بوسیدہ نظاموں سے جان چھڑائیں
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
حضرت عمر بن خطاب خلافت سنبھالنے کے بعد بیت المال میں آئے تو لوگوں سے پوچھا کہ حضرت ابوبکرؓ کیا، کیا کیا کرتے تھے، تو لوگوں نے بتایا کہ :’’وہ نماز سے فارغ ہو کر کھانے کا تھوڑا سا سامان لے کر ایک طرف کو نکل جایا کرتے تھے‘‘! آپ نے پوچھا کہ کہاں جاتے تھے ’’لوگوں نے بتایا کہ یہ نہیں پتا بس اس طرف کو نکل جاتے تھے‘‘! آپ نے کھانے کا سامان لیا اور اس طرف کو نکل گے لوگوں سے پوچھتے ہوئے ’’حضرت ابوبکرؓ ‘‘ کس جگہ جاتے تھے پتہ چلتے چلتے ایک جھونپڑی تک پہنچ گئے وہاں جا کر دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی دونوں آنکھوں سے آندھا ہے اور اس کے منہ پر پھالکے بنے ہوئے ہیں اس نے جب کسی کے آنے کی آواز سنی تو بڑے غصے میں بولا کہ پچھلے تین دن سے کہاں چلے گئے تھے تم؟ ’’آپ خاموش رہے اور ان کو کھانا کھلانا شروع کیا تو اس نے غصے سے کہا کہ کیا بات ہے ایک تو تین دن بعد آئے ہو اور کھانا کھلانے کا طریقہ بھی بھول گئے ہو؟‘‘ آپ نے جب یہ سنا تو رونے لگے اور اسے بتایا کہ ’’میں عمرؓ ہوں اور وہ جو آپ کو کھانا کھلاتے تھے، وہ مسلمانوں کے خلیفہ سیدنا ابوبکر ؓتھے اور وہ وفات پا چکے ہیں‘‘ جب اس بوڑھے نے یہ بات سنی تو کھڑا ہو گیا اور کہا کہ ’’اے عمرؓ مجھے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیں۔ پچھلے دو سال سے وہ آدمی روز میرے پاس آتا اور کھانا کھلاتا رہا ایک دن بھی اس نے مجھے نہیں بتایا کہ میں کون ہوں‘‘ بوڑھے آدمی نے بتایا کے وہ اپنے منہ سے روٹی کا نوالہ نرم کر کے مجھے کھلاتے تھے،(کنزالعمال، کتاب الفضائل) مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا کہ ’’ہمارے نزدیک اسلام کے دامن تقدیس پر اس سے بڑھ کر اور کوئی بدنما دھبہ نہیں ہو سکتا کہ انسانی حریت اور ملکی فلاح کا سبق مسلمان دوسری قوموں سے لیں۔آپ کے ہاں اگر شمع کافو ری جل رہی ہے تو آپ کو کسی فقیر کے جھونپڑے سے اس کا ٹمٹماتا ہوا دیا چرانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
ایک اسلامی فلاحی مملکت کے قیام اور اس میں آزادانہ طور پر اللہ کے دین متین کے عملی غلبے اور نفاذ کے لئے کی گئی نبی کریم ﷺ اور ان کی مقدس جماعت کی ہجرت کو چودہ سو پینتالیس سال بیت گئے اس طویل دورانیے میں اس کائنات نے بارہا مسلمانوں کے عروج و زوال کو دیکھا اور تاریخ نے ان حالات و واقعات اور ان کے اسباب کو اپنے دامن میں محفوظ کیا جب تک من حیث المجموع مسلمانوں میں ملی احساس بیدار رہا قرآن و سنت کی الٰہی تعلیمات مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ العمل رہیں، اسلامی نظام خلافت و حکومت کا سانچہ کسی بھی صورت میں برقرار رہا، اقوام عالم پر مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم رہا، نصف دنیا پر مسلمانوں کی حکومت و سیادت رہی اور مسلمان ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا کی برادری میں قائدانہ کردار ادا کرتے رہے اور پھر جب سے مسلمانوں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں الہی تعلیمات کو پس پشت ڈالا قرآن و سنت اور نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے دیئے ہوئے اسلامی مملکتی نظام کی جگہ اقوام باطل کے نظاموں