چین میں نویں ایشین ونٹر گیمز کا افتتاح ،پاکستان سمیت 34 ممالک اور خطوں کے 1275 کھلاڑی شریک
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
چین میں نویں ایشین ونٹر گیمز کا افتتاح ،پاکستان سمیت 34 ممالک اور خطوں کے 1275 کھلاڑی شریک WhatsAppFacebookTwitter 0 7 February, 2025 سب نیوز
بیجنگ : نویں ایشین ونٹر گیمز کا افتتاح چین کے صوبے ہیلونگ جیانگ کے شہر ہاربن میں شاندار انداز میں جمعہ کے روز ہوا ۔ بیجنگ ونٹر اولمپکس 2022 کے بعد، سرمائی کھیلوں کے حوالے سے یہ چین کی جانب سے منعقد کئے جانے والے ونٹر گیمز کا ایک اور بین الاقوامی ایونٹ ہے ۔ یہ ایونٹ نہ صرف ایشیا کے سرمائی کھیلوں کے خواب کو سمیٹے ہوئے ہے، بلکہ اس کی عملی اہمیت گہری اور کثیر الجہت بھی ہے ۔ایشین ونٹر گیمز اور ونٹر اولمپکس جیسے بین الاقوامی مقابلوں کی بدولت، سرمائی کھیل چین سمیت پورے ایشیا میں پہلے سے کہیں
زیادہ مقبول ہو چکے ہیں۔چین میں ایک زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ “سرمائی کھیل شان ہائی گوان گزرگاہ سے جنوب کی جانب نہیں جاتے”۔شان ہائی گوان کے شمال میں چین کے سردعلاقے ہیں۔ تاہم، اب یہ کھیل سرد علاقوں تک محدود نہیں رہے، بلکہ پورے ملک میں ان کھیلوں کے لئے مخصوص مقامات کی تعمیر اور سہولیات کے بعد اب زیادہ لوگ سرمائی کھیلوں کے جوش اور خوشی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ایشیا میں بھی برفانی کھیل جغرافیائی حدود کو توڑ رہے ہیں۔ ہاربن ایشین ونٹر گیمز 2025 میں 34 ممالک اور خطوں کے 1275 کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ چین، جاپان، جنوبی کوریا، اور قازقستان جیسے سرمائی کھیلوں کے روایتی ممالک کے علاوہ، کمبوڈیا، بھوٹان، اور سعودی عرب جیسے ممالک نے بھی پہلی بار اپنے کھلاڑی بھیجے ہیں ، جبکہ افغانستان اور بحرین 2017 کے ایشین ونٹر گیمز میں شامل نہ ہونے کے بعد اس بار دوبارہ ان مقابلوں میں شامل ہوئے ہیں۔1986 میں پہلے ایشین ونٹر گیمز کے بعد سے، ایشیا میں سرمائی کھیلوں نے زبردست ترقی کی ہے۔
شریک ٹیموں کی تعداد 7 سے بڑھ کر 34 ہو گئی ہے، اور کھلاڑیوں کی تعداد 293 سے بڑھ کر موجودہ ایونٹ میں 1275 تک پہنچ گئی ہے ۔ شرکاء ممالک کا تعلق اب صرف سرد علاقوں سے نہیں بلکہ ان مقابلوں کا دائرہ گرم اور نیم گرم خطوں تک وسیع ہوا ہے اور معیار بہتر ہو رہا ہے۔ ان مقابلوں نے نہ صرف زیادہ افراد کو سرمائی کھیلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی ہے، بلکہ ایشیا میں برفانی کھیلوں کی مجموعی صلاحیت کو بھی نئی توانائی بخشی ہے۔ یہ موسم اور جغرافیائی حدود کو توڑنے میں کھیلوں کا جادو چلنے کی ایک زندہ مثال ہے۔پاکستان سرمائی کھیلوں میں ایک طویل تاریخ اور روایت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اسکیئنگ ریزورٹس کے انتظام میں۔ پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں، مقامی لوگ بچپن ہی سے ان کھیلوں سے واقف ہوتے ہیں ۔
