Islam Times:
2025-02-07@18:13:29 GMT

دینی اخلاق اور سیکولر اخلاق میں فرق

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

‍‍‍‍‍‍

دین و دنیا پروگرام اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ پر ہر جمعہ نشر کیا جاتا ہے، اس پروگرام میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات کو خصوصاً امام و رہبر کی نگاہ سے، مختلف ماہرین کے ساتھ گفتگو کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ناظرین کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کا انتظار رہتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںپروگرام دین و دنیا
مہمان: حجہ الاسلام والمسلمین سید ضیغم ہمدانی
میزبان: حجت السلام محمد سبطین علوی
عنوان: اسلامی اور سیکولر اخلاق میں فرق
 تاریخ: 7 فروری 2025

موضوعات گفتگو:
اخلاق اسلامی اور سیکولر اخلاق میں فرق
دعائے مکارم الاخلاق کی اہمیت و فضیلت
دعائے مکارم اخلاق میں اخلاقی فضائل
ناپسندیدہ اخلاق امام سجاد کی نگاہ میں
 
خلاصہ گفتگو
اسلامی اور سیکولر اخلاق میں فرق
اسلامی اخلاق کی بنیاد وحیِ الٰہی اور رضائے خداوندی پر ہے، جبکہ سیکولر اخلاق کا تعلق انسانی عقل اور معاشرتی روایات سے ہے۔ اسلامی اخلاق میں اعمال کی نیت اور نیکی کی نیت کو اہمیت دی جاتی ہے، جبکہ سیکولر اخلاق زیادہ تر ظاہری نتائج پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ اسلامی اخلاق انسان کو روحانی کمال کی طرف لے جاتا ہے، جبکہ سیکولر اخلاق دنیاوی نظم و ضبط پر زور دیتا ہے۔
 
اخلاقی فضائل
دعائے مکارم الاخلاق میں امام سجادؑ نے کئی بلند صفات کی دعا کی ہے، جن میں ایمانِ کامل، نیتِ خالص اور عملِ صالح نمایاں ہیں۔ ایمان انسان کی زندگی کو روشنی دیتا ہے، نیتِ خالص اعمال کو پاکیزگی بخشتی ہے اور عملِ صالح انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی عطا کرتا ہے۔
 
اخلاقی رذائل
امام سجادؑ دعائے مکارم الاخلاق میں عُجب (خودپسندی) اور تکبر سے پناہ مانگتے ہیں۔ عجب انسان کو خودپسندی میں مبتلا کرتا ہے اور تکبر دوسروں کو حقیر سمجھنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ دونوں صفات انسان کی روحانی ترقی کو روکتی ہیں اور معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔
 
ان صفات کی اصلاح اور دعائے مکارم الاخلاق کی تعلیمات پر عمل معاشرے کو بہتر بنا سکتا ہے۔
 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دعائے مکارم الاخلاق

پڑھیں:

اللہ رب العالمین کے ساتھ عہد بنی آدم

تمام نوع انسان کا ایک نہایت اہم اور گہرا روحانی نکتہ اور معاہدہ ہے۔ جو انسان کی حقیقت کو سمجھنے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں کیا گیا ہے۔
ترجمہ:اور جب تیرے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا اور ان کو خود ان کے اوپر گواہ بنایا(اور فرمایا)کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا: بلا شک ! ہم گواہی دیتے ہیں۔(سورۃ العراف 7:172)
یہ عہد آدم علیہ السلام کی بدنی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل اللہ تعالیٰ نے تمام انسان ارواح سے لیا۔ جو اولاد آدم ے طور پر دنیا میں آئیں گے۔
یہ واقعہ ’’عہدِ الست ‘‘کہلاتا ہے، جو انسان کے وجود کے ماورائی پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔ اس عہد میں ہر انسانی روح نے اللہ تعالیٰ کی توحید ربوبیت پر بیک آواز شہادت اور گواہ دی جس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں آنے کے بعد انسان اپنے رب کو پہچانے اور اسی کی اطاعت اور بندگی کرے۔ اسی لئے ہر بچہ اس فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن دنیا میں آنے کے بعد کچھ انسان اپنے عہد کو بھول جاتے ہیں۔ تاہم یہ انسان کی فطری معرفت کے باعث لاشعور میں موجود رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کہتا ہے:یہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا۔(الروم 30:30)
یہ فطرت انسان کے دل میں اللہ کی وحدانیت کی ایک روشنی کی طرح جلتی رہتی ہے، جو اسے حق کی جستجو کی طرف کھینچتی رہتی ہے۔
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ ہم سب نے الست بربکم میں ہاں کہی تھی، لیکن جب جسمانی شکل میں مادی دنیا میں آئے تو عہد الست کو بھول گئے۔
شیخ رومی کے نزدیک انسان کی دنیاوی زندگی ایک یاد دہانی ہے تاکہ وہ اپنی اصل حقیقت اور اس عہد کو دوبارہ پہچان سکے۔
شیخ اکبر ابن عربی کے مطابق، یہ عہد ایک الہامی شعور (Divine Consciousness) کی نمائندگی کرتا ہے۔ انسان کی روح درحقیقت اللہ کے نور سے جڑی ہوئی ہے، اور دنیاوی پردے اسے اس حقیقت سے غافل کر دیتے ہیں۔
حدیثِ نبوی ﷺ کے مطابق رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
(صحیح البخاری)
یہ حدیث اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ معرفتِ الٰہی کا بیج ہر انسان کے دل اور روح میں موجود رہتا ہے۔
عہدِ الست انسان کی حقیقت کی بنیاد ہے۔ یہ یاد دہانی ہے کہ ہم سب نے اپنے رب کے سامنے اس کی ربوبیت کا اقرار کیا ہے۔ دنیاوی زندگی کا مقصد اسی عہد کو یاد رکھنا اور اپنی روح کو اس روشنی کی طرف واپس لانا ہے جس کی گواہی ہم نے دی تھی۔کیونکہ یہ انسان کی تخلیق کے ماقبل حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ عبادت ذکر و تسبیح کا مقصد اس عہد کا شعور بیدار رکھنا اور اللہ کی بندگی پر قائم رہنا تاکہ عہد الست ، شیطان ہمیں بھلا نہ دے۔ تخلیق آدم اور اسے تمام مخلوقات پر شرف دینے کے لئے جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق پر سجدہ تکریم آدم کا حکم دیا تو شیطان کے سوا سب نے تعمیل حکم ربانی میں حضر آدم کو سجدہ تکریم کیا۔ اس حکم الٰہی کی نافرمانی پر شیطان راند درگاہ ہوا۔ اور انسان کا ازلی دشمن بن گیا اور اس نے کہا اے اللہ میں ان سب کو گمراہ کروں گا سواے بندگان مخلصین کے۔ آئیے ہم مخلص مومن بن کر شیطان کی گمراہ کن چالوں سے بچ جائیں۔
دعا ہے کہ اللہ ہمیں مخلص مومن بننے کی توفیق دے اور شیطان کے بہکاوے سے اپنی رحمت خاص سے بچا لے امین۔

متعلقہ مضامین

  • چیمپئنز ٹرافی کے لیے بہترین ٹیم کا انتخاب کیا ، اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو ترجیح دینی چاہیے، کپتان رضوان
  • اللہ رب العالمین کے ساتھ عہد بنی آدم
  • مکارم اخلاق کی بنیادیں
  • کراچی: جماعت اسلامی کے سینئر رہنما اسد اللہ بھٹو سینئر صحافی خواجہ جاوید احمد سے اہلیہ کی وفات پر تعزیت کے بعد دعائے مغفرت کر رہے ہیں
  • مجلس وحدت مسلمین سندھ کے تحت اجتماعی دعائے توسل و محفل میلاد انوار شعبان کا انعقاد
  • ضیا عباس اخلاق کے باعث ہمارے دلوں میں رہیں گے:محمد توفیق
  • ہم انسان ہی نہیں ہیں
  • تبصرہ ، تنقید، شکوہ اور شکائت
  • فرانسیسی سفیر سے ملاقات، اسلام کی اشاعت میں دینی مدارس کا کردار اہم: چودھری سالک