Daily Ausaf:
2025-04-15@09:48:06 GMT

ٹرمپ کی خارجہ پالیسی، وعدے اور حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

ڈونلڈٹرمپ کے بطورصدرانتخاب نے نہ صرف امریکی سیاست بلکہ عالمی تعلقات میں بھی ایک نئی بحث کوجنم دیاہے۔ان کابے خوف اورغیرروایتی رویہ، مختلف معاملات پرسخت بیانات،اورفیصلے کرنے کامنفرد انداز دنیابھرکے ممالک کے لئے حیرانی کاباعث بن رہاہے۔ ان کی صدارت کے پہلے دورمیں گرین لینڈکوخریدنے کی پیشکش اوراب اس پر عسکری طاقت کے زورپر امریکا میں شامل کرنا،پاناما کینال اورکینیڈاپرسخت بیانات،غزہ کوپاک کرنے کے منصوبے کومصراوراردن کی جانب سے مستردکیاجانااور ٹی وی پرسی این این کی جگہ فاکس نیوزکے غالب آنے جیسے عوامل نے عالمی سیاست پرگہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
صحافیوں کے ساتھ 20منٹ کی گفتگوکے دوران ٹرمپ نے تصدیق کی کہ انہوں نے رات گئے کئی سرکاری اداروں کے آزاد نگرانوں کوبرطرف کردیا ہے۔ اس اقدام نے امریکی سیاسی نظام میں نگرانی اورتوازن کے اصول کوکمزورکیا۔مزید برآں انہوں نے کہاکہ امریکا گرین لینڈکواپنی سرزمین کے طورپرحاصل کرے گا، جس سے ان کے عالمی جغرافیائی عزائم ظاہرہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے مصراوراردن سے مزید فلسطینیوں کوپناہ دینے کامطالبہ کیا،جوبظاہرپورے فلسطین کواسرائیل میں ضم کرنے کی ایک خواہش کا عکاس ہے۔اس نے مشرق وسطی میں کشیدگی کومزیدبڑھادیاہے اورمسلم ممالک کے ساتھ امریکاکے تعلقات کومزیدپیچیدہ بنایاہے۔
ٹرمپ کابے خوف رویہ اورغیرروایتی سیاست امریکی تاریخ کاایک منفردباب ہے۔ان کے دور حکومت نے عالمی سیاست میں ہلچل مچائی اورامریکا کے اندرونی اوربیرونی تعلقات کونئی جہت دی ہے تاہم ان کی پالیسیوں کے طویل المدتی اثرات کااندازہ لگاناابھی باقی ہے۔کیاان کا دورحکومت امریکاکوایک مضبوط اور خودمختارملک بنائے گایایہ عالمی سیاست میں امریکاکے کردارکوکمزور کرے گا؟یہ سوال وقت کے ساتھ مزید واضح ہوگا۔
سوال یہ ہے کیاٹرمپ کی موجودہ جارحانہ پالیسیوں پرچین خاموشی اختیار کرتے ہوئے پسپائی اختیارکرے گایاایک مرتبہ پھر شمالی کوریاکاخطرہ سامنے آکرٹرمپ کوپسپائی اختیار کرنے پرمجبورکردے گا۔ کیا چین پاکستان میں جاری سی پیک کوامریکی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ کوئی نیامعاہدہ کرے گااورایران،افغانستان کے علاوہ روس کی مدد سے گردوپیش کی ریاستوں میں اپنااثرورسوخ مزید بڑھا دے گا؟
سوال یہ ہے کیاٹرمپ کاموجودہ دورِاقتدار امریکاکومضبوط کرے گایامزیدکمزورکردے گا؟دنیاکے مختلف حصوں میں جاری جنگ کے شعلوں کوبجھانے کی کوشش ہوگی یاپھراس پر مزید تیل چھڑک کرٹرمپ اپنے مقاصدکی تکمیل کے خواہاں ہیں؟کیا35ممالک سے زائد ممالک میں امریکی جارحیت کے جواب میں امریکا کے حصے میں جورسوائی آئی ہے،اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی یاامریکاکی مضبوط لابی ٹرمپ کوجاری پالیسیوں کے تسلسل سے پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں دے گی؟یہ وہ تمام سوالات ہیں،جن کاآج کے مضمون میں جائزہ لینے کی کوش کرتے ہیں۔
