کیا صدر ٹرمپ امریکا کو تنہا اور کمزور بنا رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
یہ سال 2016 تھا، امریکی صدارتی انتخابات ہونے والے تھے، ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ تھے جبکہ ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن امیدوار تھیں۔ پاکستان میں روایتی طور پر ڈیموکریٹس کے لیے سافٹ کارنر موجود ہے کہ ری پبلکن صدور کا زیادہ اگریسو اور وارمونگر ہونے کا تاثر ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ ہیلری کلنٹن کے حامی تھے۔ امریکا میں موجود پاکستانی بھی ڈیموکریٹ پارٹی کی سپورٹ کر رہے تھے۔ ٹرمپ کی شخصیت بھی مضحکہ خیز سی تھی، وہ اپنے عجیب شوخے سے سٹائل، سطحی جملے بازی اور امیگرنٹس اور مسلمانوں کے خلاف بیانات کی وجہ سے ناپسندیدہ سمجھے جا رہے تھے۔
انہی دنوں ایک سینیئر صحافی اور دانشور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ چائے کے کپ پر گپ شپ چل رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹرمپ کے صدر بننے کی دعا کرنا چاہیے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ ٹرمپ کیوں؟ ہمیں تو ہیلری کلنٹن سوٹ کرتی ہے، پاکستان کو بھی اچھی طرح جانتی، سمجھتی ہے، ماڈریٹ ہے، امیگرنٹس کے لیے سافٹ کارنر پے، پاکستانی تارکین وطن کو فائدہ ہوگا جبکہ ٹرمپ کے تو عزائم ٹھیک نہیں، وہ سخت اینٹی امیگرنٹس پالیسیاں بنائے گا۔ ری پبلکنز ویسے بھی جمہوری رہنمائوں سے زیادہ ڈکٹیٹروں کے دوست ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہ بھی پڑھیں: آخر تحریک انصاف کو کون سی امید سہارا دیے ہوئے ہے؟
وہ سنتے رہے اور پھر بولے، آپ دیکھیے گا کہ ٹرمپ امریکا کے لیے ویسا ہی تباہ کن ثابت ہوگا جیسا گورباچوف سوویت یونین کے لیے رہا۔ (ری پبلکن پارٹی کا انتخابی نشان ہاتھی ہے، اسی مناسبت سے) وہ کہنے لگے ٹرمپ راجہ پورس کے ہاتھی والا کردار ادا کرے گا جنہوں نے بوکھلا کر اپنی ہی فوج کو کچل ڈالا۔
خاکسار نے اپنے سینیئر سے ٹرمپ کے لیے اس پسندیدگی کی وجہ پوچھی تو بولے، مجھے اس کی ذات سے کوئی ہمدردی یا سروکار نہیں، البتہ اس کے آنے سے امریکا کا وہ بھرم ختم ہوجائے گا جو اس نے مختلف حیلوں بہانوں سے بنا رکھا ہے۔ امریکا کا اصلی سفاک، بے رحم اور خود غرض چہرہ سامنے آئے گا جسے اس نے جمہوریت، میڈیا ، انسانی حقوق،یوایس ایڈ وغیرہ کے سنہرے نقاب میں چھپا رکھا ہے۔ ٹرمپ صدر بنا تو یہ سب کچھ ایکسپوز ہوجائے گا اور ہمارے جیسے ملکوں کے عام شہری بھی امریکی ریاست اور حکومت کے اصل چہرے کو دیکھ لیں گے۔ ٹرمپ امریکا کی فالٹ لائنز کو زیادہ گہرا اور واضح کر دے گا جسے ڈیموکریٹس اوباما اور کلنٹن جیسے لوگ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ نہ کچھ بھرم قائم رکھ لیتے ہیں۔ ٹرمپ کی صدارت وہ بھرم، وہ پردے ختم کر دے گی۔
بات ختم ہوگئی، الیکشن میں ٹرمپ صدر بن گئے اور آتے ہی ایسے دھڑادھڑ ایگزیکٹؤ آرڈرز پاس کیے کہ دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ لوگ ہکے بکے رہ گئے کہ کوئی امریکی صدر ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ اپنے ہنگامہ خیز 4 سال کا دور گزار کر اگلا الیکشن ہار گئے۔ وائٹ ہاؤس میں ایک پیرانہ سال ڈیموکریٹ صدر آ گیا۔ پچھلے 4 سال بھی جیسے تیسے گزر ہی گئے۔
اس بار اندازہ ہو رہا تھا کہ ٹرمپ آسانی سے صدر بن جائیں گے، وہ بن بھی چکے ہیں اور صرف 2 ہفتوں میں صدر ٹرمپ نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس بار امریکی اتحادیوں پر بجلی گری ہے اور وہ ممالک جو طویل عرصے سے امریکا کے ساتھ کھڑے تھے، اب وہ ٹرمپ کے حملوں سے لرز رہے ہیں۔
