UrduPoint:
2025-02-07@15:23:57 GMT

فچ کا پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کے خدشے کا اظہار

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

فچ کا پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کے خدشے کا اظہار

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 فروری2025ء)عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی (فچ)نے پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے جائزے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں تو ملک کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی آسکتی ہے۔فچ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے معاشی استحکام کی بحالی، افراطِ زر میں نمایاں کمی، اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کے حوالے سے پیش رفت کی ہے۔

جنوری 2025 میں پالیسی ریٹ 12 فیصد تک کم کرنے کا فیصلہ اور مہنگائی کی شرح 2 فیصد تک آنا ان مثبت پہلوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ، مضبوط ترسیلاتِ زر، زرعی برآمدات میں اضافے، اور سخت مالیاتی پالیسیوں کی بدولت جاری کھاتوں کا خسارہ سرپلس میں تبدیل ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان کو رواں مالی سال میں 22 ارب ڈالر سے زائد بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے، جس میں سے 13 ارب ڈالر دو طرفہ قرضوں پر مشتمل ہیں۔

فچ نے کہاہے کہ بیرونی فنانسنگ کے چیلنجز اور آئی ایم ایف کے پروگرام میں ممکنہ تاخیر پاکستان کی مالی مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے، جس سے کریڈٹ ریٹنگ پر منفی اثر پڑنے کا امکان ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے معاشی استحکام کی بحالی اور بیرونی ذخائر کو مستحکم کرنے میں پیشرفت جاری رکھی ہے۔فچ ریٹنگز کے مطابق، مشکل ساختی اصلاحات میں پیشرفت آئی ایم ایف پروگرام کے جائزوں اور دیگر کثیر الجہتی و دوطرفہ قرض دہندگان سے جاری مالی معاونت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا 27 جنوری کو پالیسی ریٹ 12 فیصد تک کم کرنے کا فیصلہ صارفین کی قیمتوں میں افراط زر کو قابو میں رکھنے میں حالیہ پیشرفت کو اجاگر کرتا ہے۔رپورٹ کے مطابق جنوری 2025 میں مہنگائی کی شرح 2 فیصد سالانہ سے کچھ زیادہ رہی، جو کہ مالی سال 2024(جون 2024 میں ختم ہونے والے مالی سال)کے دوران تقریبا 24 فیصد تھی۔ تیزی سے کم ہوتی افراط زر کی بڑی وجہ گزشتہ سبسڈی اصلاحات اور مستحکم ایکسچینج ریٹ ہے، جو سخت مالیاتی پالیسی کے باعث ممکن ہوا، جس کے نتیجے میں ملکی طلب اور بیرونی مالی ضروریات میں کمی آئی۔

معاشی سرگرمیاں، سخت مالیاتی پالیسی کے اثرات کو جذب کرنے کے بعد، اب استحکام اور کم ہوتے سودی نرخوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ مالی سال 2025 میں حقیقی قدر میں 3 فیصد اضافہ ہوگا۔ نجی شعبے کو دیے گئے قرضے میں اضافہ اکتوبر 2024 میں حقیقی معنوں میں مثبت ہو گیا، جو جون 2022 کے بعد پہلی بار ہوا۔مضبوط ترسیلات زر، زراعتی برآمدات میں بہتری، اور سخت مالیاتی پالیسی نے پاکستان کے جاری کھاتے کو مالی سال 2024 کے خسارے سے نکل کر 1.

