تھامس ایڈیسن سے کسی نے سوال کیا کوئی ایسی خواہش جو پوری نہ ہوسکی ہو؟ ایڈیسن نے جواب دیا ’’مجھے 24 گھنٹے کا دن چھوٹا لگتا ہے، میں جو کچھ چوبیس گھنٹے میں کرنا چاہتا ہوں وہ سب کچھ نہیں کرپاتا۔ میں چاہتا ہوں دن کادورانیہ زیادہ ہو‘‘۔
یہ تو مزاج تھا ایڈیسن کا، لیکن آج ہم اپنے آپ کو دیکھیں ٹی وی دیکھنے، فیس بک پر گھنٹوں گزارنے، دوستوں کے گپ شپ کے بعد بھی دن ختم نہیں ہوتا اور ہمیں وقت گزاری کےلیے کچھ ’’فالتو‘‘ سرگرمیاں درکار ہوتی ہیں۔
امریکی صدر کے ایک مشیر بوکرٹی واشنگٹن نے ایک موقع پر کہا کہ ’زندگی میں کامیابی بڑے بڑے معاملات پر توجہ دینے کے بجائے چھوٹی چھوٹی چیزوں پر مرکوز کرنے سے آتی ہے۔‘ 2014 کے ورلڈ اسپیکنگ چیمپیئن شپ کے فاتح نند جایا نےکراچی میں دیے گئے اپنے ایک لیکچر میں اسی نقطے کو کچھ اس انداز میں بیان کیا تھا کہ وہ حاضرین جو گولف کھیلتے ہیں اس امر سے بخوبی واقف ہیں اگر کوئی بھی شاٹ لگاتے وقت معمولی سا زاویہ بدل دیا جائے تو اس کے نتائج بہت زیادہ تبدیل ہوجاتے ہیں بالکل یہی صورتحال زندگی کے معاملات کی بھی ہوتی ہے۔
ہماری زندگی ایام کا ایک تسلسل ہے، ایک کے بعد دوسرا دن مسلسل آتا جارہا ہے۔ سورج طلوع ہوتا ہے، غروب ہوتا ہے اور پھر طلوع ہوجاتا ہے اور آخر میں ہم جو زندگی گزارنا چاہتے ہیں اس کا فیصلہ ہمارے اس انداز پر ہوگا جو ہم ہر دن گزارنے کے حوالے سے اپناتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری زندگی کا بیشتر حصہ ایسے ہی گزر جاتا ہے۔ ہم جو چاہتے ہیں، کر نہیں پاتے، ہر نیا دن آتا ہے اور ایسے ہی چلا بھی جاتا ہے۔ یہ سلسلہ تواتر سے جاری ہے اور اس طرح ہماری زندگیوں کے ہزاروں ایام ضائع ہوچکے ہیں۔ زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کےلیے معمولات زندگی میں تبدیلی لانا ہوگی۔ کامیاب زندگی کےلیے اسے نئے ڈھنگ سے گزارنا ہوگا۔ جب ہر نئے دن کو خدا کا اہم تحفہ سمجھا جائے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔
زندگی میں تبدیلی کےلیے روزمرہ کے معمولات تبدیل کرلیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیسے؟ تو یہ بہت زیادہ مشکل نہیں تو بہت آسان بھی نہیں لیکن ممکن ضرور ہے۔ کیونکہ ہم سے اکثر کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ زندگی ہمیں گزارتی ہے لیکن یہ طرز عمل درست نہیں، ہمیں زندگی کو گزارنا سیکھنا ہوگا۔
صبح سویرے بیدار ہوں
ایسا تو صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب جلدی سوئیں، کیونکہ دیر سے سونے والا کچھ بھی کرلے صبح سویرے بیدار نہیں ہوسکتا اور اگر بادل نخواستہ ایسا ہو بھی جاتا ہے تو آپ تازہ دم نہیں ہوں گے۔ صبح سویرے اٹھنے سے آپ کے پاس کام کرنے کا زیادہ وقت ہوگا۔ یہ ذاتی تجربہ اور مشاہدہ رہا ہے جب کبھی دیر سے اٹھو دن بہت مختصر محسوس ہوتا ہے۔ صبح ہمیشہ ہی پرسکون، پرامن، تونائی سے بھرپور ہوتی ہے، صرف ایک ہفتہ صبح سویرے اٹھ کر دیکھ لیں، نتائج آپ کو حیران کردیں گے۔
درست غذا کا انتخاب کیجئے
