اپنے بیان میں اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے رہنماء نے کہا کہ وائس چانسلر کی عدم دلچسپی کیوجہ سے اساتذہ کرام اور ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز کی عدم ادائیگی ایک روایت بنا دی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن جامعہ بلوچستان کے صدر پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ و دیگر نے کہا ہے کہ جامعہ بلوچستان کے موجودہ وائس چانسلر کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اساتذہ کرام اور ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز کی عدم ادائیگی ایک روایت بنا دی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ یونیورسٹی ایک خودمختار ادارہ ہے، جنکی پالیسی ساز اداروں میں کئے گئے فیصلوں کو کوئی مسترد نہیں کرسکتا۔ لیکن بدقسمتی سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر سالانہ بجٹ میں اعلان شدہ اضافے کی ادائیگی اب تک اس بہانے سے نہیں کر رہے کہ اضافی تنخواہ کی یونیورسٹی کے سینٹ سے منظوری نہیں ہوئی، لیکن یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ اور سینٹ سے منظور شدہ یوٹیلٹی، اردلی اور کمپیوٹر الاؤنسز اور 5 فیصد مینٹیننس کو غیرقانونی طور پر کاٹنے میں دیر نہیں کرتے۔ انہوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے پرزور مطالبہ کیا کہ اس غیرقانونی کٹوتی کو فوری طور پر منسوخ کرکے اساتذہ کرام اور ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں اور پنشنز کی بروقت و مکمل ادائیگی کے لئے تگ و دو کریں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: یونیورسٹی کے وائس چانسلر ملازمین کی کی عدم

پڑھیں:

بلوچستان کا ایشو

بلوچستان سے ڈاکٹر عبد المالک نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف سے لاہور میں ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں میاں نواز شریف کو بلوچستان میں مفاہمت کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ابھی تو میاں نواز شریف بیرون ملک جا رہے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ وہ بیرون ملک سے واپسی پر بلوچستان میں مفاہمت کے لیے کردار ادا کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں جو لوگ بھی بلوچستان میں پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں، اس پر یقین رکھتے ہیں ان کی جدو جہد پاکستان کے آئین وقانون کے تابع ہے، ان سے پاکستان کے آئین کے دائرے میں بات ہوسکتی ہے۔ لیکن جو لوگ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، جن کی بات چیت پاکستان کے آئین سے باہر ہے ان سے کیسے بات ہو سکتی ہے۔ جو مسلح ہیں، جو جنگ کر رہے ہیں ان سے کیسے بات ہو سکتی ہے۔ جو پاکستان کے جھنڈے کو نہیں مانتے ان سے کیسے بات ہو سکتی ہے۔ جنھوں نے اپنے لیے کوئی اور الگ جھنڈا بنا لیا ہوا ہے ان سے کیسے بات ہوسکتی ہے۔

اسی طرح اگر بندوق اٹھائے لوگوں نے پہلے بندوق پھینکنی ہے، ریاست کے آگے سرنڈر کرنا ہے پھر ہی کوئی بات ہو سکتی ہے۔ ایک طرف بندوق چل رہی ہے دوسری طرف بات ہو رہی ہے ۔ ایسے نہیں ہو سکتا۔ ایسا دو ملکوں کی فوجوں کے درمیان تو ہو سکتا ہے کہ جنگ بھی جاری ہے اور مذاکرات بھی جاری ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان ہو سکتا ہے، حماس اور اسرائیل کے درمیان ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک ملک کے اندر کسی مسلح گروپ کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جو ملک کو توڑنے کی بات کر رہے ہوں، جو الگ ملک کی بات کر رہے ہوں، ان سے کیسے بات ہو سکتی ہے۔ انھیں پہلے سرنڈر کرنا ہے۔ ان سے جنگ ہی ہو سکتی ہے۔

ماضی میں بلوچستان میں آئین نہ ماننے والوں اور بندوق اٹھانے والوں سے بات چیت ہوئی ہے۔ لیکن اس کے کوئی مثبت نتائج نہیں نکلے۔ ریاست پاکستان کو اس کا نقصان ہی ہوا ہے۔ ہم لوگوں کو افغانستان سے لائے اور انھیں حکمران بنایا۔ لیکن وہ پھر پہاڑوں پر چلے گئے۔ جب تک حکمرانی رہتی ہے تب تک پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں جونہی حکمرانی چلی جاتی ہے۔ آئین سے وفاداری بھی چلی جاتی ہے۔ اس لیے میری رائے میں میاں نواز شریف کے لیے ایسی کسی فرد یا ایسے گروہ سے بات کرنا ممکن نہیں ہوگا جو آئین کو نہیں مانتا یا جس نے بندوق اٹھائی ہوئی ہے۔

سردار اختر مینگل کی بات کی جائے تو انھوںنے پاکستان کے آئین سے وفاداری کا حلف ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ اٹھایا ہے۔ جب جب وہ پارلیمان کے ممبر بنے ہیں انھوں نے پاکستان کے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے۔ حلف کوئی وقتی نہیں ہوتا کہ جب تک آپ ممبر ہیں آپ آئین کے وفادار ہیں، پاکستان کے وفادار ہیں۔ ایک دفعہ وفاداری کا حلف اٹھا لیا تو اٹھا لیا۔ وہ ساری عمر قائم رہتا ہے۔ اس لیے میری رائے میں سردار اختر مینگل نے پاکستان کے آئین سے غیر مشروط وفاداری کا حلف متعدد دفعہ اٹھایا ہے۔

