ترکی نے انقرہ میں افغان سفارتکاروں کا مشن ختم کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 فروری 2025ء) جمعہ سات فروری کو انقرہ سے موصولہ خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق ترکی نے افغان سفارت کاروں کے مشن کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس مشن میں افغانستان کی سابق مغرب نواز حکومت کی طرف سے مقرر کیے گئے سفارتکار شامل تھے۔ ترکی سے روانہ ہونے والی ٹیم نے ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ اس نے سفارتخانے کو جمعرات کو ترک وزارت خارجہ کے حوالے کر دیا۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی کا یہ فیصلہ کابل میں طالبان حکومت کی طرف سے ترک حکام اور افغان مشن میں شامل سفارت کاروں پر دباؤ کے تحت کیا گیا۔ترکی میں دو ہفتوں میں نو ٹن میتھ ایمفیٹامین ضبط کر لی گئی
تاہم انقرہ میں حکام کی جانب سے فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
(جاری ہے)
یہ طالبان کی ایک اور سفارتی کامیابی ہے، جو بیرون ملک سفارت خانوں اور قونصل خانوں کا کنٹرول حاصل کر رہے ہیں اور ترکی کے اس فیصلے کے بعد ایسے سفارتی مشنوں کی تعداد اب 40 سے زیادہ ہو گئی ہے۔
سفارت خانہ چھوڑنے والی ٹیم کے بیان میں مزید کہا گیا، ''ترکی نے یہ فیصلہ کابل میں اپنے سفارت خانے اور مزار شریف اور ہرات میں قونصل خانے کھلے رکھنے کے لیے بھی کیا ہے۔‘‘
ترکی کے پہاڑوں پر آباد افغان واپس وطن جانے کے منتظر
اُدھر کابل میں، طالبان کی زیرقیادت وزارت خارجہ نے کہا، ''ملکوں کے سفارتی مشنز کے سفارتی عملے کی تبدیلی معمول کی بات ہے۔
‘‘افغانستان کی وزارت خارجہ کے ایک سینئر اہلکار ذاکر جلالی نے ایک بیان میں کہا، ''ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں افغانستان کا سفارت خانہ اپنی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رکھے ہوئے ہے اور شہریوں اور دیگر کلائنٹس کی خدمات کے لیے حاضر ہے۔‘‘
افغان طالبان
گزشتہ جولائی میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ اب سابق، مغربی حمایت یافتہ حکومت کی طرف سے قائم کردہ سفارتی مشن کو تسلیم نہیں کرتے۔
افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر سخت پابندیوں کے سبب مغربی طاقتوں اور طالبان کے مابین تناؤ کے باوجود افغان حکام نے بڑی علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں۔ خاص طور سے چینی حکومت، روس، اور امیر خلیجی ممالک کے ساتھ ۔
ک م/ا ب ا (اے پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
طالبان حکومت نے افغانستان میں خانہ جنگی کے امکان کو مسترد کر دیا
افغانستان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ دشمنوں کی جانب سے تحریک کے رہنماؤں اور عوام کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی کوششوں کے باوجود افغانستان کے طالبان حکمران متحد رہیں گے۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی خبر کے مطابق کچھ تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ غیر ملکی افواج کے خلاف 20 سالہ جنگ لڑنے اور 2021 میں افغانستان پر قبضہ کرنے والے طالبان میں تقسیم، عدم استحکام کی طرف بڑھ سکتی ہے، کیوں کہ وہ کنٹرول بحال کرنا چاہتے ہیں۔
جنوبی شہر قندھارسے تعلق رکھنے والے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ’ایکس‘ پر کہا کہ دشمنوں نے امارت اسلامیہ افغانستان (آئی ای اے) میں تقسیم کے بیج بونے کا خواب دیکھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسے محض ایک وہم سمجھیں، امارات اسلامی افغانستان ایک متحدہ محاذ ہے، اور یہ نظام اتحاد کا نتیجہ ہے، اتحاد کے بغیر، کچھ بھی موجود نہیں ہوگا۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ ماہ ایک طالبان رہنما نے لڑکیوں کو رسمی تعلیم سے محروم رکھنے کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی، جب کہ رواں ہفتے طالبان گارڈز نے دارالحکومت کابل میں اقوام متحدہ کے مرکزی کمپاؤنڈ کے باہر فائرنگ کر کے ان میں سے ایک کو ہلاک کر دیا تھا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ بعض اوقات اختلاف رائے کے باوجود طالبان رہنماؤں کے درمیان کوئی تنازع نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بحثیں کبھی کبھی عوامی ہو جاتی ہیں، لیکن اسے کبھی بھی تقسیم کے طور پر غلط نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
آخر کار، وہ ایک فیصلے کے تحت متحد ہوجاتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں، یا تنازعات اور جنگ میں مشغول ہوجائیں۔
اس سے قبل سفارتی اور طالبان ذرائع نے کہا تھا کہ افغان انتظامیہ کے رہنماؤں کے درمیان ہائی اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو طالبات کے لیے بند کرنے کے فیصلے پر کئی سال سے اختلاف ہے۔