اللہ رب العالمین کے ساتھ عہد بنی آدم
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
تمام نوع انسان کا ایک نہایت اہم اور گہرا روحانی نکتہ اور معاہدہ ہے۔ جو انسان کی حقیقت کو سمجھنے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں کیا گیا ہے۔
ترجمہ:اور جب تیرے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا اور ان کو خود ان کے اوپر گواہ بنایا(اور فرمایا)کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا: بلا شک ! ہم گواہی دیتے ہیں۔(سورۃ العراف 7:172)
یہ عہد آدم علیہ السلام کی بدنی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل اللہ تعالیٰ نے تمام انسان ارواح سے لیا۔ جو اولاد آدم ے طور پر دنیا میں آئیں گے۔
یہ واقعہ ’’عہدِ الست ‘‘کہلاتا ہے، جو انسان کے وجود کے ماورائی پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔ اس عہد میں ہر انسانی روح نے اللہ تعالیٰ کی توحید ربوبیت پر بیک آواز شہادت اور گواہ دی جس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں آنے کے بعد انسان اپنے رب کو پہچانے اور اسی کی اطاعت اور بندگی کرے۔ اسی لئے ہر بچہ اس فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن دنیا میں آنے کے بعد کچھ انسان اپنے عہد کو بھول جاتے ہیں۔ تاہم یہ انسان کی فطری معرفت کے باعث لاشعور میں موجود رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کہتا ہے:یہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا۔(الروم 30:30)
یہ فطرت انسان کے دل میں اللہ کی وحدانیت کی ایک روشنی کی طرح جلتی رہتی ہے، جو اسے حق کی جستجو کی طرف کھینچتی رہتی ہے۔
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ ہم سب نے الست بربکم میں ہاں کہی تھی، لیکن جب جسمانی شکل میں مادی دنیا میں آئے تو عہد الست کو بھول گئے۔
شیخ رومی کے نزدیک انسان کی دنیاوی زندگی ایک یاد دہانی ہے تاکہ وہ اپنی اصل حقیقت اور اس عہد کو دوبارہ پہچان سکے۔
شیخ اکبر ابن عربی کے مطابق، یہ عہد ایک الہامی شعور (Divine Consciousness) کی نمائندگی کرتا ہے۔ انسان کی روح درحقیقت اللہ کے نور سے جڑی ہوئی ہے، اور دنیاوی پردے اسے اس حقیقت سے غافل کر دیتے ہیں۔
حدیثِ نبوی ﷺ کے مطابق رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
(صحیح البخاری)
یہ حدیث اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ معرفتِ الٰہی کا بیج ہر انسان کے دل اور روح میں موجود رہتا ہے۔
عہدِ الست انسان کی حقیقت کی بنیاد ہے۔ یہ یاد دہانی ہے کہ ہم سب نے اپنے رب کے سامنے اس کی ربوبیت کا اقرار کیا ہے۔ دنیاوی زندگی کا مقصد اسی عہد کو یاد رکھنا اور اپنی روح کو اس روشنی کی طرف واپس لانا ہے جس کی گواہی ہم نے دی تھی۔کیونکہ یہ انسان کی تخلیق کے ماقبل حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ عبادت ذکر و تسبیح کا مقصد اس عہد کا شعور بیدار رکھنا اور اللہ کی بندگی پر قائم رہنا تاکہ عہد الست ، شیطان ہمیں بھلا نہ دے۔ تخلیق آدم اور اسے تمام مخلوقات پر شرف دینے کے لئے جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق پر سجدہ تکریم آدم کا حکم دیا تو شیطان کے سوا سب نے تعمیل حکم ربانی میں حضر آدم کو سجدہ تکریم کیا۔ اس حکم الٰہی کی نافرمانی پر شیطان راند درگاہ ہوا۔ اور انسان کا ازلی دشمن بن گیا اور اس نے کہا اے اللہ میں ان سب کو گمراہ کروں گا سواے بندگان مخلصین کے۔ آئیے ہم مخلص مومن بن کر شیطان کی گمراہ کن چالوں سے بچ جائیں۔