کو اپنایا اپنے سنہرے ماضی سے خود کو کاٹ دیا تو کرہ ارض پر ذلت و پستی کا نشان بن گئے ہر گزرتا دن ان کی رسوائی کا باعث بنتا گیا جس دنیا کے ذخائر اور خزانوں کے کل تک مالک تھے آج وہی دنیا اپنی تمام تر وسعتوں اور خزانوں سمیت ان کے لئے تنگ کردی گئی کل تک جو قومیں ایک ایک نوالے کے لئے ان کے دست سخاوت کی محتاج تھی وہ سیادت و قیادت کی مالک بن کر مسلمانوں کو اپنا نظریاتی فکری معاشی اور معاشرتی غلام بنانے لگیں اور آج پوری دنیا کا مسلمان قدم قدم پر ان کا محتاج ہے۔ ایک بار پھر مسلم قوم کو اپنے ماضی کے دریچوں میں جھانک کر اپنے مستقبل کی تعمیر کے لئے سوچنا ہوگا، اور اس دنیا کے بوسیدہ نظاموں کو انقلاب اسلامی کی تیز ہواں کے جھونکوں سے خس و خاشاک کی طرح اڑاکر پھر سے دنیا میں اسلامی علم لہرانا ہوگا آئیں عہد کریں کہ اپنے حصے کا دیا جلائیں گے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنی بساط کی حد تک اسلامی روح کو زندہ کریں گے دنیا کے فرسودہ نظاموں اور روایات سے بغاوت کریں گے اور ساڑھے چودہ سو سال پہلے کے اسلامی فلاحی معاشرے کو اپنا رول ماڈل بناکر اپنی دنیا و آخرت کی ترقی و کامیابی کے ہر باب کو وا کریں گے۔ یہی ہماری عزت و عظمت ترقی و کامیابی کا راستہ ہے۔
تاریخ آج چودہ سو سال بعد بھی سیدنا عمر فاروقؓ کی خلافت کے کارناموں کو سلام پیش کرتی ہے، رات کا وقت تھا، مدینہ کی گلیوں میں مکمل خاموشی تھی۔ صرف ہوا کی سرسراہٹ اور کبھی کبھار کسی جانور کی آواز سنائی دیتی تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، خلیفہ دوم، اپنی عادت کے مطابق اپنی رعایا کی حالت جاننے کے لئے شہر کی گلیوں میں نکلے ہوئے تھے۔ ان کا لباس سادہ اور چہرے پر ایک فکر مند تاثرات تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔ اس رات بھی وہ مختلف گھروں کے قریب جا کر لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے تاکہ انہیں حقیقی حالات کا علم ہو سکے۔ اسی دوران، ایک گھر سے ایک عورت کی آواز سنائی دی جو اپنی بچیوں کو دلاسہ دے رہی تھی کہ صبر کریں، صبح کچھ کھانے کو ملے گا۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر فاروق کا دل بھر آیا اور وہ اس گھر کی طرف بڑھے۔ حضرت عمر نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر جا کر معلوم کیا کہ یہ عورت کیوں پریشان ہے۔ عورت نے بتایا کہ ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے اور بچے بھوک سے بے حال ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوراً واپس پلٹے اور بیت المال سے اناج اور دیگر ضروریات کا سامان خود اپنے کندھے پر اٹھا کر اس عورت کے گھر پہنچا دیا۔ حضرت عمرؓ کے خادم نے کہا حضرت آپ یہ بوجھ نہ اٹھائیں یہ اناج کی بوری مجھے دے دیں اسے میں اٹھا لیتا ہوں حضرت عمر ؓنے جواب دیا کیا قیامت کے دن میرا بوجھ بھی تم اٹھائو گے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی ریاست کی حدود میں زبردست اضافہ ہوا۔ ان کے دور میں عراق، شام، مصر، اور ایران کے بڑے علاقے اسلامی ریاست کا حصہ بنے۔ انہوں نے اپنی بہترین حکمرانی کی بدولت لوگوں کو انصاف اور امن کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ حضرت عمر فاروق ؓ ریاست کے انتظام و انصرام کے لئے متعدد اصلاحات کیں، جن میں بیت المال کی تشکیل، پولیس کا قیام اور عدالتوں کی بنیاد شامل ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور حکومت ایک مثالی دور تھا، ہمیں بھی اگر خوشحالی اور ترقی چاہیے تو دور فاروقی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، کی عظیم حکمرانی اور اصلاحات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے اپنی زندگی کو اللہ کی راہ میں اور اپنی رعایا کی خدمت میں گزارا اور اپنے عمل سے دنیا کو یہ سبق دیا کہ ایک حقیقی حکمران کیسا ہونا چاہیے۔ مغربی دنیا میں بھی ان کی قیادت اور انصاف پسندی کو سراہا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہارورڈ یونیورسٹی ہے، جہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بطور موضوع پڑھایا جاتا ہے۔ ان کے عدل و انصاف، اصلاحات اور حکمرانی کے اصول آج بھی دنیا بھر کے طالب علموں کے لئے ایک روشن مثال ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بتایا کہ نے بتایا اور اس ہے اور اور ان کے لئے
پڑھیں:
لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 فروری 2025ء) اسرائیلی فورسز نے جمعرات کو رات دیر گئے بتایا کہ اس نے لبنان میں ان دو مقامات پر حملہ کیا، جن میں مبینہ طور پر حماس کے اتحادی حزب اللہ گروپ سے تعلق رکھنے والے ہتھیار جمع تھے۔ واضح رہے کہ لبنان کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کے باوجود یہ حملے کیے گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی فوج نے، "لبنان کی سرزمین میں ایسے دو فوجی مقامات کو نشانہ بنایا، جس میں حزب اللہ کے ہتھیار موجود تھے، جو جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔
"لبنان میں حزب اللہ کے زیر استعمال سرنگ تباہ کر دی، اسرائیل
اس نے مزید کہا کہ آئی ڈی ایف اسرائیل کی ریاست کے لیے کسی بھی خطرے کو دور کرنے کے لیے اپنا کام جاری رکھے گا اور جنگ بندی کے سمجھوتے کے مطابق "حزب اللہ دہشت گرد تنظیم کی جانب سے اپنی افواج کی تعمیر نو کی کسی بھی کوشش کو روکے گا۔
(جاری ہے)
"
اسرائیلی فوج کا حزب اللہ کے ’انفراسٹرکچر‘ پر حملہ
سات اکتوبر 2023 میں اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان چھٹپٹ جھڑپیں شروع ہوئی تھیں، جس میں بعد میں کافی اضافہ ہو گیا تھا۔
جنگ بندی معاہدے میں فروری کے وسط تک توسیعاسرائیل اور حزب اللہ نے نومبر 2024 میں اسرائیلی افواج اور ایرانی حمایت یافتہ لبنانی مسلح گروپوں کے درمیان 13 ماہ تک جاری رہنے والے تنازع کے بعد ایک جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔
جنوبی لبنان میں لڑائی کے دوران چار فوجی مارے گئے، اسرائیل
جند بندی معاہدے کے ایک حصے کے طور پر حزب اللہ کو لبنان کے دریائے لیتانی کے شمال سے پیچھے کی جانب ہٹنا تھا، جب کہ اسرائیلی فوجیوں کو بتدریج 60 دنوں کے اندر بلیو لائن کے جنوب سے واپس اسرائیل میں واپس جانا تھا۔
لبنان: فائر بندی کی خلاف ورزی کے دعوے، دوبارہ کرفیو نافذ
تاہم دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ گزشتہ ماہ وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ دونوں کے درمیان جنگ بندی میں 18 فروری تک توسیع کر دی گئی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی)