Nai Baat:
2025-04-13@17:17:18 GMT

بھارتی وزیراعظم کا دورہ امریکہ

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

بھارتی وزیراعظم کا دورہ امریکہ

نومنتخب امریکی صدر کی تقریب حلف برداری کے فوراً بعد ’’کوارڈ‘‘ کے اجلاس میں ان سے بھارت اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی سفارتی شخصیات نے ملاقات کی۔ یہ ملاقات یقینا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایما پر ہوئی۔ جس کے بعد عام تاثر تھا کہ اب ان ممالک کے سربراہوں سے امریکی صدر کی ملاقاتیں ہوں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بذات خود اپنی تقریر میں واضح کر دیا تھا کہ ان کی خواہش ہوگی کہ وہ اپنے 100دنوں میں چینی صدر شی پنگ سے ملاقات کریں۔ بھارت اور چین ایشیا کے دو بڑے ملک اور دو بڑی معیشتیں ہیں۔ ایک ملک کے دورے پر جانے اور دوسرے ملک کے وزیراعظم کو امریکہ کے دورے کی دعوت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جی سیون ممالک پر اگر انہیں اہمیت دی گئی ہے تو اس کے پیچھے کیا ہو سکتا ہے۔ کہنے کو تو بھارتی وزیراعظم کو امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ہے جو آنے والے ہفتے میں امریکہ کا دورہ کریں گے لیکن درحقیقت بھارتی وزیراعظم کی امریکہ میں طلبی اسی انداز میں ہوئی ہے جیسے علاقے کا نواب یا جاگیردار اپنے کسی کمی یا کمدار کو بھیج کر اس شخص کو طلب کرتا ہے جس کے بارے میں اسے اطلاعات موصول ہوں یا اسے شک گزرے کہ شہر میں چند ماہ و سال گزار کر گائوں واپس آنے والا کچھ زیادہ اکڑ کر چلنے لگا ہے اور ضرورت سے زیادہ زبان دراز بھی ہو گیا۔ ایسی ملاقات میں اس شخص کی ساری اکڑ نکال دی جاتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کی طلبی کیوں کی ہے اس کی وجوہات عام فہم ہیں۔ امریکی صدر، بھارتی وزیراعظم سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے الیکشن میں بھارتیوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے مودی کو دعوت دی کہ وہ ان کی کمپین میں آ کر شمولیت اختیار کریں تاکہ تاثر ملے کہ مودی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل بھارتی نژاد کملا دیوی صدر کے عہدے کی امیدوار تھی۔ مودی حکومت کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں۔ ایک روایت کے مطابق بھارتی میڈیا تواتر سے کملا دیوی کی فتح کا پراپیگنڈا کرتا رہا۔ جب نتائج اس کے برعکس نکلے تو بھارت میں باقاعدہ اس کا سوگ منایا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم اور تھنک ٹینک سے وابستہ لوگ انہیں اس حوالے سے رپورٹ کرتے رہے، ٹرمپ بنیادی طور پر جارح مزاج واقع ہوئے ہیں۔ پس مزاج کی جارحیت اور مودی کی الیکشن کمپین میں عدم شرکت کا حساب پہلی ملاقات میں چکایا جائیگا۔ نریندر مودی کا رویہ ہندو نفسیات کے عین مطابق ہوگا۔ ہندو طاقتور کے سامنے لیٹ جاتا ہے اور کمزور پر ظلم کے پہاڑ توڑنے سے گریز نہیں کرتا۔ بھارت نے ہر معاملے پر چینی فوج سے جوتے کھائے اور اس کا برا نہیں منایا جبکہ نہتے معصوم کشمیریوں پر ہمیشہ ظلم روا رکھا۔ مودی، امریکی صدر کو بڑھ بڑھ کر جپھیاں ڈالتا نظر آئے گا، وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر امریکی صدر کو رام کرنے کی کوششیں کرے گا اور ٹرمپ بھی مان جائیگا۔ ٹرمپ نے مودی کے ساتھ جو سلوک کرنا ہے اس کا سٹیج تیار کیا جا چکا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے امریکہ پہنچنے سے قبل ہی حکم دے دیا گیا کہ بھارت امریکہ کے ساتھ تجارت کا توازن ٹھیک کرنے کے لئے 32ارب ڈالر کا اسلحہ خریدے۔ جس کے جواب میں مودی نے بڑھ چڑھ کر پیشکش کر دی ہے کہ بھارت امریکہ سے ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا ارادہ کرتا ہے۔ وہ اتنی بڑی رقم کا اسلحہ خریدتا ہے یا نہیں اور اگر خریدتا ہے تو کتنی قسطوں میں اور کتنے برسوں میں۔ یہ باتیں دورے کے اختتام پر سامنے آئیں گی۔ دونوں سربراہ حکومت اپنے عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عوام کے مفاد میں بہترین ڈیل کی ہے، بھارت کی مجبوری ہے کہ وہ امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا جبکہ امریکہ کی پلاننگ یہ ہے کہ بھارت کو اس قدر نچوڑ لیا جائے کہ وہ چین کو کوئی بہت بڑا بزنس نہ دے سکے اور نہ ہی اس کے بارے میں سوچے۔ امریکی صدر امریکہ کی ڈگمگاتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے اپنی جاری ٹرم میں اپنے دوستوں اور دشمنوں پر ایک جیسا بوجھ ڈالیں گے اور ماضی کے برعکس ان سے بہت کچھ حاصل کرنا چاہیں گے۔ اس لوٹ کھسوٹ کے لئے وہ ہر ایک کو آنکھیں دکھاتے رہیں گے۔ اسی طرز عمل کے اظہار کے لئے مودی کے امریکہ لینڈ کرنے سے قبل قریباً سات سو غیر قانونی طور پر امریکہ میں گھسنے والے بھارتیوں کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال کر ایک فوجی طیارہ بھارت لینڈ کر چکا ہے جس پر کوئی ردعمل دینے کی بجائے خوشدلی سے کہا گیا ہے کہ امریکہ اگر غیرقانونی طور پر امریکہ میں آنے والوں کو بھارت واپس بھیجتا ہے تو بھارتی حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق قریباً دس لاکھ بھارتی مرد اور خواتین امریکہ میں موجود ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسی نوجوانوں کی ہے جو مختلف اوقات میں پڑھنے کے بہانے امریکہ گئے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ بیشتر کے عزیز و اقارب وہاں پہلے سے موجود تھے۔ انہوں نے ان غیرقانونی بھارتیوں کو پناہ دی، ان کے لئے نوکریوں کا بندوبست بھی کیا۔ بھارتی کمیونٹی دنیا کے جس ملک میں بھی ہو وہ قانونی یا غیرقانونی طور پر آنے والے بھارتیوں کے لئے دیدہ و دل وا رکھتی ہے۔ کچھ ایسے ہی معاملات یورپین ممالک اور خلیجی ممالک میں ہیں جہاں بھارتیوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

