8 فروری احتجاج: علی امین گنڈاپور کی عدم دلچسپی اور جنید اکبر کا جارحانہ انداز
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف نے 8 فروری کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کرکے ملک بھر میں احتجاج اور خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں جلسے کا اعلان کیا ہے۔
اس جلسے کے کامیاب انعقاد کے لیے خیبر پختونخوا کے نئے صوبائی صدر جنید اکبر خان دن رات تیاریوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے ناراضگی کے باجود بھی ملاقات کرکے تیاریوں پر بات کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی کا 8 فروری کا احتجاج ماضی کے احتجاجوں سے کیسے مختلف ہوگا؟
پی ٹی آئی کے مطابق ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی جس میں پارٹی تنظیمی امور اور جلسے کی تیاریوں پر بات ہوئی۔
جلسے میں بھرپور شرکت کا اعلان، تیاریوں میں عدم دلچسپیوزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سے ممبر قومی اسمبلی شیر افضل مروت کی قیادت میں وفد نے ملاقات کی، جس میں 8 فروری کو صوابی میں ہونے والے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے حکمت عملی طے کی گئی۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے بتایا کہ وہ جلسے میں بھرپور شرکت کریں گے۔ تاہم پی ٹی آئی کے باخبر ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ صوبائی صدرات سے محرومی کے بعد پارٹی امور میں کچھ خاص دلچسپی نہیں لے رہے۔ وہ نئے صوبائی صدر جنید اکبر سے تعاون کرنے کو بھی تیار نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پشاور میں 8 فروری احتجاج کے حوالے سے نئے صدر کی سربراہی میں کئی میٹنگز ہوئیں، لیکن علی امین اس میں شریک نہیں ہوئے۔ اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی دلچسپی رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:8 فروری کو صوابی میں جلسہ، پی ٹی آئی کے نئے صوبائی صدر جنید اکبر کے لیے چیلنج؟
ذرائع کے مطابق شکیل خان کو کابینہ سے ہٹانے پر عاطف خان گروپ اور علی امین کے مابین اختلافات شدید اختیار کر گئے تھے اور شکیل خان کی حمایت پر علی امین نے موجودہ نئے صدر جنید اکبر کو اس وقت فوکل پرسن کے عہدے سے ہٹا دیا تھا، جبکہ ان وہ ان کی جگہ خیبر پختونخوا کے صدر بنائے گئے۔ یہ تبدیلی علی امین گنڈاپور کے لیے پریشان کن ہے۔ علی امین بظاہر تو ساتھ ہیں لیکن تیاریوں میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا۔
گروپنگذرائع کا کہنا ہے کہ علی امین کی عدم دلچسپی کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ عاطف خان گروپ کا پارٹی میں آگے آنا ہے۔ علی امین گروپ عاطف خان گروپ کو ایکسپوز کرنے کے نام پر کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور عاطف خان کی عون چوہدری کے ساتھ تصویر کے معاملے سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔
ذرائع کے مطابق سب کو پتا ہے کہ جنید اکبر خان عاطف خان ہم خیال ہیں اور پارٹی میں ان کا اپنا گروپ ہے۔
علی امین گنڈاپور اور جنید اکبر کی ملاقاتعلی امین گنڈاپور کو ہٹا کر جنید اکبر کو صدر بنانے کے بعد پارٹی میں بظاہر تو کسی کو کوئی اختلاف نہیں، لیکن اس کے بعد پارٹی میں عملاً اندرونی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔
جنید اکبر کو صدر بنانے کے بعد پارٹی کارکن خوش ہیں، لیکن علی امین گروپ میں خوشی نظر نہیں آرہی۔ علی امین گنڈاپور نے جنید اکبر کو مبارکباد تک نہیں دی۔ تاہم گزشتہ روز دونوں میں پہلی بار ملاقات ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:انتخابات میں ’دھاندلی‘ کے خلاف جماعت اسلامی کا 8 فروری کو یوم سیاہ منانے کا اعلان
ذرائع کا بتانا ہے کہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی، اور جلسے کی تیاریوں پر بات ہوئی اور اسے کامیاب بنانے پر اتفاق ہو گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ علی امین چونکہ وزیر اعلی ہیں اوت وسائل اور طاقت کا محور بھی ہیں اس کے باوجود بھی جنید اکبر نے ان سے کوئی تعاون یا مدد نہیں مانگی۔
