Jasarat News:
2025-02-07@02:56:14 GMT

غفلت زدہ زندگی

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

غفلت قرآنی لفظ ہے۔ یہ ’غافلا‘ سے ہے۔ اس کے معنی چھپانا اور غفلت ہے۔ انسان جب کسی چیز یا معاملے کو بھلا دیتا ہے، اس کو نذر انداز کر دیتا ہے یا اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، اس کو غفلت کہتے ہیں۔ غفلت یہ بھی ہے کہ کسی چیز کو اتنی توجہ نہ دی جائے جتنی توجہ کی وہ حق دار ہو۔
غفلت کا مفہوم
قرآن مجید میں 35 آیتوں میں غفلت کا ذکر آیا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ دو مفہوم میں آیا ہے۔ ایک بے خبری، لاعلمی، ناواقفیت، اور دوسرا بھلا دینا اور نظرانداز کردینا۔ غافل کے معنی قرآن مجید میں بے خبر اور ناواقف ہونے کے بھی ہیں۔ سورۂ یوسف میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسفؑ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے اور نبی کریمؐ کو مخاطب کرکے یہ بات فرمائی ہے کہ حضرت یوسفؑ کی سرگزشت سے آپؐ واقف نہیں تھے۔ ہم نے وحی کے ذریعے آپؐ کو واقف کرایا۔ (یوسف: 3)

اس آیت میں غفلت بے خبری کے معنی میں ہے۔ اسی سورہ میں حضرت یوسفؑ کے والد نے ان کے بھائیوں سے، جب کہ وہ حضرت یوسفؑ کو اپنے ساتھ بکریاںچرانے کے لیے جنگل میں لے جانا چاہتے تھے، فرمایا تھا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم کھیل کود اور شکار میں ایسے مگن ہو جاؤ کہ یوسفؑ کی طرف سے غافل ہو جاؤ اور پھر بھیڑیا اس کو کھا جائے۔ (یوسف: 13)
حضرت موسٰی کے بارے میں ہے کہ جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو شہر کے لوگ غفلت میں تھے یعنی ایسا وقت تھا کہ اس وقت ان کے آنے کی خبر کسی کو نہ ہو سکی۔ یہ وقت رات، علی الصبح، یا دوپہر کا ہوگا، جب کہ لوگ آرام کرتے ہوتے ہیں اور سڑکیں سنسان ہوتی ہیں۔ اس آیت میں بھی غفلت کے معنی بے خبر ہونے کے ہیں۔
سورۂ نور کی آیت میں ’غافلات‘ کا لفظ آیا ہے۔ جس سے وہ عورتیں مراد ہیں جو سیدھی سادی اور شریف ہوتی ہیں، ان کے دل و دماغ اس طرح کے خیالات سے بالکل پاک صاف ہوتے ہیں اور جو یہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کوئی ان پر بدچلنی کا گھناؤنا الزام لگا دے گا:

’’جو لوگ پاک دامن، بے خبر، مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے‘‘۔ (النور: 23)
قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ جو اس کے مطابق عمل کریں گے ان پر اللہ کی رحمت ہوگی، اور جو اس سے غفلت برتیں گے وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ بتایا گیا کہ قیامت کے دن یہ حجت بن سکے اور اس دن کوئی یہ معذرت پیش نہ کر سکے کہ ہم کو صحیح راستہ معلوم نہیں تھا۔ یہود و نصاریٰ کے یہاں انبیا آئے، ان پر کتابیں نازل کی گئیں۔ ان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا گیا کہ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو نہیں معلوم کہ یہود و نصار یٰ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے؟:
’’اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دوگروہوں کو دی گئی تھی، اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے‘‘۔ (انعام: 156)