دن بھر میں ہم جو غذا کھاتے ہیں وہ ہمارے جسم میں ایندھن کا کام کرتی ہے۔ تو جیسے ہم اپنی گاڑی میں غیر معیاری پٹرول یا ڈیزل ڈلوانا نہیں چاہتے بالکل اسی طرح، بلکہ غذا کے معاملے میں ہمیں اس سے بھی زیادہ احتیاط سے کام لینا ہوگا کہ ہماری زندگی یا جسم یا ایندھن اچھا اور معیاری ہو۔ نیوٹریشنسٹ بتاتے ہیں کہ ناشتے میں پروٹین سے بھرپور غذائیں دن بھر چاق و چوبند رہنے میں مدد کرتی ہیں، دماغی صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں۔
ورزش کو معمول بنائیں
ماضی میں ہونے والی مختلف تحقیق میں یہ بات بھرپور طریقے سے ثابت ہوچکی ہے کہ ورزش صحت کےلیے بہت ضروری ہے۔ اگر ورزش کا وقت نہیں بھی ملتا تو تیز چہل قدمی تجویز کی جاتی ہے، تاکہ ہمارا جسم بہتر انداز میں کام کرسکے۔ لیکن حال میں ہونے والی ایک تحقیق نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اگر آپ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں تو زیادہ خوش، زیادہ پرسکون، دن بھر درپیش آنے والے مسائل سے موثر انداز میں نبرد آزما ہوسکیں گے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں یہ بات کھلے الفاظ میں بتائی گئی ہے کہ ورزش کے نتائج روزمرہ کی بنیادوں پر آنا شروع ہوجاتے ہیں یعنی اگر آپ نے آج صرف 20 منٹ ورزش کی ہے تو آج ہی سے فائدہ آنا شروع ہوجائیں گے۔
ہر روز کوئی بڑا ہدف حاصل کریں
ہمیں اسکول، کالج، یونیورسٹی یا دفتر سے اسائنمنٹس ملتے رہتے ہیں جو ہم نے مقررہ وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوتے ہیں۔ یعنی اگر آپ نے ’To Do‘لسٹ (کرنے کے کاموں کی فہرست) بنائی ہوئی ہے تو اس میں لکھے گئے سارے کام آج تو مکمل نہیں ہوسکتے لیکن ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ ان میں سے انتہائی اہم کام پہلے نمٹا لیے جائیں اور اگر آج ایک کام کرلیا جاتا ہے تو کل کا انتظار کرنے کے بجائے آج ہی دوسرا کام شروع کردیں۔
اپنی پسند کا کوئی ایک کام ضرور کریں
روزمرہ کے کام تو کبھی ختم نہیں ہوں گے اور اگر آپ نے اپنے کاموں کی فہرست سنجیدگی سے مرتب کی ہے تو آپ کو کوئی پچھتاوا بھی نہیں ہوگا۔ اس ساری مصروفیت میں اپنے خوابوں کی تعبیر، زندگی کے اہداف اور امیدوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے خصوصاً ان کے حصول کےلیے کام کریں۔ بعض ایسے کام یا مشاغل جو کرکے آپ کو بہت اچھا لگتا ہو، ایسی سرگرمیاں جو زندگی بن کر آپ کی رگوں میں دوڑتی ہوں، ضرور کریں۔ خواہ اس کا دورانیہ بہت کم ہی کیوں نہ ہو۔ زندگی کی جانب سے فراہم کیے جانے والے مواقعوں سے لطف اندوز ہوں۔
آرام بھرپور کریں
بالکل اسی طرح آرام بھی زندگی کا لازمی حصہ ہے جیسے غذا، پانی اور ہوا۔ہمارے جسم کو یومیہ اور ہفتہ وار بنیادوں پر تازہ دم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن اس آرام میں اس قدر مشغول نہ ہو جائیں کہ روز مرہ کے معمولات متاثر نہ ہوںاور اس بارے میں ہر گز پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ آرام میں اتنا وقت خرچ ہوگیا ، بس یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر آپ آرام نہیں کریں گے تو کام بھی نہیں ہو سکے گا۔
اپنوں کےلیے چند لمحے ضرور نکالیں
