یو لیاواسیل یونا اور پیکا ترمیمی قانون
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
پاکستان جب سے بنا ہے اس میں شور کرنے والوں اور شور سننے والوں کا تناسب مستقل ہے۔ پیکا ترمیمی بل کے ذریعے حکومت اس تناسب کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ اب تک حکومت شور کرنے والے پریشر ہارن پر پا بندی لگاتی آئی ہے اب یہ الزام فیک نیوز شور کرنے والے صحافیوں، میڈیا ہائو سز، سوشل میڈیا، وی لاگرز اور ناقدین پر بھی گرفت کی جاسکے گی۔ اب جھوٹ کی گنجائش نہیں ہوگی چاہے دو محبت کرنے والوں کے بیچ بولا گیا ہو۔ جھوٹ کے پائوں ہوں یا نہ ہوں اسے اب سچ سے آگے نکلنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ یہ سب کچھ بہت اچھا ہے ایسا ہی ہونا چاہیے، جھوٹ پر پابندی کیوں نہ ہو؟، جھوٹی خبر پر سزا کیوں نہ ہو؟ لیکن معاملہ نیتوں کا ہے۔ یہ پابندی ان کی طرف سے ہے جو خود جھوٹ کے چمپئن ہیں۔ تجربہ یہ ہے کہ جھوٹ کے نام پر سچ پر گرفت کی جائے گی، ناقدین کو خاموش کیا جائے گا۔ بات آگے بڑھے اس سے پہلے عالمی ادب سے ایک مختصر کہانی ملاحظہ فرما ئیے:
کچھ دن پہلے میرے آفس روم میں، میرے بچوں کی نینی (یولیا واسیلیونا) اپنا حساب کرنے آئی۔ میں نے اس سے کہا: ’’بیٹھو، یولیا… آؤ، حساب کتاب کر لیتے ہیں۔ تمہیں اکثر پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن تم اتنی شرمیلی ہو کہ خود نہیں مانگتی۔ خیر، ہم نے ماہانہ تیس روبل طے کیے تھے‘‘۔
یولیا نے کہا: ’’چالیس‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، تیس… میرے پاس ریکارڈ موجود ہے۔ میں ہمیشہ نینی کو تیس روبل ہی دیتا ہوں‘‘
اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے‘‘
میں نے پوچھا: ’’تم نے کتنے مہینے کام کیا؟
یولیا نے جواب دیا: ’’دو مہینے اور پانچ دن‘‘
میں نے کہا: ’’ٹھیک ہے، دو مہینے۔ میرے پاس یہی درج ہے، تو تم ساٹھ روبل کی حق دار ہو۔ لیکن ہم اتوار کے نو دن منہا کریں گے، کیونکہ تم نے ان دنوں میں کولیا کو نہیں پڑھایا، بس اس کے ساتھ رہی تھیں۔ پھرتم نے تین دن کی چھٹی بھی لی تھی‘‘۔
یولیا واسیلیونا کا چہرہ زرد پڑ گیا، اور اس کی انگلیاں کپڑوں میں الجھنے لگیں، مگر اس نے کوئی شکایت نہ کی۔
میں نے مزید کہا: ان تین چھٹیوں کے بارہ روبل کم ہوں گے۔ کولیا چار دن بیمار تھا، تو تم نے صرف فاریہ کو پڑھایا، سات روبل اس کے کم ہوںگے۔ پھر تین دن تمہارے دانت میں درد تھا، تو بیگم صاحبہ نے تمہیں دوپہر تک آرام کرنے دیا۔ تم نے دوپہر کے بعد پڑھایا، اس کے بھی بارہ روبل کم کریں تو کل انیس روبل کم کر کے تمہارے اکتالیس روبل بنتے ہیں، ٹھیک؟‘‘
یولیا واسیلیونا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، اس کی ٹھوڑی کانپنے لگی، مگر وہ اب بھی خاموش رہی۔
میں نے مزید حساب لگایا: ’’نئے سال سے پہلے تم نے ایک کپ اور پلیٹ توڑ دی تھی، اس کے بھی چھے روبل کٹیں گے۔ پھر، کولیا نے تمہاری لاپروائی کے سبب درخت پر چڑھ کر اپنی جیکٹ پھاڑ لی، اس کے دس روبل کم ہوں گے۔ نوکرانی نے ایک جوتا چوری کر لیا اور یہ سب کچھ دیکھنا تمہاری ذمے داری تھی، تو اس کے پانچ روبل اور کم کرنے پڑیں گے۔ اور 10 جنوری کو تم نے مجھ سے دس روبل ادھار لیے تھے‘‘۔
یولیا واسیلیونا نے سرگوشی کی: ’’میں نے نہیں لیے تھے‘‘۔
میں نے کہا: مگر میرے پاس ریکارڈ میں لکھا ہے‘‘