بیجنگ ونٹر اولمپکس اور ہاربن ایشین ونٹر گیمز کی افتتاحی تقریبات میں پاکستانی قیادت کی شرکت نہ صرف چین-پاکستان دوستی کی عکاس ہے ، بلکہ سرمائی کھیلوں کے لیے پاکستان کی اعلیٰ سطحی حمایت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ایشین ونٹر گیمز کھیلوں کا ایک ایونٹ ہے، لیکن اس کا اثر کھیلوں سے کہیں زیادہ ہے۔مثال کے طور پر، برف سے جڑی معیشت کے فروغ کے حوالے سے بات کی جائے تو ان گیمز کے انعقاد اور کھیلوں کی مقبولیت نے برف اور برف سے جڑے کھیلوں کے سامان کی صنعت کو تیزی سے ترقی دی ہے، اور اس معیشت کو نئی توانائی بخشی ہے۔
ہیلونگ جیانگ صوبے کی مثال لیں تو ہاربن کے آئس اینڈ سنو ورلڈ اور یابولی اسکیئنگ ریزورٹ جیسے مقامات کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی ہے، اور آنے والے سیاحوں کی بڑی تعداد نے مقامی ہوٹلوں، کیٹرنگ اور نقل و حمل کے شعبوں کو بڑے مواقع فراہم کیے ہیں۔ چین کے شمال مشرقی صوبے ہیلونگ جیانگ،جی لین اور لیاؤ نینگ، سنکیانگ ویغورخوداختیار علاقے اور اندرونی منگولیا خوداختیار علاقے جیسے سرد علاقوں نے مسلسل نئے کاروباری ماڈلز تخلیق کیے ہیں، جس نے کنزیومر مارکیٹ کو مزید فروغ دیا ہے۔ایشین ونٹر گیمز کا اثر ماحولیاتی تحفظ کے تصورات کے فروغ کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے ۔ 1996 کے ہاربن ایشین ونٹر گیمز کا ماسکوٹ ایک سویا بین تھا، جو ہاربن کی زرعی بنیاد اور ماحولیاتی نظام کی علامت تھا اور فطرت کے احترام اور قدر کی عکاسی کرتا تھا جب کہ 2025 کے ہاربن ایشین ونٹر گیمز کے ماسکوٹ “بن بن” اور “نی نی”نامی دو سائبیرین ٹائیگرز ہیں، جو ستمبر 2023 میں ہیلونگ جیانگ نارتھ ایسٹ ٹائیگر پارک میں پیدا ہوئے تھے۔ سائبیرین ٹائیگر، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی ایک اہم نوع، طاقت اور ہمت کی علامت ہے۔
چین میں تقریباً ناپید ہونے والے ان ٹائیگرز کو حالیہ برسوں میں چین کے صوبے ہیلونگ جیانگ میں کئی بار دیکھا گیا ہے ۔ یہ نہ صرف چین کے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں کی جانے والی کوششوں کے کامیاب نتائج کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ بین الاقوامی ماحولیاتی تعاون کی بھی ایک قابل تقلید مثال ہے۔ جنگلات اور گھاس کے امور کی قومی انتظامیہ کے ایک ریسرچ فیلو کے مطابق، “سائیبیرین ٹائیگر کا گھر بہت بڑا ہے، اور اس کے لیے کوئی سرحدیں نہیں ہیں”۔ اس لیے چین اور پڑوسی ملک روس سرحد پار ماحولیاتی راہداریاں بنا رہے ہیں تاکہ انہیں مستحکم رہائش گاہ فراہم کی جا سکے۔یقیناً، جانوروں سمیت ماحولیاتی تحفظ کی کوئی سرحدیں نہیں ہیں، کھیلوں کی کوئی سرحدیں نہیں ہیں، اور تعاون کی بھی کوئی سرحدیں نہیں ہیں۔ یہ خیال اس ایونٹ کے سلوگن ” ڈریم اف ونٹر ،لو امنگ ایشیا (موسم سرما کا خواب ،ایشیا کے درمیان محبت )” سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ یقین ہے کہ تمام فریقوں کی مشترکہ کوششوں سے، ایشین ونٹر گیمز تعاون کا ایک پل بنیں گے اور ایشیا کے مختلف خطوں کو ملا کر ایک بہتر مستقبل کی طرف لے جائیں گے ۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ایشین ونٹر گیمز کا چین میں
