معاشرے میں صلہ رحمی کی اہمیت وضرورت
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
٭آپؐ نے فرمایا جو تجھے محروم کرے اسے عطا کر، جو تجھ پر ظلم کرے اسے معاف کر، اور جو تجھ سے(رشتہ داری اور تعلق) توڑے، تو اس سے جوڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صلہ رحمی سے مراد ہے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا، آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنا، دکھ، درد، خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔
الغرض اپنے رشتہ کو اچھی طرح سے نبھانا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا، ان پر احسان کرنا، ان پر صدقہ و خیرات کرنا، اگر مالی حوالے سے تنگدستی اور کمزور ہیں تو ان کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے،
صلہ رحمی میں اپنے والدین، بہن بھائی، بیوی بچے، خالہ پھوپھی، چچا اور ان کی اولادیں وغیرہ یہ سارے رشتہ دار صلہ رحمی میں آتے ہیں، اپنے والدین کے دوست احباب جن کے ساتھ ان کے تعلقات ہوں، ان سب کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے،
جب ان رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، ان کے حقوق پورے نہیں کیے جائیں گے، ان کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہی قطع رحمی کہلاتی ہے۔ یعنی اپنے رشتہ داروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا،
قر آن پاک میں ارشاد ہے،ترجمہ: قرابت والے کو مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو۔ یہ بات ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہوں گے( سورہ روم آیت 38)ترجمہ: نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو( النساء: 1)
علا وہ ازیں اللہ جل شانہُ فرماتے ہیں ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین سے، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے اچھا برتاؤ کرو گے، لوگوں سے بھلی باتیں کہو گے، نماز کو قائم کرو گے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے(البقرۃ: 83)
حضرت جبیر بن مطعمؓ نے خبر دی، کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپؐ نے فرمایا ‘‘قاطع رحم جنت میں داخل نہ ہو گا’’ (رواہ البخاری،5984)رشتہ ناطہ توڑ دینا یا رشتہ داری کا پاس و لحاظ نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں بے حد مبغوض ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا ‘‘ قیامت کے دن رحم (جو رشتہ داری اور تعلق کی بنیاد ہے) عرش ِالٰہی پکڑ کر کہے گا، کہ جس نے مجھے دنیا میں جوڑے رکھا، آج اللہ تعالی بھی اسے جوڑے گا (یعنی اسے انعام و اکرام عطا کرے گا) اور جس نے مجھے(دنیا میں) کاٹا اسے آج اللہ بھی کاٹ کر رکھ دے گا یعنی سزا دے گا(رواہ البخاری5989)
احادیث سے ثابت ہے کہ دنیا میں دو گناہ ایسے ہیں جن کی آخرت کی سزا کے ساتھ دنیا میں بھی سزا ملے گی ایک ظلم اور دوسرے قطع رحمی (ابن ماجہ،4211)صلہ رحمی کرنے والے کو دنیا و آخرت دونوں میں بھلائیاں ملتی ہیں، جیسے صلہ رحمی دخول جنت کا ذریعہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘کوئی نیکی ثواب میں صلہ رحمی سے زیادہ نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی گناہ ایسا ہے کہ اللہ اس کے کرنے والے کو دنیا میں جلد سزا دے، اور اس کے بعد آخرت کا عذاب بھی ہوگا، سوائے سرکشی اور قطع رحمی کے’’ (رواہ الترمذی،2511)ایک شخص رسول اللہ ؐ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ، میں نے ایک بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے کیا میری مغفرت ہو سکتی ہے؟ آپؐ نے پوچھا کیا تیری ماں زندہ ہے؟ اس نے کہا نہیں آپﷺ نے پوچھا اور خالہ ؟ اس نے کہا وہ زندہ ہیں، آپؐ نے فرمایا: پس ان سے نیکی کر’’(رواہ الترمذی،1904)اس سے معلوم ہوا کہ بڑے گناہ کا صدور ہو جائے تو بڑی نیکیاں ان کے مٹانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور گناہ کے بوجھ میں دبے ہوئے شخص کو صلہ رحمی کے ذریعے مغفرت کی امید دلائی گئی ماں کی خدمت کرنے کا موقع ہاتھ سے نکل جائے تو خالہ سے حسن سلوک بھی مغفرت کا ایک دروازہ ہے ایک اور جگہ فرمایا ‘‘مسکین کو خیرات دینا صدقہ ہے، اور رشتہ دار کو دینا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی’’ (سنن النسائی، ابن ماجہ و الترمذی، حدیث حسن)