امریکی عوام بھی پریشان اور کنفیوز سی ہوگئی ہے۔ ڈیمو کریٹ سینیٹرز اور کانگریس مین تو باقاعدہ جھنجھلائے اور تلملائے ہوئے لگ رہے۔ کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ طوفان کس جانب رخ کرے گا اور کیا کیا تباہیاں مچائے گا۔ ری پبلکن ہاتھی اس بار اپنے قدموں تلے کس کو کچل دے گا؟
صدر ٹرمپ اس بار زیادہ تیاری کر کے آئے ہیں، ان کا ہوم ورک بھی پورا ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ اپنے جیسے ہی متعدد کیریکٹر وہ ساتھ لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے غیر روایتی ٹیم چنی اور غیر رسمی انداز ہی میں اعلان کیا۔ کون جانتا تھا کہ امریکی صدر اپنی اہم ترین نامزدگیوں کا اعلان یوں سوشل میڈیا پر کیا کریں گے۔ ایسا مگر ہوا ہے۔
مزید پڑھیے: آخر تحریک انصاف کو کون سی امید سہارا دیے ہوئے ہے؟
مسلم ممالک، مڈل ایسٹ خاص کر غزہ اور چین کے حوالے سے تو خیر کسی کو ٹرمپ سے کوئی اچھی امید تھی ہی نہیں مگر کون جانتا تھا کہ وہ پہلے 10 دنوں ہی میں کینیڈا اور میکسیکو کی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیرف لگا دیں گے، چین پر بھی 10 فیصد ٹیکس لگ چکا۔ دھمکا تو وہ رہے تھےمگر یوں عجلت میں عمل بھی کر دیں گے یہ شاید کینیڈین کو بھی اندازہ نہیں تھا۔
ڈنمارک کے زیراہتمام علاقہ گرین لینڈ پر ٹرمپ یوں حق جتا رہے ہیں کہ یورپین بھی ہکا بکا رہ گئے۔ کوئی بعید نہیں کہ ٹرمپ گرین لینڈ پر کسی وقت قبضہ بھی کر لیں۔ پانامہ کو یوں تڑی لگائی گئی کہ اس غریب نے امریکی جہازوں کو پانامہ نہر سے گزرتے ہوئے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ ادھر کینیڈا نے جوابی طور پر امریکی مصنوعات پر ٹیرف تو لگایا، مگر انہیں اپنی ہمت اور قوت کا اندازہ ہے۔ اس لیے اب ٹرمپ ٹروڈو ملاقات میں کینیڈا نے تقریباً تمام امریکی مطالبات مان لیے، یہی میکسیکو نے کیا ہے۔ ٹرمپ نے ان دونوں ممالک کو ایسا خوفزدہ کر دیا کہ بوکھلاہٹ میں وہ ہر کام کرنے پر تیار ہیں۔
یوکرائن کے ساتھ بھی دلچسپ معاملہ رہا ہے۔ ٹرمپ نے حلف اٹھانے سے قبل ہی کہنا شروع کر دیا تھا کہ میں فوری طور پر یوکرائن روس جنگ بند کراؤں گا۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ یوکرائن کی فوجی مدد روک دیں گے۔ اب انہوں نے یوکرائن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی نایاب اور قیمتی منرلز والی زمینیں ضمانت کے طور پر امریکا کو دے۔
یاد رہے کہ یوکرائن اپنی بیش قیمت معدنیات کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ یوکرین لوہے اور مینگنیج کے وسیع، اعلیٰ معیار کے ذخائر کے لیے مشہور ہے، جو گرین اسٹیل کی پیداوار کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ 2021 ء میں یوکرین نے یورپی یونین کی اسٹیل پلیٹ کی درآمدات کا 43 فی صد فراہم کیا۔ زرکونیم اور اپیٹائٹ بھی جوہری اور طبی استعمال کے لیے اہم معدنیات ہیں۔ اس کے علاوہ کئیف کے پاس ڈیپازٹ سائز کی بنیاد پر یورپ میں نان فیرس دھاتوں جیسے تانبا، سیسہ، زنک اور چاندی جیسی دھاتوں کے بڑے ذخائر ہیں۔ یوکرین برومین، میگنیشیم، مینگنیج، پیٹ، لوہے اور کیولن کےسرفہرست دس دھاتیں پیدا کرنے والوں میں شامل ہے۔
یوکرائن کے صدر زیلنسکی نے گزشتہ روز اپنے بیان میں بات کو کور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنی ان زمینوں پر امریکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں امریکی کمپنیاں یہاں آئیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اپنے اگلے کسی بیان میں صدر ٹرمپ کھل کر کہہ دیں کہ بھیا ہم آپ کی مدد تب کریں گے جب اپنے یہ علاقے ہمارے حوالے کرو۔ پھر معلوم نہیں یوکرائن کے صدر زیلنسکی پر کیا گزرے گی؟
