Nai Baat:
2025-02-07@06:56:44 GMT

بھارتی وزیراعظم کا دورہ امریکہ

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

بھارتی وزیراعظم کا دورہ امریکہ

نومنتخب امریکی صدر کی تقریب حلف برداری کے فوراً بعد ’’کوارڈ‘‘ کے اجلاس میں ان سے بھارت اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی سفارتی شخصیات نے ملاقات کی۔ یہ ملاقات یقینا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایما پر ہوئی۔ جس کے بعد عام تاثر تھا کہ اب ان ممالک کے سربراہوں سے امریکی صدر کی ملاقاتیں ہوں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بذات خود اپنی تقریر میں واضح کر دیا تھا کہ ان کی خواہش ہوگی کہ وہ اپنے 100دنوں میں چینی صدر شی پنگ سے ملاقات کریں۔ بھارت اور چین ایشیا کے دو بڑے ملک اور دو بڑی معیشتیں ہیں۔ ایک ملک کے دورے پر جانے اور دوسرے ملک کے وزیراعظم کو امریکہ کے دورے کی دعوت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جی سیون ممالک پر اگر انہیں اہمیت دی گئی ہے تو اس کے پیچھے کیا ہو سکتا ہے۔ کہنے کو تو بھارتی وزیراعظم کو امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ہے جو آنے والے ہفتے میں امریکہ کا دورہ کریں گے لیکن درحقیقت بھارتی وزیراعظم کی امریکہ میں طلبی اسی انداز میں ہوئی ہے جیسے علاقے کا نواب یا جاگیردار اپنے کسی کمی یا کمدار کو بھیج کر اس شخص کو طلب کرتا ہے جس کے بارے میں اسے اطلاعات موصول ہوں یا اسے شک گزرے کہ شہر میں چند ماہ و سال گزار کر گائوں واپس آنے والا کچھ زیادہ اکڑ کر چلنے لگا ہے اور ضرورت سے زیادہ زبان دراز بھی ہو گیا۔ ایسی ملاقات میں اس شخص کی ساری اکڑ نکال دی جاتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کی طلبی کیوں کی ہے اس کی وجوہات عام فہم ہیں۔ امریکی صدر، بھارتی وزیراعظم سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے الیکشن میں بھارتیوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے مودی کو دعوت دی کہ وہ ان کی کمپین میں آ کر شمولیت اختیار کریں تاکہ تاثر ملے کہ مودی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل بھارتی نژاد کملا دیوی صدر کے عہدے کی امیدوار تھی۔ مودی حکومت کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں۔ ایک روایت کے مطابق بھارتی میڈیا تواتر سے کملا دیوی کی فتح کا پراپیگنڈا کرتا رہا۔ جب نتائج اس کے برعکس نکلے تو بھارت میں باقاعدہ اس کا سوگ منایا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم اور تھنک ٹینک سے وابستہ لوگ انہیں اس حوالے سے رپورٹ کرتے رہے، ٹرمپ بنیادی طور پر جارح مزاج واقع ہوئے ہیں۔ پس مزاج کی جارحیت اور مودی کی الیکشن کمپین میں عدم شرکت کا حساب پہلی ملاقات میں چکایا جائیگا۔ نریندر مودی کا رویہ ہندو نفسیات کے عین مطابق ہوگا۔ ہندو طاقتور کے سامنے لیٹ جاتا ہے اور کمزور پر ظلم کے پہاڑ توڑنے سے گریز نہیں کرتا۔ بھارت نے ہر معاملے پر چینی فوج سے جوتے کھائے اور اس کا برا نہیں منایا جبکہ نہتے معصوم کشمیریوں پر ہمیشہ ظلم روا رکھا۔ مودی، امریکی صدر کو بڑھ بڑھ کر جپھیاں ڈالتا نظر آئے گا، وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر امریکی صدر کو رام کرنے کی کوششیں کرے گا اور ٹرمپ بھی مان جائیگا۔ ٹرمپ نے مودی کے ساتھ جو سلوک کرنا ہے اس کا سٹیج تیار کیا جا چکا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے امریکہ پہنچنے سے قبل ہی حکم دے دیا گیا کہ بھارت امریکہ کے ساتھ تجارت کا توازن ٹھیک کرنے کے لئے 32ارب ڈالر کا اسلحہ خریدے۔ جس کے جواب میں مودی نے بڑھ چڑھ کر پیشکش کر دی ہے کہ بھارت امریکہ سے ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا ارادہ کرتا ہے۔ وہ اتنی بڑی رقم کا اسلحہ خریدتا ہے یا نہیں اور اگر خریدتا ہے تو کتنی قسطوں میں اور کتنے برسوں میں۔ یہ باتیں دورے کے اختتام پر سامنے آئیں گی۔ دونوں سربراہ حکومت اپنے عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عوام کے مفاد میں بہترین ڈیل کی ہے، بھارت کی مجبوری ہے کہ وہ امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا جبکہ امریکہ کی پلاننگ یہ ہے کہ بھارت کو اس قدر نچوڑ لیا جائے کہ وہ چین کو کوئی بہت بڑا بزنس نہ دے سکے اور نہ ہی اس کے بارے میں سوچے۔ امریکی صدر امریکہ کی ڈگمگاتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے اپنی جاری ٹرم میں اپنے دوستوں اور دشمنوں پر ایک جیسا بوجھ ڈالیں گے اور ماضی کے برعکس ان سے بہت کچھ حاصل کرنا چاہیں گے۔ اس لوٹ کھسوٹ کے لئے وہ ہر ایک کو آنکھیں دکھاتے رہیں گے۔ اسی طرز عمل کے اظہار کے لئے مودی کے امریکہ لینڈ کرنے سے قبل قریباً سات سو غیر قانونی طور پر امریکہ میں گھسنے والے بھارتیوں کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال کر ایک فوجی طیارہ بھارت لینڈ کر چکا ہے جس پر کوئی ردعمل دینے کی بجائے خوشدلی سے کہا گیا ہے کہ امریکہ اگر غیرقانونی طور پر امریکہ میں آنے والوں کو بھارت واپس بھیجتا ہے تو بھارتی حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق قریباً دس لاکھ بھارتی مرد اور خواتین امریکہ میں موجود ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسی نوجوانوں کی ہے جو مختلف اوقات میں پڑھنے کے بہانے امریکہ گئے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ بیشتر کے عزیز و اقارب وہاں پہلے سے موجود تھے۔ انہوں نے ان غیرقانونی بھارتیوں کو پناہ دی، ان کے لئے نوکریوں کا بندوبست بھی کیا۔ بھارتی کمیونٹی دنیا کے جس ملک میں بھی ہو وہ قانونی یا غیرقانونی طور پر آنے والے بھارتیوں کے لئے دیدہ و دل وا رکھتی ہے۔ کچھ ایسے ہی معاملات یورپین ممالک اور خلیجی ممالک میں ہیں جہاں بھارتیوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

