90 فیصد ریونیو دینے والے شہر کراچی کا ٹریفک نظام تباہ و برباد ہوچکا
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک) آبادی کے لحاظ سے ایشیاء کا چوتھا بڑا شہر اور پاکستان کا 90فیصد ریونیو دینے والا شہر کراچی کا ٹریفک نظام تباہ و برباد ہوچکا ہے۔
ٹریفک پولیس کی ناقص کارکردگی کے باعث شہر میں بلا روک ٹوک دندناتی ہیوی ٹریفک کی وجہ سے حادثات اور اسکے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کے زیاں میں ہوشربا اضافہ کے باجو د ٹریفک پولیس اور دیگر حکام کی غیر سنجیدگی کے باعث شہری تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق شہر میں ٹریفک پولیس ٹریفک نظام کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے،ٹریفک حادثات معمول بن گئے ہیں ،بلا روک ٹوک ہیوی ٹریفک دن کے اوقات میں دندناتے دیکھائی دیتے ہیں جو اکثر بے قابو ہوکر خطرناک حادثات کا سبب بن رہے ہیں جس میں سینکڑوں قیمتی جانوں کے زیاں کے باوجود ٹریفک پولیس دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک کو روکنے میں ناکام دیکھائی دے رہی ہے۔
شہر میں دن کے اوقات میں چلنے والی ہیوی ٹریفک کے باعث ہونے والےخونی حادثات کے باوجود کسی ٹریفک آفیسر کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکا،ایس ایس پی ٹریفک ایسٹ اصغر علی شاہ نے جنگ کو بتایا ہےکہ ٹریفک کا مسئلہ ہمارے بس سے باہر ہے، ملینیم مال میں حادثہ کی وجہ بننے والا ڈمپر سندھ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ کا حصہ ہے،سندھ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ کے آپریشنز میں استعمال ہونے والی ہیوی ٹریفک کو ہم نہیں روک سکتے۔
ملینیم مال حادثہ کا ذمہ دار ڈرائیور موزو خان تھا اس کا ڈمپر کچھ عرصہ قبل بھی شاہراہ فیصل پر ڈمپر الٹ گیا تھا جس میں پولیس نے ڈمپر کو قبضے میں لیا تھا،تاہم عدالت سے ڈمپر چھڑوادیا گیا۔
ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز نے جنگ کو بتایا ہے کہ شہر بھر میں سندھ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ کی 1100 ڈمپر گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں جنہیں دن کے اوقات میں چلنے کی اجازت ہے۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں صفائی ستھرائی کا کام صبح کے آغاز سے پہلے مکمل کرلایا جاتا ہے تاہم شہر کی سڑکوں پر غلاظت سے بھرے ڈمپر گاڑیاں کراچی کی اہم شاہراہوں پر دن کے اوقات میں چلتے دیکھائی دیتے ہیں جو نہ صرف شہر میں بدبو اور تعفن پھیلاتے پھررہے ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف حادثات کے نتیجے میں بہت سے قیمتی جانوں کے ضیاء کا سبب بنتی ہے۔
شہریوں نے مطالبہ کیا ہےکہ سندھ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ سمیت کسی بھی ہیوی ٹریفک کو دن کے اوقات میں شہر میں داخلہ کی اجازت نہیں دی جائے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا تحفظ ہوسکے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دن کے اوقات میں ٹریفک پولیس جانوں کے
پڑھیں:
ڈمپر و ٹینکرز سے شہریوں کی اموات، ذمہ دار سند ھ حکومت و پولیس ہے،منعم ظفر
کراچی:امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفرخان نے گزشتہ روز راشد منہاس روڈ پر ملینئیم مال کے قریب تیز رفتار ڈمپر کی ٹکر سے جاں بحق ہونے والے کامران رضوی اور ان کی اہلیہ کی امام بارگاہ دربار حسینی برف خانہ ملیر میں ادا کی جانے والی نماز جنازہ میں شرکت کی اور ان کے اہل ِ خانہ سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا۔
منعم ظفر خان نے نماز جنازہ کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے تیز رفتار ڈمپر کی ٹکر سے شوہر اور بیوی کے جاں بحق ہونے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں ہیوی ٹریفک اور تیز رفتار ڈمپر و ٹینکرز کی ٹکر سے شہریوں کی اموات کی ذمہ دارسندھ حکومت اور پولیس ہے،قابض میئرمرتضیٰ وہاب ایڈیشنل آئی جی پولیس کوخط لکھ کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی کا کہنا تھا کہ مرتضیٰ وہاب سندھ حکومت کے ترجمان ہیں اور پولیس سندھ حکومت کے ماتحت ہے ،سندھ حکومت و محکمہ پولیس ڈمپرز اور ہیوی ٹریفک کو شہر میں نقل و حرکت کے اوقات کی پابندی کرانے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی احکامات کے مطابق ڈمپرز کے شہر میں صبح 7بجے سے رات گیارہ بجے تک نقل و حرکت پر پابندی کے باوجود شام 5بجے یہ اندوہناک حادثہ پیش آیا۔ حکومت،انتظامیہ اور پولیس کہاں ہیں؟
منعم ظفر خان کا کہنا تھا کہ کراچی کے شہریوں کو تیز رفتار ڈمپروں اور ٹینکروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے دوسری جانب ٹریفک قوانین کی پابندی یقینی بنانے کے لیے بھی عملاً شہر میں کوئی مؤثر نظام موجود نہیں، پولیس شہریوں بالخصوص موٹر سائیکل سواروں کو جگہ جگہ روک کر مال بنانے میں مصروف رہتی ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ شہر میں گزشتہ 35 دن میں ڈمپر و ٹینکرز کی ٹکر سمیت 85 سے زائد ایسے واقعات اور حادثات ہوچکے ہیں، جن میں کئی لوگ اپنی جان سے چلے گئے ہیں،یہ ایک المیہ اور اہل کراچی کے ساتھ بڑاظلم ہے،لوگ کب تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔منعم ظفر خان نے کہا کہ ہم ملینئیم مال پر ہونے والے حالیہ حادثے سمیت دیگر متاثرہ خاندانو ں کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحومین کے درجات بلند،لواحقین و پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