وہ بولی: ٹھیک ہے، جیسا آپ کہیں‘‘۔
میں نے حساب مکمل کیا: ’’اکتالیس سے ستائیس کم کریں تو باقی چودہ روبل بچتے ہیں‘‘۔
یولیا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، اس کی لمبی خوبصورت ناک پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔
اس نے ٹوٹی ہوئی آواز میں کہا: ’’میں نے صرف ایک بار تین روبل ادھار لیے تھے، اس سے زیادہ نہیں‘‘۔
میں نے چونک کر کہا: ’’واقعی؟ میں نے تو یہ ریکارڈ میں نہیں لکھا! تو چودہ میں سے تین نکال کر گیارہ بچتے ہیں۔ لو، یہ لو تمہارے گیارہ روبل!‘‘
میں نے سکے اس کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے انہیں جیب میں ڈال لیا اور آہستہ سے کہا:
’’شکریہ‘‘۔
مجھے غصہ آ گیا۔ میں نے پوچھا: ’’کس چیز کا شکریہ؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’پیسوں کا‘‘۔
میں نے کہا: ’’لیکن میں نے تو تمہیں دھوکا دیا، تم سے لوٹ مار کی، تمہارا حق مارا! اور تم پھر بھی شکریہ ادا کر رہی ہو؟‘‘
اس نے کہا: ’’دوسری جگہوں پر تو کچھ بھی نہیں ملتا‘‘۔
میں نے حیرت سے کہا: ’’کیا؟ تمہیں کچھ بھی نہیں دیا جاتا؟ کمال ہے! میں تو تم سے مذاق کر رہا تھا، تمہیں سبق سکھا رہا تھا! یہ لو، تمہارے اصل اسی روبل، جو میں نے تمہارے لیے لفافے میں رکھے تھے!‘‘
میں نے رقم اس کے حوالے کی اور مزید کہا: لیکن کیا تم اتنی بے بس ہو؟ تم نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ تم خاموش کیوں رہیں؟ کیا دنیا میں ایسا ممکن ہے کہ تم اپنا حق مانگنے سے بھی قاصر ہو؟ کیا تم واقعی اتنی بے بس ہو؟‘‘
یولیا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ’’ہاں، ایسا ممکن ہے‘‘۔
میں نے اسے بغور دیکھا، پھر سوچنے لگا: کتنا دردناک ہے اس دنیا میں کمزور ہونا!
پیکا ترمیمی بل پر عمل درآمد کی صورت میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سچ بولنے والوں کا علاج یو لیا کے حساب کتاب کی طرح کیا جائے گا تب صحافی، میڈیا ہائوسز، اینکر پرسنز اور ناقدین یو لیا کی طرح ہی کمزور اور بے بس ہوں گے۔ لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ جھوٹ پر پابندی کیوں نہ ہو؟ جھوٹی خبر پر سزا کیوں نہ دی جائے؟
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں نے کہا کیوں نہ
پڑھیں:
روایتی میڈیا تو پہلے ہی بوٹوں کے نیچے ہے، اب پیکا سے سوشل میڈیا پر بھی مارشل لاء لگا دیا گیا
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 06 فروری2025ء) عمران خان نے کہا ہے کہ روایتی میڈیا تو پہلے ہی بوٹوں کے نیچے ہے، اب پیکا سے سوشل میڈیا پر بھی مارشل لاء لگا دیا گیا، یہ زبان بندی کی قبیح ترین کوشش پاکستان کو بین الاقوامی پابندیوں سے قریب تر کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ تفصیلات کے مطابق بانی تحریک انصاف عمران خان نے جمعرات کے روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں اور وکلاء سے کی جانے والی گفتگو میں کہا کہ " پاکستان اس وقت ٹاوٹس کے قبضے میں ہے۔ ایک ایسا ٹاوٹ سکندر سلطان راجہ بھی تھا جو 2024 الیکشن چوری کا سرغنہ ہے اور اس پر آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے تاکہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔ محسن نقوی کے پاس ایسی کون سی گیڈر سنگھی ہے جو اس پر عہدوں کی بارش کی گئی ہے۔(جاری ہے)
