Nai Baat:
2025-04-13@17:06:07 GMT

غزہ پر قبضہ۔ ایک غیر انسانی فعل

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

غزہ پر قبضہ۔ ایک غیر انسانی فعل

غزہ کی پٹی پچھلے ستر سال سے فلسطینی عوام کی جدوجہد کا مرکز رہی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں غاصب اسرائیلی حکومت اور فوج کی جانب سے نہتے فلسطینیوں پہ ظلم و ستم، ان پہ مسلط جنگیں اور انکے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس علاقے کی اہمیت صرف اس کی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہاں کے عوام کی عزت نفس، خود مختاری اور قومی تشخص کا معاملہ بھی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ فلسطین پہ قابض صیہونیوں کی مسلسل جارحیت اور اس کے ساتھ امریکہ اور کچھ مغربی حکومتوں کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل پشت پناہی نے اس خطے کے رہائشی فلسطینی عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ طاقت کے زور پہ صیہونیوں نے فلسطین کے ستر فیصد سے زائد علاقے پہ زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ جس کے خلاف نہتے فلسطینی اب تک مزاحمت کرتے آئے ہیں۔ چند روز قبل امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے ایک نیا، انتہائی متنازع اور یک طرفہ فیصلہ کیا ہے جس سے بلا شبہ صیہونی ظلم کی چکی میں پستے غزہ کے فلسطینی عوام کی حالت مزید بدتر ہو جائیگی۔ اس فیصلہ میں نا صرف امریکہ نے غزہ پہ اپنا قبضہ قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بلکہ غزہ کے پچھلے ایک سال سے دربدر شہریوں کو ان کے وطن سے جبری بے دخل کر کے انہیں دیگر ہمسایہ ممالک میں بھیجنے کی دھمکی دے دی ہے۔ یہ فیصلہ فلسطینی عوام کے حقوق کی خلاف ورزی اور عالمی قوانین کی کھلی پامالی ہے، اور اس کے عالمی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ اس طرح پوری دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والا اصول لاگو ہو جائیگا۔ پھر کوئی بھی طاقتور کسی بھی کمزور کو اس کی مرضی کے خلاف بے دخل کر کے اسکی زمین پہ قابض ہو سکے گا۔ غزہ کی پٹی ایک چھوٹا سا، لیکن انتہائی اہم خطہ ہے، جس کی سرحدیں اسرائیل اور مصر سے ملتی ہیں۔ یہاں پر 2.

