لاہور کے ایک معروف ہوٹل میں ایک بوڑھا شخص تنہا بیٹھا بڑے مزے سے بلیک کافی پی رہا تھا۔ میری اس شخص پر نظر پڑی تو محسوس ہوا کہ مجھے بھی یہ مشروب پینا چاہئے اور اگلے ہی لمحے میں نے بھی کافی کا آرڈر دے دیا۔ ویٹر نے بلیک کافی علیحدہ چینی کے ساتھ پیش کردی۔ چینی کے بغیر اس کافی کا پہلا گھونٹ بہت ہی کڑوا محسوس ہوا۔ چینی شامل کرکے بھی کڑواہٹ برقرار رہی۔ اب سامنے والا بوڑھا شخص مجھے دیکھ رہا تھا اور زیر لب مسکراتے ہوئے مخاطب ہوا کہ بلیک کافی چینی کے بغیر 60 سال کے بعد پی جاتی ہے۔ ابھی شائد آپکی عمر 50 کے لگ بھگ ہوگی اس لئے چینی ڈال کر بھی اسکی کڑواہٹ نہیں جائے گی۔ اسکی بات بڑی معقول اور مناسب تھی۔ اس نے میری عمر کم بتائی جسے میں نے تصحیح کراتے ہوئے کہا کہ سر آپ ٹھیک کہ رہے ہیں لیکن اسوقت میری عمر 55 سال ہے۔ اس پر وہ بوڑھا شخص ایک بار پھر مسکرایا اور کہا کہ ابھی 5 سال زندگی کے مزید مزے لے لو اسکے بعد نہ تو آپکی مرضی چلنی ہے اور نہ ہی کسی نے نہیں پوچھنا ہے۔ پھر آپ اور میں اکٹھے اس ہوٹل میں بلیک کافی سے لطف اندوز ہوں گے اگر میں زندہ رہا کیونکہ 70 سال کے بعد ایک ایک لمحہ موت کی طرف جارہا ہے اور جو وقت بھی ملے اسکا لطف اٹھانا چاہئے۔ اس بوڑھے شخص کی بے تکلفی اور بات چیت بڑھتی جارہی تھی اور میں بھی فرصت کے لمحات میں اسکے تجربات اور گفتگو سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کررہا تھا۔ اس نے اپنی رام کتھا سنانی شروع کی اور بتایا کہ ساری زندگی بڑی محنت کرکے اپنی فیملی کی ضروریات پوری کرتا رہا۔ ایک سرکاری محکمہ میں ملازم تھااور گھر کی مالی مشکلات دور کرنے کے لئے ساری زندگی پارٹ ٹائم بھی ایک فرم میں کام کرتا رہا۔ پھر شادی ہوئی اور چار بچوں کو پڑھا لکھاکرایک ذمہ دار شہری بنایا۔ اسکے بعد ریٹائرمنٹ پر اپنا ایک 5 مرلے کا گھر بھی بنایا۔ بچوں کی شادیاں کرکے اس ذمہ داری سے بھی سبکدوش ہوا۔ اسکے تینوں بیٹے برسر روزگار اور اچھا پیسہ کمارہے ہیں جبکہ ایک بیٹی شادی کے بعد اپنے خاوند کے ساتھ امریکہ سیٹل ہے۔اس بزرگ نے بتایا کہ اسے بھی اتنی پنشن مل رہی ہے کہ دونوں میاں بیوی بہترین زندگی گذار سکتے ہیں۔ تمام تر گفتگو کے بعد وہ بوڑھا شخص رونا شروع ہوگیا اور میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ چاہتا ہے کہ اسکے بچے اکٹھے ایک ساتھ رہیں لیکن تینوں کی بیویاں بضد ہیں کہ سب کا علیحدہ گھر ہو اسکے لئے وہ میرے اس پانچ مرلے کے گھر کو بیچ کر اپنا حصہ لینے کی ضد کررہے ہیں اور مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر گھر بیچ دیا تو ہم دونوں میاں بیوی اس بڑھاپے میں کہاں در بدر ذلیل ہونگے۔ میں نے یہ کہا کہ آپ گھر نہ بیچیں اور بچوں کو کہیں کہ وہ اپنے گھر شوق سے بنائیں اور اپنی فیملی کے ساتھ رہیں۔ اس پر اس نے کہا کہ یہی تو لڑائی ہے کہ انکا موقف یہ ہے کہ چونکہ گھر کے اوپر والے دونوں پورشن انہوں نے بنوائے تھے اسلئے وہ ان پر اپنا حق رکھتے ہیں اور ڈیمانڈ کررہے ہیں کہ اس گھر کو بیچ کر حصے بخرے کردیں تاکہ وہ اپنے ذاتی گھر بناکر مزید لڑائی جھگڑے میں نہ پڑیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ آپ کی رہائش کے لئے کیا انتظام کررہے ہیں تو بوڑھے شخص نے کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ایک فلیٹ کرائے پر لے دیں گے جسکا کرایہ تینوں ملکر ادا کریں گے اور کھانا پینا پنشن سے ہو جائے گا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ بچے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہر ہفتے ایک بیٹا ہم دونوں میاں بیوی کو اپنے گھر لے جائے گا اور اتوار کی شا م واپس فلیٹ میں چھوڑ دے گا۔ اگر کوئی ایمرجنسی یا ضرورت ہوئی تو مالی مدد بھی کریں گے۔ مجھے یہ ساری کی ساری گفتگو بھارتی فلم باغبان کی سٹوری محسوس ہوئی۔ اس تمام گفتگو کے دوران میں نے محسوس کیا کہ یہ بوڑھا آدمی نمناک آنکھوں اور دلی دکھ سے باتیں کررھا تھا۔ میرے استفسار پر اس نے یہ بھی بتایا کہ اسکی بیٹی سال میں ایک دفعہ امریکہ سے آتی ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کی بہت خدمت اور دیکھ بھال کرتی ہے لیکن اسکی اپنی فیملی اور مجبوریاں ہیں اسلئے اسکے کے سامنے کوئی ایسی بات نہیں کرتے جس سے اسے دکھ پہنچے۔ اس شخص نے ایک بات بڑی سمجھ داری کی بتائی کہ بچوں کو شادی کے بعد انکا حصہ دیکر علیحدہ کردیں اور انکے کسی کام کی کوئی ذمہ داری نہ لیں۔ بوڑھے ماں باپ کو چاہئے وہ علیحدہ رہیں اور اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی بچوں کو نہ دیں بلکہ اپنی ذات پر بھی خرچ کریں۔ ماں باپ اپنا ایک علیحدہ گھر بناکر اسکا کا ایک پورشن کرائے پر دے کر مزید خوشحال زندگی بسر کریں۔ بچوں کا محتاج ہونے کی بجائے خود صاحب حیثیت بننے کی کوشش کریں۔ اس سے بچے بھی آپکی عزت کریں گے۔ اس نے مزید کہا کہ اپنے اچھے دوستوں کو نہ چھوڑیں ان سے مراسم رکھیں اور بات چیت ضرور کریں تاکہ اندر کی بھڑاس باہر نکلے اور کیتھارسس کا عمل جاری رہے۔ اس سے آپ بیماریوں سے بچیں گے اور زندگی میں خوش رہیں گے۔ اسکے بعد میں نے پوچھا کہ اب آپکا ارادہ کیا ہے۔کیا آپ مکان بیچ کر بچوں کو حصے دیں گے ؟ اس پر اس نے کہا کہ میں نے مکان بیچ کر سب بچوں کو انکا حصہ دے دیا ہے۔ بیٹی نے اپنا حصہ نہیں لیا اور اپنی ماں کو اپنے حصے کی رقم واپس دے دی۔ ہم دونوں میاں بیوی ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے ہیں یہ فلیٹ میں نے اپنی گاڑی اوربیوی کا کچھ زیور بیچ کر خریدا اور ہم دونوں اس میں ایک اچھی لائف گذار رہے ہیں۔ بچے بھی ملنے کے لئے آجاتے ہیں میں بھی ملنے چلا جاتا ہوں۔ لیکن پوتے پوتیاں بہت یاد آتے ہیں۔ خواہش ہے کہ چھوٹے بچے میرے ساتھ رہیں لیکن اس سے انکی پڑھائی میں خلل آتا ہے اور ویسے بھی اب میری خواہش اور مرضی نہیں چلنی اسلئے میں نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا ہے۔ اس تمام گفتگو کے بعد میں بھی اداس ہوگیا کیونکہ یہ تمام صورتحال اور ایسے ہی مسائل اگلے 5 سالوں کے بعد میں نے بھی فیس کرنے ہیں۔ آخر میں مجھے سمجھ آئی کہ 60 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے بعد انسان کی ایک دوسری زندگی شروع ہوتی ہے جس میں اپنے غیروں جیسا سلوک کرکے رونے اور بلیک کافی بغیر چینی پینے پر مجبور کردیتے ہیں۔ مجھے یہ بھی سمجھ آگیا کہ زمانے کی چیرہ دستیوں اور تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد بلیک کافی بغیر چینی کڑوی محسوس نہیں ہوتی۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: دونوں میاں بیوی بتایا کہ رہے ہیں بچوں کو کے لئے یہ بھی ہیں کہ بیچ کر کے بعد کہا کہ
پڑھیں:
اسٹیج اور ٹی وی کے معروف اداکار و کامیڈین جاوید کوڈو انتقال کر گئے
لاہور:اسٹیج، فلم اور ٹیلی ویژن کے نامور اداکار و کامیڈین جاوید کوڈو طویل علالت کے بعد 63 برس کی عمر میں لاہور کے جنرل اسپتال میں انتقال کر گئے۔
اداکار جاوید کوڈو کئی عرصے سے مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے۔
جاوید کوڈو نے 1980 کی دہائی میں اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور اپنی منفرد اداکاری، مزاحیہ انداز اور چھوٹے قد کی وجہ سے جلد ہی عوام میں مقبولیت حاصل کر لی۔
انہوں نے 150 سے زائد اردو و پنجابی فلموں، سینکڑوں اسٹیج ڈراموں اور ٹی وی شوز میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
ان کی صحت کے مسائل کئی برسوں پر محیط رہے۔ 2016 میں انہیں دماغ کی شریان میں خرابی کے باعث گنگا رام اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جب کہ بعد ازاں ایک ٹریفک حادثے میں زخمی ہونے کے بعد ان کا کولہے کی ہڈی کا آپریشن بھی کیا گیا۔
اہل خانہ کے مطابق جاوید کوڈو شوگر، بلڈ پریشر اور دیگر پیچیدہ امراض میں مبتلا تھے۔
جاوید کوڈو تین بیٹوں اور بیوہ کو سوگوار چھوڑ گئے ہیں۔ ان کی نماز جنازہ کے وقت اور مقام کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
جاوید کوڈو کے انتقال پر فلم، ٹی وی اور اسٹیج سے وابستہ فنکاروں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور ان کی فنی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