مال کتنا اور کیسے خرچ کیا جائے؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
اسلام ایمان کے عملی ظہور کا دوسرا نام ہے۔ ایمان بیج ہے تو اسلام اس کا درخت ہے۔ جہاں ایمان ہوگا، اخلاق میں برتائو، تعلقات کے کٹنے اور جڑنے، سعی اور جدوجہد کے راستوں میں اس کا ظہور ہوگا۔ گویا ایمان کا اظہار عملِ صالح کی شکل میں ہوتا ہے۔ آیت البرّ (لَیسَ البِرَّ …الخ) میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے تذکرے کے بعد سب سے پہلے جس عملِ صالح کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے وہ اس کی راہ میں اس کے بندوں پر مال خرچ کرنا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
’’اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے‘‘۔ (البقرہ: 177)
یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے ضرورت مند بندوں پر مال خرچ کیا جائے یہ فطری سوال اْٹھتا ہے کہ ان پر کتنا اور کس طرح خرچ کیا جائے؟ اگرچہ اللہ نے یہاں اس کا جواب نہیں دیا ہے لیکن قرآن میں دوسری مختلف جگہوں پر ان کے جوابات ہمیں ملتے ہیں۔ ایک جگہ لوگوں کے اسی سوال کا کہ کتنا مال خرچ کیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو جو کچھ تمھاری ضروریات سے زیادہ ہو‘‘۔ (البقرہ: 219)
یعنی جو مال کسی کی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ کس کی کیا ضروریات ہیں؟ اس کا صحیح علم تو خرچ کرنے والا ہی جانتا ہے لیکن اللہ جانتا ہے کہ انسان فطرتاً بخیل ہے:
’’کہیے، اگرکہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمھارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے، واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: 100)
اسی لیے وہ کہتا ہے کہ انسان نہ تو بالکل ہی مال روک کر بخل کا مظاہرہ کرے اور نہ ہی بے تحاشا خرچ کرکے ضرورت سے زیادہ فیاضی دکھائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ خرچ کرنے والا انسان بعد میں خود ہی اپنی حالت پر ملامت و حسرت کا اظہار کرے:
’’نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو‘‘۔ (بنی اسرائیل: 29)
دوسرے معنوں میں ان ضرورت مندوں پر مال خرچ کرنے میں میانہ روی کا طریقہ اپنایا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بخیلی کا مظاہرہ ہو یا اسراف کا مظاہرہ دونوں ہی ناپسندیدہ کام ہیں۔ اللہ کو ایسے اعمال سے کراہت آتی ہے:
’’ان امور میں سے ہر ایک کا بْرا پہلو تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: 38)
ایک حدیث کے مطابق رسول اللہؐ نے بھی سیدنا سعدؓ بن وقاص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنا ایک تہائی مال اللہ کی راہ میں صدقہ اور خیرات کرسکتے ہو اور اتنا نہ صدقہ کرو کہ اپنی اولاد کو اس حالت میں چھوڑ کر جائو کہ وہ دوسروں کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلائیں۔ ایک اور حدیث سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال ہی اللہ کی راہ میں صدقہ یا خیرات کیا جانا چاہیے۔
ایک مسافر صحرا سے گزر رہا تھا کہ اس نے فضا میں ایک آواز سنی جو بادلوں سے کہہ رہی تھی کہ وہ فلاں شخص پر برسیں۔ وہ شخص بادلوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ بادل ایک پہاڑی پر برس گئے۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر کوئی نظر نہیں آیا۔ پہاڑوں پر برسنے والا پانی بہتا ہوا ایک نالے میں بہنے لگا۔ مسافر اس نالے کے بہائو کے ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دْور جاکر اس نے دیکھا کہ اس نالے سے ایک بوڑھا شخص اپنے کھیت کو سیراب کر رہا ہے۔ مسافر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنی فصل کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک حصہ وہ اپنے بال بچوں کی ضروریاتِ زندگی پر خرچ کرتا ہے۔ دوسرے حصے سے وہ نئی کاشت کے لیے بیج اور کھاد وغیرہ کا انتظام کرتا ہے اور تیسرا حصہ وہ سب کا سب اللہ کی راہ میں صدقہ کردیتا ہے۔
ان دونوں احادیث سے ہمیں ’العفو‘ یا ضرورت سے زائد مال کی بڑی اچھی تشریح ملتی ہے لیکن اگر مال اْمت کی بقایا سرحدوں کی حفاظت یا جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر دیا جا رہا ہے تو جس سے جتنا ہوسکے دے اور میانہ روی اختیار نہ کرے۔ ایسے انفاق کی بہترین مثالیں وہ ہیں جن میں غزوئہ تبوک کے موقع پر سیدنا ابوبکر صدیقؓ اپنا سارا ہی مال لے آئے اور سیدنا عمر فاروقؓ اپنی ساری ہی چیزوں کو آدھا آدھا تقسیم کر کے لے آئے۔ ایک غریب اور مسکین شخص نے جس کے پاس کچھ نہ تھا۔ ساری رات ایک یہودی کا باغ سینچا اور صبح معاوضے کے طور پر اس کو جو کھجوریں ملیں اس میں سے آدھی اس نے رسول اللہؐ کی خدمت میں پیش کردیں۔ آپؐ نے اس کی کھجوروں کو سارے مال پر پھیلا دیا اور فرمایا کہ یہ راس المال ہے۔
اس سوال کہ ’’کس طرح خرچ کیا جائے؟‘‘ کا جواب بھی ہمیں قرآن میں مختلف جگہوں پر ملتا ہے، مثلاً ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اگر اپنے صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تو یہ تمھارے حق میں زیادہ بہتر ہے‘‘۔ (البقرہ: 271)
ایک حدیث کے مطابق اس طرح دیا جائے کہ اگر داہنا ہاتھ دے تو بائیں ہاتھ کو بھی پتا نہ چلے۔ گویا چھپا کر دیا جائے تاکہ لینے والے کی خودداری اور عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ لیکن اگر کسی اجتماعی کام کے لیے دیا جا رہا ہو یا کسی ادارے کو دیا جا رہا ہو تو علی الاعلان دیا جائے تاکہ دیکھنے والے کے اندر بھی دینے کی تحریک پیدا ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ انفاق کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں:
’’جو لوگ اپنے مال شب وروز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں‘‘۔ (البقرہ: 274)
ایک حدیث کے مطابق صدقہ دینے کا بہترین وقت وہ ہے جب دینے والا جوان اور صحت مند ہو اور اس کی اپنی ضروریات ہوں اور اسے اپنے افلاس کا ڈر بھی ہو نہ کہ جب وہ قریب المرگ ہو اور پھر یہ کہے کہ یہ فلاں کے لیے اور یہ فلاں کے لیے ہے تو مال اب اس کا نہیں رہا اور یہ فلاں اور فلاں ہی کا ہوگیا۔
مختصراً یہ کہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ان کو سمجھنا چاہیے کہ مال و اولاد تو آرام و آسایش کے وقتی سامان ہیں اور اللہ کی راہ میں انفاق جیسے اعمالِ صالحہ ہی آخرت کا سامان ہیں:
’’یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انھیں سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں‘‘۔ (الکھف: 46)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی راہ میں زیادہ سے زیادہ انفاق کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو انفاق ہم نے کیا ہے اس کو قبول فرمائے، آمین!
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے اللہ تعالی سے زیادہ ہے کہ ان مال خرچ ہے لیکن کے لیے
پڑھیں:
فطرت،انسانیت اور رحمتِ الٰہی
اللہ کوراضی رکھنے کے لئے سب سے پہلے اس کے احکامات پرعمل پیراہوناضروری ہے۔قرآن اورسنت میں جوہدایات دی گئی ہیں،ان پرعمل کرکے ہم اللہ کی رضاحاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے جہاں نماز، روزہ، زکوٰۃ اورحج جیسے بنیادی عبادات کا اہتمام فرض ہے وہاں سچائی،انصاف اورایمانداری کواپنی زندگی کااصول بنایا جائے۔ خلقِ خدا کی خدمت،خصوصاً غریبوں ، ناداروں، یتیموں اوربے سہاراافرادکی مددکی جائے۔اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کاشکراداکیاجائے اورتکبر سے اجتناب کیاجائے۔ حرام چیزوں جیسے جھوٹ،چغلی،حسد، رشوت،دھوکہ دہی اورظلم سے بچاجائے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں اللہ کی وحدانیت (توحید)اسلام کابنیادی ستون ہے،جس کے بغیرکوئی عمل قبول نہیں۔قرآن وحدیث میں اللہ کی وحدانیت کوباربارواضح کیاگیا ہے، اورشرک کوسب سے بڑاظلم قراردیاگیاہے۔ایک مومن کافرض ہے کہ وہ اللہ کواس کی ربوبیت،الوہیت، اور اسماوصفات میں یکتامانے۔ اللہ کوراضی رکھنے کابنیادی اصول عبادت اوراخلاقی احسان پرمبنی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق پانچ ارکانِ اسلام ہماری منزل متعین کرنے اوررہنمائی کے لئے بتادیئے گئے ہیں جن میں اللہ کی وحدانیت (شہادت) سر فہر ست ہے۔
