Nai Baat:
2025-04-15@09:51:29 GMT

نیا قانون اور ٹریڈ باڈیز کے نئے انتخابات

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

نیا قانون اور ٹریڈ باڈیز کے نئے انتخابات

پاکستان اب ایک نہیں کئی موسموں کا خطہ بن چکا ہے۔ ایک تو قدرت کے چار موسم دوسرا ہمارے ملک کو اس سانچے میں ڈھال دیا گیا کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک دم چلتے چلتے اچھے بھلے نظام کو بریک لگا دی جاتی ہے جیسے گزشتہ دنوں ٹریڈ سیاست کا موسم ایک دم بدل گیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ لاہور چیمبر کے انتخابات جو دو سال کے لئے 2024ء میں ہونا تھے اور اگلے انتخابات 2026ء کو ہونا تھے ،پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں ٹریڈ باڈیز کے حوالے سے چار بل منظور ہوئے اور اس بل نے تمام ٹریڈ سیاست کے موسم بدل کے رکھ دیئے اور پھر سے انتخابی ماحول بننے جا رہا ہے۔ یہ سیاست ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کس وقت کون ساتھ دے کون چھوڑ جائے۔ ابھی یہ قبل از وقت کی باتیں ہیں۔ مقابلہ پھر انہی کے درمیان ہے جو آج ہیں۔ گزشتہ دنوں جیسے ہی یہ خبر بریک ہوئی کہ نئے ٹریڈ قوانین کے تحت 2025 میں تمام پاکستان کے چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے انتخابات ازسرنو ہوں گے تو ٹریڈ حلقوں میں بڑی شدت کے ساتھ ہلچل ہوئی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ 2024 میں ہونے والے انتخابات جو کہ دو سال کے لئے ہوئے اب پھر2025ء میں ہوں گے۔ آل چیمبرز بشمول لاہور چیمبر 2024ء کے انتخابات کو ہوئے ابھی پانچواں مہینہ ہوا ہے اور 2024ء کے انتخابات کا ایک سال ستمبر 2025ء میں مکمل ہوگا۔ یہ جو نیا قانون آیا ہے یہ نیا نہیں ہے۔ یہ پرانا بل ہے جو دوسری بار منظور ہوا ہے جس کے تحت اب ازسرنو انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ 2021 میں پارلیمنٹ کے اندر ایک ٹریڈ آرگنائزیشن ترامیم بل پیش ہوا تھا جسے اس وقت کے وزیر انڈسٹری نوید قمر نے پیش کیا اس میں حکومت نے چند ترامیم کرنا تھیں جو 22شقوں کے لگ بھگ تھیں، بنیادی طور پر یہ بل 2013 میں لایا گیا تھا اس دوران ٹریڈ آرگنائزیشن آٹھ سالہ تجربہ کر چکی تھیں۔ اسی دوران منسٹری آف کامرس نے ترامیم کا مجموعہ اکٹھا کرکے ایک سمری کابینہ کو بھجوا دی۔ کابینہ نے ترامیم کی منظوری دے دی اس سے قبل 2017میںبھی ایک کوشش کی گئی تھی کہ اگر سارا بل پاس نہیں ہوتا تو کم از کم ایک شق جس کے تحت صدرکی مدت 2 سال بنتی ہے اس کو پاس کیا جائے لہٰذا یہ شق 2021 میں پاس کر دی گئی اس کے ساتھ ہی دو تین بڑی رکاوٹیں آئیں یعنی رولز اور ایکٹ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں مل رہے تھے اب چونکہ رولز ایک سال کے ماڈل ایکٹ کے تحت بنے تھے جبکہ ایکٹ 2 سال کی صدارت کے لئے لہٰذا یہ بل اسلام آباد ہائی کورٹ میں گیا۔ ہائی کورٹ نے اس پر حکم دیا کہ تمام رولز کو ایکٹ کے مطابق کیا جائے۔ اس پر 2022ء میں حکومت نے یہ رولز پاس کر دیئے اس دوران نوید قمر کی یہ خواہش تھی کہ جیسے ہی یہ بل پاس ہو تمام ٹریڈ آرگنائزیشن کے نئے انتخابات ہو جائیں مگر ہوا یہ کہ جب تک صدر کے دو سال پورے نہیں ہو جاتے نئے انتخابات نہیں ہو سکتے تھے۔ اسی دوران یہ بل سابق صدر علوی کی میز پر چلا گیا انہوں نے یہ کہہ کر بل واپس پارلیمنٹ بھجوا دیا کہ اس میں مزید پیشرفت کی ضرورت ہے پھر حکومت ختم ہوگئی اور معاملہ نئی حکومت کے قائم ہونے تک ٹھپ ہو گیا۔