2 بلین امریکی ڈالر(جی ڈی پی کا 0.5 فیصد سے زائد)کے سرپلس میں تبدیل کر دیا۔

2023 میں متعارف کردہ زرمبادلہ مارکیٹ اصلاحات نے بھی اس بہتری میں کردار ادا کیا۔ جولائی 2024 میں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ ٹرپل سی پلس کرنے کے وقت، ہم نے مالی سال 2025 میں جاری کھاتے کے خسارے میں معمولی اضافے کی توقع کی تھی۔پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر آئی ایم ایف کے 7 بلین امریکی ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (EFF) اور فچ کی سابقہ پیش گوئیوں سے بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں۔

دسمبر 2024 کے آخر تک سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر 18.3 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئے، جو جون میں 15.5 بلین امریکی ڈالر تھے، اور تقریبا تین ماہ کی بیرونی ادائیگیوں کے لیے کافی ہیں۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس مالی سال 2025 میں 22 بلین امریکی ڈالر سے زائد کے سرکاری بیرونی قرضے کی ادائیگی لازم ہے، جس میں تقریبا 13 بلین امریکی ڈالر کے دوطرفہ ذخائر شامل ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے مطابق دوطرفہ شراکت دار ان ذخائر کی تجدید کریں گے۔ سعودی عرب نے دسمبر میں 3 بلین امریکی ڈالر کا رول اوور کیا جبکہ متحدہ عرب امارات نے جنوری میں 2 بلین امریکی ڈالر کا۔ہم توقع کرتے ہیں کہ مستقبل کے دوطرفہ مالیاتی بہا زیادہ تر تجارتی بنیادوں پر ہوں گے اور اصلاحات سے مشروط ہوں گے۔

حکومت کی جانب سے ایک سونے اور تانبے کی کان میں حصص کی فروخت کے لیے سعودی سرمایہ کار سے بات چیت اس رجحان کی مثال ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب نے حال ہی میں موخر ادائیگی پر تیل کی سہولت پر بھی اتفاق کیا ہے۔فچ ریٹنگز کے مطابق مالیاتی اصلاحات میں پیشرفت ہوئی ہے، اگرچہ کچھ مشکلات بھی درپیش ہیں۔ بنیادی مالیاتی فاضل ہدف آئی ایم ایف کے متعین کردہ اہداف سے بہتر رہا، تاہم مالی سال 2025 کے پہلے چھ ماہ میں وفاقی ٹیکس آمدنی آئی ایم ایف کی کارکردگی کے اشارے کے مطابق مطلوبہ شرح سے کم رہی۔

تمام صوبوں نے حال ہی میں زرعی آمدنی پر ٹیکس بڑھانے کے قوانین منظور کیے ہیں، جو کہ EFF کے تحت ایک کلیدی ساختی شرط تھی، لیکن تاخیر کی وجہ سے اس کا جنوری 2025 تک نفاذ ممکن نہ ہو سکا۔رپورٹ کے مطابق جولائی میں، ہم نے نوٹ کیا تھا کہ اگر زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل بحالی اور بیرونی مالیاتی خطرات میں کمی واقع ہوتی ہے، یا مالیاتی استحکام آئی ایم ایف کے وعدوں کے مطابق یقینی بنایا جاتا ہے، تو کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری آ سکتی ہے۔ تاہم، بیرونی ادائیگیوں کی بگڑتی صورتحال، جیسے کہ آئی ایم ایف کے جائزوں میں تاخیر، منفی درجہ بندی کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے زرمبادلہ کے ذخائر بلین امریکی ڈالر رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے مالی سال 2025 پاکستان کی

پڑھیں:

جرمنی: تقریباً نوے فیصد ووٹرز بیرونی مداخلت سے خوفزدہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 فروری 2025ء) برسلز میں قائم ڈیجیٹل انڈسٹری ایسوسی ایشن بٹ کام کی طرف سے شائع کردہ ایک نئے پول جائزے کے مطابق جرمن ووٹرز غیر ملکی انتخابی مداخلت کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں۔

سروے کے مطابق، جن ووٹرز سے سوال کیا گیا ان میں سے مجموعی طور پر 88 فیصد سے زیادہ اہل ووٹروں نے یہ رائے دی اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ انتخابات کے دوران بیرونی طاقتیں، چاہے حکومتیں، گروہ یا افراد ہوں، سوشل میڈیا مہم کے ذریعے ووٹ کو متاثر کرنے کی کوشش کریں گے۔

