بنگلہ دیش : عوامی لیگ کے رہنماؤں کے گھروں پر حملوں کا سلسلہ پھیل گیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
ڈھاکہ(نیوزڈیسک)بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں میں عوامی لیگ کے وزراء اور کارکنان کی رہائش گاہوں، دفاتر، اور شیخ مجیب الرحمٰن سے منسوب مقامات پر حملوں، توڑ پھوڑ، اور آتش زنی کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ رہنماؤں کے گھروں پر حملوں کا سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے۔ ان واقعات کا آغاز اُس وقت ہوا جب معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے جلاوطنی سے اپنے حامیوں سے خطاب کرنے کا اعلان کیا۔
اس اعلان کے بعد مظاہرین نے ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمٰن کی تاریخی رہائش گاہ، جو بعد میں میوزیم میں تبدیل کی گئی تھی، پر حملہ کر کے اسے نذر آتش کیا۔اس کے علاوہ، ملک کے دیگر حصوں جیسے کھلنا، چٹاگانگ، سلہٹ، اور رنگ پور میں بھی عوامی لیگ کے رہنماؤں کے گھروں اور دفاتر پر حملے کیے گئے۔
کھلنا میں شیخ حسینہ کے چچا کے گھر، جو ’شیخ باری‘ کے نام سے مشہور تھا، کو بھی مسمار کیا گیا۔ مقامی صحافیوں کے مطابق، طلبہ تحریک کے رہنماؤں اور کارکنوں نے اس گھر میں توڑ پھوڑ کی اور بعد میں بلڈوزر کے ذریعے اسے منہدم کر دیا۔
ان حملوں کے دوران، عوامی لیگ کے سابق وزیر طفیل احمد کی بھولا میں واقع رہائش گاہ کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق، مظاہرین نے ان کی رہائش گاہ کے سامنے جمع ہو کر حکومت مخالف نعرے لگائے اور بعد میں عمارت میں توڑ پھوڑ کر کے فرنیچر کو آگ لگا دی۔
ان پرتشدد واقعات کے بعد، شیخ حسینہ واجد نے اپنے والد اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کے گھر کو نذر آتش کیے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ عمارت کو گرا سکتے ہیں لیکن تاریخ کو مٹا نہیں سکتے.
‘ان واقعات کے پس منظر میں، بنگلہ دیش میں گزشتہ سال اگست میں طلبہ کی جانب سے امتیازی سلوک کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، اور وہ ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئی تھیں۔ اس کے بعد سے ملک میں عبوری حکومت قائم ہے، لیکن سیاسی کشیدگی اور پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے.
امریکہ میں طیارہ مسافروں سمیت لاپتہ،سرچ آپریشن جاری
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: عوامی لیگ کے بنگلہ دیش رہنماو ں
پڑھیں:
مودی سرکار کی پشت پناہی سے منی پور میں عسکریت پسندوں کا راج قائم
نیو دہلی:منی پور کی وادی امپھال میں مودی سرکار کی متعصبانہ پالیسیوں کے باعث عسکریت پسندوں کا راج قائم ہو چکا ہے۔
اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں مکمل ناکامی کے بعد صورتحال بد سے بدتر ہو چکی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق سرکاری سرپرستی میں کوکی قبائل کی جائیدادیں غیر محفوظ ہو چکی ہیں جبکہ صدارتی راج کے نفاذ اور سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود ان کی خلاف ورزی جاری ہے۔
علاقے میں گھروں پر حملے، لوٹ مار اور زبردستی قبضے معمول بن چکے ہیں۔ شہریوں کے لیے اپنے گھروں کو واپس جانا ناممکن ہو چکا ہے۔ بھارتی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ عسکریت پسند گروہوں نے کوکی قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھروں کے دروازوں پر نشانات لگا دئیے ہیں، جبکہ نام نہاد سیکیورٹی کے لیے تعینات بھارتی فورسز خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
جدید اسلحے سے لیس عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے علاقے میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔ میتی قبائل سے وابستہ عسکریت پسند گروہ "آرامبائی تنگگول" کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی کیونکہ بھارتی حکومت ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ کاروبار عسکریت پسندوں کی کمائی کا ذریعہ بن چکا ہے، جو کچھ بھی کماتے ہیں، اس کا حصہ عسکریت پسندوں کو دینا پڑتا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق بھارتی فورسز نے کئی مواقع پر گاؤں کے لوگوں کو لوٹنے میں عسکریت پسندوں کی مدد بھی کی ہے۔ لوگوں کے موبائل فون چیک کیے جاتے ہیں، اور اگر کسی کا کوکی برادری سے رابطہ نکل آئے تو نہ صرف اسے دھمکایا جاتا ہے بلکہ جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔
منی پور فسادات پر وزیر اعظم نریندر مودی کی مسلسل خاموشی پر انہیں شدید تنقید کا سامنا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق منی پور کے بگڑتے حالات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مودی سرکار کے ایجنڈے میں اقلیتیں کبھی بھی ترجیح نہیں رہیں۔