ناقص تعلیمی نتائج کے بعد گلگت بلتستان حکومت نے وفاق سے تعاون طلب کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
چیف سیکریٹری گلگت بلتستان نے حالیہ غیر تسلی بخش تعلیمی نتائج کے حوالے سے ایکشن لیتے ہوئے وفاق سے ماہرین پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم طلب کی ہے، یہ ٹیم طلبا کے خراب رزلٹ کی وجوہات کا جائزہ لے گی اور بہتری کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔
یہ ٹیم تجربہ کار اساتذہ، نصاب کے ماہرین اور تشخیصی ماہرین پر مشتمل ہوگی جو پرائمری اور ایلیمنٹری تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے کام کرے گی، ماہرین نصاب، ابتدائی تعلیم، تشخیصی نظام اور اساتذہ کی تربیت کا تفصیلی تجزیہ کریں گے تاکہ تدریسی معیار بلند ہو، اساتذہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ ہو اور امتحانی عمل کو جدید بنایا جا سکے، نامزد ٹیم اپنی تحقیق اور سفارشات چیف سیکریٹری کو پیش کرے گی، جس کے بعد تعلیمی اصلاحات پر غور کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی تعلیمی بورڈ کے میٹرک نتائج: ٹاپ پوزیشنز لڑکیاں لے اڑیں
سال 2024-25 میں ایلیمنٹری بورڈ کے امتحانات میں طلبا کی ناقص کارکردگی پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے، بعض اسکولوں میں صرف ایک یا دو طلبا پاس ہوئے، جس سے تعلیمی معیار پر کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ چلاس میں طلبا نے فیل ہونے پر سڑکوں پر احتجاج کیا اور امتحانات دوبارہ لینے کا مطالبہ کیا۔
والدین کا کہنا ہے کہ اساتذہ اسکول میں پڑھانے کے بجائے غیر نصابی سرگرمیوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
خراب رزلٹ کے پیچھے کئی عوام کارفرماوی نیوز سے گفتگو میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک استاد نے کہا کہ گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں کوئی ایک مسئلہ نہیں جس کی بنا پر یہ رزلٹ خراب آیا ہے بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلی بات اسکولوں میں وقت پر کتابیں مہیا نہیں کی جاتی ہے، نہ ہی سلیبس بروقت ملتا ہے، بہت کم اسکولوں میں ہر مضمون کا الگ ٹیچر موجود ہے تمام اسکولوں میں متعلقہ سیبجیکٹ کا ٹیچر ہی نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان: جماعت پنجم اور ہشتم کے نتائج میں طالبات نے میدان مار لیا
سابق چیف سکریٹری کے دور میں اسکولوں میں کمپیوٹر تو مہیا کیے گئے مگر اسکولوں میں پڑھانے کیلیے ٹیچر نہیں، سارے بچے کمپیوٹر میں فیل ہوگئے۔
اسی طرح اس بار پیپرز بھی ایسے دیے گئے جو سلیبس میں شامل نہیں تھا نہ بچوں کو پڑھایا گیا تھا، تو بچے کیسے پاس ہوتے، ٹیچر کو ہی اگر علم نہیں تو بچے کہاں سے یاد کرکے آتے۔
گورنمنٹ اسکولوں میں آنے والے بچوں کے والدین سال میں ایک بار بھی نہیں آتے، بچے پڑھیں نہ پڑھیں، ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے، صرف ٹیچر کی غلطی نہیں بلکہ والدین کی بھی غلطی ہے کہ وہ بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں نہ کہ صرف زکواة و بینظیر کے پیسوں اور کھانے کے لیے۔
’اساتذہ سفارش کی بنیاد پر گلگت منتقل ہوجاتے ہیں‘ایک اور ٹیچر نے وی نیوز کو مزید بتایا کہ دور دراز علاقوں میں تعینات اساتذہ سفارش کی بنیاد پر گلگت منتقل ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے اسکولوں میں تدریسی عمل متاثر ہو رہا ہے، کئی غیر تربیت یافتہ اساتذہ کو ایسی جگہوں پر تعینات کیا گیا ہے جہاں انہیں تدریسی تجربہ نہیں، خاص طور پر پرائمری اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی ہے۔
’امتحانی طریقہ کار میں تبدیلی پر طلبا کو آگہی نہیں دی گئی‘اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس سال امتحانی طریقہ کار میں تبدیلی کی گئی، لیکن طلبا کو اس حوالے سے کوئی رہنمائی نہیں دی گئی۔ پرچے میں ایم سی کیوز شامل کیے گئے، لیکن طلبا کو اس کا علم نہیں تھا، جس کی وجہ سے وہ ناکام ہوئے، امتحان کے دوران بھی بعض نگران اساتذہ نے بچوں کو سوالات سمجھانے کی زحمت نہیں کی، جس سے مزید مشکلات پیش آئیں۔
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی بورڈ نے میٹرک کے نتائج کا اعلان کردیا، طالبات پھر بازی لے گئیں