تاہم اس سروے میں صرف ایک ہزار اہل رائے دہندگان کو ہی سوال و جواب کے لیے شامل کیا گیا۔

جرمنی میں انتخابی نظام کیسے کام کرتا ہے؟

اس سروے میں ایسی سرگرمیوں کے لیے جن پر سب سے زیادہ شک کا اظہار کیا گیا، اس میں 45 فیصد کے امکانات کے ساتھ روس کا نام سر فہرست ہے، جبکہ 42 فیصد کے ساتھ امریکہ دوسرے نمبر پر ہے۔

(جاری ہے)

چین پر 26 فیصد اور مشرقی یورپی ایکٹرز پر بھی آٹھ فیصد تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

ان ووٹروں نے یہ معلومات فراہم کی کہ وہ اپنی سیاسی رائے کیسے بناتے ہیں، جس میں سے 82 فیصد نے دوستوں اور کنبے کے ساتھ گفتگو کا حوالہ دیا، جبکہ 76 فیصد نے ٹیلیویژن اور 69 فیصد نے انٹرنیٹ کی بات کی۔

تقریبا 80 جواب دہندگان نے یہ بھی محسوس کیا کہ اگلی حکومت کو ڈیجیٹل پالیسی کو ترجیح دیتے ہوئے ممکنہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی غلط معلومات کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔

جرمنی: انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی نے ایلس وائیڈل کو بطور چانسلر امیدوار منتخب کر لیا

بٹ کام کے صدر رالف ونٹرگرسٹ نے اس رجحان کو اٹھایا تھا اور اس حوالے سے 71 فیصد جواب دہندگان نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک نئی خود مختار وزارت بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔

رالف ونٹرگرسٹ کا کہنا ہے، "نئی ڈیجیٹل وزارت کو تمام ضروری حقوق اور وسائل سے لیس ہونا چاہیے، اسے اپنا بجٹ اور نئے قوانین اور منصوبوں کے لیے ڈیجیٹل شرائط کی ضرورت ہے۔

" جرمن ووٹرز میں غلط معلومات کی بھر مار

ایسے ووٹرز میں سے ایک تہائی، جو کہتے ہیں کہ وہ انٹرنیٹ کو خبروں اور معلومات کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، نے بٹ کام کو بتایا کہ انہوں نے پہلے ہی آن لائن غلط معلومات دیکھی ہیں۔

جرمن صدر نے وفاقی پارلیمان تحلیل کر دی، نئے الیکشن کی راہ ہموار

رائے دہندگان کی طرف سے ظاہر کیے گئے سب سے بڑے خدشات کا تعلق نام نہاد ڈیپ فیکس، یعنی حقیقت پسندانہ تاہم مکمل طور پر جعلی، ویڈیوز، تصاویر یا آڈیو اور ٹارگٹڈ غلط معلومات سے ہے۔

تقریباً 56 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ جرمن جمہوریت ایسے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

مزید 30 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ پہلے ہی انتخابات کے بارے میں آن لائن آنے والے غلط معلومات میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

بٹ کام کے ونٹرگرسٹ نے کہا، "غلط معلومات سے متعلق ووٹرز کی آگاہی بڑھ رہی ہے۔ یہ جعلی خبروں کے خلاف ایک اہم پہلا قدم ہے۔

غلط معلومات عام طور پر رائے عامہ کو متزلزل کر کے اور امیدواروں یا جماعتوں کو بدنام کر کے جرمنی کے وفاقی انتخابات کو ڈرامائی طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔"

اقتصادیات، جرمن انتخابات میں سب سے بڑا مدعا

ونٹرگرسٹ نے انتخابات کو "جمہوریت کا دل" قرار دیا لیکن خبردار کیا کہ "غلط معلومات جمہوری عمل پر اعتماد کو مجروح کرتی ہیں۔