کیا احتجاج کے حوالے سے علی امین اور جنید اکبر کی رائے مختف ہے؟علی امین گنڈاپور کو ہٹا کر جنید اکبر کو صوبائی صدر بنانے کے بعد احتجاج اور دھرنوں اور پارٹی امور کی صوبائی سطح پر ذمہ داری اب جنید اکبر کو دی گئی ہے۔ احتجاج کے حوالے سے ان کی رائے بھی علی امین گنڈاپور سے بہت مخلتف ہے اور وہ ریاست کے حوالے سے بھی سخت مؤقف رکھتے ہیں۔
پارٹی کے باخبر ذرائع کا بتانا ہے کہ علی امین وزیر اعلیٰ بننے کے پہلے دن سے سخت احتجاج اور دھرنوں کے حق میں نہیں تھے، اسی لیے وہ صرف بیان بازی تک محدود تھے۔
ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور اسلام آباد مارچ کے حق میں بھی نہیں تھے اور ڈی چوک جانے کو اب بھی غلط فیصلہ مانتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس جنید اکبر ملک گیر سخت احتجاج کے حامی ہیں۔ انہون اعلان بھی کیا ہے خیبر پختونخوا میں موٹرویز اور دیگر اہم روڈز کو بند کرنا چاہیے، جب کہ جو علی امین گنڈاپور ایسا بالکل بھی نہیں چاہیے ہیں۔
جنید اکبر کی حکمت عملی کیا ہے؟نئے صدر جنید اکبر صوابی جلسے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ہم خیال رہنماؤں سے مسلسل مشاورت کر رہے ہیں۔ ان کے قریبی ساتھیوں کے مطابق صوابی جلسہ ان کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔ جسے کامیاب بنا کر وہ علی امین گروپ کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے بغیر بھی پارٹی آگے لے جا سکتے ہیں اور ورکرز ان کے ساتھ ہیں۔
جنید اکبر کی نظریںجنید اکبر کی نظریں مالاکنڈ ڈیژون اور پشاور پر لگی ہیں، جہاں سے ورکرز نکل کر جلسے کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جبکہ جنوبی اضلاع سے ان کو کچھ خاص امید نہیں۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ جنید اکبر اسپیکر ہاؤس میں بھی اراکین کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے تھے، انہوں نے پشاور سے منتخب اراکین کو خصوصی ہدایت کی ہے کہ وہ ورکرز کو نکالنے میں اپنا میں کردار ادا کریں۔
انہوں نے ہم خیال اراکین کو واضح طور پر بتایا ہے کہ اس جلسے کو کامیاب بنا کر عمران خان کو پیغام دیں گے کہ خیبر پختونخوا میں ورکرز ان کے ساتھ ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
8فروری جلسہ پی ٹی آئی تحریک انصاف جنیداکبر صوابی علی امین گنڈاپور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی تحریک انصاف جنیداکبر صوابی علی امین گنڈاپور علی امین گنڈاپور ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا صدر جنید اکبر جنید اکبر کو جنید اکبر کی کے بعد پارٹی تیاریوں میں کے حوالے سے وزیر اعلی پارٹی میں احتجاج کے پی ٹی آئی ذرائع کا بنانے کے فروری کو کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
آٹھ فروری کو حقیقی نمائندوں کے بجائے جعلی قیادت مسلط کی گئی، تحریک تحفظ آئین
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک تحفظ آئین کے رہنماؤں نے کہا کہ موجودہ اسمبلیوں کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں، 18 ویں ترمیم کے باوجود ایس آئی ایف سی اور اپیکس کمیٹی کو استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سڑکیں بند کی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ آٹھ فروری 2024 کو ملک میں الیکشن نہیں ہوئے، بلکہ اسمبلی کی بولیاں لگائی گئیں اور بدترین دھاندلی کی گئی۔ موجودہ اسمبلیوں کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں، 18 ویں ترمیم کے باوجود ایس آئی ایف سی اور اپیکس کمیٹی کو استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر ہماری معدنیات نکالنی ہیں تو چار صوبوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔ ملک کو بچانے کے لئے سب کو موجودہ حکومت کے خلاف نکلنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار بی این پی کے سینئر نائب صدر ساجد ترین ایڈوکیٹ، پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری عبدالرحیم زیاتوال، پی ٹی آئی کے صوبائی صدر دائود شاہ کاکڑ، بی این پی عوامی کے سینئر نائب صدر حسن ایڈوکیٹ، مجلس وحدت المسلمین کے صوبائی نائب صدر ولایت حسین جعفری و دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