پڑھیں:
پی ایس ایل سیزن 10 کا آج سے آغاز، مگر اتنی خاموشی کیوں ہے؟
تو آج سے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 10ویں سیزن کا باقاعدہ آغاز ہورہا ہے، مگر شاید یہ پہلا سیزن ہے جس کے شروع ہونے سے پہلے ہی متعدد تنازعات نے جنم لیا اور اب تک لے رہے ہیں۔ مگر ان تمام تر تنازعات کے باوجود مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس بار لیگ کا وہ ماحول نہیں بن سکا جو اس سے پہلے بنتا چلا جارہا تھا، حالانکہ تنازعات تو بنائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ خوب ماحول بنے۔
تو چلیے ایک ایک کرکے تنازعات پر بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو غیر ملکی کھلاڑیوں کی دستیابی پر باتیں بنیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جن کھلاڑیوں کو انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں منتخب نہیں کیا گیا وہ پاکستان آگئے۔
بالکل ایسا ہی ہوا ہے اور میرا خیال ہے کہ نہ اس میں شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے اور نہ احساس کمتری کا شکار ہونے کی، کہ ہمارا جو سائز ہے، ہمارا جو بجٹ ہے اس کے مطابق ہی کھلاڑی اس لیگ کا انتخاب کریں گے۔ دوسری بات یہ کہ یہ باتیں اس لیے بھی ہوتی ہیں کہ ہم غیر ضروری طور پر آئی پی ایل سے متاثر ہیں اور ہر چیز کا اسی سے مقابلے کرتے ہیں، حالانکہ دنیا بھر کی دیگر لیگز دیکھ لیں آپ کو کہیں بھی صف اول کے کھلاڑی نظر نہیں آئیں گے مگر اس کے باوجود بگ بیش لیگ بھی چل رہی ہے اور دی ہنڈریڈ بھی۔
ہمارے لوگوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمیشہ دوسروں سے مرعوب رہتے ہیں، حالانکہ یہ ایک عام فطرت ہے کہ جس کھلاڑی کو جہاں زیادہ پیسے ملیں گے وہ وہیں جائے گا، تو جب تک ہم آئی پی ایل سے زیادہ بجٹ نہیں بناسکتے تب تک یہ صورتحال رہے گی اور اسی کے مطابق ہمیں آگے بڑھنا پڑے گا۔ پھر ایک اور معاملہ بھی ہے جس پر ہم توجہ نہیں دیتے۔
یہ جو غیر ملکی کھلاڑی ہیں انہیں ایک ایسا ماحول بھی چاہیے ہوتا ہے جس میں وہ خود کو اجنبی محسوس نہ کریں، اگر آپ کا آئی پی ایل دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہاں ہر کھلاڑی انگریزی میں بات کرسکتا ہے اور غیر ملکی کھلاڑی خود کو ان سے الگ محسوس نہیں کرتے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں معاملہ مختلف ہے۔ حتیٰ کہ 5 ٹیموں کے کپتان بھی غیر ملکی کھلاڑیوں سے کمیونیکیشن نہیں کرپاتے بلکہ ٹیم میٹنگ بھی اردو زبان میں ہورہی ہوتی ہے، تو یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں غیر ملکی کھلاڑی خود کو الگ الگ محسوس کرتے ہیں۔
جب میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جس کھلاڑی کو جہاں زیادہ پیسے ملیں گے وہ وہیں جائے گا تو اس کو ثابت کرنے کے لیے میرے پاس مثالیں بھی ہیں۔ سب سے پہلے ہیری بروک کی مثال لے لیتے ہیں۔ ہیری بروک کو دہلی کیپیٹل نے خریدلیا مگر جب بروک کو یہ لگا کہ جن پیسوں میں انہیں خریدا گیا وہ کم ہیں تو انہوں نے آئی پی ایل نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور اس بات پر آئی پی ایل نے ایکشن لیتے ہوئے ہیری بروک پر 2 سال کی پابندی لگادی۔