" تاہم انہوں نے مزید کہا کہ "ایک باخبر معاشرہ ڈیجیٹل ہیرا پھیری کے خلاف بہترین تحفظ ہے۔" جرمن ووٹرز کو روسی اور امریکی مداخلت پر شبہ

انتخابات میں غیر ملکی مداخلت کے حوالے سے روس کا نام سر فہرست ہے اور گزشتہ امریکی اور یورپی انتخابات میں اس کی ایسی کوششیں اس کا کافی ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

ادھر فعال امریکی مداخلت کا ایک واضح ذریعہ ایلون مسک بھی ہیں۔

دنیا کے سب سے امیر آدمی، ڈونلڈ ٹرمپ کے سب سے بڑے سنگل ڈونر اور سوشل میڈیا ایکس کے مالک مسک نے جرمن رہنماؤں کی توہین کی اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کو جرمنی کے لیے واحد امید قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت میں ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا۔

گھریلو خطرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا

اس سروے میں جن ممالک پر انتخابات میں مداخلت کا شک ظاہر کیا گا، اس میں چین تیسرے نمبر ہے۔

چین بھی خطرناک سائبر سرگرمیوں میں فعال طور پر ملوث ہونے کے لیے معروف ہے۔

انگیلا میرکل کی کتاب، میرکل کا مشن، میرکل کی دنیا

اپنی ڈیجیٹل کارروائیوں کے علاوہ چین نے سیاسی جماعتوں میں دراندازی کر کے جرمنی کے سیاسی نظام میں بھی اپنا راستہ تلاش کیا ہے۔ خاص طور پر انتہائی دائیں بازو کی اے ایف ڈی میں چینی اثر و رسوخ کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی چین اور روس اتحاد کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

تھامس ہالڈین وانگ نے سن 2022 میں اس مسئلے کے بارے میں کہا تھا، " اگر روسی مداخلت جرمنی سے ٹکرانے والے طوفان کی طرح ہے، تو چین گلوبل وارمنگ کی طرح ہے۔"

جرمنی: اولاف شولس ہی حکمراں جماعت ایس پی ڈی کی قیادت کریں گے

تاہم بٹ کام کے سروے میں گھریلو خطرات کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے اور جس طرح اے ایف ڈی سوشل میڈیا پر اپنی جارحانہ مہم کے ذریعے نوجوان ووٹرز کو نشانہ بنا رہی ہے، اس پر 66 فیصد رائے دہندگان نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

رائے دہندگان میں سے 87 فیصد لوگوں کی رائے تھی کہ آن لائن انتہائی دائیں بازو کی آوازوں کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشرے کو خود ہی بہت کچھ کرنا چاہیے۔

ص ز/ ج ا (جان شیلٹن)

متعلقہ مضامین

  • معاشی ترقی کے باوجود پاکستان کو بیرونی فنانسنگ کے حصول میں مشکل رہے گی، فِچ
  • پاکستان معاشی استحکام کی بحالی پر پیشرفت کر رہا ہے،فچ کی رپورٹ 
  • پاکستان کی معاشی سرگرمیاں مستحکم اور شرح سود میں کمی سے بہتر ہورہی ہیں: فچ رپورٹ
  • عالمی ریٹنگ ایجنسی کا بھی پاکستان میں معاشی استحکام سے بہتری کا اعتراف
  • جرمنی: تقریباً نوے فیصد ووٹرز بیرونی مداخلت سے خوفزدہ
  • پاکستان میں شرحِ سود 12 فیصد ہونا، مہنگائی کم ہونے کی دلیل ہے: فچ
  • پاکستان معاشی استحکام بحالی پر پیشرفت کررہا ہے،فچ نے رپورٹ جاری کردیا
  • ایگری کنیکشنز 2025: پاکستان کی زرعی صلاحیت کو جدت کے ذریعے اجاگر کرنے کا موقع
  •  سعودی عرب اور پاکستان میں مالیاتی جرائم سے نمٹنے کا ایم او یو سائن ہو گیا