اساتذہ نے کہا کہ اگر تعلیمی نظام میں بہتری لانی ہے تو اساتذہ کی تعیناتی کے عمل کو شفاف بنایا جائے اور انہیں اسی علاقے میں کام کرنے کا پابند کیا جائے جہاں کے لیے انہیں بھرتی کیا گیا ہے۔ اگر سختی سے قوانین پر عمل کیا جائے تو اساتذہ اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے ادا کر سکیں گے، جس سے تعلیمی معیار میں بہتری آئے گی،سفارشی بنیادوں پر اساتذہ کو تعینات کیا جاتا ہے جو گھروں میں بیٹھے ہیں اور تنخواہ لے رہے ہیں۔
اساتذہ کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم میں اصطلاحات کرنے کی ضرورت ہے کہ میرٹ پر ٹیچر تعینات کریں سفارشی بھرتیاں اور ٹرانسفر کے نظام نے تعلیمی سسٹم کو مکمل تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
’متعلقہ افسران اور ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان حکومت نے تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے بڑے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ صوبائی وزارت تعلیم نے ’ایجوکیشن فیلوز‘ کے نام سے ایک نیا منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے تحت ترقیاتی اسکیموں سے بجٹ منتقل کرکے 2 ارب روپے تعلیم کے فروغ کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
اس فنڈ سے اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے، آئی ٹی لیبز کے قیام اور جدید تعلیمی نظام کے نفاذ پر کام کیا گیا ہے، اگر ان تمام اقدامات کے باوجود تعلیمی نتائج تسلی بخش نہیں ہوتے ہیں تو متعلقہ افسران اور ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب بورڈ: پاس ہونے کے لیے 33 کے بجائے 40 نمبر، نتائج پر کیا اثر پڑے گا؟
وزیر تعلیم نے واضح کیا کہ تعلیمی شعبے میں سستی اور نااہلی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے گی جو ناقص کارکردگی کے ذمہ دار افراد کا تعین کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ انتظامی امور میں تعینات غیر فعال اساتذہ کو بھی ان کے عہدوں سے ہٹایا جا رہا ہے،حکومت نے گلگت بلتستان کے بچوں کو تعلیمی سہولیات ان کی دہلیز تک پہنچانے کے عزم کیا ہے اور بہانے بازی اور نااہلی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، اور تعلیمی بہتری کے اقدامات ہر صورت پایہ تکمیل تک پہنچائے جائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اساتذہ تعلیمی نتائج ٹیم طلب چیف سیکریٹری گلگت بلتستان گلگت بلتستان وفاق.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اساتذہ تعلیمی نتائج ٹیم طلب گلگت بلتستان وفاق تعلیمی نتائج گلگت بلتستان اسکولوں میں کی جائے گی اساتذہ کی بہتری کے کیا جائے نہیں کی کرے گی نے کہا کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر کی طرح گلگت بلتستان کا بھی استحصال ہو رہا ہے، شہزاد آغا
صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ جب بھی گلگت بلتستان کے عوام اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آتے ہیں تو ان کیخلاف شیڈول فور کے اوپر ایف آئی آر درج کی جاتی ہے کیا یہ استحصال نہیں ہے؟ اسلام ٹائمز۔ وزیر تعلیم گلگت بلتستان غلام شہزاد آغا نے ایلیمنٹری بورڈ کے مایوس کن نتائج پر غور کیلئے اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا۔ منگل کے روز گلگت بلتستان اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں ایک قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح ہنگامی طور پر آج کا یہ اجلاس بلایا گیا ہے کیا کبھی جی بی میں صحت، تعلیم اور لوڈشیڈنگ کے معاملے پر کبھی ہنگامی اجلاس بلایا گیا ہے۔ رزلٹ کے معاملے پر دو دن سے لعن طعن ہو رہی ہے کیا یہ ایمرجنسی نہیں ہے؟ اس پر اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلا کر غور کیا جائے، میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح مقبوضہ کشمیر میں عوام پر ظلم و بربریت ہو رہی ہے، اسی انداز میں جی بی کے عوام کا بھی استحصال ہو رہا ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ جب بھی گلگت بلتستان کے عوام اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آتے ہیں تو ان کیخلاف شیڈول فور کے اوپر ایف آئی آر درج کی جاتی ہے کیا یہ استحصال نہیں ہے؟ گلگت بلتستان کے جتنے بھی ایکٹویسٹ ہیں ان کو بے جا تنگ کیا جا رہا ہے، ان کو بے جا تنگ کرنے سے گریز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت میں ہیں لیکن ہمیں نہیں پتہ کہ یہ شیڈول فور اور ایف آئی آر کہاں سے ہوتی ہے۔ کیا گلگت بلتستان کو بلوچستان بنانا ہے۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