کل جماعتی حریت کانفرنس کی کشمیریوں سے 11فروری کو مکمل ہڑتال کی اپیل
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
ذرائع کے مطابق حریت رہنمائوں اور تنظیموں نے سرینگر میں ایک اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال پر غور کیا اور بھارتی فورسز کے ہاتھوں دو کشمیریوں وسیم احمد میر اور مکھن دین کے قتل پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے کشمیری عوام سے معروف آزادی پسند رہنماء محمد مقبول بٹ اور دیگر شہداء کے یوم شہادت کے موقع پر 11فروری بروز منگل کو مکمل ہڑتال کرنے کی اپیل کی ہے۔ ذرائع کے مطابق حریت رہنمائوں اور تنظیموں نے سرینگر میں ایک اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال پر غور کیا اور بھارتی فورسز کے ہاتھوں دو کشمیریوں وسیم احمد میر اور مکھن دین کے قتل پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز اور بی جے پی حکومت کی طرف سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور خوف و دہشت کے موجودہ ماحول کی مذمت کی گئی۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں ایک بیان میں کہا کہ اجلاس میں معروف آزادی پسند رہنمائوں محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کو ان کی شہادت کی برسیوں پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور کشمیریوں سے ان کے یوم شہادت کے موقع پر 11فروری کو مکمل ہڑتال کرنے کی اپیل کی گئی۔
اجلاس میں کہا گیا کہ بھارت قتل عام، ظالمانہ ہتھکنڈوں اور فوجی طاقت کے بل پر کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور نہیں کر سکتا۔ انہوں نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے بھی اپیل کی کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا نوٹس لیں۔ اجلاس میں کشمیریوں کی حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کی غیر متزلزل حمایت جاری رکھنے پر پاکستان کی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کیا گیا۔اجلاس میں عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ بھارتی افواج کے بدترین محاصرے میں زندگی بسر کرنے والے ایک کروڑ سے زائد کشمیریوں کی موجودہ سنگین صورتحال کا نوٹس لے۔ واضح رہے کہ بھارت نے محمد مقبول بٹ کو 11 فروری 1984ء کو تحریک آزادی کشمیر میں نمایاں کردار ادا کرنے پر نئی دلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی پر چڑھا کر ان کی میت کو جیل کے احاطے میں ہی سپرد خاک کر دیا تھا۔ محمد افضل گورو کو 9 فروری 2013ء کو اسی جیل میں پھانسی دیکر ان کی میت کو بھی جیل کے احاطے میں دفن کر دیا گیا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اجلاس میں
پڑھیں:
5 فروری اور کشمیریوں کا حقیقی مجرم
گو کہ کشمیر کے متنازع ترین مسئلہ کو بھارت نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن اس کے باوجود پاکستان اور دوسری اقوام عالم کی کوشش ہے کہ ایٹمی طاقتوں کے درمیان یہ معاملہ کسی منطقی انجام تک پہنچ جائے اور دنیا کسی بڑے خطرے سے دوچار ہونے سے بچ جائے ۔5اگست 2019ء کو ہندوستان کی ہندو نواز حکومت نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ٗ امیت شاہ اور بی جے پی کے آشیر باد سے اپنے آئین کی دو شقوں کی تنسیخ کرکے یو این او کی قرار داروں کا کھلا مذاق اڑاتے اور کشمیریوں کے حق ِ خود ارادیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو ریاست ِ ہندوستان میں ضم کر نے کی ناپاک جسارت کی ۔ مودی سے مجھے اِس سے زیادہ کی توقع تھی اور ہے لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اُس وقت کے وزیر اعظم اور کابینہ کی اِس پر مجرمانہ خاموشی نے پوری قوم کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا ۔غم و غصے کی ایک لہر پاکستان بھر میں قریہ قریہ پھرتی رہی لیکن اُس وقت کے حکمرانوں کو اِس کا رتی بھر احساس نہ ہوا۔ بھارتی پارلیمنٹ کے اس مجرمانہ عمل پر پاکستان کے وفاق میں سانپ سونگھ گیا اور وہ کشمیری جنہیں 16مارچ 1846ء کو معاہدہ امرتسر کے تحت تاجدار ِ برطانیہ نے بمعہ زمین کے انسانوں سمیت صرف 75لاکھ نانک شاہی کے عوض بیچ دیا تھا ایک بار پھر بغیر کسی معاہدے کے اپنوں کی بے حسی سے صرف دو آئینی آرٹیکل کی تنسیخ سے ریاست ِ ہندوستان کا حصہ بن گئے ۔ بھارتی آئین کی آرٹیکل 370 اور 35۔اے کیا تھیں ؟اِن کی موجودگی میں کشمیر کا کیا سٹیٹس تھا اور ان کے خاتمے سے کشمیر اور کشمیریوں کو کیا نقصانات اٹھانا پڑے کہ کشمیر کے چنار ایک بار پھر سُلگ اٹھے۔ بھارتی آئین کی تنسیخ شدہ آرٹیکل 370 سے پہلے کشمیر میں بھارت کے پاس دفاع ٗ امورِ خارجہ اور مواصلات کے محکمے تھے جبکہ آئین کی آرٹیکل 35۔ اے کے مطابق کشمیری کون ہے یہ فیصلہ صرف کشمیری کرتے تھے۔ غیر کشمیری کسی قسم کی جائیداد کشمیر میں خرید ہی نہیں سکتا تھا۔ غیر کشمیری نہ تو کشمیر میں تعلیم حاصل کرسکتا تھا اورنہ ہی کسی قسم کی نوکری حاصل کرنے کا اہل تھا ۔اب آرٹیکل ۔35۔ اے کی تنسیخ کے بعد یقینا ہندو کشمیر میں اپنی آباد کاری کررہے ہوں گے جس کے نتیجہ میں اگر کبھی کشمیر پر کوئی ریفرنڈم ہوتا ہے تو کشمیری اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کامیاب ہو چکی ہو گی ۔ کشمیریوں پر ملازمتوں کے دروازے اگر بند نہ بھی ہوئے تو کم ضرور پڑ جائیں گے ۔ ان آرٹیکلز کے خاتمے سے کشمیر کا اپنا آئین ختم ہو چکا ہے اور بھارتی آئین ہی پورے ہندوستان پر لاگو ہو چکا ہے ۔ کشمیر کے داخلی خود مختاری جس کی ضمانت پہلے بھارتی آئین دے رہا تھا اور کشمیر ایشو عالمی سطح پر زیر بحث تھا ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔کشمیر اور کشمیریوں کا اپنا جھنڈا بھی ختم کردیا گیا ہے ا ور اب اُس کا کسی کشمیری سے برآمد ہونا ایک جرم قرار پایا ہے۔ یہ ہے وہ سازش جو بھارتی وزیر اعظم نرنیدر مودی اور امیت شاہ نے اپنی کابینہ اور پارلیمنٹ کے ساتھ مل کر کی ہے ٗ جس میں بی جے پی ٗ بھارتی صدر اور سپریم کورٹ نے اُن کا بھرپور ساتھ دیا ہے ۔ دنیا کے سب سے خطرناک ملٹری زون میں جہاں بھارت نے سات لاکھ سے زائد فوج تعینات کر رکھی ہے اور اُس کے مدمقابل دنیا کی بہترین فوج اور ایٹمی طاقت سینہ تانے کھڑی ہے لیکن حیرت تو اِس بات پر ہے کہ بھارت کی اس دیدہ دلیری بلکہ کھلی بدمعاشی پر اُس وقت کے وزیر اعظم عمران نیازی کا خاموش رہنا مجرمانہ خاموشی تو تھی ہی لیکن ہماری اپوزیشن اور دوسرے ادارے بھی خاموش رہے جس کی وجہ سے آج پی ٹی آئی جنرل باجوہ کو بھی اِس جرم میں شامل کر رہی ہے اور جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد وہ اور دیدہ دلیر ہو چکے ہیں ۔میں اس خاموش سے جنرل باجوہ کو کسی صورت بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا بالکل اُسی طرح جیسے 71 ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے یحییٰ خان اور مجیب الرحمان کے ساتھ ساتھ بھٹو کو بھی الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا گو کہ بنگالیوں کی ہم سے علیحدگی کے پس ِ منظر میں بے وفائیوں کی ایک پوری تاریخ چھپی ہے ۔