اپنے لیے تو سب جیتے ہیں لیکن جو خوشی دوسروں کےلیے کام کرکے ہوتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ جب ہم دوسروں کو خوشیاں دیتے ہیں یا دینے کی کوشش کرتے ہیں اس کے نتیجے میں ملنے والا اطمینان اور احساس انمول ہے۔ روزانہ اپنے قیمتی اوقات میں سے دوسروں کےلیے کچھ وقت ضرور نکالیں۔ کسی بچے کو پڑھا دیں، آفس کے کسی ساتھی کا کوئی کام کردیں۔ کچھ کریں جو دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرے، کسی فلاحی کام میں مالی طور پر حصہ ملائیں خواہ 10روپے ہی کیوں نہ ہوں۔ کسی دوست یا رشتے دار کو فون ہی کرلیں۔ یقین کیجئے اگر آپ نے مہینوں بعد اسے فون کیا ہوگا یا پہلی بار فون کیا ہوگا تو وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوجائے گا۔
اپنی روح کا خیال رکھیے
ہماری زندگیاں گوشت پوست کے جسم سے آگے بڑھ کر بھی کچھ اور ہیں۔ ذہن، دل اور دماغ بھی بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اپنے اندر اپنے خالق و مالک کےلیے احسان مندی کا جذبہ پیدا کریں۔ مسکرائیں، ایک دو بار کھل کر ہنسیں بھی۔ زندگی میں امید کا دامن کسی بھی مرحلے پر ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کےلیے اللہ کی دی گئی نعمتوں کو مثبت انداز میں استعمال کریں۔
نئے دن کےلیے تازگی بھرلیں
دن کا آخری کام اگلے یعنی کل کےلیے اپنے اندر تازگی بھرنا ہے۔ یہ کل آپ کےلیے نئی امیدیں، امنگیں اور آگے بڑھنے کے مواقع لیے بانہیں پھیلائے کھڑا ہے۔ اگر پژمردگی سے اس کا سامنا کیا تو یہ ایک کامیاب دن نہیں ہونے والا۔ اس کےلیے خود کو کم از کم 10 منٹ دیں تاکہ آج کے مسائل اور پریشانیاں آج ہی میں رہ جائیں اورجب آپ کل میں داخل ہوں تو آج کی تھکن کا نام و نشان بھی پاس نہیں ہونا چاہیے اور اگر آج کوئی کام مکمل نہیں ہوا تو اس میں پریشان ہونے کے بجائے کل اسے مزید قوت کے ساتھ شروع کردیں۔ یقین مانیے یہ جذبہ آپ کو کامیاب کردے گا۔ اگر آپ نے کل سے ملنے کی تیاری مکمل کرلی ہے تو پھر ’کل‘ بھی آپ کا اس انداز میں استقبال کرے گا اور ساتھ دے گا کہ آپ کا ہر ’کل‘ ہر ’آج‘ سے بہتر ہوتا چلا جائے۔
آپ انتہائی خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اتنی ساری اہم باتیں اتنے کم وقت میں مل گئیں کیونکہ کم از کم مجھے ہی سب کچھ سیکھنے میں اور جاننے میں برسوں لگے ہیں۔
مشہور مقولہ ہے عقل مند دوسروں کی غلطیوں جبکہ بیوقوف اپنی غلطیوں سے بھی کچھ نہیں سیکھتا۔ اب گیند آپ کے کورٹ میں ہے، دیکھیں آپ ان کو اپنانے میں کتنا وقت لیتے ہیں۔ میرا تو مشورہ یہی ہے کسی ایک بھی بات کو چھوڑے بغیر تمام باتوں پر عمل شروع کردیا جائے، بہتری آنے میں مہینے یا سال درکار نہیں بلکہ یہ دنوں کی بات ہے اور بعض کام تو ایسے ہیں جن کے ہاتھ کے ہاتھ آتے نتائج آپ کو حیران کردیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہماری زندگی صبح سویرے اگر ا پ نے زندگی میں اور اگر جاتا ہے ہوتا ہے نہیں ہو ہوتی ہے ہے تو ا ہے اور اپنے ا
پڑھیں:
پرنس کریم آغا خان کی زندگی پر ایک نظر