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ نے بیان کیا کہ ان کی مشرکہ والدہ ان سے ملنے آئیں اور وہ ان سے کچھ مال چاہتی تھیں، تو میں نے رسول اللہؐ سے پوچھا، کیا میں ان سے صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا ‘‘ہاں’’ (رواہ البخاری،5978؛سنن ابی داؤد، احمد)حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے تو اس کی عمر میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اس کا مال کثیر اور اس کے اہل میں اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے ،آپؐ کا ارشاد ہے ‘‘صلہ رحمی کرو اگرچہ سلام کے ساتھ ہو’’ (مجمع الزوائد152-8)حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں تین قسم کے لوگ اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوں گے، صلہ رحمی کرنے والا، اس کی عمر بھی لمبی کر دی جاتی ہے، اور رزق کشادہ کر دیا جاتا ہے،وہ عورت کہ جس کا شوہر یتیم بچے چھوڑ کر مر جائے، پھر وہ ان کی پرورش کرتے کرتے انہیں مالداری تک پہنچا دے یا وہ مر جائیں، وہ شخص جو یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین صفات ایسی ہیں وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ اس سے آسان حساب لے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا۔صحابہ کرامؓ نے پوچھا: کن (صفات والوں) کو؟ آپؐ نے فرمایا جو تجھے محروم کرے اسے عطا کر، جو تجھ پر ظلم کرے اسے معاف کر، اور جو تجھ سے(رشتہ داری اور تعلق) توڑے، تو اس سے جوڑ، صحابیؓ نے پوچھا اگر میں ایسا کرو تو مجھے کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا تجھ سے آسان حساب لیا جائے گا اور تجھے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جنت میں داخل کر دے گا’’ (مستدرک علی صحیحین، 3842)
حضرت عمروبن شعیب ؒ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، اور شکایت کی کہ میرے کچھ قریبی رشتہ دار ہیں جو میرے ساتھ قطع رحمی کرتے ہیں، میں معاف کرتا ہوں اور وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں۔ میں ان سے حسنِ سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بد خوئی کرتے ہیں، کیا میں انہیں اس کا بدلہ دوں؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں تب تو تم سب ایک سے ہو جاؤ گے، لیکن فضیلت حاصل کر اور صلہ رحمی کر، اللہ کی جانب سے تیرا ہمیشہ مدد گار مقرر رہے گا جب تک تو اسی حالت پر رہے گا’’ (رواہ مسلم، 2558)صلہ رحمی ہر دور میں کی جا سکتی ہے ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کی وہ استطاعت رکھتا ہو، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مثلاً ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرے، ان کے ساتھ اچھی گفتگو کرے، ان کے گھر جا کر حال احوال دریافت کرے۔ ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے، غمی خوشی میں شریک ہو۔ یہ ساری باتیں صلہ رحمی میں آتی ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ترجمہ یہ نافرمان وہ لوگ ہیں جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں(البقرۃ، 2: 27)
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم دیا ہے، اگر اس کیخلاف کریں گے تو یقیناً دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہونگے۔ اسی طرح بے شمار آیات میں اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور حضور نبی اکرمﷺ نے بھی احادیث مبارکہ میں آپس میں صلہ رحمی کا حکم دیا ہے صلہ رحمی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا ہے اور قطع رحمی پر وعید سنائی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں، ایسا نہ ہو کہ جو رشتے دار غریب ہوں، غربت کی وجہ سے ان سے تعلقات ختم کر لیں اور ان کو اپنا رشتہ دار سمجھنا اور کہنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اپنے دوست احباب کے سامنے اپنا رشتہ دار قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جیسے اولاد جب جوان ہوتی ہے تو اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی، یہ ساری چیزیں گناہ کبیرہ ہیں اور اس کی سزا قیامت کے دن ملے گی، اللہ تعالیٰ ہمیں صلہ رحمی کا صحیح مفہوم سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اسی میں اتفاق و اتحاد ہے اور دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی ہے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کا حکم دیا ہے میں صلہ رحمی ایک دوسرے کے اور صلہ رحمی صلہ رحمی کر صلہ رحمی کا اللہ تعالی رشتہ داروں نے فرمایا رسول اللہ رشتہ داری کرتے ہیں رشتہ دار دنیا میں کا خیال کے ساتھ ہے اور اور اس