صدرٹرمپ کااپنی مرضی سے دنیاکوچلانے کا خواب،ان کی پالیسیوں،بیانات اورعالمی تعلقات پر واضح جھلکتاہے تاہم،دنیاایک پیچیدہ اورکثیرالجہتی نظام پرمبنی ہے جہاں طاقتور ریاستوں کے ساتھ ساتھ عالمی ادارے، علاقائی اتحاد،اورعوامی رائے بھی اہم کرداراداکرتے ہیں۔ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ وہ اپنی خارجہ اورداخلی پالیسیوں کے ذریعے امریکا کی طاقت کوبلندکریں اوردنیاکے معاملات پراپنی مرضی مسلط کریں لیکن عالمی ردعمل،اندرونی مزاحمت اورعالمی نظام کی حقیقت ان کے راستے کی آہنی دیواریں ثابت ہوسکتی ہیں۔
ان کی پالیسیاں جیسے مسلم ممالک پرسفری پابندیاں،ایران پرسخت پابندیاں،اوراتحادی ممالک کے ساتھ کشیدگی پیداکرنا،دنیاکے مختلف خطوں میں امریکا کے اثرورسوخ کومحدودکر رہی ہیں۔چین اورروس جیسے طاقتور ممالک اس خلاکوپرکرنے کے لئے آگے آ رہے ہیں۔ موجودہ حالات بھی اس کااشارہ دے رہے ہیں کہ امریکی سیاست میں بھی ٹرمپ کی پالیسیوں کومکمل طور پر نافذکرنا ممکن نہیں۔کانگریس،عدلیہ،اورعوامی دبائو جیسے عوامل ان کے اختیارات کومحدودکرتے ہیں۔
دنیاکوچلانے کے لئے نہ صرف طاقت،بلکہ تعاون، اعتماد،اورانصاف پرمبنی پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ٹرمپ کے اقدامات، جیسے کہ فلسطین کے مسئلے پریکطرفہ اسرائیل کی حمایت ،اوراتحادیوں کومالی دبائومیں لانا، ان عناصرکے خلاف ہیں۔اس مضمون میں،ہم ان موضوعات کاتفصیل سے جائزہ لیں گے اوریہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ٹرمپ کاموجودہ دور اقتدارامریکاکو مضبوط کرے گایاکمزور۔
ڈونلڈٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایسی پالیسیوں کاوعدہ کیاجوامریکی عوام کی ترجیحات کوسامنے رکھتی تھیں۔’’امریکا فرسٹ،سب سے پہلے امریکا‘‘ کے نعرے نے عوام کویہ تاثردیاکہ ٹرمپ امریکاکوعالمی معاملات سے دوررکھتے ہوئے قومی مفادات پرتوجہ مرکوز کریں گے۔تاہم،ان کے اقدامات اوربیانات نے ایک مختلف تصویرپیش کی ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے ڈنمارک کوگرین لینڈ خریدنے کی پیشکش ایک غیرروایتی اورغیرمتوقع اقدام تھا۔اس پیشکش کوعالمی سطح پر حیرت اورمذاق کے ساتھ دیکھاگیا،لیکن اس نے امریکاکی جغرافیائی اوراقتصادی اسٹریٹجی پرروشنی ڈالی۔گرین لینڈقدرتی وسائل سے مالامال ہے اوراس کی جغرافیائی حیثیت چین اورروس کے اثرورسوخ کے خلاف ایک اہم دفاعی چوک ہے۔تاہم، ڈنمارک اور گرین لینڈکے حکام نے اس پیشکش کوسختی سے مستردکیا،جس سے ٹرمپ کومایوسی کاسامناکرناپڑا۔