جو شرک کرتے تھے اور جن کو خدائی میں شریک ٹھیراتے تھے، آخرت کے دن ان کو آمنے سامنے کر دیا جائے گا، تو وہ دیوی، دیوتا، فرشتے، انبیا، اولیا، شہدا وہاں اپنے پرستاروں سے صاف صاف ان کی حرکت سے لا علمی، لاتعلقی اور بے خبری کا اظہار کریں گے۔ جن کی وہ عبادت کرتے تھے اور سفارشی سمجھتے تھے، قیامت کے دن وہ ان سے برأت کا اعلان کریں گے کہ نہ تو ہم نے ان سے اپنی عبادت کے لیے کہا تھا اور نہ ہمیں اس کی کچھ خبر تھی۔ (انعام: 94)
’’ہمارے اور تمھارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمھاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے‘‘۔ (یونس: 29)
دوسرا مفہوم بھلا دینا، بھول جانا، نظر انداز کرنا، بے توجہی برتنا، بے پرواہی، لااْبالی پن وغیرہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی مختلف کیفیات و صفات کا ذکرکیا ہے۔ ایمان لانے والے، تقویٰ والے، فرماں بردار، متوجہ رہنے والے بندوں کی خوبیوں و صفات کا بھی ذکر کیا ہے، اور کفار و مشرکین، فجار وفساق، بے پروا، غافل انسانوں کی خرابیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ انسان اچھے لوگوں کی صفات کو اختیار کرے اور برے لوگوں کی خرابیوں سے اپنے آپ کو بچا لے۔ قرآن مجید نے انسانوں کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ان میں ایک غفلت ہے۔ غفلت دل کی بیماریوں سے ایک اہم بیماری ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی حس کو ختم کردیتی ہے۔ اچھائی و برائی، نیکی و بدی کی شناخت کی کیفیت کو ختم کردیتی ہے۔ شعور و ادراک سے وہ بہت دْور ہوجاتا ہے۔ انسان نقصان سے دو چار ہوتا ہے، لیکن وہ کتنے بڑے گھاٹے و نقصان میں مبتلا ہو رہا ہوتا ہے اس کو اس کا احساس نہیں ہو پاتا۔ وہ اپنا نقصان کررہا ہو تا ہے مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ خسارہ کی زندگی گزاررہا ہوتا ہے مگر اس سے نکلنے کی فکر نہیں ہوتی۔

آج مسلمانوں کی بڑی تعداد غفلت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اللہ کے دین، قرآن مجید، اللہ کے احکامات، رسول اللہ کی سنتوں، عبادات، نیکی کے کاموں، انفاق، جہاد فی سبیل، حقوق العباد، آخرت کی جواب دہی، اللہ کی حرام کردہ اشیا سے غفلت برتنا ہی غفلت کی زندگی ہے اور ایسی زندگی گھاٹے کی زندگی ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کو ایسی تمام غفلتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی زندگی کے معنی اللہ کی کے لیے

پڑھیں:

القدس کے شاہکار مجاہد!محبت الٰہی کا جام مبارک

گو کہ میں جانتا ہوں کہ میدان جہاد سجا ہو تو، ’’شہید‘‘ یا ‘‘ ’’غازی‘‘ کا اعزاز مجاہد کے لئے کسی قیمتی ترین تمغے سے کم نہیں ہوا کرتا،ہم نے سوویت یونین کو جہادیوں کی جہادی یلغار کے سامنے بے بسی کے ساتھ بکھرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ،امریکہ اور اس کے حواریوں کو ذلت ورسوائی کے ساتھ کابل سے فرار ہوتے ساری دنیا نے دیکھا ’’شام‘‘سے ظالموں اور قاتلوں کا فرار ہونا تو ابھی کل کی بات ہے، سال پہلے اسرائیلی نیتن یاہو اور امریکی جو بائیڈن جس ’’حماس‘‘کا نام و نشان مٹانے کی دھمکیاں دیتے نہیں تھکتے تھے،آج ذلت ورسوائی کی تصویر بنے اسی حماس کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہیں،یہ اگر مظلوم مسلمانوں اور جہاد کی کامیابی نہیں تو پھر کیا ہے؟حماس کے اکابر کمانڈروں کا یکے بعد دیگرے شہید ہو جانا ان کے اخلاص اور للہیت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے،ان کی شہادتیں اقصیٰ کی آزادی کی نوید ہیں،مجاہدین نے امت مسلمہ کو مایوس نہیں ہونے دیا،انہوں نے اپنے خون سے جرات و وفا کی ایسی تاریخ لکھی ہے جس پر امت مسلمہ ہمیشہ نازاں رہے گی ،ان شااللہ،اسی سوچ میں ڈوبا ہوا یہ خاکسار حضرت اقدس شیخ طریقت پیرو مرشد کی خانقاہ میں جا پہنچا ،جہاں حضرت پیرو مرشد مریدین سے فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے شاہکار بندے،پہاڑوں سے بلند،چٹانوں سے زیادہ مضبوط، سمندروں سے زیادہ گہرے،چاند سے زیادہ روشن،سورج سے زیادہ شعاع بار،پانی سے زیادہ لطیف،شہد سے زیادہ میٹھے،تلوار سے زیادہ کاٹ دار،پھول سے زیادہ خوشبودار،صحرا سے زیادہ وسیع ہوائوں سے زیادہ مست، زمین سے زیادہ پراسرار،آسمان سے زیادہ اونچے،بادلوں سے زیادہ سبک رفتار،رعد سے زیادہ کڑک دار،بالکل سچے،بے حد پکے،اللہ تعالیٰ کے یار،امت حضرت محمد ﷺکے دلدار،انہی نایاب بندوں میں سے ایک،مجاہد تاریخ ساز،حضرت الشیخ مولانا وسیدنا،محمد الضیف بھی جام شہادت نوش فرما گئے،انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ تعالیٰ ان کو پوری امت مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائیں،مغفرت و صداقت اور شجاعت و شہادت کا اعلیٰ تمغہ عطا فرمائیں،ان کی جدائی سے دل پر جو گزری وہ الفاظ میں بیان ہونا ناممکن ہے۔اللہ تعالیٰ ان کے اہل و عیال، رفقا اور ہم جیسے غمزدوں کو صبر جمیل عطا فرمائیں،وہ میرے گہرے یار تھے،ایسے یار جن سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔
محبت کے لیے دنیا میں ملاقات شرط نہیں ہے، مگر وہ دل کے قریب رہے،یوں لگا کہ ساتھ رہنے والا دوست بچھڑ گیا،میں نے زندگی بھر جہاد کو تلاش کیاکیونکہ جہاد میں ہی دین کی بقاء ہے،امت کا ارتقا ہے،میں نے قرآن مجید کی آیات میں،رسول ﷺ کی احادیث میں،سیرت کے چشموں میں،فقہ کے نخلستانوں میں، اسلاف کی حیات میں اور شہدا ء کرام کے نقوش میں جہاد کو تلاش کیا،زندگی کے کتنے دن اور کتنی راتیں،جہاد کے مطالعہ میں بسر ہوئیں،الحمدللہ جہاد بھی نظر آگیا اور اس حقیقی جہاد کے رنگے ہوئے چند کامل مجاہد بھی اپنے زمانے میں موجود پائے،بہت تھوڑے مگر ایسے کہ حال کا ماضی سے فاصلہ مٹا گئے،محمد ضیف ایسے ہی مجاہد تھے، انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں مگر الفاظ نہیں مل رہے،ان کے کامیاب اور شاندار جہاد کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتا ہوں مگر مثالیں اور تشبیہات عنقا ہیں..اپنی خوش نصیبی پر الحمدللہ،اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے ان سے محبت کی سعادت حاصل ہے۔ایسی محبت کہ اگر ان کو بچانے کے لئے مجھے اپنے سینے پر گولی کھانی پڑتی تو شائد یہ پانی کا گھونٹ پینے سے زیادہ آسان ہوتی، اے القدس کے شاہکار مجاہد!محبت الٰہی کا جام تجھے مبارک، ہم تیری جدائی پر غمگین ہیں،مگر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی اور مطمئن ہیں.یہ خاکسار تو حماس والوں کو اللہ والے سمجھتا ہے،اللہ والوں کے ترجمان کمانڈر ابو عبیدہ کا یہ پیغام بھی مجروح دلوں کی ڈھارس کے لئے کافی ہے۔ ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ:
