گزشتہ مالی سال، حکومتی قرضے قابل استحکام سطح سے بلند رہے
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان کے قرضہ جات کی سطح گزشتہ مالی سال کے دوران قابل استحکام سطح سے کافی بلند رہی جو پارلیمانی قانون کی خلاف ورزی ہے.
تفصیلات کے مطابق حکومت پاکستان کے سرکاری قرضہ جات کی سطح گزشتہ مالی سال کے دوران قابل استحکام سطح سے کافی بلند رہیں جو کہ پارلیمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی بھی ہے جبکہ اس کی بنیادی وجوہ میں شرح سود کی مد میں ادائیگیاں ہیں جس کے باعث مستحکم زرمبادلہ اور دیگر اخراجات میں کٹوتی کا بھی سودمند ثابت نہ ہوسکیں.
یہ بات وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ایک جائزہ رپورٹ میں کہی گئی،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت گزشتہ مالی سال کے اختتام تک قرضوں کی سطح کو مجموعی معاشی حجم کے 56 اعشاریہ 75 فیصد تک لانے میں ناکام رہی اور وہ سطح پارلیمانی ایکٹ کے تحت منظور کی گئی تھی.
تاہم رواں مالی سال کے لیے قرضوں کی سطح کی حد تک 56 فیصد تک لانے کی ذمہ داری ہے،رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران حکومتی قرضوں کی سطح مجموعی معاشی حجم کے 67 اعشاریہ 50 فیصد تک رہی-
رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ملک میں شرح سود مسلسل اضافہ پذیر ہے اور اس وقت مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود کو 22 فیصد کی سطح پر رکھا گیا ہے جس کے باعث وفاقی حکومت کو گزشتہ مالی سال میں صرف سود کی مد میں 8 کھرب 20 ارب روپے ادا کرنے پڑے ہیں جو کہ اس سے پیوستہ مالی سال کے مقابلے میں دو کھرب 50 ارب یا 43 فیصد تھا.
رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں مجموعی سرکاری قرضہ جات میں 13 فیصد اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر 71 کھرب 20 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس میں سے 47 کھرب 20 ارب روپے مقامی قرض جبکہ 24 کھرب10 ارب روپے بیرونی قرضہ جات ہیں-
مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے اگر اس کا جائزہ لیں تو مجموعی قرضہ جات کی شرح میں 7 فیصد کمی نظر آتی ہے اور مالی سال کے اختتام تک یہ جی ڈی پی کے 67 اعشاریہ 5 فیصد تک تھا- اسی طرح اگر بیرونی قرضوں کے حجم کا جائزہ لیں تو اس میں بھی گزشتہ مالی سال کے دوران 3 فیصد اضافہ نظر آتا ہے تاہم مجموعی قرضہ جات میں اس کی شرح میں 4 فیصد کی کمی ہوئی ہے.
وزارت خزانہ کے مطابق حکومت فنڈنگ کے متبادل ذرائع تلاش کررہی ہے جن میں گرین سکوک اور دیگر بانڈز کے علاوہ چینی مارکیٹ کے لیے پانڈا بانڈز کے اجرا پر بھی کام کیا جارہا ہے تاہم تاحال اس میں ابھی کوئی کامیابی نہیں ہوئی.
یہ رپورٹ عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کے قرضوں کی صورت حال کی نشاندہی میں شفافیت پر اعتراضات کے بعد جاری کی گئی ہے-
اس حوالے سے جب وزارت خزانہ کے ترجمان قمر عباسی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اس رپورٹ کے اجرا اور اسے ویب سائٹ پر پیش کرنے میں صرف دو ہفتے کی تاخیر ہوئی ہے کیونکہ دفتر میں عملے کی کمی اور اکھاڑ پچھاڑ تاخیر کی وجوہات میں شامل ہیں.
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ قرض کے حوالے سے بہت سے حکومتی اداروں اور وزارتوں سے معلومات کو ایک جمع اکھٹا کیا جارہا ہے اور اس حوالے سے مرکزی بینک، وزارت خزانہ معاشی امور کی وزارت کے درمیان رابطے ہیں اور وہ مل کر اس پر کام کررہے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی جانب سے قرضوں کی ارب روپے قرضہ جات کے مطابق فیصد تک کی سطح
پڑھیں:
گرین بانڈز کے ذریعے فنڈنگ حاصل کرنے کا حکومتی فیصلہ : آئی ایم ایف کے اہداف کی تکمیل کیلئے اہم قدم
پاکستان نے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبل فنڈز کی پہلی قسط کے حصول کیلئے گرین بانڈز کے اجرا کا فیصلہ کیا ہے ذرائع کے مطابق حکومت رواں ماہ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں تین ارب روپے مالیت کے گرین بانڈز جاری کرے گی ان بانڈز کا مقصد موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے والے منصوبوں کی تکمیل کیلئے فنڈنگ حاصل کرنا ہے یہ اقدام پہلی بار آئی ایم ایف کی مشاورت سے کیا جا رہا ہے اور ان بانڈز کی میچورٹی مدت تقریباً تین سال رکھی گئی ہے بانڈز کے اجرا سے قبل وفاقی کابینہ کی منظوری درکار ہوگی آئی ایم ایف نے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبل فنڈز پروگرام کے تحت پاکستان پر یہ شرط عائد کی ہے کہ ملک کو مقامی اور بین الاقوامی ذرائع سے مالی وسائل اکٹھے کرنے ہوں گے تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے جاری منصوبے مکمل کیے جا سکیں ان شرائط کو پورا کیے بغیر آر ایس ایف کی پہلی قسط جاری نہیں کی جائے گی ذرائع کے مطابق پاکستان نے رواں مالی سال کے دوران چائنیز مارکیٹ میں تیس کروڑ ڈالر مالیت کے پانڈا بانڈز جاری کرنے کا منصوبہ بھی بنایا تھا جو نومبر یا دسمبر میں متوقع تھا تاہم اب یہ بانڈز جاری نہیں کیے جا سکیں گے وزیر خزانہ محمداورنگزیب نے جولائی میں چین کے دورے کے دوران چائنا ایکسپورٹ اینڈ کریڈٹ انشورنس کارپوریشن سے پانڈا بانڈز کے اجرا کیلئے گارنٹی کی درخواست کی تھی اور اس سلسلے میں ایڈوائزر کی تعیناتی بھی ہو چکی ہے وزارت اقتصادی امور کی رپورٹ کے مطابق پانڈا بانڈز کا اجرا رواں مالی سال کے ایکسٹرنل فنانسنگ پلان کا حصہ تھا اور یہ بانڈز ابتدائی طور پر پہلی سہ ماہی میں جاری کیے جانے تھے تاہم بعد ازاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بانڈز کو دوسری سہ ماہی میں فلوٹ کیا جائے گا لیکن اب یہ منصوبہ موخر کر دیا گیا ہے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت پاکستان کو ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبل فنڈز کی مد میں ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی رقم مرحلہ وار ملے گی اور یہ رقم اپ فرنٹ جاری نہیں کی جائے گی اس فنڈ کے حصول کیلئے پاکستان کو تیرہ مخصوص اہداف پر عملدرآمد کرنا ہوگا جن میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق منصوبے بھی شامل ہیں ان منصوبوں پر عملدرآمد کی نگرانی آئی ایم ایف خود کرے گا تاکہ شفافیت اور مؤثر عمل یقینی بنایا جا سکے