برطانیہ کے مشہوراخبار’’فنانشل ٹائمز‘‘کے رچرڈ ملنز نے اپنے مضمون میں اس معاملے کی حساسیت اوراہمیت پرٹرمپ پالیسیوں پرمتنبہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ڈنمارک کے وزیراعظم میٹ فریڈرکسن کے ساتھ 45منٹ کی فون کال کی، جسے پانچ موجودہ اورسابق سینئر یورپی حکام نے فنانشل ٹائمزکوآگ اور تصادم کے طورپر بیان کیا۔حکام نے کہاکہ ڈنمارک کی حکومت’’بحران کے موڈ‘‘میں ہے جب ٹرمپ کی جانب سے نیٹوکے اتحادی سے علاقہ چھیننے کے لئے فوجی کارروائی کو مسترد کرنے سے انکار کرنے اوراس کے خلاف ٹارگٹ ٹیرف کی دھمکی دینے کے بعدغیرمعمولی قدم اٹھایا گیا۔ جزیرے کے شمال میں گرین لینڈ میں امریکاکاپہلے ہی واحدفوجی اڈہ موجودہے۔
وہ اپنے مضمون میں آگے چل کرلکھتے ہیں، یورپی ممالک ڈنمارک کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیوں پر خوداس کے کراس ہیئرزمیں شامل ہوئے بغیرردعمل ظاہرکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔کچھ لوگوں نے فریڈرکسن پرزوردیاہے کہ وہ امریکی صدرکے خلاف ’’لڑائی‘‘کریں۔اب تک،ڈنمارک کے وزیراعظم نے اصرارکیا ہے کہ گرین لینڈ فروخت کے لئے نہیں ہے لیکن انہوں نے آرکٹک میں بڑھتی ہوئی امریکی دلچسپی کا خیرمقدم کیاہے۔
گرین لینڈ،پاناما کینال اورکینیڈاکے متعلق ٹرمپ کے بیان اورجوابی ردعمل پرپاناماکینال کے متعلق اپنے ایک آرٹیکل میں تفصیلا ً لکھ چکاہوں۔پاناماکینال جوکہ عالمی تجارت کے لئے ایک اہم راستہ ہے،پرٹرمپ کے بیانات نے عالمی تجارتی نظام میں امریکاکی بالادستی کے بارے میں ان کے خیالات کوظاہرکیااورکینیڈا کے بارے میں سخت بیانات اورتجارتی معاہدوں پردوبارہ مذاکرات کے مطالبات نے امریکاکے شمالی ہمسائے کے ساتھ تعلقات کوکشیدہ کرنے کے اقدامات ایک ایسے صدرکی عکاسی کرتے ہیں جو امریکاکے معاشی مفادات کوہرقیمت پرتحفظ دیناچاہتاہے،چاہے اس کے لئے دیرینہ اتحادیوں کے ساتھ تعلقات خراب ہی کیوں نہ ہوں۔
اسی طرح اپنی انتخابی مہم میں ہی ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کے حق میں کھل کرحمایت کامظاہرہ کرکے اپنی سابقہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کاعندیہ دے دیا تھا، جس کاثبوت یروشلم کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے اورامریکی سفارتخانے کووہاں منتقل کرنے میں نظرآیا تھا۔ اب غزہ کو’’پاک‘‘کرنے کے منصوبے نے مشرق وسطیٰ میں مزیدتنازعات کوجنم دے دیاہے۔مصراوراردن جیسے اہم عرب ممالک نے اس منصوبے کومستردکردیاہے جوکہ فلسطینی عوام کے حقوق کونظراندازکرنے کے مترادف ہے۔ان ممالک کے ردعمل نے ٹرمپ انتظامیہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسیوں پرسوالیہ نشان لگادیے ہیں۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کی پالیسیوں میں امریکا گرین لینڈ کرتے ہیں ممالک کے کی کوشش ٹرمپ کی کے ساتھ کرنے کے ٹرمپ کے کے خلاف کے لئے کرے گا