آئی پی پی سمیت پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتوں ٗ سماجی تنظیموں اوروہ جو کل تک کشمیر میں جانیں دے رہے تھے اوراب زیر عتاب ہیں سب نے مل کر 5 فروری کو کشمیر ی عوام کے ساتھ پاکستان بھر میں یکجہتی کا اظہار کیا ۔ آئی پی پی کے مرکزی صدر و وفاقی وزیر ِ مواصلات و نجکاری عبد العلیم خان کی خصوصی ہدایات پر کشمیری عوام کے ساتھ بھر پور اظہار یکجہتی کیلئے ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میںمرکزی سیکرٹری جنرل میاں خالد محمود ٗ پنجاب کے صدر رانا نذیز احمد خان اور عبد العلیم خان کے دیرینہ ساتھی وایم پی اے سیکرٹری آئی پی پی پنجاب شعیب صدیقی نے شب و روز نہ صرف پارٹی آفس میں ورکروں سے ملاقاتیں کیںبلکہ مقامی ورکروں سے ملنے کیلئے اُن کے علاقوں میں جا کر انہیں 5 فروری کے حوالے سے آگاہ کرکے اِس کی اہمیت اور مرکزی صدر عبد العلیم خان کا خصوصی پیغام بھی پہنچایا ۔ تنظیمی عہدیداروں کے ساتھ بھرپور ملاقاتیں کرنے کے علاوہ کشمیر کے جھنڈوں سے ریلی کی گزر گاہ کو کشمیر اورآئی پی پی کے جھنڈوں سے سجایا اور 5 فروری کو تنظیمی عہدیداران کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ریلی کی قیادت کرتے ہوئے مسجد شہداء سے اسمبلی ہال پہنچے ۔ اِس عظیم الشان ریلی میں آئی پی پی لاہور کی تنظیم کے علاوہ ٗ خواتین ونگ ٗ سٹوڈنٹ ونگ اور یوتھ ونگ نے مینارٹی ونگ کے ساتھ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ بھر پور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے تقاریر کرتے ہوئے کشمیر ی عوام کے ساتھ پاکستان کے رشتے کو جسم اورروح کا رشتہ قراردیا ۔ شعیب صدیقی نے کہا کہ کشمیریوں کا ساتھ دینا دنیا کے ہر باضمیر انسان کی انسانی ذمہ داری ہے جبکہ مرکزی سیکرٹری جنرل میاں خالد محمود نے بھارت کے اس مجرمانہ عمل پر عالمی اداروں اورمہذب ریاستوں کی خاموشی پر حیرت کا اظہارکیا ۔مرکزی صدر عبد العلیم خان نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اِس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے ٗ کشمیری لیڈر وں نے طویل قید وبند کی اذیتیں کاٹیں لیکن ہمیشہ یہی کہا کہ ’’ ہم پاکستانی ہیں اورکشمیر ہمارا ہے ۔‘‘ عبد العلیم خان نے کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی جب کوئی کشمیری شہید ہوتا ہے تو وہ پاکستان کے پرچم میں دفن ہونا پسند کرتا ہے ۔دنیا جانتی ہے کہ کشمیریوں کا پہلا اورآخری تعلق پاکستانیوں سے ہی ہے جس سے کسی صورت دونوں اطراف سے کوئی بھی دستبردار نہیں ہو سکتا ۔اہم بات یہ ہے کہ عبد العلیم خان کی والدہ محترمہ بیگم نسیم خان مرحومہ خود کشمیری فیملی سے تعلق رکھتی تھیں سو کشمیر تو علیم خان کی حقیقی مدر لینڈ ہے جس سے بیٹے دستبردار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن سوال تو یہ ہے کہ جس عہدِ نیازی میں کشمیری شہیدوں کی کمائی لٹی ہے اُس کو ابھی تک کشمیریوں کا مجرم کیوں نہیں ٹھہرایا گیا ؟۔