بھارتی وزیراعظم اپنے اہل و عیال کے ہمراہ امریکہ کے دورے پر نہیں آ رہے بلکہ ان کے ساتھ منجھے ہوئے بیوروکریٹ مختلف اداروں کے سربراہ بین الاقوامی شہرت رکھنے والی کمپنیوں کے سربراہ اور نامور بزنس مین ہوں گے جو بھارت کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین ڈیل حاصل کرنے کی کوششیں کریں گے۔ دوسری طرف امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ خارجہ امور، سکیورٹی ایڈوائزر اور ٹرمپ ٹیم کا حصہ بننے والی کچھ کاروباری شخصیات ہوں گی۔ سب کے سامنے اپنے ملک کا مفاد ہوگا۔ ان تمام ملاقاتوں میں اگر کوئی سوچتا ہے کہ پاکستان زیر بحث نہیں آگے گا تو ایک غلط فہمی ہوگی۔ بھارتی سربراہ مملکت کے ہر دورہ امریکہ پر پاکستان زیر بحث آتا ہے لیکن بھارتی حکومت ہمیشہ یہ تاثر دیتی ہے کہ پاکستان کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پاکستان کی خطے میں اہمیت ختم ہو چکی ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس کی اقتصادی حالت ہے جبکہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے بعد سے تو اب پاکستان کسی قطار شمار میں نہیں رہا۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ ڈیل کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دے چکا ہے۔ ہم فقط ہاتھوں کی زنجیر بناتے رہ گئے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بھارتی وزیراعظم امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر امریکہ کے کے ساتھ کے لئے نہیں ا

پڑھیں:

ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ کو ملکیت میں لینے کی تجویز پر دنیابھر میں شدید ردعمل پرامریکا کی پسپائی

لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 فروری ۔2025 )غزہ کو ملکیت میں لینے کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر ہنگامہ برپا ہونے کے بعد امریکی انتظامیہ پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ غزہ کے باشندوں کی کوئی بھی منتقلی عارضی ہو گی جبکہ وائٹ ہاﺅس نے اصرار کیا کہ امریکی فوجیوں کو بھیجنے کا کوئی وعدہ نہیں ہے.