4جنوری 2025ء کو یہ بل دوبارہ ترامیم کے ساتھ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش ہوا تو اس کی منظوری دے دی گئی قاعدے کے تحت صدر دوبارہ کوئی بھی بل اگر ترامیم کے لئے پارلیمنٹ بھیجتا ہے اور پارلیمنٹ دوبارہ اس کی منظوری دیتی ہے تو پھر صدر کے دستخط کی بھی ضرورت نہیں رہتی اور بل لاگو ہو جاتا ہے۔ اس نئے بل کے ساتھ ہی اب تمام ٹریڈ باڈیز کے انتخابات سال رواں ستمبر میں ہوں گے جس کا شیڈول جولائی میں جاری ہو گا اس طرح فیڈریشن کے انتخابات جو کہ دسمبر سال رواں میں ہونے جا رہے ہیں اس کا شیڈول ستمبر میں جاری ہوگا۔ جس کا تمام پروسیجر پارلیمنٹ نے پاس کر دیا ہے میرے ذرائع کے مطابق ٹریڈ باڈیز میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اس قانون کو ختم کرانے کے لئے ہائی کورٹ میں جائیں گی۔ ایسا اب ممکن نہیں، پارلیمنٹ سے جو بل ایک بار پاس ہو جائے تو آج کل کے ماحول میں کورٹ کی طرف سے ایسے بہت کم فیصلے دیکھے گئے کہ ان پر عمل درآمد کے حکم کو روک دیا جائے۔

میری رائے ہے کہ شاید حکومت یہ چاہتی ہے کہ فیڈریشن کے انتخابات سے دو تین ماہ پہلے تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے انتخابات ہو جائیں اور پھر اگلے دو تین ماہ بعد فیڈریشن کے انتخابات ہوںیعنی دونوں کے انتخابات میں طویل گیپ نہ دیا جائے ویسے بھی اب ہمارے ملک میں یہ روایت بن گئی ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس کئے بل کو جب عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے اور اگر عدالت اس پر حکم امتناعی جاری کر بھی دے تو حکومت اس کو تسلیم نہیں کرتی لہٰذا اب عدالتیں بھی دفاعی پوزیشن پر آ گئی ہیں خاص کر 26ویں آئینی ترمیم کے پاس ہونے سے معاملات مزید الجھ گئے ہیں اور کوئی بھی عدالت آج کل کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے سے پرہیز کر رہی ہے اس لئے کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اگر یہ معاملہ عدالت میں لے جانے کی کوشش ہوئی تو وہ کامیاب ہو جائے گی ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ اب نئے قوانین سامنے آ چکے ہیں اور 2025 پھر انتخابات کا سال قرار دے دیا گیا ہے ایک ابہام جو ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 2025 میں ہونے والے انتخابات ایک یا دو سال کے لئے ہوں گے تو قانون کے مطابق 2025 کے انتخابات دو سالہ مدت کے لئے ہیں۔

