امریکہ میں طیارہ مسافروں سمیت لاپتہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
امریکہ میں طیارہ مسافروں سمیت لاپتہ WhatsAppFacebookTwitter 0 7 February, 2025 سب نیوز
بیرنگ ایئر کی ایک پرواز، جس میں 9 مسافر اور 1 پائلٹ سوار تھے، الاسکا میں نوم کے قریب لاپتہ ہوگئی۔ طیارہ سیسنا 208B گرینڈ کارواں جمعرات کی سہ پہر انالکلیٹ سے نوم جاتے ہوئے ریڈار سے غائب ہوگیا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ پرواز نمبر 445 نے 2 بجکر 37 منٹ (2:37pm) پر انالکلیٹ سے ٹیک آف کیا تھا۔ اور آخری بار نورٹن ساؤنڈ کے علاقے میں 3 بجکر 16 منٹ (3:16pm) پر ریڈار پر دیکھی گئی۔
رپورٹ کے مطابق طیارہ لاپتہ ہونے کے بعد شام 4 بجے سے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کی جانب سے طیارے کی تلاش اور مسافروں کو بچانے کی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں۔
اس سلسلے میں نوم فائر ڈیپارٹمنٹ اور وائٹ ماؤنٹین کے زمینی عملے نے بھی تلاش کا عمل شروع کردیا ہے۔ گو کہ موسم کی خرابی اور کم مرئیت (Low visibility) کی وجہ سے فضائی تلاش میں مشکلات کا سامنا ہے۔
امریکی کوسٹ گارڈ نے لاپتہ طیارے کی تلاش میں C-130 طیارہ روانہ کیا ہے جو گرڈ پیٹرن میں تلاش کرے گا۔
امریکی فضائیہ کی جانب سے بھی ریسکیو مشن کے لیے معاونت فراہم کی جارہی ہے۔
مقامی حکام کے مطابق، علاقے میں موسم شدید خراب ہے، جس کی وجہ سے تلاش میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔
زمین پر تلاش کرنے والی ٹیمیں سنو مشینوں اور دیگر گاڑیوں کے ذریعے کام کر رہی ہیں۔ سمندری برف کی غیر مستحکم صورتحال کی وجہ سے بچاؤ عملے کو مشکلات کا سامنا ہے۔
نوم فائر ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ ’ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ طیارے اور اس میں سوار افراد کو جلد از جلد تلاش کیا جائے۔ موسم کی وجہ سے فضائی تلاش میں مشکلات آ رہی ہیں، لیکن زمینی ٹیمیں متحرک ہیں۔ ہم عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ خود سے کوئی سرچ آپریشن نہ کریں اور لاپتہ افراد کے لیے دعا کریں۔‘
نورٹن ساؤنڈ ہیلتھ کارپوریشن نے کمیونٹی میڈیکل ایمرجنسی کے لیے الرٹ جاری کر دیا ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مدد فراہم کی جا سکے۔
یہ حادثہ الاسکا کی خراب موسم میں فضائی سفر کے خطرات کو ظاہر کرتا ہے۔ امدادی ٹیمیں دن رات تلاش میں مصروف ہیں، اور امید ہے کہ جلد کوئی سراغ مل جائے گا۔ عوام سے اپیل کی جارہی ہے کہ وہ حکام کے ساتھ تعاون کریں اور لاپتہ افراد کی سلامتی کے لیے دعا کریں۔
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
بلوچستان کا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا
بلوچستان کے حوالے سے ہمارے پاس تین آپشن ہیں۔اول، بغیر کسی سمجھوتے کے حالات کی درستگی کے لیے مکمل طاقت کا استعمال کیا جائے، جو لوگ ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں، ان کو سختی سے کچلا جائے اور کوئی نرمی نہ کی جائے۔دوئم، بلوچستان کا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس تناظر میں بلوچستان میں جو بھی سیاسی یا غیر سیاسی فریقین ہیں ان کو اعتماد میں لے کر ایک بڑا سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
اس طبقہ کے بقول طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں بلکہ بگاڑ پیدا کرے گا۔سوئم، ہمیں طاقت کا استعمال اور سیاسی حکمت عملی کو ساتھ ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہوگا ، جہاں طاقت ضروری ہو وہیں اس کا استعمال کیا جائے لیکن مستقل حکمت عملی سیاسی بنیادوں پر تلاش کرنا ہی ریاست کے مفاد میں ہوگا۔ ماضی میں ہم نے بلوچستان میں کئی آپریشن کیے ہیں۔لیکن کوئی مستقل حل نہیں نکلا بلکہ حالات زیادہ بگاڑ کا شکار ہو گئے ہیں۔
سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ بلوچستان میں سیاسی اور جمہوری لوگ بھی تحفظات رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں موجود سیاسی قیادت یا حکومت کے درمیان بد اعتمادی کا یہ ماحول حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بن رہا ہے۔وفاقی حکومت یا بلوچستان کی صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی ایسی سنجیدہ کوشش یا عملی اقدام ابھی تک نظر نہیں آیا جس میں انھوں نے بلوچستان کی تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا ہو ۔
بظاہر ایسے لگتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت ایک جانب کھڑی ہیں اور دوسری جانب بلوچستان کی حکومت مخالف سیاسی قیادت ہے جو حکومت سے مختلف سوچ رکھتی ہے۔حالانکہ حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہی ہونی چاہیے تھی کہ بلوچستان میں موجود تمام علاقائی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جاتا۔ حالانکہ سردار اختر مینگل،محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ماضی میں مختلف سیاسی ادوار میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا باقاعدہ حصہ رہے ہیں۔ لیکن اب حکومت اور بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتوں کے درمیان فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔
ہمیں بلوچستان کے مسئلے کے حل میں وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کا کوئی بڑا سیاسی کردار دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ایسے لگتا ہے کہ وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔اسی طرح ایک اور غلطی یہ کی جا رہی ہے کہ بلوچستان کے حل کو محض ایک صوبائی مسئلہ سمجھ کر حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔حالانکہ یہ محض ایک صوبائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق قومی سیاست یا ملک کے سیاسی ، سیکیورٹی اور معاشی عدم استحکام سے جڑاہوا ہے۔
بلوچستان کے حالات کی بہتری میں محض طاقت کے استعمال کی حکمت عملی کسی صورت کارگر ثابت نہیں ہوگی بلکہ اس کا نتیجہ مزید سیاسی انتشار اور بگاڑ کی صورت میں پیدا ہوگا۔بالخصوص جب ہمارا موقف یہ ہے کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں بھارت کی مداخلت سر فہرست ہے اور جو لوگ بلوچستان میں بیٹھ کر پاکستان کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں ان کو کسی نہ کسی شکل میں بھارت کی معاونت اور سہولت کاری حاصل ہے تو ایسے میں ہمیں سیاسی محاذ پر اور زیادہ ذمے داری کے ساتھ صوبے کے حالات کو درست کرنے کی طرف حکمت کو اختیار کرنا ہوگا۔
بھارت کی مداخلت اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے داخلی معاملات سے جڑے مسائل اور خرابیاں بھی ہمارے حالات کو خراب کرنے کے ذمے دار ہیں۔پچھلے دنوں آرمی چیف نے بجا کہا تھا کہ ہمارے حالات کی خرابی میں جہاں داخلی سطح کے معاملات ہیں وہیں گورننس سے جڑے مسائل بھی ہمارے لیے حالات کو خراب کرنے کی وجہ بن رہے ہیں۔ گورننس کے حالات محض صوبہ بلوچستان میں خراب نہیں بلکہ ملک کی مجموعی صورتحال ہی ایسی ہے۔اس لیے ہمیں داخلی معاملات کا تجزیہ کرنا ہوگا اور یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ حالات کی خرابی میں ہمارے داخلی معاملات کا ہاتھ بیرونی مداخلتوں سے زیادہ ہے ۔