ٹرمپ کا غزہ پر بیان ہر ایک کے لیے حیران کن ثابت ہوا۔ صدر ٹرمپ نے واضح اشارہ دیا کہ امریکا غزہ پر قبضہ کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے وہ بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ مصر اور اردن غزہ اور ویسٹ بینک کے فلسطینیوں کو اپنے ہاں قبول کریں۔ اس بات نے مڈل ایسٹ میں ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ امریکا کے مڈل ایسٹ میں سب سے بڑے حامی مصر اور اردن تک نے اس سے انکار کیا اور اس کی مذمت کی ہے۔ سعودی عرب نے بھی سخت احتجاج کیا ہے۔ سعودی چینل اسے نقبہ ثانی کہہ رہے ہیں، یاد رہے کہ نقبہ دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین سے فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر جلاوطنی کے المناک واقعے کو کہتے ہیں جب ان کے گھروں پر اسرائیلی آبادکاروں کو بسا دیا گیا۔ یہ عظیم المیہ تھا۔ ٹرمپ کے حالیہ بیان کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: کشمیر: امریکی خفیہ دستاویزات نے کیا نئے انکشافات کیے؟
اس سب میں ایلون مسک کا کردار بھی بہت عجیب اور نہایت مایوس کن رہا ہے ۔ مسک بھی لگتا ہے حب جاہ کے مرض می مبتلا تھا اور اب ٹرمپ انتظامیہ میں اہم پوزیشن حاصل کرتے ہی مسک کا اصل چہرہ بھی سامنے آیا ہے۔ وہ نہایت بے رحمی اور پوری شدت کے ساتھ تمام اصول وضوابط اور اخلاقی قدروں کو پاش پاش کر کے ایک نئی امریکی اخلاقیات کی فصل بو رہا ہے جس پر خودغرض، گھٹیا پن اور کمینگی کا پھل اگے گا۔
بدقسمتی یہ کہ امریکی عوام، میڈیا وغیرہ سوائے شورمچانے کے کچھ بھی نہیں کر پا رہے کیونکہ کانگریس پر ری پبلکن کا مکمل کنٹرول ہے جبکہ سپریم کورٹ پر بھی ان کی گرفت مضبوط ہے۔ انتظامیہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرا کر مسک کے حامی لوگوں کو مقرر کیا گیا ہے۔
یوایس ایڈ کو یوں بیک جنبش قلم بند کر دینا بھی حیران کن ہے۔ اس میں مسائل ہوسکتے ہیں، ممکن ہے کہیں کچھ غیر شفاف بھی ہو مگر بہرحال بہت سی جگہوں پر اچھے امدادی پراجیکٹ چل رہے ہیں۔ ایلون مسک نے سب کچھ ملیا میٹ کر دیا ہے۔ دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ حکومتی اداروں اور محکموں میں کوئی افسر اگر مزاحمت کی کوشش کرے تو اسے نکال باہر کیا جا رہا ہے۔ امریکا میں ایسی افراتفری اور بے یقینی، کنفیوژن کی صورتحال شاید پہلی بار دیکھی گئی ہو۔
یہ بھی پڑھیے: عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا کیوں اور کیسے ہوئی، آگے کیا ہوگا؟
مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ اپنی دانست میں بے شک امریکیوں کے بھلے اور مفاد کے لیے کر رہے ہوں مگر ان کا امیج بطور صدر امریکا ایک نہایت خودغرض، گھٹیا، کمینے اور شودے قسم کے لیڈر والا بن رہا ہے۔ جسے صرف اپنے مفادات سے غرض ہے، دنیا بے شک بھاڑ میں جائے۔ جو صرف یک رخا اور بہت محدود ویژن کا حامل ہے، کشادہ دلی، کشادہ نظری اور وسیع تناظر کا جسے کچھ پتا نہیں۔ امریکی ریاست، اس کے تھنک ٹینکس، ماہرین نے طویل سوچ بچار اور پلاننگ کر کے اپنے جو اتحادی بنائے تھے، روس اور پھر چین کے خلاف جو اتحاد بنائے، لگتا ہے وہ سب پاش پاش ہونے جا رہے ہیں۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ ٹرمپ کے بعد کا امریکا کیسا ہوگا ؟ کس پوزیشن میں اور کیسی حالت میں۔ امریکا کے اندر تقسیم شدید تو ہوچکی تھی مگر مجھے تو اب لگ رہا ہے کہ پہلی بار کسی امریکی صدر کے خلاف پاکستانی اسٹائل کی بڑی عوامی احتجاجی تحریک نہ چل جائے۔ لگتا ہے امریکا اپنی تاریخ کی سب سے بڑی داخلی آزمائش اور خارجی تنہائی سے دوچار ہونے جا رہا ہے۔ دیکھیں کیا بنتا ہے؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عامر خاکوانینیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