اللہ کی وحدانیت (توحید)اسلام کابنیادی عقیدہ ہے،جس کے بغیرایمان مکمل نہیں ہوتا۔اللہ کی وحدانیت کامطلب ہے کہ اللہ ایک ہے، اس کاکوئی شریک نہیں اورتمام طاقت و اختیاراسی کے ہاتھ میں ہے۔جیساکہ اللہ نے قرآن میں یہ واضح فرمایا ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ ہے، ہر چیز کو سنبھالنے والا۔ (البقرہ:255)
کہو:وہ اللہ ایک ہے،اللہ بے نیازہے،نہ اس نے کسی کوجنا،نہ وہ جناگیا،اورنہ کوئی اس کاہمسر ہے۔ (اخلاص:4-1)
اللہ اس بات کی گواہی دیتاہے کہ اس کے سواکوئی معبودنہیں،اورفرشتے اوراہل علم بھی گواہی دیتے ہیں کہ وہ انصاف پرقائم ہے، اس کے سواکوئی معبودنہیں،وہ زبردست حکمت والاہے۔(العمران: 18)
اورہم نے تم سے پہلے جوبھی رسول بھیجا،اس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سواکوئی معبودنہیں، پس میری ہی عبادت کرو۔ (الانبیا: 25 )
رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے سچے دل سے گواہی دی کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اور محمدﷺاس کے رسول ہیں،اللہ اس پر جہنم کوحرام کردیتاہے۔(صحیح مسلم:263)
نبیﷺ نے فرمایا،سب سے افضل بات جومیں نے اورمجھ سے پہلے تمام انبیا نے کہی،وہ یہ ہے،اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں،اس کاکوئی شریک نہیں،بادشاہی اسی کی ہے۔اورتمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں اوروہ ہرچیزپرقادر ہے ۔
نبی کریمﷺ نیفرمایا:جوشخص اس حال میں مرے کہ وہ اس بات کی گواہی دیتاہوکہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں،وہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح مسلم:63)
اللہ اپنی مخلوق سے محبت،انصاف اورنیکی کاتقاضاکرتاہے۔جس طرح دنیامیں ہرتخلیق کاراپنی تخلیق کی قدرچاہتاہے،اسی طرح اللہ بھی اپنی مخلوق کی عزت واحترام اورعدل وانصاف کاتقاضاکرتاہے۔اللہ کاحکم ہے کہ انسانوں کی عزت کی جائے اوران کے حقوق اداکیے جائیں۔انصاف قائم کیاجائے اورظلم سے بچاجائے۔معاشرتی بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیاجائے۔
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت(توحید)اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے،جوقرآن وحدیث میں واضح طور پر بیان کیاگیاہے۔توحیدکے تین اہم پہلوہیں:
توحید،ربوبیت(اللہ کی ربوبیت کا اقرار)یہ عقیدہ ہے کہ رب کریم ہی کائنات کے خالق،مالک اورتنہارب ہیں۔ قرآن کریم کھولتے ہی سب سے پہلے سورہ الفاتحہ میں ہی ہم اس بات کااقرارکرتے ہیں کہ’’تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جوسارے جہانوں کارب ہے‘‘۔
اللہ ہرچیزکاخالق ہے،اوروہی ہرچیزکانگران ہے۔(الزمر:62:39)
اے لوگو!اپنے رب کی عبادت کروجس نے تمہیں اورتم سے پہلے لوگوں کوپیداکیا۔(البقرہ:21:2)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ابن آدم نے جوکچھ بھی کیا،اس نے مجھے تکلیف دی،حالانکہ میں ہی اس کا رب ہوں۔
دوسراپہلوتوحیدالوہیت(صرف اللہ کی عبادت) یہ عقیدہ ہے کہ عبادت،دعا، قربانی اور اطاعت کامستحق صرف اللہ ہے۔ہم نے ہررسول کویہی حکم دے کربھیجاکہ میری عبادت کرو،میرے سواکوئی معبودنہیں۔ (الانبیا:25-21)
جوشخص اپنے رب سے ملناچاہے،اسے نیک عمل کرناچاہیے اورکسی کواپنے رب کی عبادت میں شریک نہ ٹھہرائے۔(الکہف:110-18)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:سب سے بہتر دعا یہ ہے:لا ِلہ ِلا اللہ(اللہ کے سواکوئی معبود نہیں)۔