بھارتی وزیراعظم اپنے اہل و عیال کے ہمراہ امریکہ کے دورے پر نہیں آ رہے بلکہ ان کے ساتھ منجھے ہوئے بیوروکریٹ مختلف اداروں کے سربراہ بین الاقوامی شہرت رکھنے والی کمپنیوں کے سربراہ اور نامور بزنس مین ہوں گے جو بھارت کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین ڈیل حاصل کرنے کی کوششیں کریں گے۔ دوسری طرف امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ خارجہ امور، سکیورٹی ایڈوائزر اور ٹرمپ ٹیم کا حصہ بننے والی کچھ کاروباری شخصیات ہوں گی۔ سب کے سامنے اپنے ملک کا مفاد ہوگا۔ ان تمام ملاقاتوں میں اگر کوئی سوچتا ہے کہ پاکستان زیر بحث نہیں آگے گا تو ایک غلط فہمی ہوگی۔ بھارتی سربراہ مملکت کے ہر دورہ امریکہ پر پاکستان زیر بحث آتا ہے لیکن بھارتی حکومت ہمیشہ یہ تاثر دیتی ہے کہ پاکستان کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پاکستان کی خطے میں اہمیت ختم ہو چکی ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس کی اقتصادی حالت ہے جبکہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے بعد سے تو اب پاکستان کسی قطار شمار میں نہیں رہا۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ ڈیل کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دے چکا ہے۔ ہم فقط ہاتھوں کی زنجیر بناتے رہ گئے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بھارتی وزیراعظم امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر امریکہ کے کے ساتھ کے لئے نہیں ا