بالکل اسی طرح جنوبی افریقی کھلاڑی کاربن بوش پر پی ایس ایل نے پابندی لگائی کیونکہ پشاور زلمی نے انہیں ڈائمنڈ کیٹیگری میں منتخب کیا تھا، مگر بعد میں آئی پی ایل میں ممبئی انڈینز نے ایک کھلاڑی کے انجرڈ ہونے کی صورت میں بوش کو پک کرلیا اور یوں انہوں نے پی ایس ایل چھوڑ کر آئی پی ایل کا انتخاب کرلیا۔
یہ دونوں مثالیں بتاتی ہیں کہ اب کھلاڑی کے لیے سب سے بڑھ کر اہمیت پیسوں کی ہے، جو زیادہ پیسے دے گا وہ کھلاڑی اسی کا ہوجائے گا پھر چاہے وہ لیگ چھوٹی ہو یا بڑی، یہ غیر اہم بات ہوگئی ہے۔
دوسرا تنازعہ علی ترین کے بیان کے بعد پیدا ہوا جس میں انہوں نے اس بات پر اعتراض اٹھایا کہ پی ایس ایل 10 کس طرح ماضی سے بڑی اور بہتر لیگ ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے کھوکھلے دعوؤں سے بچنا چاہیے کہ اس بار نہ ٹیموں میں اضافہ ہوا، نہ اسٹیڈیمز میں اور نہ کسی بھی دیگر پہلو میں کوئی بہتری دیکھنے میں نظر آئی۔
علی ترین کے اس بیان کے فوری بعد سلمان اقبال کا جوابی بیان آیا اور انہوں نے علی ترین کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ایس ایل پاکستان کی پہچان ہے اور اس بارے میں ایسے بیانات افسوسناک ہیں، حالانکہ میری نظر میں علی ترین کی بات بالکل ٹھیک ہی تھی۔
علی ترین نے تنقید سے زیادہ لیگ انتظامیہ کو جگانے کی کوشش کی کہ جناب بتدریج پی ایس ایل نیچے کی طرف آرہی ہے، اس میں وہ کلر اب نظر نہیں آرہا جو ماضی میں آتا تھا، اس میں عوام کی وہ دلچسپی بھی نظر نہیں آرہی جو پہلے آتی تھی، اور جب تک اس بات کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تب تک چیزیں بہتر بھی نہیں ہوسکیں گے۔
اب آپ خود دیکھیے کہ گزشتہ 9 سالوں میں ہم اب تک ہوم اور اوے میچز نہیں کروا سکے۔ پشاور اور کوئٹہ کے اسٹیڈیمز اب تک بحال نہیں ہوسکے، یعنی جب تک 2 صوبے اس پورے معاملے سے الگ رہیں گے تب تک عوامی مقبولیت میں اضافہ کیسے ہوگا؟
ان تمام تر حالات کی موجودگی میں لیگ بائیکاٹ کی مہم نے بھی پریشانی میں اضافہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اب لوگ دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ جب تک غیر ملکی مصنوعات کے اشتہارات ختم نہیں کیے جائیں گے تب تک وہ لیگ نہیں دیکھیں گے۔
اس بائیکاٹ مہم کا اثر کتنا ہوتا ہے یہ تو آنے والے دنوں میں معلوم چلے گا مگر اس مہم کی وجہ سے لوگوں میں تقسیم واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
یہ وہ سارے پہلو ہیں جس پر پی ایس ایل انتظامیہ کو غور کرنا چاہیے، ہم محض یہ بات کہہ کر لوگوں کو توجہ حاصل نہیں کرسکتے کہ پی ایس ایل پاکستان کی پہچان ہے، بلکہ اسے بہتر اور دلچسپ بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، اگر ایسا کچھ نہیں ہوا تو صورتحال مزید خراب بھی ہوسکتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