UrduPoint:
2025-04-15@15:34:36 GMT

ترکی نے انقرہ میں افغان سفارتکاروں کا مشن ختم کر دیا

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

ترکی نے انقرہ میں افغان سفارتکاروں کا مشن ختم کر دیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 فروری 2025ء) جمعہ سات فروری کو انقرہ سے موصولہ خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق ترکی نے افغان سفارت کاروں کے مشن کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس مشن میں افغانستان کی سابق مغرب نواز حکومت کی طرف سے مقرر کیے گئے سفارتکار شامل تھے۔ ترکی سے روانہ ہونے والی ٹیم نے ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ اس نے سفارتخانے کو جمعرات کو ترک وزارت خارجہ کے حوالے کر دیا۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی کا یہ فیصلہ کابل میں طالبان حکومت کی طرف سے ترک حکام اور افغان مشن میں شامل سفارت کاروں پر دباؤ کے تحت کیا گیا۔

ترکی میں دو ہفتوں میں نو ٹن میتھ ایمفیٹامین ضبط کر لی گئی

تاہم انقرہ میں حکام کی جانب سے فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

(جاری ہے)

یہ طالبان کی ایک اور سفارتی کامیابی ہے، جو بیرون ملک سفارت خانوں اور قونصل خانوں کا کنٹرول حاصل کر رہے ہیں اور ترکی کے اس فیصلے کے بعد ایسے سفارتی مشنوں کی تعداد اب 40 سے زیادہ ہو گئی ہے۔

سفارت خانہ چھوڑنے والی ٹیم کے بیان میں مزید کہا گیا، ''ترکی نے یہ فیصلہ کابل میں اپنے سفارت خانے اور مزار شریف اور ہرات میں قونصل خانے کھلے رکھنے کے لیے بھی کیا ہے۔‘‘

ترکی کے پہاڑوں پر آباد افغان واپس وطن جانے کے منتظر

اُدھر کابل میں، طالبان کی زیرقیادت وزارت خارجہ نے کہا، ''ملکوں کے سفارتی مشنز کے سفارتی عملے کی تبدیلی معمول کی بات ہے۔

‘‘

افغانستان کی وزارت خارجہ کے ایک سینئر اہلکار ذاکر جلالی نے ایک بیان میں کہا، ''ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں افغانستان کا سفارت خانہ اپنی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رکھے ہوئے ہے اور شہریوں اور دیگر کلائنٹس کی خدمات کے لیے حاضر ہے۔‘‘

افغان طالبان

گزشتہ جولائی میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ اب سابق، مغربی حمایت یافتہ حکومت کی طرف سے قائم کردہ سفارتی مشن کو تسلیم نہیں کرتے۔

افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر سخت پابندیوں کے سبب مغربی طاقتوں اور طالبان کے مابین تناؤ کے باوجود افغان حکام نے بڑی علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں۔ خاص طور سے چینی حکومت، روس، اور امیر خلیجی ممالک کے ساتھ ۔

ک م/ا ب ا (اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

اسرائیل اور ترکی کے درمیان لفظی جنگ حقیقی جنگ بن سکتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) ایک سینئر اسرائیلی حکومتی اہلکار نے خبردار کیا کہ ترکی شام میں ایک ''نو عثمانی ریاست‘‘ کے قیام کی کوشش کر رہا ہے اور اگر اس نے ''سرخ لکیر‘‘ کو عبور کیا تو اسرائیل کارروائی کرے گا۔

اس کے جواب میں ترک حکومتی اہلکاروں نے کہا ہے کہ غزہ، لبنان اور شام پر جاری اپنے فضائی حملوں کے ساتھ، اسرائیل کی ''بنیاد اور نسل پرست حکومت‘‘ جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے ساتھ ''ہمارے خطے کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘‘ بن گئی ہے۔

عالمی برادری اسرائیلی حکومت کی غیر قانونی سرگرمیوں کے خاتمے کو یقینی بنائے، انقرہ

یہ تازہ ترین غیر سفارتی تبصرے گزشتہ ہفتے کے آخر میں اسرائیل کیشامپر دوبارہ بمباری کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔

(جاری ہے)

دسمبر 2024 ء میں شام کے آمر صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد، اسرائیل نے شام میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ شام کے نئے حکام، جو 14 سال کی تفرقہ انگیز خانہ جنگی کے بعد ملکی عوام کو متحد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، کہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں چاہتے۔

اس کے باوجود اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے شام میں بمباری پر مجبور کیا گیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئی حکومت اس کے خلاف پرانی حکومت کے ہتھیاروں کا استعمال نہ کرے۔

