پاکستان کی معاشی سرگرمیاں مستحکم اور شرح سود میں کمی سے بہتر ہورہی ہیں: فچ رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک) معاشی درجہ بندی کے ادارے فچ نے پاکستان کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی سرگرمیاں مستحکم اور شرح سود میں کمی سے بہتر ہورہی ہیں۔فچ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان معاشی استحکام کی بحالی پر پیشرفت کررہا ہے، پاکستان کی ساختی اصلاحات میں پیشرفت اس کے قرض پروفائل کے لیے اہم ہے، مشکل اصلاحات پرپیشرفت آئی ایم ایف جائزے، دوطرفہ اورکثیرجہتی فنانسنگ کے لیے ہے۔ فچ رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کا شرح سود 12 فیصد کرنا صارف مہنگائی کم ہونے کی دلیل ہے، اوسط مہنگائی جون تک 24 فیصد تھی جو جنوری میں 2 فیصد سے کچھ زائد رہی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ معاشی سرگرمیاں مستحکم اور شرح سود میں کمی سے بہتر ہورہی ہیں جب کہ معاشی نمو 3 فیصد رہنے کے اندازے ہیں۔اس کے علاوہ ترسیلات، زرعی برآمدات، سخت مانیٹری پالیسی سےکرنٹ اکاؤنٹ کھاتہ 1.
ہسپتال میں نرس نے بچے کے زخموں کو ٹانکے لگانے کے بجائے ایلفی سے جوڑ دیا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف رپورٹ میں
پڑھیں:
پاکستان: افغان مہاجرین کی جبری واپسی کے معاشی اثرات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) حالیہ چند روز میں پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل میں تیزی لائی گئی ہے، جس سے خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کی معاشی مشکلات میں اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل سے نہ صرف معیشت متاثر ہوگی بلکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بھی داؤ پر لگ سکتے ہیں۔
افغان مہاجرین کی واپسی کا عملحکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ عالمی اداروں کے مطابق ان میں سے تقریباً ساڑھے 13 لاکھ رجسٹرڈ ہیں، جبکہ ساڑھے آٹھ لاکھ کے پاس افغان سیٹیزن کارڈز موجود ہیں۔ دس لاکھ سے زائد افراد بغیر کسی قانونی دستاویز کے رہائش پذیر ہیں۔
(جاری ہے)
روزانہ 200 کے قریب افغان مہاجرین پاک-افغان سرحد طورخم کے راستے واپس جا رہے ہیں۔
گزشتہ روز پنجاب کے 10 اضلاع سے 1437 افراد کو بائیومیٹرک تصدیق کے بعد افغانستان روانہ کیا گیا۔پشاور میں مقیم افغان باشندوں کی بڑی تعداد نے ڈیڈلائن سے قبل ہی پاکستان چھوڑ دیا تھا، لیکن بہت سے تاجروں کو یقین تھا کہ حالیہ ڈیڈلائن میں توسیع کی جائے گی۔ تاہم اب کاروباری طبقہ بھی واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہے، جو معیشت پر منفی اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔
معاشی اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟افغان مہاجرین کی واپسی سے خیبر پختونخوا اور پاکستان کی مجموعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔ پشاور کے تاجر برادری کا کہنا ہے کہ افغان تاجروں نے ہزاروں کی تعداد میں سرمایہ کاری کی، جس سے مقامی معیشت کو سہارا ملا۔ سرحد چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر عبدالجلیل جان نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان نے چار دہائیوں تک افغان مہاجرین کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا، انہوں نے یہاں کاروبار شروع کیے، جائیدادیں خریدیں، لیکن اچانک انہیں جانے کا کہنا دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کو متاثر کرے گا۔
‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے زیادہ تر کاروبار افغان تاجروں کے ہاتھ میں ہیں اور ان کے اچانک انخلا سے معاشی بحران پیدا ہو گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور کی گولڈ مارکیٹ میں 80 فیصد کاروبار افغان تاجروں کے پاس ہے، جبکہ کرنسی ایکسچینج، کارپیٹ، جیولری، قیمتی پتھروں، ہوٹلوں، الیکٹرانکس اور کپڑوں کے کاروبار میں بھی ان کا بڑا حصہ ہے۔
پاک-افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر ضیاالحق سرحدی کا کہنا ہے، '' افغان تاجروں نے کراچی اور لاہور میں بڑے صنعتی یونٹس قائم کیے، جن سے سینکڑوں پاکستانیوں کو روزگار ملتا ہے۔ ان کے جانے سے نہ صرف سرمایہ کاری ختم ہو گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی کم ہوں گے۔‘‘ حکومتی پالیسی پر تنقیدتاجر برادری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو نکالنے سے قبل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، جیسے سرحد چیمبر، پاک-افغان جائنٹ چیمبر اور افغان تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے۔
عبدالجلیل جان کے مطابق، ''حکومت کو چاہیے تھا کہ ایک جامع پالیسی بنائی جاتی تاکہ معاشی نقصان سے بچا جا سکے۔‘‘ ضیاالحق سرحدی نے تجویز دی کہ سرمایہ کاری کرنے والے افغان تاجروں کو ریلیف دیا جائے، جیسا کہ یورپ اور دیگر ممالک میں کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنا کاروبار افغانستان منتقل کر سکیں۔ سیاسی و معاشرتی خدشاتماہرین کے مطابق افغان مہاجرین کی واپسی سے بدامنی اور سیاسی عدم استحکام بڑھ سکتا ہے۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال، جہاں انفراسٹرکچر تباہ حال ہے اور کاروباری مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، افغان تاجروں کو دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کے لیے مجبور کر رہی ہے۔ اس صورتحال سے امتیازی سلوک اور تشدد کے واقعات بڑھنے کا خطرہ ہے۔مزید برآں افغان تاجروں کی جبری واپسی سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا خدشہ ہے، جو پاکستان کے سرحدی علاقوں کے معاشی استحکام کے لیے اہم ہے۔
پشاور میں افغان تاجر اتحاد کے صدر حاجی نصیب شاہ کا کہنا تھا، ''ہمارا 40 سالہ کاروبار ایک ماہ میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ ہمارے بچوں کی تعلیم یہاں جاری ہے، جبکہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔‘‘ ثقافتی و سماجی نقصانخیبر پختونخوا میں افغان کمیونٹی کئی دہائیوں سے معاشی اور سماجی طور پر فعال ہے۔ بہت سے افغان باشندوں نے پاکستان میں ہی شادیاں کیں اور ان کی تیسری نسل پاکستان کو اپنا وطن سمجھتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان کی جبری واپسی سے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