گزشتہ دنوں سابق صدر لاہور چیمبر اور اب 33ویں ای سی ممبر کاشف انور کا ایک ولاگ سننے کو ان کے بقول بادشاہت صرف میرے اللہ کی ہے وہ جب تک چاہتا ہے اپنی بادشاہت سے جس کوکرسی عنایت کر دے کر دیتا ہے 24 جنوری 2025 کو جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ٹریڈ آرگنائزیشن کے بارے چار بل پیش ہوئے جو پاس ہونے کے بعد صدر آصف علی زرداری کی میز پر پہنچ چکے، اس بل میں جو ترمیم پاس ہوئی ہے اس کے مطابق تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے انتخابات جو 2026 میں ہونا تھے وہ اب اسی سال رواں میں ہوں گے اور سابقہ تمام باڈیز ریٹائر ہو جائیں گی یہی بل 2023 میں بھی پیش ہوا جو منظور تو ہو گیا مگر اس وقت کے صدر نے اس پر اعتراضات لگا کر اس بل کو واپس کر دیا اب چونکہ انتخابات ہونے جا رہے ہیں پھر تیاریاں ہوں گی پھر وہی جوڑ توڑ، پھر کھابے شابے، پھر وعدے، پھر کمپین اب جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں وہ موجودہ باڈی کی کارکردگی پر ہو گا کہ انہوں نے اپنے ووٹرز کے ساتھ جو وعدے کئے تھے کیا وہ پورے ہوئے یا نہیں… کاشف انور کے اس ولاگ کے بعد میں نے ٹریڈ کے بڑے لیڈران سے ملاقات کی اور ستمبر میں ہونے والے انتخابات کے بارے پوچھا کہ کیا اب پھر اتحاد بنیں گے ٹوٹیں گے کیا پھر سے نئی محاذ آرائی شروع ہو گی تو ایک موقف یہ ضرور سامنے آیا کہ یہ ٹریڈسیاست جو اب ملکی سیاست کے رنگوں میں ڈھل چکی ہے۔ ان انتخابات میں نئے اتحاد ٹوٹتے بنتے نظر آ رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ٹریڈ ا رگنائزیشن ہونے جا رہے ہیں انتخابات جو پارلیمنٹ کے انتخابات ہو کے انتخابات ا رہے ہیں کے مطابق میں ہونے کے ساتھ پاس ہو کے لئے ہوں گے کے تحت کیا جا دو سال سال کے

پڑھیں:

راشن خیال قوم اور ملاوٹی جمہوریت

ایوب خان کا مارشل لا ہو یا جنرل یحیٰ کا قلیل مدتی اقتدار، ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ صدارت ہو یا وزارتِ عظمی کا دور، جنرل ضیا کا 90 دنوں میں انتخابات کا وعدہ کر کے ایک عشرے کا نافذ کردہ مارشل لا ہو یا 1987 سے 1999 تک اقتدار میں آنے والی بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان کھیلی جانے والی میوزکل چیئرز کا کھیل، مشرف کا بطور سویلین صدر ختم ہونے والا آمرانہ دور ہو یا نواز شریف کی 2017 میں اور عمران خان کی 2021 میں حکومتیں ختم کرنے کے بعد آج تک جاری رہنے والا ہائیبرڈ نظام ۔۔۔۔

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ان 78 سالوں میں سب کچھ آزما لیا، نہیں آزمایا تو خالص جمہوریت کا وہ غیر آزمودہ طرزِ حکمرانی جس کے سبب پاکستان کے بعد معرضِ وجود میں آنے والے ممالک آج ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔

ہمارے بڑے جب ہم جتنے بڑے تھے تو ان کا دعوی ہے کہ ایوب خان کا دورِ اقتدارسب سے سنہرہ دور تھا۔ اس دور میں نہ صرف تربیلا اور منگلہ ڈیم بنے بلکہ اشیا خورونوش کی قیمتیں انتہائی کم تھیں۔

جنرل ایوب نے 1954 میں ہونے والے سیٹو معاہدے کے نتیجے میں ملنے والے ڈالرز سے عوام کو سستے راشن کی فراہمی اور ڈیموں کی تعمیر تو یقینی بنائی، لیکن اس پاداش میں پاکستانی قوم یہ بھول گئی کہ قوموں کو روشن خیال ہونا چاہیے ناکہ راشن خیال۔