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اقوام متحدہ نے فلسطینی علاقے میں نسل کشی کے خلاف متنبہ کیا ہے جبکہ فلسطینیوں، عرب حکومتوں اور عالمی راہنماﺅں کی جانب سے بھی امریکی صدر کی تجویز پر تنقید کی گئی ہے تاہم ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ ہر کوئی وہ منصوبہ پسند کرتا ہے جس کا اعلان انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاﺅس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا.

امریکہ 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو کس طرح بےدخل کر سکتا ہے یا جنگ زدہ علاقے کو کنٹرول کر سکتا ہے اس بارے میں تفصیلات پیش کرتے ہوئے ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا اور ہم یہاں تعمیراتی کام کریں گے ہم اس کے مالک ہوں گے وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ یہ خیال مخاصمانہ ارادے سے پیش نہیں کیا گیا تھا اور اسے ایک فراخ دلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعمیر نو ان کی نگرانی کی ذمہ داری لینے کی پیشکش تھی بعد ازاں وائٹ ہاﺅس کی پریس سیکرٹری کارولن لیویٹ نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادی اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان 15 ماہ سے زائد عرصے کے تنازعے کے بعد غزہ کی تعمیر نو کے لیے مالی اعانت فراہم نہیں کرے گا.

لیوٹ نے کہا کہ امریکہ کی شمولیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فوجی تعینات کیے جائیں یا امریکی ٹیکس دہندگان اس کوشش کو مالی اعانت فراہم کریں گے ادھر اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی نسل کشی کے مترادف ہو گی سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا کہ فلسطینی عوام کو اپنی زمین پر ایک عام انسان کی طرح جینے کا حق حاصل ہونا چاہیے اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے بھی کہا کہ کسی بھی قوم کو جبری طور پر بےدخل کرنا نسل کشی کے مترادف ہے فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے فلسطینیوں کی جبری بےدخلی کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جبکہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے فلسطینی سرزمین پر قبضے اور عوام کی بےدخلی کی کسی بھی کوشش کو مسترد کر دیا.

اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں تاہم ریاض نے واضح کیا کہ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا اور کسی بھی جبری بے دخلی کو مسترد کرتا ہے یورپی یونین نے کہا کہ غزہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا ایک اٹوٹ انگ ہے متحدہ عرب امارات اور چین نے بھی فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی مخالفت کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا امریکی عہدیدار لیوٹ نے کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینیوں کو عارضی طور پر غزہ سے نکالنے کے متعلق ہے تاہم فلسطینی حکام، عرب راہنماﺅں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس تجویز کو نسل پرستانہ اور اشتعال انگیز قرار دے کر مسترد کر دیا ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ تجویز امریکہ کو جنگی جرائم میں براہ راست شریک بنا دے گی.

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ اسرائیل کی سوچی سمجھی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ عمارتوں اور انفااسٹریکچر کو تباہ کرکے غزہ کو ناقابل رہائش بنایا جائے جس پر اس نے ایک سال کے دوران عمل کیاواضح رہے کہ اسرائیلی حملوں میں غزہ میں47ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو معتبر مانتی ہے.

متعلقہ مضامین

  • ورلڈ کشمیر اویئرنس فورم نے ڈیجیٹل ٹرکوں کے ذریعے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حق میں مہم چلائی
  • امریکہ سے بھارتی شہریوں کو فوجی جہاز میں واپس بھیجنے کا یہ طریقہ نیا نہیں ہے، بھارت
  • ٹرمپ اور مودی اچھے دوست ہیں تو پھر یہ کیسے ہوا، پرینکا گاندھی
  • سنہری دورشروع ،امریکہ کو پہلے سے زیادہ طاقت وربنائیں گے، ٹرمپ
  • ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ کو ملکیت میں لینے کی تجویز پر دنیابھر میں شدید ردعمل پرامریکا کی پسپائی
  • امریکہ غزہ کو کنٹرول کرے گا اور تعمیرِ نو بھی کرے گا: صدر ٹرمپ
  •  مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی!
  • ٹرمپ چاہے، غزہ کی بندر بانٹ
  • بہادر کشمیری عوام کے عزم اور حوصلے کو سلام پیش کرتا ہوں،وزیراعظم