شامی مہاجرین ترکی میں ’سیاسی فٹ بال‘ کیسے بنے؟

ایک اسرائیلی اہلکار نے مقامی میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ شام پر گزشتہ ہفتے کے فضائی حملے مختلف تھے۔

ان کا مقصد ترکی کو ایک پیغام دینا تھا۔

حملے کے اہداف کیا تھے؟

اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے حما میں ایک فوجی ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ حمص میں طیاس، حمص کے ایئربیس ٹی 4 اور دمشق میں سائنسی مطالعات اور تحقیقی مراکز کی برانچوں کو نشانہ بنایا۔

ترکی کی حکمت عملی کیا ہے؟

ترکی کئی مہینوں سے خاموشی سے شام کی نئی حکومت کے ساتھ دفاعی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے۔

اس میں شامی فوجیوں کو تربیت دینا اور ان شامی ہوائی اڈوں کا استعمال کرنا شامل ہے، جن پر اسرائیل نے حملہ کیا۔ ترکی کا استدلال یہ ہے کہ ایران اور روس، جو کہ شام کی معزول حکومت کے سابق فوجی حامی رہے ہیں، نے شام میں جو خلا چھوڑ دیا ہے، وہ اسے پُر کرتے ہوئے شام میں استحکام لانے اور شدت پسند ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ گروپ کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔

ترکی، عراق، شام اور اردن کا داعش کے خلاف مشترکہ کارروائی کا فیصلہ

اسرائیل اسے کیسے دیکھ رہا ہے؟

اسرائیل کے دفاعی نامہ نگار رون بین یشائی نے مقامی آؤٹ لیٹ، Ynet نیوز کے لیے لکھا، ''مرکزی شام کے ہوائی اڈوں پر فضائی دفاعی نظام اور ریڈار متعارف کرانے کا ترکی کا ارادہ شام میں اسرائیل کی آزادی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔

ترکی کی شام میں موجودگی کی وجہ سے اسرائیل آزادانہ طور پر ایران کی طرف بڑھنے کے لیے شام کی فضائی حدود استعمال نہیں کر سکتا۔‘‘ اسد حکومت کے دور میں شام کی فضائی حدود کے استعمال پر زیادہ پابندیاں عائد تھیں۔

دریں اثناء اسرائیلی میڈیا نے سکیورٹی بجٹ اور فورس کی تعمیر کا جائزہ لینے سے متعلق 'ناگل کمیشن‘ کی رپورٹ کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔

یہ کمیشن اگست 2024 ء میں قائم مقام اسرائیلی سکیورٹی مشیر جیکب ناگل کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا، تاکہ اسرائیل کے مستقبل کے دفاعی بجٹ کے لیے سفارشات پیش کی جاسکیں۔ جنوری میں جب کمیشن کی رپورٹ جاری کی گئی تو اسرائیلی ذرائع نے کہا کہ اس نے ترکی کے ساتھ آنے والی جنگ سے انتباہ کیا ہے۔

یورپی یونین کا ’ایئر برج‘ کے ذریعے شام کو امداد کی فراہمی کا اعلان

تاہم اسرائیل اور ترکی کے درمیان براہ راست تصادم کا امکان نہیں ہے۔

کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت اس ہفتے شروع ہوئی ہے کیونکہ اگر اسرائیل نے غلطی سے بھی ترک فوج کو نشانہ بنایا تو اس سے سنگین تنازعہ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

اس بات کا امکان بھی نہیں ہے کہ اسرائیل کا اتحادی اور دیرینہ دوست امریکہ ترکی کے ساتھ تصادم کی منظوری دے گا۔

ادارت عاطف بلوچ

متعلقہ مضامین

  • افغان حکومت کی بے حسی، واپس بھیجے گئے مہاجرین افغانستان رُل گئے
  • اب تک کتنے افغان پناہ گزین اپنے وطن واپس جا چکے؟
  • جعفر ایکسپریس حملے میں افغانستان کو دیا گیا امریکی اسلحہ استعمال ہوا، امریکی اخبار نے تصدیق کردی
  • افغانستان؛ مسجد کے قریب بم دھماکے میں خاتون جاں بحق اور 3 افراد زخمی
  • وفاقی محتسب کا سفارتی برادری کو ٹیکس شکایات کے ازالے کے طریقہ کار پر بااختیار بنانے کے لیے سیمینار کا انعقاد
  • سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
  • افغان حکومت اپنی سرزمین سے آپریٹ ہونے والی دہشتگرد تنظیموں کو لگام ڈالے، وزیراعظم شہباز شریف
  • اسرائیل اور ترکی کے درمیان لفظی جنگ حقیقی جنگ بن سکتی ہے؟
  • طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
  • ایران میں 8 پاکستانی کار مکینکس قتل