راشن خیالی میں قوم بھول گئی کہ دیگر ممالک میں رائج جمہوریت نے ان قوموں کو آج کی کامیاب ترین قومیں بنے میں مدد فراہم کی۔ ایوب نے صرف قوم کو سستے راشن کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا اور پاکستان کی آزادی کے بعد پہلے 20 سالوں میں جمہوریت کے ملک میں پہنپنے ہی نہ دیا جس کے سبب آج تک قوم جمہوریت کے لیے ترستی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ایوب کی حکومت کے خاتمے کی ایک مبینہ وجہ چینی کی قیمت میں اضافہ بنی۔

ایوب کے بعد جنرل یحی کا دور ایسا دور تھا جس میں منعقد ہونے والے 1970 کے انتخابات کو پاکستان کے منصفانہ ترین انتخابات مانا جاتا ہے، لیکن اس کے بعد ہوا کیا؟ ملک ٹوٹ گیا اور اس کا ذمہ دار مجیب اور بھٹو کو ٹھرایا گیا۔ اس کے باوجود کے اقتدار جنرل یحیی کے پاس تھا جو چاہتا تو اپنے زیرِ اثر بھٹو کو قائل کرکے مجیب کی حکومت بنوا سکتا تھا لیکن۔۔۔

جنرل ضیا کے لگ بھگ ایک عشرے کے دور میں جہاں سوویت یونین کے خلاف پاکستانی فوج کی خدمات کرائے پر دینے پر ملک کو کثیر تعداد میں ڈالر ملے، وہیں دوسری طرف ملک میں انہی ڈالروں کی بدولت قدرے خوشحالی قائم رہی۔

قوم کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ امریکی ڈالروں کے عوض جو طالبان پاکستان بنا رہا ہے، یہی طالبان ہمارے دشمن بنیں گے۔ قوم کو جہاد کے لیے قائل کیا گیا اور یوں جنرل ضیا کا دور ایک ایسے حادثے کی صورت میں ختم ہوا کہ انہیں دفنانے کے لیے دیگر چند اعضا سمیت سونے کے دانتوں کو دفنانا پڑا۔

بھٹو کے نام نہاد جمہوری دور کے بعد ملک میں ہونے والے 1988 کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان اقتدار کے لیے میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع ہوا اور 1999 میں مشرف کے مارشل لا تک دونوں رہنماؤں نے دو دو بار اقتدار کی کرسی حاصل کی۔ لیکن انہی دونوں نے فیصلہ سازوں کی مدد سے ایک دوسرے کو اقتدار کی کرسی سے چلتا کیا۔

قدرت کا نظام کہیں یا عالمی طاقتوں کی منصوبہ بندی۔ مشرف کے اقتدار میں آنے کے دو سالوں بعد ہی نائن الیون ہو گیا۔ پھر کیا تھا۔ اندھے کو کیا چاہیے، دو روٹیاں۔ کیونکہ جب اندھے کو ڈالروں کی صورت میں روٹیاں مل جائیں تو اسے دنیا دیکھ کر کرنا کیا ہے۔

افغانستان میں مشرف دور میں ضیا دور کے دوران تیار کردہ طالبان کے خلاف فوج کرائے پر دینے کے عوض ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی۔ سڑکوں پر چمچماتی گاڑیاں نظر آنے لگیں۔ بین الاقوامی فوڈ چینز پہنچ گئیں۔

اس سے قطع نظر کہ امریکا جب افغانستان سے نکلے گا تو طالبان، پاکستان کا کیا حال کریں گے، ڈالروں کی مسلسل فراہمی نے اس راشن خیال قوم کو کسی بھی منطقی نقطے پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بانجھ کر دیا۔ نجی چینلز کے آنے سے لوگوں میں ایسا شعور آیا کہ آج پوری قوم ہی ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر لگی ہے۔

خیر جو بھی کہیں یا نہ بھی کہیں، کہنے سے فرق کیا پڑتا ہے۔ مشرف نے اکیسویں صدی کی شروعات 2002 میں انتخابات کروا کر کی اور اپنی صدارت میں ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے 5 سال مکمل کیے۔ چاہے کچھ عرصے بعد ہی تکنیکی خرابی کی وجہ سے وزیراعظم بدلنے پڑے۔