اشاروں پر ناچنے والا ایک عقل سے عاری شخص کرکٹ سے لے کر خارجہ اور داخلہ امور سمیت سیکورٹی معاملات کا ماہر کیسے ہو سکتا ہے؟ پاکستانی قوم اپنے مینڈیٹ پر ڈالے گئے تاریخی ڈاکے کے خلاف 8 فروری کو پورے ملک میں نکلے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروائے- صرف 17 نشستیں جیتنے والی پارٹی کو اقتدار دے کر “اردلی حکومت” ملک پر مسلط کر دی گئی جو پاکستان کے ہر ادارے کو تباہ کر رہی ہے- میں عدلیہ کی آزادی کے لیے دی گئی 10 فروری کی پاکستان بھر کی بار ایسوسی ایشنز اور وکلاء کی کال کی بھی حمایت کرتا ہوں۔
ملک میں قانون کی حکمرانی کے بغیر کسی قسم کا استحکام ممکن نہیں ہے اور قانون کی حکمرانی آزاد عدلیہ کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ جس طرح چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی غرض سے ملک میں آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اس کے خلاف پاکستانی عوام میں شدید نفرت پائی جا رہی ہے۔ جو حالات ہیں اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ موجودہ نظام جمہوریت کے خلاف باقاعدہ برسر پیکار ہے، اور روز ایک ایسا نیا اقدام اٹھایا جاتا ہے جو جمہوریت کی روح کے عین منافی ہو۔ روایتی میڈیا تو پہلے ہی بوٹوں کے نیچے ہے۔ اب پیکا کا کالا قانون منظور کر کے عوام کے حق رائے دہی کا واحد ذریعہ یعنی سوشل میڈیا پر بھی مارشل لاء لگا دیا گیا ہے۔ یہ زبان بندی کی قبیح ترین کوشش ہے اور پاکستان کو بین الاقوامی پابندیوں سے قریب تر کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ پیکا کا قانون اگر لاگو کرنا ہی ہے تو سب سے پہلے شہباز شریف پر لاگو کیا جائے جنہوں نے ملکی تاریخ کے سب سے دھاندلی زدہ انتخابات کو فری اینڈ فئیر قرار دیا ہے۔ انہوں نے 26 نومبر کے قتل عام کو بھی جھٹلایا اور یہ کہا کہ کوئی گولی نہیں چلی نہ ہی کوئی شہادت ہوئی لہذا پیکا قانون کے تحت سب سے پہلی سزا شہباز شریف کو ملنی چاہیئے۔ بددیانت لوگ کبھی نیوٹرل امپائرز نہیں چاہتے۔ رجیم کیونکہ خود 26 نومبر اور نو مئی کے واقعات میں ملوث ہے اس لیے ان سے شفاف جوڈیشل کمیشن کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ ہم جوڈیشل کمیشن کا قیام صرف اس لیے چاہتے ہیں کیونکہ ہم انصاف کے متلاشی ہیں۔ جو مجرم ہیں وہ نہیں چاہتے کہ حقیقت سامنے آئے۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت کسی بھی صوبے کے آئی جی اور چیف سیکرٹری کی تقرری صوبائی حکومت کی صوابدید ہے۔ ایک مرتبہ پھر آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے صوبائی حکومت کے دئیے گئے تین ناموں کو اپنے “پاکٹ لاز” کے ذریعے ردی کی ٹوکری میں پھینک کر خیبر پختونخوا میں وفاق کی مرضی کا آئی جی انسٹال کر دیا گیا۔ میں علی امین کو خصوصی ہدایت کر رہا ہوں کہ صوبے کی عوام کے حقوق کا تحفظ آپ کی ذمہ داری ہے۔ ملک کے باقی تینوں صوبوں میں پہلے ہی ہمارے کارکنان کے خلاف ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے اگر خیبرپختونخوا میں بھی ہمارے کارکنان کو یہ سب برداشت کرنا پڑا تو اس کی ذمہ داری صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ پر ہو گی۔ ہمارے کسی ورکر کے خلاف کوئی زیادتی ہوئی تو فوری ایکشن لے کر آئی جی کو فارغ کرنا ہے۔"