مانسہرہ : حکومت اور اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج، شہری گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
فوٹو: فائل
خیبر پختونخوا کے شہر مانسہرہ میں پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت شہری کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت شہری کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس کے بعد ملزم کو گرفتار کرلیا گیا، مقدمہ پولیس کی مدعیت میں درج کیا گیا۔
ترمیمی بل کے مطابق نئی شق 1 اے کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی،
مقدمے کے متن میں کہا گیا کہ ملزم شبیر خان نے یوم یکجہتی کشمیر پر حکومت اور اداروں کے خلاف تقریر کی تھی، ملزم نے لاؤڈ اسپیکر کےذریعے اپنی تقریر میں لوگوں کو اکسایا، ملزم نے حکومت، ریاستی اداروں اور اہل کاروں کے خلاف تقاریر کیں اور بدنام کیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کو انسداد دہشت گردی عدالت ایبٹ آباد میں پیش کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
صحافتی تنظیم نے پیکا ترمیمی ایکٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چینلج کردیا
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے عمران شفیق ایڈووکیٹ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پیکا ترمیمی ایکٹ غیر آئینی و غیر قانونی ہے اور آزادی صحافت پر حملہ ہے۔ عدالت میں دائر درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ پیکا (پی ای سی اے) قانون آزادیِ اظہار پر قدغن، حکومتی کنٹرول میں اضافہ ہے۔ عدالت سے استدعا ہے کہ آزادی صحافت کے خلاف قانون پی ای سی اے 2025 معطل کیا جائے۔ درخواست گزار
نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے۔ پیکا ترمیمی قانون حکومتی سنسرشپ کو غیر محدود اختیارات دیتا ہے۔ بغیر قانونی عمل کے جعلی خبروں کو جرم قرار دینا غیرآئینی اور آزادی صحافت پر قدغن ہے۔ پیکا ترمیمی ایکٹ عالمی انسانی حقوق اور پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ پیکا کے تحت ریگولیٹری اتھارٹی کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔ پیکا ایکٹ کیخلاف دائر درخواست گزار کے وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون آزادی صحافت پر قدغن ہے۔ حکومت آزادی اظہار رائے کو کچلنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیک انفارمیشن کو طے کرنے کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں ہے۔ پولیس جب چاہے قابل دست اندازی جرم کے تحت پکڑ سکتی ہے۔ مجھے اپنا دفاع کرنے کے لیے عدالتوں میں 3، 4 سال لگ جائیں گے۔
صحافتی تنظیم