دعا ہے کہ اللہ ہمیں مخلص مومن بننے کی توفیق دے اور شیطان کے بہکاوے سے اپنی رحمت خاص سے بچا لے امین۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انسان کی دنیا میں اور اس
پڑھیں:
مال کتنا اور کیسے خرچ کیا جائے؟
اسلام ایمان کے عملی ظہور کا دوسرا نام ہے۔ ایمان بیج ہے تو اسلام اس کا درخت ہے۔ جہاں ایمان ہوگا، اخلاق میں برتائو، تعلقات کے کٹنے اور جڑنے، سعی اور جدوجہد کے راستوں میں اس کا ظہور ہوگا۔ گویا ایمان کا اظہار عملِ صالح کی شکل میں ہوتا ہے۔ آیت البرّ (لَیسَ البِرَّ …الخ) میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے تذکرے کے بعد سب سے پہلے جس عملِ صالح کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے وہ اس کی راہ میں اس کے بندوں پر مال خرچ کرنا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
’’اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے‘‘۔ (البقرہ: 177)
یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے ضرورت مند بندوں پر مال خرچ کیا جائے یہ فطری سوال اْٹھتا ہے کہ ان پر کتنا اور کس طرح خرچ کیا جائے؟ اگرچہ اللہ نے یہاں اس کا جواب نہیں دیا ہے لیکن قرآن میں دوسری مختلف جگہوں پر ان کے جوابات ہمیں ملتے ہیں۔ ایک جگہ لوگوں کے اسی سوال کا کہ کتنا مال خرچ کیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو جو کچھ تمھاری ضروریات سے زیادہ ہو‘‘۔ (البقرہ: 219)
یعنی جو مال کسی کی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ کس کی کیا ضروریات ہیں؟ اس کا صحیح علم تو خرچ کرنے والا ہی جانتا ہے لیکن اللہ جانتا ہے کہ انسان فطرتاً بخیل ہے:
’’کہیے، اگرکہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمھارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے، واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: 100)
اسی لیے وہ کہتا ہے کہ انسان نہ تو بالکل ہی مال روک کر بخل کا مظاہرہ کرے اور نہ ہی بے تحاشا خرچ کرکے ضرورت سے زیادہ فیاضی دکھائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ خرچ کرنے والا انسان بعد میں خود ہی اپنی حالت پر ملامت و حسرت کا اظہار کرے:
’’نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو‘‘۔ (بنی اسرائیل: 29)
دوسرے معنوں میں ان ضرورت مندوں پر مال خرچ کرنے میں میانہ روی کا طریقہ اپنایا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بخیلی کا مظاہرہ ہو یا اسراف کا مظاہرہ دونوں ہی ناپسندیدہ کام ہیں۔ اللہ کو ایسے اعمال سے کراہت آتی ہے:
’’ان امور میں سے ہر ایک کا بْرا پہلو تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: 38)
ایک حدیث کے مطابق رسول اللہؐ نے بھی سیدنا سعدؓ بن وقاص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنا ایک تہائی مال اللہ کی راہ میں صدقہ اور خیرات کرسکتے ہو اور اتنا نہ صدقہ کرو کہ اپنی اولاد کو اس حالت میں چھوڑ کر جائو کہ وہ دوسروں کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلائیں۔ ایک اور حدیث سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال ہی اللہ کی راہ میں صدقہ یا خیرات کیا جانا چاہیے۔
