست اور معاشی پالیسیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے کٹر خیالات رکھنے والے سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کی ری پبلکن پارٹی پر بڑھتی ہوئی مظبوط گرفت ، کانگریس میں ان کی اکثریت اور صدر ٹرمپ کی غیر مشروط حمایت ان ہنگامہ پرور فیصلوں کا باعث بنی۔

امریکی صدر کے امیگریشن، ایجوکیشن، لیبر یونین کی مزید حوصلہ شکنی سمیت حکومتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں ، بیوروکریسی ، کئی ملکی اور عالمی سطح پر جاری۔امدادی پروگرام بند کرنے اور عالمی تجارتی نظام پر اپنی شرائط پر گرفت قائم کرنے جیسے اقدامات پر ری پبلکن پارٹی میں سرگرم سیاسی و نظریاتی حمایت موجود ہے۔

انتہائی دائیں بازو کے ان ایجنڈا اقدامات کی تشکیل کے لیے دو سال قبل ایک معروف تھنک ٹینک نے 900 صفحات پر مبنی پروجیکٹ 2025 رپورٹ پبلک کر دی تھی۔ اس رپورٹ کے 37 لکھاریوں میں سے 27 صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ان کی ایڈمنسٹریشن کا حصہ تھے یا ان کے سیاسی حلقہ اثر سے متعلق تھے۔

گو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اس رپورٹ کے مندرجات سے پہلو تہی اختیار کی لیکن صدارت سنبھالنے کے بعد ان کے تمام اقدامات۔انداز ہو بہو تیری آواز پاء کا تھاکی مثال ثابت ہورہے ہیں۔ اس پروجیکٹ رپورٹ کے دو سینئر ممبرز امریکی صدر کی انتظامیہ کا حصہ بھی ہیں۔ اسی لیے بیشتر ماہرین کا یہ خیال ہے کہ ٹیرف اقدامات کے پیچھے سوچی سمجھی اسٹرٹیجی کار فرما یے۔ البتہ اس میں باقی ڈرامائی انداز ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی شخصیت کا کرشمہ اور مزاج کا عکس ہے۔

امریکی سیاست میں گزشتہ 45 سالوں کے دوران بہت بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ 80 کی دہائی میں امریکی سیاست میں نیوکون NEOCON معیشت دانوں اور نیو لبرل سیاست دانوں کو عروج ملا۔ ان کی تجویز کردہ بیشتر معاشی پالیسیوں کو صدر رونالڈ ریگن نے اپنایا۔ان پالیسیوں کا امریکا اور عالمی معیشت پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ آج تک اس معاشی طرز نظامت کو ریگنامکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

تاہم اسدوان زمانہ بھی قیامت کی چال چل گیا۔ 80 کی دہائی سے دنیا بھر میں شروع ہونے والی حیرت انگیز معاشی، ٹیکنالوجی اور سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں امریکا اور اس کے حلیفوں کے لیے غیر متوقع تھیں۔ 2025 کا عالمی تجارتی منظر اور اس کے بڑے بڑے کھلاڑی یعنی Who is who کی فہرست اور ترتیب میں بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کم و بیش ہر نوزائیدہ معاشی قوت کی معاشی ترقی کے سوتے امریکا کی پرکشش اور فری مارکیٹ اکانومی سے پھوٹے۔ اس لیے جب امریکا نے بیک جنبش قلم جاری توازن کو جھٹکا دیا تو دنیا بھر کو جھٹکا لگا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران عالمی تجارتی اور معاشی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے 80 کی دہائی والا ماحول اب موجود نہیں، تاہم اس کے باوجود امریکا کا اثرو نفوذ اب بھی بہت وسیع اور فیصلہ کن ہے۔

آنے والا وقت بتائے گا کہ عالمی تجارت اور نئی جیو پولیٹیکل بساط پر امریکا ،چین اور دیگر ممالک کی اگلی صف بندی اور چالیں کیا ہوں گی۔ گو پاکستان عالمی تجارتی حجم میں بہت کم وزن ہے لیکن جیو پولیٹیکل منظر پر ضرور اہم ہے۔

تاہم امریکا اور چین کے مابین تشکیل پاتی نئی سرد جنگ میں روایتی سرد جنگ کی طرح کسی ایک کیمپ کا انتخاب شاید مجبوری بن جائے۔ چین کے ساتھ روایتی دوستی، سی پیک اور بڑھتا ہوا معاشی انحصار امریکا کو مزید کھٹک سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے دو کشتیوں کا سوار رہنا مشکل تر ہو جائے گا۔ پاکستان کو جلد یا بہ دیر اس مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؛" آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو پھر اپ ہمارے مخالف ہیں"۔ آئی ایم ایف کی بیساکھیوں اور " دوست ممالک " کے ڈیپازٹس سے قائم زرمبادلہ کے بھرم سے اپنی معاشی "سفید پوشی " قائم رکھنے والے ملک کے لیے یہ مشکل مرحلہ ہوگا!

متعلقہ مضامین

  • دنیا پر ٹرمپ کا قہر
  • تجارتی جنگ اور ہم
  • پشاور، امتحانی مرکز میں طلبہ کو نقل فراہم کرنے میں پورا عملہ ملوث، تاحیات نااہل کردیا گیا
  • پشاور: امتحانی مرکز میں طلبہ کو نقل فراہم کرنے میں پورا عملہ ملوث، تاحیات نااہل کردیا گیا
  • ٹرمپ کا گرین کارڈ ہولڈرزاور تارکین وطن کی سخت نگرانی کا حکم
  • ٹرمپ کی سخت گیر پالیسی کا نفاذ، گرین کارڈ ہولڈرز سمیت تمام تارکین وطن کی کڑی نگرانی کا فیصلہ
  • افغانستان:   4 افراد کواسٹیڈیمز میں پر سرعام سزائے موت
  • کیا پاکستانی طلبا کے لیے امریکی فنڈ سے جاری تمام ایکسچینج پروگرام ختم کردیے گئے؟
  • انٹیلی جنس ایجنسی نے پی اے ایف مسرور کراچی بیس پر حملے کی بڑی سازش ناکام بنادی
  • امریکہ نے پاکستانی نژاد شہری کو اندیا کے حوالے کر دیا