ایک اورحدیثِ قدسی ہے:میرے آقا ﷺنے فرمایا:اللہ فرماتے ہیں کہ میں ہی اکیلے عبادت کامستحق ہوں،جوشخص کسی اورکومیرا شریک ٹھہرائے،میں اسے اوراس کے شرک کو جہنم میں ڈال دوں گا۔(صحیح بخاری:7537)
اب تیسراپہلوہے توحیداسماوصفات(اللہ کے ناموں اورصفات کااقرار)اللہ کے ناموں اورصفات کوبغیرکسی تحریف یاتشبیہ کے اسی طرح مانناجیسے قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں ۔
کوئی چیزاس کی مثل نہیں،اوروہ سننے والا، دیکھنے والاہے۔( الشوری:11-42)
وہ اللہ ہی ہے جوخالق،پیداکرنے والا، صورت گرہے،اسی کے لئے بہترین نام ہیں۔ (الحشر:24:59)
حدیثِ قدسی ہے، رسول اللہﷺنے فرمایا، اللہ کے99نام ہیں،جوکوئی انہیں یادکرے گا،وہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح بخاری)
ایک اورحدیث قدسی ہے:میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتاہوں،اورجب وہ مجھے یادکرتاہے تومیں اس کے ساتھ ہوتاہوں۔(صحیح بخاری)
میرے رب نے توحیدکی نفی کرنے والے عقائدکی تردید کرتے ہوئے قرآن میں انتباہ کیاہے کہ شرک(اللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرانا)کواللہ نے سب سے بڑاگناہ قراردیا ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشادفرماتے ہیں،اللہ اس بات کوہرگزمعاف نہیں کرتاکہ اس کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرایاجائے،لیکن اس کے سواجسے چاہے معاف کردیتاہے۔ (النسا: 48-4)۔ توحید کی اہمیت پرکئی احادیث موجودہیں جس میں ایک مشہورحدیثِ قدسی ہے:رسول اللہﷺنے فرمایا، جس نے یہ کہا:لاِلہ ِلااللہ’اورکفرکے تمام معبودوں کوجھٹلادیا، اس کامال اورخون حرام ہوگیا(صحیح مسلم:23)
ایک اورحدیث مبارکہ ہے:قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا،اے آدم کے بیٹے!کیاتونے مجھے رب نہیں پایا؟وہ کہے گا:کیوں نہیں! اے رب۔ (صحیح بخاری)
پھرہم خودقرآن کی تلاوت کرتے ہوئے توحید کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اقرارکرتے ہیں،میری نماز، میری قربانی،میراجینا،میرامرناسب اللہ ہی کے لئے ہے۔ (الانعام162:6) پھراس کی تائیدمیں میرے آقاﷺکاارشادہے کہ توحیدکی مثال ایسی ہے جیسے ایک مضبوط رسی،جس کاایک سراآسمان میں ہے اور دوسرا زمین میں۔(صحیح بخاری:7373)
اورجوکوئی اللہ اوراس کے رسول کاکہامانے گا،وہ بڑی کامیابی حاصل کرے گا۔(احزاب:71)
جوایمان لائے اورنیک اعمال کرے انہیں ہم یقیناصالحین میں داخل کریں گے۔(العنکبوت:9)
شہادت کے فوری بعداس عہدوپیماں کی اطاعت کے لئے روزانہ پنجگانہ نمازفرض قراردے دی گئی ہے۔نماز،زکو(مال کاحصہ غریبوں کودینا) روزہ(ماہِ رمضان کے روزے ) اور حج استطاعت پرزندگی میں ایک بارحج کرناشامل ہیں۔ان ارکان کی ادائیگی میں انسان کواخلاقیات کابہترین درس دیا گیا ہے، مثلاً رب کریم اپنی مخلوق سے اپنی عبادت میں یکسوئی چاہتاہے، میں نے جنوں اور انسانوں کوصرف اپنی عبادت کے لئے پیداکیا۔(الذاریات:56)
قرآن میں انسانیت کوآپس میں جوڑنے کے لئے ارشادفرماتے ہیں کہ بے شک اللہ انصاف،احسان اورقرابت داروں کودینے کاحکم دیتا ہے(النحل:90) کمزوروں کے حقوق کی پاسداری کاحکم دیتاہے،فطرت کی پاسبانی اورحفاظت کے لئے درخت لگانے،پانی بچانے اور آلودگی سے بچنے کے احکام دیتا ہے۔
میرے آقارسول اکرمﷺنے مخلوقات انسانوں،جانوروں اورفطرت سے محبت کاکیاخوبصورت درس دیاہے:تمام مخلوقات اللہ کاکنبہ ہیں،اوراللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جواس کے کنبے کے ساتھ بہترسلوک کرے۔(بیہقی،ابن ماجہ)۔اسی لئے غریبوں کی مددکے لئے اپنے طیب اورپاکیزہ مال سے اپنے قریبی عزیزواقارب اورگردونواح کے غریبوں میں زکوٰۃ،صدقہ،اورقرضِ حسنہ کا حکم دیتاہے تاکہ یہ متاثرہ افرادمعاشرہ کی ناہمواریوں سے محفوظ رہ سکیں۔رحم کرنے والوں پررحمان رحم کرتاہے،تم زمین والوں پررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔(ترمذی:1924)
(جاری ہے)