پڑھیں:
نمازِ تہجد ۔۔ تشکر وعبودِیت کا مظہر
مولانا طارق نعمان
٭رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دِن کے کناروں میں بھی، تاکہ تم خوش ہو جاؤ’’۔ (سورۂ طہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نمازِ تہجد کے لیے حاضری دینا یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے انسان دنیا میں بڑے بڑے مرتبے حاصل کر لیتا ہے۔
رات کی تنہائی میں بندہ راحت اور آرام کو چھوڑ کر سردی اور گرمی کی شدت برداشت کر کے وضو کرکے جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس میں حاضرہوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے بندوں کو اپنے قرب ولطف سے مالامال فرمادیتا ہے۔ فرائض کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نمازِ تہجد ہے ۔
نمازِ تہجد کی فضیلت قرآنِ مجید کی روشنی میں
قرآن پاک میں کئی مقامات پر اس نماز کی اہمیت و فضلیت بیان ہوئی ہے ، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
1۔ترجمہ:اور (رحمان کے بندے وہ ہیں) جو راتیں اِس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے آگے (کبھی) سجدے میں ہوتے ہیں اور (کبھی)قیام میں’’۔ (سورۃ الفرقان:۶۴)
2 ۔‘‘بھلا (کیا ایسا شخص اس کے برابر ہوسکتا ہے ) جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرتا ہے ، کبھی سجدے میں، کبھی قیام میں، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار سے رحمت کا امید وار ہے ؟ کہوکہ:کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے ، سب برابر ہیں’’؟ (سورۃالزمر: ۹)
3 ۔‘‘اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دِن کے کناروں میں بھی، تاکہ تم خوش ہو جاؤ’’۔ (سورۂ طہ:۱۳۰)
4۔‘‘بے شک رات کے وقت اٹھنا ہی ایسا عمل ہے جو جس سے نفس اچھی طرح کچلا جاتا ہے اور بات بھی بہتر طریقے پر کہی جاتی ہے ’’۔ (سورۃ المزمل:۶)
5۔‘‘اے پیغمبر! تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دوتہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لیے ) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے )’’۔ (سورۃ المزمل:۲۰)
6 ۔‘‘اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کرو، جو تمہارے لیے ایک اضافی عبادت ہے ، اُمید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہیں مقامِ محمود تک پہنچائے گا’’۔ ( بنی اسرائیل: ۷۹)
نمازِ تہجد کی فضیلت احادیثِ نبویہ کی روشنی میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامینِ مبارکہ میں بھی تہجد کی نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل اور مختلف قسم کی ترغیبات وارد ہوئی ہیں، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
1۔‘‘جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑنے لگے اور کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا، تاکہ دیکھوں (کہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں یا نہیں؟) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھ کر کہا کہ:یہ چہرہ جھوٹے شخص کا نہیں ہوسکتا۔ وہاں پہنچ کر جو سب سے پہلا ارشاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنا، وہ یہ تھا کہ لوگو! آپس میں سلام کا رواج ڈالو اور (غرباء کو) کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات کے وقت جب سب لوگ سوتے ہوں (تہجد کی) نماز پڑھا کرو، تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے ’’۔(قیام اللیل)
2 ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والا روزہ اللہ کے مہینے محرم کا روزہ ہے اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز رات (تہجد) کی نماز ہے’’ ۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرم)
3۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘جب رات کے وقت آدمی اپنی بیوی کو جگائے اور دونوں دور کعتیں پڑھیں یا ایک دو رکعت پڑھے تو وہ اللہ کا ذکر کرنے والوں اور ذکر کرنے والیوں میں سے لکھ دیئے جاتے ہیں’’۔ (سنن ابوداؤد، کتاب التطوع، باب قیام اللیل، وصححہ الالبانی فی صحیح سنن ا بی داؤد: ۱۳۰۹)
4۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘تم میں سے ہر ایک کی گدی پر جب وہ سوتا ہے تو شیطان تین گرہیں لگا دیتا ہے ، ہر گرہ پر یہ کہتا ہے کہ تیرے لیے رات بہت لمبی ہے ، پس خوب سو۔ اگر وہ بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے ، پھر اگر وہ وضو بھی کر لیتا ہے تو ایک اور گرہ کھل جاتی ہے ، پھر اگروہ نماز بھی پڑھ لیتا ہے تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں اور وہ صبح اس حال میں کرتا ہے کہ وہ ہشاش بشاش اور پاکیزہ نفس ہوتا ہے ، ورنہ اس کی صبح اس حال میں ہوتی ہے کہ وہ خبیث النفس اورسست ہوتا ہے ’’۔ (صحیح البخاری، کتاب التہجد، باب عقد الشیطان علی قافیۃ الرأس إذا لم یصل باللیل، صحیح مسلم، کتاب صلا ۃالمسافرین وقصرہا)
5 ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:‘‘جنت میں ایسے بالا خانے ہیں (جو آبگینوں کے بنے ہوئے معلوم ہوتے ہیں) ان کے اندر کی سب چیزیں باہر سے نظر آتی ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یارسول اللہ! یہ کن لوگوں کے لیے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اچھی طرح سے بات کریں، اور (غرباء) کو کھانا کھلائیں اور ہمیشہ روزے رکھیں اور ایسے وقت میں رات کو تہجد پڑھیں، جب کہ لوگ سو رہے ہوں’’۔ (ترمذی، ابن ابی شیبہ)
6 ۔حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:‘‘تم رات کے جاگنے کو لازم پکڑو، کیوں کہ یہ تم سے پہلے صالحین اور نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور رات کا قیام اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب کا ذریعہ ہے اور گناہوں کے لیے کفارہ ہے ، اور گناہوں سے روکنے اور حسد سے دور کرنے والی چیز ہے ’’۔(قیام اللیل)
7 ۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:‘‘تین قسم کے آدمیوں سے حق تعالیٰ شانہ بہت خوش ہوتے ہیں: ایک اس آدمی سے جو رات کو (تہجد کی نماز کے لیے ) کھڑا ہو، دوسرے اس قوم سے جو نماز میں صف بندی کرے ، اور تیسرے اس قوم سے جو جہاد میں صف بنائے (تاکہ کفار سے مقابلہ کرے )’’۔(قیام اللیل)
8 ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر رات اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے ، جبکہ رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے ، تو وہ فرماتا ہے :کون ہے مجھ سے دعا کرنے والا، تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے مجھ سے سوال کرنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟ کون ہے مجھ سے استغفار کرنے والا، تاکہ میں اس کی مغفرت کروں، (یہ وقت نمازِ تہجد کا ہی ہوتا ہے جس وقت باری تعالیٰ یہ صدا لگاتاہے )۔
نمازِ تہجد کی نیت کا طریقہ
نمازِ تہجد کی ہو یا کوئی بھی، اس کی نیت کے لیے زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں ہے ، بس دل میں یہ نیت کافی ہے کہ میں تہجد کی نماز ادا کر رہاہوں، اور الفاظ ادا کرنے ہوں تو تہجد کی نیت اس طرح کرے : ’’نویت أن أصلیی رکعتی صلاِۃ التہجدِ سنۃ النبِیِ ﷺ‘‘ یا اپنی زبان میں یوں نیت کرے کہ:‘‘میں دو رکعت تہجد کی نماز پڑھ رہا ہوں’’۔ اللہ اکبر! نیز اگر رات کو صرف نفل نماز کی نیت سے نماز پڑھے گا، تب بھی تہجد کی نماز ہوجائے گی۔
نمازِتہجد کا وقت
تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے پہلے پہلے تک رہتا ہے ، بہتر یہ ہے کہ آدھی رات گزرنے کے بعد تہجد کی نماز پڑھی جائے ، باقی عشا ء کی نماز کے بعد سے صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے کسی بھی وقت تہجد کی نماز پڑھنے سے تہجد کی نماز ہو جائے گی، نیز تہجد کے لیے سونا شرط نہیں ہے ، البتہ رات کے آخری پہر میں پڑھنا افضل ہے ۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمۃ اللہ علیہ ‘‘معارف القرآن’’ میں لکھتے ہیں:
لفظ تہجد ‘‘ہجود’’ سے مشتق ہے ، اوریہ لفظ دومتضاد معنی کے لیے استعمال ہوتاہے ، اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اورجاگنے بیدار ہونے کے بھی۔ اسی رات کی نماز کو اصطلاحِ شرع میں نمازِ تہجد کہا جاتا ہے ، اور عموماً اس کامفہوم یہ لیاگیاہے کہ کچھ دیر سوکر اُٹھنے کے بعد جو نمازپڑھی جائے ، وہ نمازِ تہجدہے ، لیکن تفسیرِمظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت ’’ومن اللیل فتہجد بہٖ‘‘ کا اتنا ہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نماز کے لیے سونے کو ترک کردو، اور یہ مفہوم جس طرح کچھ دیر سونے کے بعد جاگ کر نماز پڑھنے پر صادق آتا ہے ، اسی طرح شروع ہی میں نمازکے لیے نیند کو مؤخر کرکے نماز پڑھنے پر بھی صادق ہے ، اس لیے نمازِ تہجد کے لیے پہلے نیندہونے کی شرط قرآن کا مدلول نہیں، پھر بعض روایاتِ حدیث سے بھی تہجد کے اسی عام معنی پر استدلال کیا ہے ۔ امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازِ تہجد کی جوتعریف نقل کی ہے ، وہ بھی اسی عموم پر شاہد ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں:‘‘حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ نمازِتہجد ہر اس نماز پر صادق ہے جو عشا ء کے بعد پڑھی جائے ، البتہ تعامل کی وجہ سے اس کو کچھ نیندکے بعد پر محمول کیا جائے گا’’۔
اس کا حاصل یہ ہے کہ نمازِ تہجد کے اصل مفہوم میں ‘‘بعدالنوم’’ ہونا شرط نہیں، اور الفاظِ قرآن میں بھی یہ شرط موجود نہیں، لیکن عموماً تعامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا یہی رہا ہے کہ نمازِ آخر رات میں بیدار ہوکر پڑھتے تھے ، اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی۔
نمازِ تہجد کی رکعات
اکثر وبیشتر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ تہجد آٹھ رکعات تھیں، اسی وجہ سے فقہاء حنفیہ نے فرمایا ہے کہ تہجدمیں افضل آٹھ رکعات ہیں؛ تاہم اگر کوئی شخص محض دو یا چاررکعات تہجد ادا کرتا ہے تو یہ بھی درست ہے اور ایسا شخص تہجد پڑھنے والا شمار ہوگا۔
باقی تہجد نفل نماز ہے ، اور نفل نماز دو دو رکعت ہے ، یعنی جفت عدد میں ہی ادا کی جاتی ہے ، نفل نماز طاق عدد میں اد انہیں کی جاتی، بعض احادیث میں اس کی ممانعت منقول ہے ، ہاں! جس شخص کا معمول تہجد کی نماز ادا کرنے کا ہو، اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ نمازِ وتر عشاء کے متصل بعد نہ پڑھے ، بلکہ تہجد کے آخر میں نمازِ وتر ادا کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی یہی تھا کہ نمازِ تہجد کے آخر میں وتر ادا فرماتے تھے ، اس لیے بہت سی روایات میں طاق عدد کا ذکر ملتا ہے ، در حقیقت وہ طاق عدد نمازِ تہجد کا نہیں، بلکہ تہجد مع وتر کا ہے ۔
اہتمامِ نمازِ تہجد کے لیے تدابیر
جو شخص اس سعادت سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد، دیگر مشاغل میں اپنے آپ کو مصروف نہ رکھے ۔ عشاء کے بعد کوئی میٹنگ نہ رکھے ، کسی سے ملنے نہ جائے ، دیر تک مطالعہ نہ کرے ، کسی کو رات دیر گئے مدعو نہ کرے (الا یہ کہ کوئی شدید حاجت اور ضرورت ہو، یا کسی اضطراری صورت حال سے دوچار ہونا پڑے ) عام دنوں اور عام حالات میں، اپنے ان معمولات پر سختی سے عمل کرے ، ورنہ اندیشہ رہتا ہے کہ آدمی اس نعمتِ عظمی سے محروم ہو جائے گا۔ نمازِ تہجد کے اہتمام کے لیے ضروری ہے کہ نمازِ تہجد کی اہمیت اور فضیلت کا علم اور احساس ہو۔
اہتمامِ تہجد کی ایک اور اہم تدبیر یہ بھی ہے کہ بندہ اپنی موت کو یاد کرتا رہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ :‘‘جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب تم صبح کر لو تو شام کا انتظار نہ کرو (نہ جانے کب موت آجائے )اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی میں اپنی موت کے لیے کچھ حاصل کر لو’’۔ (صحیح بخاری، حدیث: ۶۴۱۵)
مومن کو چاہیے کہ سونے سے پہلے سونے کے مسنون اذکار پڑھ لے ، بالخصوص آیت الکرسی پڑھ لے ، تاکہ شیطان کے شر سے محفوظ ہو جائے اور جلد سوکر جلد بیدار ہو جائے ۔
اہتمامِ تہجد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رات میں زیادہ کھا کر نہ سوئے اور دوپہر کے بعد تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ ضرور کرلے ۔ یہ قیلولہ نمازِ تہجد کے لیے اُٹھنے میں نہایت مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ مندرجہ بالا تدبیروں کو اختیار کرنے سے اُمید کی جاسکتی ہے کہ انسان نماز تہجد کا باقاعدگی سے اہتمام کر سکے گا۔ شب بیداری اور سحر خیزی ہمیشہ صالحین کا شعار رہا ہے ۔ علامہ اقبالؒ بطور تحدیثِ نعمت اپنی سحر خیزی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحرخیزی
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نمازِ تہجد پڑھنے کی توفیق عطا فرماکر مستقل اس پر عمل پیرا فرمادے ۔ (آمین یارب العالمین!)