پرنس کریم آغا خان کے 3 بیٹے رحیم آغا خان، علی محمد آغا خان اور حسین آغا خان ہیں جبکہ ایک بیٹی زہر آغا خان ہیں۔ پرنس کریم آغا خان نے اپنی زندگی پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صرف کی، وہ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسماعیلی کمیونٹی کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان 88 برس کی عمر میں پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں انتقال کرگئے ہیں۔ اسماعیلی امامت کے دیوان کے مطابق پرنس کریم آغا خان اسماعیلی مسلم کمیونٹی کے 49 ویں امام یعنی روحانی لیڈر تھے۔ اسماعیلی کمیونٹی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پرنس کریم آغا خان پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی حضرت بی بی فاطمہ اور پیغمبر اسلام کے کزن حضرت علی علیہ سلام کی نسل سے تھے۔ پرنس کریم آغا خان 1936ء میں سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے اور بچپن کے ابتدائی ایام نیروبی میں گزارے۔ انہوں نے 1957ء میں 20 برس کی عمر میں امامت سنبھالی تھی۔ پرنس کریم آغا خان پرنس علی خان کے بڑے بیٹے تھے، پرنس کریم کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم تھے۔ انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے Le Rosey اسکول اور پھر 1959ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں بیچلر آف آرٹس کی ڈگری لی تھی۔ آغا خان سوم نے تیرہ سو برس کی تاریخی روایات کے برعکس بیٹے کی جگہ پوتے کو جانشین بنایا تھا۔
پرنس کریم آغا خان کو برطانوی شہریت بھی دی گئی تھی، مگر زندگی کا زیادہ تر عرصہ انہوں نے فرانس میں گزارا۔ وینٹی فئیر میگزین نے انہیں ون مین اسٹیٹ کا نام دیا تھا۔ ان کی پہلی اہلیہ برطانوی ماڈل سیلی کروکر Sally Croker-Poole تھیں، جن سے ان کی شادی 1969ء میں ہوئی۔ سیلی کروکر سے پرنس کریم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئیں۔ یہ شادی پچیس برس چلی، جس کے بعد انہوں نے 1998ء میں شہزادی Gabriele zu Leiningen سے پیرس کے نواحی علاقے میں شادی کی، جرمن شہزادی نے اسلام قبول کرکے اپنا نام انارہ اختیار کر لیا تھا، جوڑے کا ایک بیٹا ہوا، تاہم 6 برس بعد جوڑے نے علیحدگی اختیار کرلی۔ پرنس کریم آغا خان کے 3 بیٹے رحیم آغا خان، علی محمد آغا خان اور حسین آغا خان ہیں جبکہ ایک بیٹی زہر آغا خان ہیں۔ پرنس کریم آغا خان نے اپنی زندگی پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صرف کی، وہ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہے۔
آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے ذریعے انہوں نے دنیا کے مختلف خطوں خصوصاً ایشیا اور افریقا میں فلاحی اقدامات کیے، یہ اقدامات زیادہ تر تعلیم، صحت، معیشت اور ثقافت کے شعبوں میں تھے۔ صرف سن 2023ء میں آغا خان فاؤنڈیشن نے 58 ملین پاؤنڈ وقف کیے تھے۔ پرنس کریم آغا خان نے امریکا کے صدر رونالڈ ریگن اور سابق سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف کی جنیوا میں سفارتی بات چیت ممکن بنائی تھی۔ وہ گھوڑوں کے شوقین تھے اور فرانس میں گھڑ دوڑ اور بریڈنگ کے سب سے بڑے ادارے کے مالک تھے۔ ان کے مشہور ترین گھوڑوں میں Shergar بھی تھا، جس نے 1981ء میں ایپسن ڈربی ریس میں رکارڈ قائم کیا تھا۔ تاہم اس گھوڑے کو آئرش فارم سے مبینہ طور پر آئی آر اے کے اراکین نے چُرا کر 2 ملین پاؤنڈ تاوان طلب کیا گیا تھا، تاہم ٹیلے فونک رابطوں کے بعد اغواکاروں نے رابطے ختم کر دیئے تھے اور گھوڑے کا اس کے بعد کچھ پتہ نہ چل سکا تھا۔ پرنس کریم کو مختلف ممالک اور یونیورسٹیوں کی جانب سے اعلیٰ ترین اعزازات اور اعزازی ڈگریوں سے نوازا گیا تھا۔