3 ملین سے زائد فلسطینی عوام بستے ہیں، اور یہ دنیا کے سب سے زیادہ گھنے آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ غزہ کے عوام کی زندگی سالہا سال سے اسرائیلی جارحیت اور غیر انسانی سلوک کا شکار ہے۔ پہلے اسرائیل نے غزہ کو ایک طویل عرصے سے محصور کر رکھا تھا جس کے نتیجے میں اس علاقے کی معیشت تباہ اور بنیادی ضروریات کی فراہمی مشکل بلکہ نا ممکن ہو چکی تھی اور اب رہی رہی کسر پچھلے ایک سال سے جاری صیہونی جارحیت نے پوری کر دی ہے۔ غزہ جو ایک سال پہلے تک آباد تھا آج کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے اس نسل کشی کے نتیجے میں ہزاروں نہتے فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور نوے فیصد غزہ تباہ ہو چکا ہے۔ امریکی ٹرمپ انتظامیہ کا غزہ پر قبضہ کرنے کا فیصلہ ایک آزاد، خود مختار فلسطینی قوم کے حقوق کی کھلی پامالی ہے۔ امریکہ نے غزہ کے شہریوں کو اپنے وطن سے بے دخل کرنے کا جو متنازع فیصلہ کیا ہے اس فیصلے کو اب عالمی سطح پر بھی شدید تنقید کا سامنا ہے کیونکہ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی نفی ہے بلکہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا کنونشن برائے انسانی حقوق سمیت دیگر بین الاقوامی قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ غزہ کے عوام نے پچھلی کئی دھائیوں سے اپنی اس چھوٹی سی سر زمین کی حفاظت کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانی دی ہے کئی جنگوں کا سامنا کیا ہے لیکن اپنی آزادی و خود مختاری پہ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اور اب امریکہ کا انہیں ان کی مرضی کے خلاف انکی سر زمین سے بے دخل کرنے کا فیصلہ فلسطینی عوام کی آزادی و خود مختاری پہ حملہ ہے کیونکہ دیگر آزاد ممالک کے شہریوں کی طرح فلسطینی عوام اور بالخصوص غزہ کے باسیوں کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے وطن میں آزادی سے زندگی گزاریں، اور ان کے اس بنیادی حق کو تسلیم کرنا عالمی برادری کی اولین ذمہ داری ہے۔ غزہ پہ قبضے کی امریکی پالیسی نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور جنیوا کنونشن برائے انسانی حقوق کی ذیلی شقوں کے بھی خلاف ہے۔ اقوام متحدہ نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی ہے اور ان کی ریاست پہ صیہونیوں کے غیر قانونی قبضے کی مذمت کی ہے۔ یہاں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس متنازع فیصلے سے امریکہ کا عالمی سطح پر ایک انصاف اور امن پسند عالمی طاقت کے طور پہ تصور اور موقف عالمی برادری کی نظر میں مزید کمزور ہو گا اور نتیجتاً فلسطینیوں کی آزادی و خود مختاری کی جدوجہد کو عالمی سطح پر مزید پذیرائی ملے گی۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل اسرائیلی محاصرے، جنگوں اور اقتصادی مشکلات کا شکار غزہ کے باسی صاف پانی کی قلت، صحت کی بنیادی سہولتوں کے فقدان، تعلیم اور روزگار کی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرتے آئے ہیں وہیں ان پابندیوں نے غزہ کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ رہی سہی کسر پچھلے ایک سال سے صیہونی حکومت کی غزہ پہ مسلط جنگ نے نکال دی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں غزہ کے عوام پہلے ہی در بدر اور سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ ان حالات میں امریکی افواج کا غزہ پر قبضہ کرنا اور فلسطینیوں کو اپنے وطن سے بے دخل کرنا اٹھارہ لاکھ سے زائد مکینوں کی مشکلات کو مزید بڑھا دے گا۔ بنیادی سہولتوں سے محروم، گھر بار کی تباہی کے بعد اب ان کے لیے بے دخلی جیسا فیصلہ صرف زمین سے محرومی نہیں بلکہ ان کی شناخت، ثقافت اور عزت نفس کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ہو گا اور وہ کبھی اس کو قبول نہیں کرینگے بلکہ اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یقینا امریکہ کا یہ فیصلہ عالمی سطح پر ایک غیر اخلاقی اقدام ہے جو نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ پوری دنیا میں رائج الوقت انسانیت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی جانب سے ایسی پالیسی کو عالمی برادری کی طرف سے سخت مزاحمت کا بھی سامنا کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر امریکہ نے اس پالیسی پر عمل درآمد کیا تو اس کا اثر صرف غزہ اور فلسطین تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ اس کے پورے مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں امن و استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ایک چنگاری، آگ کی شکل اختیار کر لے گی جسے روکنا پھر کسی کے بس کی بات کی بات نا ہو گی۔ پاکستان نے اسرائیل کے ناجائز قیام سے لیکر اب تک ہمیشہ ہر انٹرنیشنل فورم پہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق کی حمایت کی ہے اور عالمی سطح پر فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کے لیے آواز بلند کی ہے۔ پاکستان کا شروع دن سے یہ موقف رہا ہے کہ فلسطینی عوام کو اپنے وطن میں آزادی سے رہنے کا حق حاصل ہے اور صیہونی اس خطے میں غاصب ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی بھی کھل کر مذمت کی ہے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت اور انکی اخلاقی، سفارتی اور مالی مدد کی ہے۔ پاکستان کا اس ضمن میں دو ٹوک موقف ہے کہ امریکہ کو اس متنازع فیصلے کو فوری واپس لینا چاہئے اور اس کی جانب سے اسرائیل کے کہنے پہ فلسطینیوں کے حقوق کی مزید پامالی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اسی طرح کئی دیگر مسلم ممالک کی طرف سے بھی اس فیصلے پہ کڑی تنقید کی گئی ہے اور فلسطینیوں کی اخلاقی و سفارتی مدد کا اعادہ کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس متنازع و یک طرفہ فیصلے کے خلاف، امریکہ کے اندر سے اور بیرونی دنیا سے بھی شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ عالمی برادری کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یہ فیصلہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی کے عمل کو تقویت اور دوام بخشنے کی کوشش ہے جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسی طرح عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ نے بھی اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ٹرمپ کا غزہ پر قبضہ کرنے کا فیصلہ عالمی سطح پر امریکہ کے انصاف پسند طاقت ہونے کے موقف کو بھی کمزور کرتا ہے۔ فلسطینی عوام کو اپنے وطن میں آزادی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے اور عالمی برادری بشمول مسلم ممالک، یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینیوں کے اس حق کی حفاظت کریں۔ یقینا امریکہ کے اس غیر منصفانہ، متعصبانہ فیصلے کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھانا ضروری ہو گیا ہے تاکہ غزہ کے باسی فلسطینی عوام نا صرف اپنے وطن کو دوبارہ تعمیر کر سکیں بلکہ اپنی سر زمین میں بلا خوف و خطر، امن و سکون سے زندگی گزار سکیں۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: فلسطینی عوام کے حق فلسطینی عوام کی عالمی برادری عالمی سطح پر اقوام متحدہ کو اپنے وطن خود مختاری کی جانب سے کے حقوق کی خلاف ورزی امریکہ کا امریکہ کے قوانین کی کی ہے اور کے عوام ایک سال کے خلاف مذمت کی کرنے کا غزہ کے کے لیے اور اس اور ان سال سے