پڑھیں:

چینی لیڈر شپ کی ڈپلومیسی کا 2025میں نیا آغاز اور اس میں چھپے گہرے معنی

چینی لیڈر شپ کی ڈپلومیسی کا 2025میں نیا آغاز اور اس میں چھپے گہرے معنی WhatsAppFacebookTwitter 0 15 April, 2025 سب نیوز

بیجنگ :چین کے صدر شی جن پھنگ ویت نام، ملائیشیا اور کمبوڈیا کے سرکاری دورے کر رہے ہیں ۔ یہ سال 2025 میں چینی رہنما کا پہلا بیرونی دورہ ہے اور ساتھ ہی چینی قیادت کی مرکزی ہمسائیگی کے امور پر ہونے والی کانفرنس کے فوراً بعد چینی رہنما کا ہمسایہ ممالک کا پہلا دورہ بھی ہے۔ بین الاقوامی صورتحال غیر مستحکم ہے، اور امریکی ٹیرف جنگ نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ ایسے وقت میں، کیا چینی لیڈرشپ کی ڈپلومیسی کا یہ آغاز محض رسمی ملاقاتوں اور تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ہے، یا اس کے پیچھے کوئی گہرا مقصد ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس کی وجہ سے اس دورے پر کئی حلقوں کی توجہ مرکوز ہے۔ درحقیقت، میرے خیال میں مبصرین ضرورت سے زیادہ سوچ رہے ہیں۔

چینی لیڈرشپ کےموجودہ دورے میں کسی خفیہ منصوبے یا کسی بڑے کھیل کی تلاش کی قطعی ضرورت نہیں۔ ایسی قیاس آرائیاں چین کے مستحکم اسٹریٹجک وژن کو نہ سمجھنے کے مترادف ہیں۔ چین ہمیشہ سے اپنی ہمسائیگی کی ڈپلومیسی کو اہمیت دیتا رہا ہے جو انسانی ہم نصیب معاشرے کے پرچم کو بلند کرتے ہوئے پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے ہے۔ یہ ڈپلومیسی کبھی بھی دنیا میں سر اٹھانے والے کسی بھی شیطانی منصوبوں ،ان سے اٹھتے طوفانوں یا منفی رجحان سے متاثر نہیں ہوگی، نہ ہی چین کبھی چالاکی سے کام لے گا، یا علیحدگی کی دیوار کھڑی کرےگا ،یا کسی کے خلاف گروہ بندی کرے گا، یا کسی کو دباو میں لیتے ہوئے اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرےگا۔

ہمسائیگی کے امور کی حالیہ مرکزی کانفرنس میں چینی قیادت نے واضح کیا کہ موجودہ دور میں چین اور اس کے پڑوسی ممالک کے تعلقات جدید تاریخ کے بہترین دور سے گزر رہے ہیں، اور ساتھ ہی یہ خطہ عالمی تبدیلیوں کے ساتھ ایک گہرے تعلق میں داخل ہو چکا ہے۔ ہمیں شی جن پھنگ کے نئے دور میں چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم کے نظریات کی رہنمائی میں، پارٹی اور ملک کے مرکزی مقاصد پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، داخلی اور بین الاقوامی دونوں پہلوؤں کو یکجا کرنا ہوگا، ترقی اور سلامتی دونوں کو فروغ دے کر انسانی ہم نصیب معاشرے کے پرچم کو بلند کرتے ہوئے،ہمسایہ ممالک کےساتھ امن، سکون، خوشحالی، خوبصورتی اور دوستانہ تعلقات پر مشتمل “پانچ گھرانوں” کی تعمیر کے مشترکہ خواب کو حقیقت بنانا ہوگا۔پرامن ، اچھی ا ور مشترکہ خوشحالی کی سوچ کی حامل ہمسائیگی، قربت، خلوص ،رواداری اور ہم نصیب معاشرے کے تصور اور پالیسی کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے تعاون، کھلے پن اور رواداری کی ایشیائی اقدار کو اپنانا ہوگا۔

