کراچی ( ڈیلی پاکستان آن لائن )پاک بحریہ کے زیرِ اہتمام نویں کثیر القومی بحری مشق امن کا آغاز ہو گیا۔

ترجمان پاک بحریہ کے مطابق 11 فروری تک جاری رہنے والی مشقوں میں 60 سے زائد ممالک شرکت کر رہے ہیں۔ مشق امن 2025ء کے ساتھ پہلی بار’امن ڈائیلاگ‘ کا آغاز بھی کیا جا رہا ہے۔ کثیرالقومی بحری مشق امن کا 9واں ایڈیشن 7 سے11 فروری تک ہوگا ۔
  امن ڈائیلاگ میں دنیا بھر سے بحری افواج اور کوسٹ گارڈز کے سربراہان شرکت کریں گے۔یہ ڈائیلاگ عالمی بحری قیادت کو سمندری مسائل پر تبادلۂ خیال کا موقع دے گا۔مشقوں کا مقصد خطے کا بحری استحکام، مشترکہ کارروائیوں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہے۔

ڈی چوک احتجاج: بشریٰ بی بی اور پی ٹی آئی قیادت کی عبوری ضمانتوں میں توسیع

اس موقع پر کمانڈر پاکستان فلیٹ ریئر ایڈمرل عبدالمنیب کا کہنا ہے کہ امن مشق میں شرکت کرنے والے ممالک کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ بحری سلامتی میں بحری افواج کا اہم کردار ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ سمندروں میں مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے جبکہ سمندروں میں دہشتگردی، قزاقی جیسے چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔

کمانڈر پاکستان فلیٹ نےکہا کہ امن مشق دنیا بھر کے ممالک کو خطرات، چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کرکام کی دعوت دیتی ہے۔ رواں سال امن مشق میں پہلی مرتبہ امن ڈائیلاگ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ایک دوسرے کے اشتراک سے درپیش متفرق معاملات کو بہتر انداز میں ہینڈل کرسکیں گے۔

پیکا ترمیمی ایکٹ کیخلاف درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

پڑھیں:

غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز، ایک نئی عالمی حقیقت

30 جنوری 2025 کو non traditional security challenges in 21st century کے عنوان سے منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس میں ترکی، جرمنی اور جاپان سمیت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے علاؤہ پاکستان سے ماہر معاشیات قیصر بنگالی ، پروفیسر مونس احمر کے علاوہ پاکستان کی مختلف جامعات کے وائس چانسلروں نے بھی شرکت کی اور موضوع کی اہمیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس کا انعقاد گرین وچ یونیورسٹی اور فیڈرل اردو یونیورسٹی کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں پی جے آئی ایف کی نمائندگی کرتے ہوئے راقم کو بھی اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا گیا۔ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز اب ایک بز ورڈ بن چکا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر تواتر سے گفتگو کی جانے لگی ہے۔ آئیں آج سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ تصور کیا ہے اور عالمی سطح پر اسے کس تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ روایتی طور پر سیکورٹی کا تصور عسکری طاقت اور جغرافیائی سرحدوں کے دفاع تک محدود تھا، لیکن 21 ویں صدی میں سیکورٹی کے نئے چیلنجز ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ جن میں ماحولیاتی تبدیلی، عالمی وبائیں، سائبر حملے، خوراک اور توانائی کے بحران، اور انسانی حقوق جیسے مسائل شامل ہیں۔ یہ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز (Non-Traditional Security Challenges) کسی ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ ان کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔ آج کی دنیا میں، کوئی بھی ملک ان چیلنجز سے تنہا نہیں نمٹ سکتا۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون، جدید پالیسی سازی، اور ایک جامع حکمت عملی درکار ہے، جو روایتی سیکورٹی تصورات سے آگے بڑھ کر انسانی فلاح و بہبود کو بھی مدنظر رکھے۔

عالمی درجہ حرارت ہی کو لے لیجیے جس میں اضافے کی وجہ سے غیر متوقع موسم، سیلاب، اور خشک سالی جیسے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ یہ مسائل خاص طور پر پاکستان جیسی کمزور معیشت رکھنے والے ممالک کے لیے زیادہ مہلک ثابت ہو رہے ہیں، جہاں بنیادی ڈھانچہ پہلے سے ہی کمزور ہے۔ یہ بات اب مسلم ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی نہ صرف معیشت اور صحت پر اثر ڈالتی ہے بلکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی نقل مکانی (climate migration) کو بھی جنم دے رہی ہے، جس سے جغرافیائی سیاست متاثر ہو رہی ہے۔ اسی طرح صحت کے مسائل ہیں، کورونا وبا کے دوران دنیا کو یہ سبق ملا کہ صحت کا ایک بحران پوری عالمی معیشت اور سیکورٹی کو مفلوج کر سکتا ہے۔ وبائی امراض کے خلاف تیاری، ویکسین کی مساوی تقسیم، اور عالمی سطح پر صحت کے نظام کو مضبوط بنانا اب صرف ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سلامتی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ ہم آئے دن ہیکنگ اور ڈیٹا کی چوری جیسے مسائل کا سامنا بھی کرتے ہیں اور یہ معاملہ صرف انفرادی نہیں بلکہ عالمی سطح پر کارپوریٹ سے حکومتی سطح تک سبھی کو درپیش رہتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں یہ سائبر حملے حکومتوں، معیشتوں، اور سماجی استحکام کے لیے نئے خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ غلط معلومات (disinformation)، ڈیٹا چوری، اور انفرا اسٹرکچر پر سائبر حملے ریاستوں کے لیے بڑے چیلنجز بن چکے ہیں۔