ایک مسافر صحرا سے گزر رہا تھا کہ اس نے فضا میں ایک آواز سنی جو بادلوں سے کہہ رہی تھی کہ وہ فلاں شخص پر برسیں۔ وہ شخص بادلوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ بادل ایک پہاڑی پر برس گئے۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر کوئی نظر نہیں آیا۔ پہاڑوں پر برسنے والا پانی بہتا ہوا ایک نالے میں بہنے لگا۔ مسافر اس نالے کے بہائو کے ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دْور جاکر اس نے دیکھا کہ اس نالے سے ایک بوڑھا شخص اپنے کھیت کو سیراب کر رہا ہے۔ مسافر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنی فصل کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک حصہ وہ اپنے بال بچوں کی ضروریاتِ زندگی پر خرچ کرتا ہے۔ دوسرے حصے سے وہ نئی کاشت کے لیے بیج اور کھاد وغیرہ کا انتظام کرتا ہے اور تیسرا حصہ وہ سب کا سب اللہ کی راہ میں صدقہ کردیتا ہے۔
ان دونوں احادیث سے ہمیں ’العفو‘ یا ضرورت سے زائد مال کی بڑی اچھی تشریح ملتی ہے لیکن اگر مال اْمت کی بقایا سرحدوں کی حفاظت یا جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر دیا جا رہا ہے تو جس سے جتنا ہوسکے دے اور میانہ روی اختیار نہ کرے۔ ایسے انفاق کی بہترین مثالیں وہ ہیں جن میں غزوئہ تبوک کے موقع پر سیدنا ابوبکر صدیقؓ اپنا سارا ہی مال لے آئے اور سیدنا عمر فاروقؓ اپنی ساری ہی چیزوں کو آدھا آدھا تقسیم کر کے لے آئے۔ ایک غریب اور مسکین شخص نے جس کے پاس کچھ نہ تھا۔ ساری رات ایک یہودی کا باغ سینچا اور صبح معاوضے کے طور پر اس کو جو کھجوریں ملیں اس میں سے آدھی اس نے رسول اللہؐ کی خدمت میں پیش کردیں۔ آپؐ نے اس کی کھجوروں کو سارے مال پر پھیلا دیا اور فرمایا کہ یہ راس المال ہے۔
اس سوال کہ ’’کس طرح خرچ کیا جائے؟‘‘ کا جواب بھی ہمیں قرآن میں مختلف جگہوں پر ملتا ہے، مثلاً ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اگر اپنے صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تو یہ تمھارے حق میں زیادہ بہتر ہے‘‘۔ (البقرہ: 271)
ایک حدیث کے مطابق اس طرح دیا جائے کہ اگر داہنا ہاتھ دے تو بائیں ہاتھ کو بھی پتا نہ چلے۔ گویا چھپا کر دیا جائے تاکہ لینے والے کی خودداری اور عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ لیکن اگر کسی اجتماعی کام کے لیے دیا جا رہا ہو یا کسی ادارے کو دیا جا رہا ہو تو علی الاعلان دیا جائے تاکہ دیکھنے والے کے اندر بھی دینے کی تحریک پیدا ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ انفاق کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں:
’’جو لوگ اپنے مال شب وروز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں‘‘۔ (البقرہ: 274)
ایک حدیث کے مطابق صدقہ دینے کا بہترین وقت وہ ہے جب دینے والا جوان اور صحت مند ہو اور اس کی اپنی ضروریات ہوں اور اسے اپنے افلاس کا ڈر بھی ہو نہ کہ جب وہ قریب المرگ ہو اور پھر یہ کہے کہ یہ فلاں کے لیے اور یہ فلاں کے لیے ہے تو مال اب اس کا نہیں رہا اور یہ فلاں اور فلاں ہی کا ہوگیا۔
مختصراً یہ کہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ان کو سمجھنا چاہیے کہ مال و اولاد تو آرام و آسایش کے وقتی سامان ہیں اور اللہ کی راہ میں انفاق جیسے اعمالِ صالحہ ہی آخرت کا سامان ہیں:
’’یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انھیں سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں‘‘۔ (الکھف: 46)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی راہ میں زیادہ سے زیادہ انفاق کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو انفاق ہم نے کیا ہے اس کو قبول فرمائے، آمین!