لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں زیر زمین پانی کی قلت کی شکایات پر حکومت کو گھروں میں گاڑیوں دھونے پر پابندی عائد کرنے، فوری واٹراتھارٹی‘ کے قیام اور جن پیٹرول پمپس پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں ہے اسے سیل کرنے کی تجویز دی ہے۔ عدالت نے پنجاب میں کوئی منصوبہ محکمہ ماحولیات کی منظوری کے بغیر شروع نہ کرنے کا حکم بھی سنایا۔

جمہ کو لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس شاہد کریم نے ہارون فاروق اور دیگر شہریوں کی جانب سے ’اسموگ‘ سے متعلق دی گئی درخواستوں کی سماعت کی۔

عدالت میں سماعت کے دوران ممبر جوڈیشل کمیشن حنا جیلانی نے زیر زمین  پانی کی سطح کم ہونے سے متعلق رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ چیف سیکرٹری پنجاب سمیت متعلقہ اداروں سے میٹنگز ہوئیں۔

جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ پانی کو محفوظ بنانے کےلیے باقاعدہ رولز بنانے کی ضرورت ہے، اگر گھروں میں گاڑیاں دھونے کا کام ختم کرا لیں تو بہت سا پانی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ گھروں میں باقاعدہ مہم چلانی چاہیے کہ گھروں میں گاڑیاں دھونا سختی سے منع ہے۔

عدالت نے کہا کہ اس حوالے سے پورے شہر میں بینر پوسٹر لگائے جائیں کہ گھروں میں گاڑیاں دھونا منع ہے، گھروں میں گاڑیاں دھونے والوں کو 10 ہزار جرمانہ کریں ، ڈولفن کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ مکمل مانیٹرنگ کرے۔ پانی کا مسئلہ صرف لاہور میں نہیں بلکہ پورے پنجاب کا ہے۔

عدالت نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ حکومت پورے پنجاب کو فوکس کر رہی ہے جو کہ اچھی بات ہے، جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ میں نے واٹر اتھارٹی بنانے کی تجویز دی تھی اس کا کیا بنا جس پر وکیل نے کہا کہ اس حوالے سے میٹنگ بلائی جا رہی ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ واٹر اتھارٹی کے حوالے سے چیف سیکرٹری سے دوبارہ میٹنگز کی جائیں اور سمری تیار کروائی جائے۔ ہماری مسجدوں میں بھی سب سے زیادہ پانی کا ضیاع ہورہا ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے مزید کہا کہ آپ نماز پڑھنے جا رہے ہیں اور پانی ضائع کر رہے ہیں اسے روکنا بہت ضروری ہے،  مسجدوں میں واٹر ٹیب بند ہونا چاہییں۔ مسجدوں میں ایک واٹر ٹینک ہو، جس سے ڈبے کے ساتھ پانی نکال کر وضو کیا کریں۔

اس موقع پر ممبر جوڈیشل کمیشن نے کہا کہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی بہت ضروری ہیں، اس پر جسٹس شاہد کریم نے ہدایت کی کہ جس پیٹرول پمپ پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں ہے اسے سیل کردیں، پہلی وارننگ دے کر ایک لاکھ جرمانے کریں، اپنے رولز میں ترمیم کریں اور جرمانے بڑھائیں۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ ویتنام میں ٹریفک کی بری حالت تھی وہاں جرمانے بڑھائے  گے سب سے سیدھے ہوگئے۔ پی ڈی ایم اے سویا ہوا ہے محکمہ ماحولیات جاگ گیا ہے۔

اس موقع پر جسٹس شاہد کریم نے حکم دیا کہ  پنجاب میں کوئی منصوبہ محکمہ ماحولیات کی منظوری کے بغیر شروع نہیں ہوگا۔ ٹریفک والے کدھر ہیں کرکٹ میچ شروع ہونے والے ہیں، لوگ مصائب میں ہیں اور ٹریفک پولیس کیا کر رہی ہے۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر سی ٹی او لاہور ذاتی حیتث میں طلب کر لیا، لوگوں کو پتا ہونا چاہیے کہ ٹیموں کی آمد و رفت کس وقت ہے، سڑکوں پر ٹریفک کے متبادل روٹس کے بورڈ لگے ہونے چاہییں۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ 2 ، 3 ماہ سے تین ماہ پہلے سے پتا ہے کہ یہاں چیمپیئنز ٹرافی ہونی ہے لیکن یہ دفترون سے ہی باہر نہیں نکلتے۔

اس موقع پر ’واسا‘ کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے باہر بھی ٹریفک کا برا حال ہے۔ جی پی او والے گیٹ کے باہر رکشے کھڑے ہوتے ہیں اور وکلا کی گاڑیاں پھنسی رہتی ہیں۔

اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ کیا وکیل اب کتنے کمزور ہوگئے ہیں ، آپ دیکھیں آپ نے اپنی حالت کیا کرلی ہے جس کا دل کرتا ہے آپ کو اٹھا کر لے جاتا ہے، آپ چھوڑیں یہ مسئلہ میں نے حل نہیں کرنا۔ عدالت نے سموگ کیس کی سماعت 10 فروری تک ملتوی کردی۔

پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت

لاہور ہائیکورٹ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے خلاف درخواست کی سماعت کی جس میں جسٹس شاہد کریم نے وفاقی حکومت، اوگرا اور وفاقی وزارت پیٹرولیم سے جواب طلب کرلیا ہے۔

جسٹس شاہد کریم کی عدالت میں دائر درخواست میں جوڈیشل ایکٹوازم پینل کے سربراہ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دیے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ حکومت نے ابھی تک پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے کا میکنزم نہیں بنایا۔ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ترین سطح پر ہیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت نے عالمی مارکیٹ کے برعکس پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بلا جواز اضافہ کیا۔ حکومت کو عوامی مشکلات میں اضافے کا کوئی استحقاق حاصل نہیں ہے۔ پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ عدالت پیٹرولیم مصنوعات کی قمیتوں میں حالیہ اضافہ کالعدم قرار دے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسموگ حکم زیر زمین پانی سماعت لاہور ہائیکورٹ محکمہ ماحولیات منصوبہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسموگ زیر زمین پانی لاہور ہائیکورٹ محکمہ ماحولیات جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات گھروں میں گاڑیاں محکمہ ماحولیات لاہور ہائیکورٹ مصنوعات کی کی سماعت عدالت نے

پڑھیں:

منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کیلئے جج ٹرانسفر کیے گئے. منیراے ملک

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 اپریل ۔2025 )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس میں درخواست گزار ججوں کے وکیل منیر اے ملک کے دلائل مکمل نہ ہو سکے، سینئر قانون دان منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ ججوں کے تبادلے کی سمری کی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی، وزارت قانون کی ججز ٹرانسفر کے لیے سمری میں بھی تضاد ہے، سمری میں غلطیاں حکومت کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں، طے شدہ منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کیلئے جج ٹرانسفر کیے گئے.

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف کیس کی سماعت کی آئینی بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس صلاح الدین پنہور شامل تھے درخواست گزار 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک نے آج بھی دلائل جاری رکھے منیر اے ملک نے کہا کہ آرٹیکل 20 کا ذیلی سیکشن ون اکیلا نہیں ہے، سیکشن ون کا آرٹیکل 200 کے سیکشن ٹو سے لنک ہے، جج کا تبادلہ ایگزیکٹیو ایکشن ہے، سوال یہ ہے کہ ایگزیکٹو ججز تبادلے کا اختیار کیسے استعمال کرے گی.

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا تبادلے کا اختیار استعمال کرنے کے لیے ایگزیکٹو کے لیے کوئی شرط ہے؟ منیر اے ملک نے کہا کہ ایگزیکٹو کے ججز تبادلے کے اختیار کا جوڈیشل ری ویو ہو سکتا ہے، ججز تبادلے کی سمری وزارت قانون نے وزیر اعظم کو بھیجی، وزیر اعظم نے سمری پر صدر کو ایڈوائس کردی، ججز تبادلے کی سمری کی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی، آرٹیکل 9 نے وزیراعظم کو چیف ایگزیکٹیو ڈیکلیئر کیا ہے منیر اے ملک نے کہا کہ چیف ایگزیکٹو پالیسی بناتا ہے اور اس پر عملدرآمد ہوتا ہے، وزیراعظم وزیر قانون کو مجلس شوریٰ سے مشورے کے بعد تعینات کرتا ہے.

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ جس رول 60 کا آپ ذکر کر رہے ہیں اس کا تعلق ٹرانسفر سے تو نہیں ہے، منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 90 نے یہ اختیار چیف ایگزیکٹو آفیسر کو دیا ہے جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا آپ آج اپنے دلائل ختم کر لیں گے؟ منیر اے ملک نے کہا کہ آج نہیں کر سکوں گا، کوشش کروں گا کہ آئندہ سماعت پر دلائل ختم کر لوں جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے آپ آج ختم کریں گے تو پیر سے کسی اور وکیل کے دلائل شروع ہو سکیں گے بینچ کے ایک رکن نے کراچی کے لیے روانہ ہونا ہے، اس لیے ہم نے ساڑھے 9 بجے کیس رکھا ہے کل یکم مئی کی چھٹی ہے اس لیے کل اور پرسوں کیس نہیں رکھ سکتے پیر کو ملٹری کورٹس کیس کی حتمی سماعت ہونی ہے.

منیر اے ملک نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وزارت قانون کی ججز ٹرانسفر کے لیے سمری میں بھی تضاد ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو سیکریٹری قانون نے لکھا کہ کوئی سندھ کا جج نہیں، چیف جسٹس پاکستان کو بھی لکھا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سندھ سے کوئی جج نہیں جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ہائیکورٹ کی جج جسٹس ثمن رفعت کا تعلق سندھ سے ہے؟ ان کا تعلق کراچی سے ہے جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے کہ پہلی جو سمری تیار ہوئی اس میں اندرون سندھ کا ذکر تھا، یہ انجانے میں کی گئی غلطی ہوسکتی ہے کہ اندرون سندھ کے بجائے سندھ لکھا گیا، کراچی کو تو اندرون سندھ سے الگ ہی لکھا جاتا ہے.

منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ سمری میں غلطیاں حکومت کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں دوران سماعت منیر اے ملک نے قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا عدالتی امور سے متعلق صدر کو آزادانہ مائنڈ اپلائی کرنا چاہیے، ججز ٹرانسفر کی سمریوں سے عیاں ہوتا ہے صدر مملکت اور وزیراعظم نے ایک ہی دن منظوری دی، ججز ٹرانسفر کے لیے سمری عدلیہ کے ذریعے نہیں بجھوائی گئی، ججز ٹرانسفر سے قبل عدلیہ میں مشاورت نہیں ہوئی.

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ججز ٹرانسفر کے لیے تین چیف جسٹس صاحبان نے رضامندی کا اظہار کیا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بہت تفصیل کے ساتھ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیڈرل ازم پر بات کی منیر اے ملک نے کہا کہ جب سمری بجھوائی گئی اس وقت حلف یا سینیارٹی کا ذکر نہیں تھا، سمری کی منظوری کے بعد نوٹیفیکیشن میں کہا گیا نئے حلف کی ضرورت نہیں جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن میں آرٹیکل 200 کا حوالہ دیا گیا، ججز کی آپس میں مشاورت ضرور ہوئی ہوگی، ججز ٹرانسفر کے نوٹیفکیشن میں آرٹیکل 200 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ حلف کا لکھا نہیں ہوا.

منیر اے ملک نے کہا کہ ٹرانسفر کی وجوہات میں لکھا گیا پنجاب میں متناسب نمائندگی کے اصول کو سامنے رکھ کر ایسا کیا جا رہا ہے، کہا گیا پنجاب سے صرف ایک جج اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس عامر فاروق، جسٹس بابر ستار اور جسٹس اعجاز اسحاق خان پنجاب کے ڈومیسائل سے ہیں، طے شدہ منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کے لیے ججز ٹرانسفر کیے گئے. بعد ازاں عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کیخلاف کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کردی، درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک آئندہ سماعت پر بھی دلائل جاری رکھیں گے.

متعلقہ مضامین

  • منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کیلئے جج ٹرانسفر کیے گئے. منیراے ملک
  • نئی نہروں کا منصوبہ ختم
  • شدید گرمی کے بعد بارش برسانے والا سسٹم یکم مئی سے ملک میں داخل ہوگا
  • لاہور اور راولپنڈی کے درمیان پہلی بلٹ ٹرین منصوبے کا مستقبل کیا ہوگا؟
  • لاہور ہائیکورٹ نے فواد چوہدری کی 9 مئی کے تمام مقدمات یکجا کرنے کی درخواست مسترد کردی
  • مشترکہ مفادات کونسل کی باہمی منظوری کے بغیر کوئی نیا نہر منصوبہ شروع نہیں کیا جائے گا
  • 9 مئی مقدمات ، سماعت کرنے والا دو رکنی بینچ تحلیل
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ،ڈی جی امیگریشن اور ڈائریکٹر نیب کو شوکاز نوٹس کا معاملہ ،جسٹس بابر ستار کے ایک اور آرڈر جاری کرنے پر قائمقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر برہم
  • لاہور ہائیکورٹ میں کیسز کی سماعت کیلیے نیا ججز روسٹر جاری
  • پنجاب: ادارہ ماحولیات کی کارروائیاں، بھٹہ مالکان کیخلاف مقدمات و جرمانے