کہیں معمر افراد کی بڑھتی ہوئی آبادی اور کہیں برتھ ریٹ میں کمی ورک فورس میں کمی کا

سبب بن رہی ہے۔ سامراجی طاقتوں کی ناانصافی اور کہیں محدود قدرتی وسائل کے باعث خوراک اور توانائی کی قلت عالمی سطح پر کشیدگی کا باعث بن رہی ہے۔ کئی ممالک میں غذائی قلت ایک بڑا انسانی بحران بن چکی ہے، جبکہ توانائی کے متبادل ذرائع پر منتقلی (energy transition) بھی ایک پیچیدہ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ جنگ، ماحولیاتی تبدیلی، اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے لاکھوں افراد اپنے گھروں سے محروم ہو رہے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف ترقی پذیر ممالک تک محدود نہیں بلکہ اب ترقی یافتہ ممالک بھی اس بحران کے اثرات محسوس کرنے لگے ہیں، کیونکہ عالمی سطح پر مہاجرین کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ان غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں کچھ ممالک نے خاص پیش رفت کی ہے، اور جاپان ان ممالک میں سے ایک ہے۔ جاپان کی حکمت عملی ان چیلنجز کو صرف قومی مسئلہ سمجھنے کے بجائے انہیں عالمی تناظر میں دیکھنے اور بین الاقوامی شراکت داری کے ذریعے ان کے حل میں کردار ادا کرنے پر مبنی ہے۔ یہ بات قابل تعریف ہے کہ ماحولیاتی تحفظ جاپان کی پالیسی کا ایک اہم جزو ہے۔ “Long-term Low Carbon Vision” کے تحت جاپان قابل تجدید توانائی اور کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس کا اثر نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ عالمی شراکت داری کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی مدد میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

کورونا 19 کے دوران۔ وباؤں کے تدارک کے لیے جاپان نے ویکسین کی فراہمی اور صحت عامہ کے نظام کو مضبوط بنانے میں عالمی شراکت داروں کے ساتھ کام کیا خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے میں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے ساتھ اس کا تعاون اہم رہا ہے، ڈیجیٹل دور میں جاپان نے قومی سائبر سیکورٹی پالیسی تشکیل دی ہے اور بین الاقوامی سطح پر سائبر کرائم کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہے۔ جاپان کی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی سائبر سیکورٹی کے معیارات کو بہتر بنانے میں عالمی سطح پر نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ جاپان زراعت میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دے کر خوراک کی پیداوار میں بہتری لا رہا ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع، جیسے ہائیڈروجن ٹیکنالوجی اور نیوکلیئر انرجی پر بھی کام کیا جا رہا ہے، تاکہ توانائی کے بحران کا سامنا مؤثر طریقے سے کیا جا سکے۔ جاپان مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر مختلف منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ خاص طور پر تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے، تاکہ مہاجرین کو بہتر زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔

جیسا کہ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مشترکہ چیلنج ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے صرف قومی اقدامات کافی نہیں بلکہ عالمی تعاون ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں جاپان کی حکمت عملی اس بات کی مثال ہے کہ جدید ریاستیں ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیسے کام کر سکتی ہیں۔ اپنے اندرونی نظام کو مضبوط بنا کر اور بین الاقوامی سطح پر شراکت داری کے ذریعے مشترکہ مسائل کا حل نکال کر۔ دیگر ممالک کے لیے بھی یہی ماڈل اپنانا ضروری ہوگا تاکہ دنیا ایک پائیدار اور محفوظ مستقبل کی طرف بڑھ سکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز مستقبل میں مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں، لیکن اگر ممالک ایک جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں، سائنسی تحقیق، پالیسی سازی، اور عالمی تعاون کو ترجیح دیں، تو ان چیلنجز کو کم کیا جا سکتا ہے اور عالمی استحکام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چین میں نویں ایشین ونٹر گیمز کا افتتاح ،پاکستان سمیت 34 ممالک اور خطوں کے 1275 کھلاڑی شریک
  • چینی بحری بیڑے کی مشترکہ مشق کے لیے پاکستان آمد
  • کراچی میں پاک بحریہ کی 9 ویں کثیر القومی مشق ’امن 2025‘ کا آغاز
  • پاک بحریہ کی نویں کثیر القومی بحری مشق امن کا آغاز
  • غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز، ایک نئی عالمی حقیقت
  • پاک بحریہ کے زیر انتظام کثیر القومی بحری مشق امن 7 سے 11 فروری کو ہو گی
  • کثیرالقومی بحری مشق امن کا نواں ایڈیشن 7 سے 11 فروری ہوگا
  • کثیرالقومی بحری مشق امن کا 9واں ایڈیشن 7 سے11 فروری تک ہوگا
  • کثیرالقومی امن مشق اور ڈائیلاگ کا انعقاد 7 تا 11 فروری کراچی میں ہوگا