پڑھیں:

امیر جماعت کا اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام خط، غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے 20اپریل کو عالمی یوم احتجاج منانے کی تجویز

حافظ نعیم الرحمن نے خط میں کہا کہ آج ہم غزہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ نسل کشی سے کم نہیں۔ معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، بلاتمیز قتل کیے جا رہے ہیں۔ اسپتال، صحافی، اسکول، اور پناہ گاہیں جو بین الاقوامی قوانین کے تحت محفوظ تصور کی جاتی ہیں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس ظلم کے سامنے عالمی برادری کی خاموشی یا بے عملی انتہائی تشویشناک ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام خط لکھ کر ان کی توجہ غزہ میں جاری صہیونی سفاکیت کی طرف دلائی ہے اور اہل فلسطین کی مدد کے لیے عملی اقدامات کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے 20اپریل جمعہ کو عالمی سطح پر یوم احتجاج منانے کی بھی تجویز دی ہے۔ مسلم سربراہان کے نام جاری خطوط میں انھوں نے کہا کہ وہ آپ کو غزہ میں جاری ہولناک انسانی بحران پر گہرے دکھ اور تشویش کے ساتھ یہ خط لکھ رہے ہیں۔ تباہی اور انسانی تکالیف کی شدت عالمی برادری کی فوری اور مشترکہ کارروائی کا تقاضا کرتی ہے۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب ہولوکاسٹ، بوسنیا کی نسل کشی، یا کوسوو کے تنازعے جیسے شدید انسانی بحران پیش آئے، تو دنیا نے اہم موڑ پر انسانی وقار اور انصاف کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر قدم اٹھایا۔