پڑھیں:

امریکا نے ممبئی حملوں میں ملوث پاکستانی نژاد کینیڈین شہری بھارت کے حوالے کر دیا

امریکا نے ممبئی حملوں کی سازش میں مطلوب پاکستانی نژاد کینیڈین شہری تہور حسین رانا کو بھارت کے حوالے کر دیا۔

انڈین میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا نے ممبئی حملوں کی سازش میں ملوث پاکستانی نژاد کینیڈین شہری کو بھارت کے حوالے کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سیف علی خان پر حملے کے الزام میں گرفتار ملزم کون ہے؟

بھارت اور امریکا کے تحت شروع کی گئی مشترکہ کارروائی کے بعد ملزم کو امریکا میں عدالتی حراست میں رکھا گیا تھا۔ تہور رانا کی بھارت کو حوالگی بالآخر اس وقت ممکن ہوئی جب ملزم حوالگی کے اس اقدام کو روکنے کے لیے تمام قانونی آپشنز استعمال کر چکا تھا۔

یاد رہے کہ سال2011  میں NIA  نے تہور رانا کی غیر موجودگی میں چارج شیٹ اس وقت داخل کی تھی جب وہ ڈیوڈ ہیڈلی نامی شخص کے ساتھی کے طور پر امریکا میں گرفتار کیا گیا تھا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق تہور رانا نے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی اور جاسوسی کی کارروائیاں کی تھیں۔ خاص طور پر وہ ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا۔

یہ بھی پڑھیں:معروف بھارتی مسلمان سیاستدان قاتلانہ حملے میں جاں بحق

بھارتی میڈیا کے مطابق ڈیوڈ ہیڈلی بھارتی ویزا حاصل کرنے میں ملزم کی مدد کرتا تھا، جس کی وجہ ہی سے ملزم غلط شناخت کے ساتھ بھارت کا سفر کرتا تھا۔

دوسری طرف بھارتی میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ 26/11 کو ہوئے ممبئی حملوں کے شریک سازشی تہور حسین رانا سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا ہے کہ رانا نے ملک چھوڑنے کے بعد سے اپنی پاکستانی شہریت کی تجدید کی کوشش نہیں کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا بھارت پاکستان تہور رانا کینیڈین شہری ممبئی حملے

متعلقہ مضامین

  • مسلمانوں کی زمینوں سے متعلق بل پر بھارت میں شدید احتجاج، 3 افراد ہلاک، 118 گرفتار
  • بھارت, وقف ترمیمی بل کے خلاف جھارکھنڈ میں احتجاجی مظاہرہ
  • امریکہ من مانے طریقے سے کام نہیں کر سکتا ،  چینی وزیر خارجہ
  • صدر ٹرمپ امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنانے کے اپنے مشن میں غیرمتزلزل ہیں .وائٹ ہاﺅس
  • بھارتی وزیر داخلہ کا دورہ مقبوضہ کشمیر عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہے، حریت کانفرنس
  • مودی سرکار کی پشت پناہی سے منی پور میں عسکریت پسندوں کا راج قائم
  • مودی سرکار کا وقف بل: مسلمانوں کی زمینوں پر قبضے کی نئی سازش بے نقاب
  • مودی سرکار کا وقف ترمیمی بل کی آڑ میں مسلمانوں کی زمینیں ہتھیانے کا حربہ
  • امریکہ نے پاکستانی نژاد شہری کو اندیا کے حوالے کر دیا
  • امریکا نے ممبئی حملوں میں ملوث پاکستانی نژاد کینیڈین شہری بھارت کے حوالے کر دیا