بلوچستان میں جہاں گورننس سے جڑے مسائل اہمیت رکھتے ہیں وہیں سیاسی مسائل بھی حالات کی خرابی میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔لاپتہ افراد کا معاملہ ہو یا لوگوں کے بنیادی شہری یا انسانی حقوق ہو یا قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی ہو یا لوگوں میں بڑھتا ہوا سیاسی اور معاشی محرومی کا پہلو ہو یہ سب وہ نکات ہیں جس پر بلوچستان کے لوگوں میں سخت تحفظات پائے جاتے ہیں۔لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست اور حکومت کے ادارے ان کے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کا علاج ریاستی اور حکومتی اداروں کو ہر سطح پر تلاش کرنا چاہیے۔
کیونکہ اگر ہم نے بلوچستان کے حالات کو درست کرنا ہے تو یہ بلوچستان کے لوگوں کو شامل کیے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔ مرکزی اور بلوچستان میں موجود سیاسی قیادت کے درمیان اتفاق رائے کا پیدا ہونا اور ایک دوسرے کے معاملات یا فہم کو سمجھنا اور ایک مشترکہ حکمت عملی بنانا اہم ہے۔لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ہی ممکن ہوگا جب ہم طاقت کی حکمت عملی سے باہر نکل کر سیاسی حکمت عملی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل میں وفاقی حکومت فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرے اور اس اجلاس میں بلوچستان کے حالات کو درست کرنے میں بڑا فریم ورک سامنے لانا ہوگا۔
بلوچستان کے حالات کو درست کرنے میں اس تاثر کی ہر سطح پر نفی ہونی چاہیے کہ وہاں پر جو بھی فیصلے ہو رہے ہیں اس میں سیاسی جماعتوں یا سیاسی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی باہمی حکومت ہے۔ لیکن ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی صوبے کے حالات کی بہتری میں ابھی تک کوئی اہم کام نہیں کیا۔ بلوچستان میں صوبائی حکومت کی کمزوری نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
وفاقی حکومت یا بلوچستان کی صوبائی حکومت ابھی تک ہمیں ان کی جانب سے کوئی ایسی سنجیدہ کوشش یا اہم عملی اقدام نظر نہیں آیا جس میں انھوں نے بلوچستان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا ہو یا ان کی مدد سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ریاست کے ادارے وفاقی اور صوبائی حکومت ایک جانب کھڑے ہیں اور دوسری جانب بلوچستان کی سیاسی قیادت ہے جو معاملات کی بہتری میں ریاست اور حکومت سے مختلف سوچ یا نقطہ نظر رکھتی ہے۔
حالانکہ ریاست اور حکومت کی پہلی ترجیح یا حکمت عملی یہ ہی ہونی چاہیے تھی کہ آگے بڑھنے کے لیے سب سے پہلے بلوچستان میں موجود تمام علاقائی جماعتوں یا ان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جاتا۔ ایک طرف بلوچستان کے پہاڑوں پر بیٹھ کر ریاست یا حکومت کو مسلح مزاحمت یا اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف بلوچستان کی عملا سیاسی قیادت کی جانب سے سیاسی مزاحمت بھی ایک بڑے خطرہ کے طور پر سامنے آئی ہے۔
بلوچستان میں موجود لوگوں کے جو مسائل ہیں ان کو محض جذباتیت کی بنیاد پر دیکھنے کی بجائے یا الزام تراشیوں کا سہارا لینے کی بجائے یہ سمجھا جائے کہ ان مسائل کی حقیقت کیا ہے اور وفاقی یا صوبائی حکومت اس کی بہتری میں کیا کردار اداکر سکتی ہے۔سردار اخترمینگل، محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تجربہ کار سیاستدان ہیں اور ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ سیاسی راستہ تلاش کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