کہنے کو کہا تو جا سکتا ہے کہ ملک میں کسی حد تک حقیقی جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 میں ہونے والے انتخابات کے بعد آئی، لیکن چلتی جمہوریت میں فیصلہ سازوں نے جب اپنے فوجی صدر کی حکومت میں پنگا کرنے سے باز نہیں آئے تھے تو اب بھی باز کیسے رہتے۔

اچانک سے عدالت کو خیال آیا کہ وزیراعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنا چاہیے، نہیں تو۔۔۔ اور یوں 5 سالہ دور بھی وزیراعظم کی تبدیلی کے بغیر مکمل نہ ہو سکا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اسی دور میں آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کی روائت پڑی۔

2013  کے انتخابات کو آر اوز کا الیکشن تو کہا گیا، لیکن عمران خان کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے انہیں قبول کر لیا۔ تاہم اگلے سال ہی پنگا کرنے والوں نے عمران خان اور مولانا طاہر القادری کو رشتہ احتجاج میں باندھ دیا اور یوں عمران خان 126 دنوں تک اسلام آباد میں براجمان رہے، جہاں وہ جمِ حقیر سے روزانہ خطاب کرتے اور امپائیر کی انگلی جلد اٹھنے کا اشارہ دیتے۔

خیر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ نواز شریف 5 سال پورے کرتے۔ آگیا پانامہ اور پھر پنگا کرنے والوں نے کر دیے لانچ اپنے پیادے۔ جس کے بعد 2017 سے ہائبرڈ نظام کی ایسی شروعات ہوئی جو آج تک جاری ہے۔

2018 کے انتخابات جس قدر متنازع تھے لیکن ان پر تنازع 7 جولائی 2024 تک ہی تھا، کیونکہ اس کے بعد 8 فروری کو ہونے والے انتخابات نے ایسے ورلڈ ریکارڈ قائم کیے جنہیں لگتا نہیں آسان ہو گا توڑنا۔

تاہم یہ پاکستان ہے جہاں خالص جمہوریت کے علاوہ تمام اقسام کے حکومتی نظام آزمائے جا چکے ہیں۔ 78 سالوں بعد ہمیں اس نتیجے پر تو پہنچ جانا چاہیے کہ ان سالوں میں جتنے بھی طریقے آزمائے گئے وہ ناکام ثابت ہوئے۔

لہذا کیوں نہ ایک بار خالص جمہوریت کو ہی موقع فراہم کر دیں۔ شائد نتائج دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کامیاب ہو جائیں۔ وگرنہ یہ نظام تو پچھلے 78 سالوں سے چل ہی رہا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نوید نسیم

متعلقہ مضامین

  • ایسا کوئی قانون پاس نہیں کریں گے جس سے صوبے کو نقصان ہو: شہرام ترکئی
  • راشن خیال قوم اور ملاوٹی جمہوریت
  • فلسطین ہو یا مقبوضہ کشمیر، بارود سے آواز نہیں دبائی جا سکتی، اعظم نذیر تارڑ
  • نیا وقف قانون سیاسی ہتھیار ہے مسلمانوں کیلئے ہرگز موزوں نہیں ہے، مولانا محمود مدنی
  • وقف قانون میں 44 خامیاں ہیں حکومت کی منشا وقف املاک پر قبضہ کرنا ہے، مولانا فیصل ولی رحمانی
  • ابرار کی ٹریڈ مارک وکٹ سیلیبریشن؛ تماشائی کے ری ایکشن کی ویڈیو وائرل
  • تنزانیہ میں 1977 سے برسر اقتدار پارٹی نے اپوزیشن جماعت کو الیکشن کیلئے نااہل قرار دلوا دیا
  • جوڈیشری کوئی شاہی دربار نہیں، اگر کیسز نہیں سن سکتے تو گھر جائیں، اعظم نذیر تارڑ
  • 26 ویں ترمیم کی خوبصورتی عدلیہ کا احتساب، جو ججز کیسز نہیں سن سکتے گھر جائیں: وزیر قانون
  • حکومت کے وکلاء کیساتھ معاہدے میں کبھی دھوکا نہیں ہو گا: اعظم نذیر تارڑ