اس لیے وہ آئین کے تابع ہیں۔ ان کی جد و جہد بھی آئین کے تابع ہونی چاہیے۔ جہاں تک ان کے لانگ مارچ کا تعلق ہے وہ قانون کے تابع ہے۔ لیکن ان کے مطالبات قانون کے تابع نہیں ہیں۔ وہ ان لوگوں کی رہائی مانگ رہے ہیں جو پاکستان کے آئین کونہیں مانتے۔ وہ ان کی رہائی مانگ رہے ہیں جو پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ دہشت گرد یا ان کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کی رہائی کیسے کوئی آئینی مطالبہ ہو سکتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں میاں نواز شریف کو اگر ممکن ہو تو بلوچستان میں مفاہمت کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ لیکن ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی شرط رکھنی چاہیے کہ وہ جس سے ملاقات کریں گے وہ پہلے بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل کی مذمت کرے گا۔ جب تک کوئی پنجابیوں کے قتل کی مذمت نہ کرے اس سے بات نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بلوچ رہنما پنجابی سیاستدانوں سے ملتے ہیں۔اپنے مفادات کے لیے ان سے سیاسی تعاون بھی حا صل کرتے ہیں۔ ان سے شراکت اقتدار بھی کرتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب پنجابیوں کے قتل کی نہ تو مذمت کرتے ہیں بلکہ چونکہ ‘چنانچہ‘ اگر اور مگر کے انداز میں بات کر کے مٹی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیںاور اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔اس طرز سیاست کی حوصلہ شکنی اور روک تھام ہونی چاہیے۔

بلوچ رہنماء جب بھی پنجاب آئیں ان کو بلوچستان کی سرزمین پر پنجابیوں کے قتل پر معذرت کرنی چاہیے۔ پنجابی مزدور جنھیں بلوچستان میں قتل کیا جاتا ہے، ان کے گھروں میں جا کر ان کے گھر والوں سے تعزیت بھی کرنی چاہیے۔ جب تک کوئی بلوچ رہنما یہ نہ کرے اس سے بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ پنجابیوں کے قتل کو جائز قرار دینے والوں سے کیسے بات ہو سکتی ہے۔

آپ دیکھیں پنجاب کے تعلیمی اداروں میں آج بھی بلوچ طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ یہاں اپنی سیاسی سرگرمیاں بھی کرتے ہیں، ریلیاں بھی نکالتے ہیں، سیمینار بھی کرتے ہیں۔ عام پنجابی نے کبھی انھیں نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے۔

کسی نے پنجاب میں بلوچوں کا داخلہ بند کرنے کی بات نہیں کی۔ پنجاب حکومت بلوچ طلبہ کو پنجاب کے بجٹ سے اسکالر شپ دیتی ہے۔ وہ پنجاب میں آج بھی محفوظ ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پنجاب کے طلبہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں کیوں نہیں پڑھ سکتے۔ وہ وہاں کیوں محفوظ نہیں ہیں۔ کیا بلوچ رہنما اس پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سوال تواس پر بھی ہونا چاہیے کہ کس قانون کے تحت پنجابی اساتذہ کو بلوچستان سے نکال دیا گیا تھا۔ کیا بلوچ اساتذہ پنجاب میں نہیں پڑھا رہے۔ بلوچ رہنماؤں کو اس تضاد کو ختم کرنا ہوگا۔

بلوچستان کی محرومیوں کی بہت بات کی جاتی ہے۔ لیکن ان محرومیوں کا ذمے دار کون ہے۔ کتنے سردار بلوچستان کے حکمران رہے ہیں۔ وہ کیوں نہیں ذمے دار؟ آپ حکمران ہیں تو کوئی محرومی نہیں۔ آپ کرسی سے اترتے ہیں اور محرومی کا گانا گانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کیا سیاست ہے؟ یہ پاکستان سے وفاداری ذاتی حکمرانی سے کیوں مشروط ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی سیاسی حمائت بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ ہمیں واضع کرنا چاہیے علیحدگی پسندوں کی سیاسی حمائت بھی پاکستان دشمنی ہے۔ یہ کوئی سیاست نہیں۔

متعلقہ مضامین

  •  ایس یو سی کے مرکزی رہنما علامہ شبیر حسن میثمی کا دورہ ملتان، جامعہ مصباح العلوم کے سالانہ جلسے میں شرکت 
  • مشال خان کی 8 ویں برسی: ‘یونیورسٹی میں سب کے سروں پر خون سوار تھا’
  • رانا تنویرحسین سے چائنہ ڈونکی انڈسٹری کے وائس پریذیڈنٹ زاہو فی کی ملاقات
  •  پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین اب ٹیکس میں ہیر پھیر نہیں کرسکیں گے، بل منظور
  • پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین اب ٹیکس میں ہیر پھیر نہیں کرسکیں گے، بل منظور
  • وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی رانا تنویرحسین سے چائنہ ڈونکی انڈسٹری کے وائس پریذیڈنٹ زاہو فی کی ملاقات
  • پاکستان کے علماء کرام نے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کیلئے جہاد کا اعلان کردیا، شاداب نقشبندی
  • چیف جسٹسز نے ملازمین کو ایک کروڑ تک انکریمنٹ دیا؛ اختیارات کیس میں وکیل کے دلائل
  • اوقاف کی زمینوں پر قبضے ختم کرا کے صحت و تعلیم کے ادارے بنائیں گے: چودھری شافع 
  • بلوچستان کا ایشو