انھوں نے خط میں کہا کہ آج ہم غزہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ نسل کشی سے کم نہیں۔ معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، بلا تمیز قتل کیے جا رہے ہیں۔ اسپتال، صحافی، اسکول، اور پناہ گاہیں  جو بین الاقوامی قوانین کے تحت محفوظ تصور کی جاتی ہیں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس ظلم کے سامنے عالمی برادری کی خاموشی یا بے عملی انتہائی تشویشناک ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک کی حکومتوں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر جاری قتل عام کو روکنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کریں۔ جدید ہتھیاروں کی تباہ کن صلاحیت  جو اسرائیل کو آزادی سے اور غیرمتناسب طور پر میسر ہے، سوشل میڈیا اور براہِ راست نشریات کے ذریعے آج دنیا ان مظالم کو لمحہ بہ لمحہ دیکھ رہی ہے۔ عالمی سطح پر شعور بے مثال ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اور امن پسند لوگ غزہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی اور درد کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کے ملک کے عوام بھی ہمارے درد اور غم میں برابر کے شریک ہیں، جیسا کہ دنیا کے بے شمار دوسرے لوگ بھی۔

 انھوں نے مسلم سربراہان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ لمحہ ہے جو جرات مندانہ اور اخلاقی قیادت کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم آپ سے مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ فوری طور پر مسلم ممالک کے رہنماوں کا اجلاس بلایا جائے تاکہ ایک واضح اور اجتماعی حکمتِ عملی ترتیب دی جا سکے۔ اگر دنیا خاموش رہی، تو ہم ایک اور انسانی ناکامی کے باب پر افسوس کرتے رہ جائیں گے  بالکل جیسے روانڈا میں ہوا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار پوری دنیا یہ سب براہِ راست دیکھ رہی ہے۔ ہم یہ بھی اپیل کرتے ہیں کہ تمام ریاستی سربراہان کا ایک خصوصی اجلاس بلایا جائے جس کا واحد ایجنڈا غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنا ہو۔ تعمیر نو اور بحالی کے اقدامات بعد میں کیے جا سکتے ہیں، لیکن سب سے پہلے اس خونریزی کا خاتمہ ضروری ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام مسلم ممالک کسی نہ کسی سطح پر بین الاقوامی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسے مثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ مزید برآں ہم یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ جمعہ، 20 اپریل کو سرکاری طور پر یوم عالمی احتجاج قرار دیا جائے۔ اس دن کو ریلیوں، جلوسوں، خصوصی دعاوں، اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی مظاہروں سے منایا جانا چاہیے۔ ہم بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی رابطہ کر رہے ہیں تاکہ وہ اس اتحاد اور ظلم کے خلاف مزاحمت کے دن کی توثیق کریں۔


 

متعلقہ مضامین

  • عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے
  • اسرائیلی فوج کا موراگ کوریڈور پر قبضہ، رفح اور خان یونس تقسیم، لاکھوں فلسطینی انخلا پر مجبور
  • امیر جماعت کا اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام خط، غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے 20اپریل کو عالمی یوم احتجاج منانے کی تجویز
  • فلسطین کی حمایت اب ایک سوچ بن گئی ہے، اس سوچ کو شکست نہیں دی جاسکتی، منعم ظفر
  • جے یو پی کراچی کے تحت اسرائیل مردہ باد ریلی، عوام کا فلسطینی مظلومین سے اظہارِ یکجہتی
  • جمعیت علمائے پاکستان کی زیر قیادت اسرائیل مردہ باد ریلی، عوام کا فلسطینی مظلومین سے اظہارِ یکجہتی
  • ٹرمپ کا اصل ہدف کمزور قوموں کے معدنی ذخائر پہ قبضہ ہے، علامہ جواد نقوی
  • غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کو جنگبندی سے نہیں جوڑنا چاہئے، فیصل بن فرحان
  • غزہ کیلئے دسیوں لاکھ یمنی عوام کا سڑکوں پر نکل کر وسیع احتجاج
  • فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے آج ملک بھر میں ریلیوں اور مظاہروں کا انعقاد