امریکا امریکا کا اصل چہرہ امریکی گورباچوف ڈونلڈ ٹرمپ ڈیموکریٹس ری پبلکن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ڈونلڈ ٹرمپ ڈیموکریٹس ری پبلکن امریکا کے جا رہا ہے ری پبلکن رہے ہیں ٹرمپ کے کے ساتھ کہ ٹرمپ تھا کہ ہیں کہ ہے اور کے لیے کر دیا
پڑھیں:
ٹرمپ کی دھمکی کارگر‘ نہرپاناما میں امریکی جہازوں کی فیس معاف
واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا
کے سرکاری بحری جہاز اب پاناما کینال سے کسی بھی قسم کی فیس ادا کیے بغیر گزر سکیں گے۔ محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہاہے کہ پاناما کی حکومت نے آمادگی ظاہر کی ہے کہ پاناما کینال سے گزرنے والے امریکی سرکاری جہازوں پر آئندہ فیس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس اقدام سے امریکا کو کروڑوں ڈالر کی بچت ہو گی۔دوسری جانب اس آبی گزر گاہ کا انتظام سنبھالنے والی ’پاناما کینال اتھارٹی‘ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اتھارٹی نے امریکا کو ایسی کوئی رعایت دینے پر تاحال اتفاق نہیں کیا ہے۔اتھارٹی کے مطابق وہ امریکی حکام سے اس حوالے سے مزید بات چیت کے لیے تیار ہے۔واضح رہے کہ امریکا کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنا پہلا دورہ وسطی امریکا کے ممالک کا کیا تھا۔ اس دورے میں وہ اتوار کو پاناما پہنچے تھے جہاں انہوں نے پاناما کے صدر ہوزے راول ملینو اور پاناما کینال کے حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔اس دورے میں امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ چین پاناما کینال پر اثر و رسوخ اور کنٹرول کی “ناقابلِ قبول” کوشش کر رہا ہے۔ اگر اسے نہ روکا گیا تو امریکا پاناما کینال تک رسائی کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔مارکو روبیو نے اتوار کو پاناما کینال کا بھی دورہ کیا تھا اور وہاں کی انتظامیہ سے گفتگو کی تھی۔ پاناما کینال بحرِ اوقیانوس (اٹلانٹک) اور بحر الکاہل (پیسیفک) کو ملانے کے لیے بنائی گئی آبی گزرگاہ ہے جس کا کنٹرول وسطی اور جنوبی امریکہ کے سنگم پر واقع ملک پاناما کے پاس ہے۔امریکہ کے تعاون سے بننے والی اس کینال سے گزرنے والے جہازوں سے پاناما فیس وصول کرتا ہے۔امریکہ نے 1999 میں اس کینال کا کنٹرول پاناما کے سپرد کر دیا تھااور اب اس کی نگرانی ایک خود مختار سرکاری ادارہ ’پاناما کینال اتھارٹی‘ کے پاس ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کینال کے استعمال کی فیس پر تنقید کر چکے ہیں اور انہوں نے کینال کو پاناما کے حوالے کرنے کے فیصلے کو ’احمقانہ‘ قرار دیا تھا۔صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاناما نے امریکہ کے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کیا۔پاناما کینال کی وجہ سے شمالی امریکا سے بحرِ اوقیانوس کی طرف جانے والے یا آنے والے بحری جہازوں کا سفر تقریباً 11 ہزار کلومیٹر تک کم ہوجاتا ہے۔امریکہ اس بحری راستے کا سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے اور یہاں سے گزرنے والے جہازوں میں سے 74 فی صد امریکہ کے ہوتے ہیں۔اس کینال کا استعمال کرنے والا دوسرا بڑا ملک چین ہے جس کا اس کینال کے ٹریفک میں شیئر 21 فی صد ہے۔