بی این پی کے رہنماء ساجد ترین نے کہا کہ بی این پی کا لک پاس پر دھرنا 15 روز ہوگئے ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے ابھی ڈاکٹر ماہ رنگ کی درخواست پر فیصلہ نہیں سنایا ہے۔ ہمارے لانگ مارچ کو روکنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا گیا۔ بلوچستان کے مسئلے کو طاقت کے بجائے بات چیت سے حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 8 فروری 2024 کے الیکشن میں حقیقی قیادت کو روک کر مصنوعی نمائندوں کو سامنے لایا گیا۔ بلوچستان اور پختونخواہ پر جعلی قیادت کو مسلط کیا جاتا رہا ہے۔ بلوچستان کے وسائل لوٹ کر پنجاب کو آباد کرنے کی کوشش کی گئی۔ جعلی پارلیمنٹ کے مسلط کردہ فیصلوں کے پابند نہیں ہیں۔ جعلی قیادت کو سامنے لانے کا مقصد بلوچستان اور کے پی کے وسائل کو نکال کر استعمال کرنا ہے۔ جس صوبے میں جو وسائل ہیں ان کے مالک اس صوبے کے عوام ہیں۔
رہنماؤں نے کہا کہ یہ اسمبلیاں جعلی ہیں۔ ان کے ذریعے جو فیصلے ہوں گے انہیں تسلیم نہیں کریں گے۔ جتنے جعلی نمائندے آجائیں، عوام اصلی نمائندوں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز جعلی قیادت نے میڈیا پر جو باتیں کیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ کل وزراء نے جو باتیں کیں ہم ان کا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی وزراء کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ وہ گالیاں تو دے سکتے ہیں مگر بیک ڈور جو باتیں ہوئیں وہ سامنے کیوں نہیں لا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام نے پہلے بھی ثالثی کی کوشش کی تھی آج بھی وہ اس سلسلے میں آئے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں ساجد ترین ایڈوکیٹ نے کہا کہ شاہراہیں بی این پی نہیں حکومت نے بند کی ہیں۔ ہمارے پرامن لانگ مارچ کے تسلیم ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 8 فروری کو انتخابات میں برتری حاصل کی لیکن وہ جیل میں ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے باوجود اپیکس کمیٹی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر ہماری معدنیات نکالنی ہیں تو چار صوبوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔ ایپکس کمیٹی کے فیصلے غیر آئینی ہیں۔
پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل عبدالرحیم زیاتوال نے کہا کہ پاکستان 1940 کی قرارداد کے تحت وجود میں آیا ہے۔ ہم کہتے ہیں اس قرارداد کے تحت ملک کو چلایا جائے۔ اس قرارداد میں کہا ہے صوبے خود مختار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ 8 فروری 2024 کے الیکشن میں بولی لگائی گئی۔ پی کے میپ کی 8 سیٹیں دوسروں کو دی گئیں۔ ہم نے آئین کے تحفظ کیلئے تحفظ آئین پاکستان بنائی ہے۔ موجودہ حکومت نے پیکا ایکٹ کے ذریعے صحافیوں کے گلے کو گھونٹا ہے۔ ملک کو بچانے کے لئے سب کو نکلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جو ترمیم کی ہیں، اسے ہم تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ یہ ملک اس طرح چلنے کے قابل نہیں ہے۔ جمہور کی بالادستی، تمام صوبوں کا مطمئن ہونا ضروری ہے۔ بی این پی اور تحفظ آئین پاکستان کے مطالبات کو تسلیم کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ اسمبلی کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔ اس کی جانب سے صوبے کی معدنیات کا اختیار وفاق کو دینے کا جو ایکٹ منظور کیا گیا ہے، اسے تسلیم نہیں کرتے صوبے کی معدنیات وفاق کے حوالے کرنے کے ایکٹ کی مخالف کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی این پی کے لانگ مارچ کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے صوبائی صدر دائود شاہ کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان اور کے پی کے کی معدنیات پر قبضہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہم صوبے کی معدنیات پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔ ہم بی این پی کے دھرنے کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ بلوچستان حکومت کے پاس کوئی ووٹ بینک نہیں ہے۔ اس حکومت کو لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈالرز کی گیم کھیلیں جا رہی ہیں۔ حکومت بلوچستان میں خون خراب چاہتی ہے۔ حکمران اس وقت گھبرائے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی نائب صدر علامہ ولایت حسین جعفری نے بھی بی این پی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