اعلیٰ معیار کے “بیلٹ اینڈ روڈ” تعاون کو اہم پلیٹ فارم بنانا ہوگا، اور اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے مشترکہ نکات تلاش کرنے اور مکالمے پر مبنی ایشیائی سلامتی کے ماڈل کو اسٹریٹجک سہارا بنانا ہوگا، تاکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر ایک روشن مستقبل تعمیر کیا جا سکے۔ لہٰذا، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چینی لیڈرشپ کا یہ دورہ نہ صرف دونوں اطراف کے رہنماؤں کی قیادت میں دوستانہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور انہیں بلند کرنے کا موقع ہے، بلکہ یہ ہمسایہ ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو بھی تقویت دے گا۔ “گلوبل ساؤتھ” کے عروج کے اس دور میں، چین اور یہ تینوں ممالک ترقی پذیر ہیں، جن کے ترقیاتی اہداف اور خواب ایک جیسے ہیں۔ تعاون کو گہرا کر کے تینوں ممالک ایک دوسرے کے فوائد کو یکجا کر سکتے ہیں، بین الاقوامی سطح پر ایشیا کی آواز کو مزید بلند کر سکتے ہیں، اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق کی نمائندگی کو بڑھا سکتے ہیں۔

مخلصانہ اور دوستانہ ہمسایہ ڈپلومیسی کے تصور کی رہنمائی میں، چین نے ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام پر یقین رکھا ہے۔ مستقبل میں بھی چین اسی تصور پر کاربند رہے گا، اور پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر ایشیا کو ایک پرامن، خوشحال اور ہم آہنگ خطہ بنانے کی کوشش کرے گا، تاکہ انسانی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے سفر میں ایشیا کا روشن باب رقم کیا جا سکے۔ اگر ہم یہ کہنا چاہیں کہ سال 2025 میں چینی لیڈرشپ کی ڈپلومیسی کا یہ آغاز دنیا کو کیا پیغام دے رہا ہے تو یہی چند الفاظ ہوں گے کہ خود پر بھروسہ کریں، تعاون کو فروغ دیں، اورراہ راست پر کاربند رہیں۔ دیکھیں، زمین کے دوسرے سرے پر، ایک وائٹ ہاوس نامی اندھیرے کمرے میں، کوئی شخص دن رات یہ سوچ رہا ہے کہ کل دنیا کو خوفزدہ کرنے والا ایک اور بیان کیسے دیا جائے یا ایک اور اقدام کیسے اٹھایا جائے ؟

کیسے غیر یقینی چالوں سے دنیا کو گٹھنوں پر لایا جائے، تاکہ وہ اطاعت کرے۔ سچ کہوں تو، ایسے لوگ چینی دانش مندی کے سامنے قابلِ تحقیر ہیں جو منہ پر میٹھی بات، دل میں کینہ اور ظاہر ی اطاعت اور باطنی مخالفت کا رویہ رکھتے ہیں ۔ خود پر بھروسہ کر کے ایک قوم تعمیر کریں ، تعاون سے دنیا کو سنواریں اور راہ راست پر چل کر دنیا کو پرامن ،خوشحال اور ہم آہنگ بنائیں – یہی وہ قدیم ،با وقار اور سدا بہار مشرقی دانش مندی ہے جو چینی لیڈرشپ کی ڈپلومیسی میں پوشیدہ ہے، اور یہی چینی تہذیب کی روح کی عکاسی کرتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چینی لیڈر شپ کی ڈپلومیسی کا 2025میں نیا آغاز اور اس میں چھپے گہرے معنی
  • ٹرمپ انتظامیہ کا محکمہ خارجہ کی فنڈنگ تقریباً نصف کرنے پر غور، امریکی میڈیا
  • ٹرمپ انتظامیہ کی شرائط نہ ماننے پر ہارورڈ یونیورسٹی کی 2.2 ارب ڈالر کی امداد منجمد
  • دہشتگردی کیخلاف عالمی پالیسی تیار کی جائے : محسن نقوی : مل کر کام کرینگے: امریکی ارکان کانگریس
  • اپنی چھت اپنا گھر پر وگرام : ٹارگٹ پورا کرنے کیلئے پر عزم ‘ ماضہ میں صرف وعدے ہوئے : مریم نواز 
  • روس سے معاہدے سے پہلے ٹرمپ یوکرین کا دورہ کریں، زیلنسکی
  • ٹرمپ ٹیرف مضمرات
  • نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں ایران روس تعاون
  • چین کا ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی پر طنز، سوشل میڈیا پر میمز وائرل
  • امیر جماعت کا اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام خط، غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے 20اپریل کو عالمی یوم احتجاج منانے کی تجویز