بسم اللہ الرحمن الرحیم !بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں، اس کے بدلے میں ان کے لیے جنت ہے۔ وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، پس مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں۔ یہ وعدہ تورات، انجیل اور قرآن میں سچا لکھا گیا ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ پس خوش ہو جائو اس سودے پر جو تم نے اللہ سے کیا اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، جس نے شہدا ء کو اپنا انتخاب بنایا، ان کی مدد کی اور ان کے بعد آنے والوں کو ان کی بشارت دی۔ درود و سلام ہو ہمارے نبی، مجاہد اور شہید، محمد ﷺ پر، جنہوں نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میری خواہش ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جنگ کروں اور شہید ہو جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر شہید ہو جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر شہید ہو جائوں۔اے ہمارے عظیم عوام، اے شہداء کے وارثو، بہادر مجاہدو، اے فلسطین کے غیور عوام اور امت مسلمہ کے محافظو اور دنیا بھر کے حریت پسندو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ہم فخر، عزت اور سربلندی کے ساتھ، تمام ضروری حفاظتی اور سیکورٹی تدابیر مکمل کرنے کے بعد، آپ کے سامنے کتائب شہید عزالدین القسام کے عظیم الشان شہداء کی خبر پہنچا رہے ہیں، جو ہماری جدوجہد کے اہم ترین رہنما اور سپہ سالار تھے۔یہ وہ عظیم قائدین ہیں جنہوں نے اپنی جانیں اللہ کی راہ میں، مسجد اقصی کے تحفظ کے لئے اور فلسطین کی آزادی کے لیے قربان کر دیں:
-1 شہید امت، عظیم قائد، محمد الضیف (ابو خالد) کتائب القسام کے چیف آف اسٹاف-2 شہید قائد مروان عیسی (ابو البرا) نائب چیف آف اسٹاف-3 شہید قائد غازی ابو طماع(ابو موسیٰ) اسلحہ اور جنگی خدمات کے سربراہ-4 شہید قائد رائد ثابت (ابو محمد) انسانی وسائل کے سربراہ-5 شہید قائد رافع سلامہ (ابو محمد) خان یونس بریگیڈ کے سربراہاسی طرح، ہم پہلے ہی قائد احمد الغندور(ابو انس) شمالی بریگیڈ کے سربراہ اور قائد ایمن نوفل(ابو احمد) وسطیٰ بریگیڈ کے سربراہ کی شہادت کا اعلان کر چکے ہیں۔یہ سبھی قائدین میدان جنگ میں، دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے، یا قیادت کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے شہید ہوئے۔ وہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کے متمنی رہے اور بالآخر شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو گئے۔ہم دو امور پر زور دینا چاہتے ہیں-1 شہداء نے حقیقی کامیابی حاصل کر لی!یہ قائدین اپنے دین، قبلہ اول(مسجد اقصیٰ) اور فلسطین کی آزادی کے لیے لڑے۔ وہ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ، اور یہ سب سے بڑی جیت ہے۔ ان کی شہادت نے لاکھوں مسلمانوں کو بیدار کیا، اور اب ان کی جگہ نئے قائدین کھڑے ہو چکے ہیں جو دشمن کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔یہی وہ قائدین تھے جنہوں نے دشمن کو لرزہ براندام کیا، محمد الضیف (ابو خالد)وہ شخص تھا جو 30 سال تک دشمن کے لیے خوف کی علامت بنا رہا۔ کیا وہ بغیر شہادت کے دنیا سے جا سکتا تھا؟مروان عیسیٰ، جو حماس کے عسکری ذہن کا ستون تھا، کیا وہ بستر پر مرتا؟ رائد ثابت، ابو موسیٰ اور دیگر قائدین، کیا وہ اپنی جانیں مسجد اقصیٰ کے لیے قربان نہ کرتے؟نہیں!یہ سب شہداء اپنے خون سے جہاد کی سچائی پر مہر لگا کر رخصت ہوئے۔-2ان کی شہادت سے جہاد کمزور نہیں ہوگا!اگر دشمن یہ سمجھتا ہے کہ قائدین کی شہادت سے مزاحمت ختم ہو جائے گی، تو یہ ان کی سب سے بڑی بھول ہے!ہر شہید ہزاروں نئے شہداء کو جنم دیتا ہے۔الحمدللہ!کتائب القسام کی قیادت میں ایک لمحے کا بھی خلا پیدا نہیں ہوا۔ ہر شہید کے بعد، ہمارے مجاہدین مزید مضبوط اور پرجوش ہو گئے اور لڑائی مزید شدت اختیار کر گئی۔ہمارا پیغام واضح ہے:دشمن ہماری قیادت کو شہید کر کے ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتا۔یہ جنگ جاری رہے گی جب تک فلسطین آزاد نہ ہو جائے۔ہر شہید کے بدلے ہزاروں نئے مجاہد اٹھ کھڑے ہوں گے۔ہم اپنے عظیم قائد محمد الضیف (ابو خالد)اور ان کے شہید ساتھیوں کو سلام پیش کرتے ہیں!یہ جہاد جاری رہے گا!یہ یا تو فتح ہوگی، یا شہادت!

متعلقہ مضامین

  • مکارم اخلاق کی بنیادیں
  • معصوم شہریوں کی زندگیاں کب تک غفلت کی بھینٹ چڑھیں گی؟ : کامران ٹیسوری
  • کشمیر کا حل صرف جہاد ہے،قوم غزوہ ہند کی تیاری کرے،حافظ طاہر مجید
  • کشمیری عوام کی قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جائیں گی، چیئرمین سینٹ
  • کشمیری عوام کی قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جائیں گی، آزادی انکا مقدر ہے، چیئرمین سینٹ
  • میرے حلقے میں اے سی اور ڈی سی بدمعاش بنے ہوئے ہیں، عبید اللہ بیگ
  • بی آر ٹی پشاور انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی، اسٹیشنز کی حالت غیر ہونے لگی
  • القدس کے شاہکار مجاہد!محبت الٰہی کا جام مبارک
  • کشمیری عوام 77 سال سے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، طاہر کھوکھر