تقویٰ: ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت عطیہ السعدی نے کی ہے، رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ اہل تقویٰ کا مقام نہیں پاسکتا تا وقتیکہ وہ ان چیزوں کو بھی نہ چھوڑ دے جن میں (بظاہر) کوئی حرج نہیں ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ ان چیزوں میں مبتلا نہ ہوجائے جن میں حرج (گناہ) ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
مراد یہ ہے کہ بعض اوقات جائز امور بھی حرام کاموں کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ایک مومن کے سامنے صرف جواز کا ہی پہلو نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اس لحاظ سے بھی چوکنا رہنا چاہیے کہ کہیں یہ جائز کام حرام کا ذریعہ نہ بن جائے۔
2۔متقیانہ زندگی کا اصول: ابن ماجہ اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت سیدہ عائشہؓ نے کی ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اے عائشہؓ! حقیر گناہوں سے بچتی رہنا، اس لیے کہ ان کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں باز پرس ہوگی‘‘۔ (ابن ماجہ)
صغیرہ گناہ بظاہر ہلکا نظر آتا ہے لیکن اسے بار بار کیا جائے تو دل زنگ آلود ہوجاتا ہے اور کبائر سے نفرت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح صغیرہ گناہ کم خطرناک نہیں ہے۔ متقیانہ زندگی گزارنے کے لیے صغیرہ گناہ سے بھی بچنا چاہیے۔
حافظ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ: ’’گناہ کو نہ دیکھو کہ وہ کتنا چھوٹا ہے بلکہ اس خدا کی بڑائی کو سامنے رکھو جس کی نافرمانی کی جسارت کی جا رہی ہے‘‘۔ اگر خداے بزرگ و برتر اور مالک یوم الدین کی عظمت اور اس کے عذاب کی ہولناکیاں پیش نظر ہوں، یعنی چشمِ تصور میں رہیں تو پھر انسان کسی چھوٹے سے چھوٹے گناہ پر بھی دلیر نہیں ہوسکتا۔
3۔وسائل و ذرائع کی پاکیزگی: مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’کوئی شخص بھی خدا کے مقرر کردہ رزق کو حاصل کیے بغیر موت کا لقمہ نہ بنے گا۔ سنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور رزق کے حصول میں جائز ذرائع و وسائل کام میںلائو۔ رزق کے حصول میں تاخیر تمھیں ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر آمادہ نہ کردے۔ اس لیے کہ اللہ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ صرف اس کی اطاعت ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)
اس روایت میں دو اہم دینی حقائق بیان کیے گئے ہیں:
اگر کسی بھی انسان کو رزق کے حصول میں ناکامی یا تاخیر محسوس ہو تو اسے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ نے رزق کی جو مقدار اس کے لیے مقرر کی ہوئی ہے وہ بہرحال دیریا سویر اسے مل کر رہے گی۔
یوں تو انسان بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے بھی بظاہر دْنیاوی خوش حالی اور آسایش پا لیتا ہے، لیکن یہ دراصل خدا کی طرف سے مہلت ہوتی ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تازیانہ برستا ہے۔ حقیقی خوش حالی اور راحت و سکون تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماںبرداری کرتے ہوئے حاصل ہو۔
مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص حرام مال کمائے، پھر اس میں سے صدقہ دے تو وہ قبول کرلیا جائے اور پھر وہ اپنے مال میں برکت سے بھی نوازا جائے۔ اس کا متروکہ حرام مال صرف جہنم کا توشہ بن سکتا ہے (اس سے آخرت کی سعادت و کامرانی حاصل نہیں کی جاسکتی)۔ بلاشبہہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، بلکہ برائی کو بھلائی سے ختم کرتا ہے۔ (یہ ایک حقیقت ہے کہ) نجاست کو نجاست سے مٹا کر پاکیزگی حاصل نہیں کی جاسکتی‘‘۔ (مسند احمد)
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض مقصد کا پاک ہونا ہی کافی نہیںہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وسائل و ذرائع کی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔
4۔علامت تقویٰ: ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت حسن بن علیؓ نے کی ہے کہ میں نے رسول اللہؐ کی زبان مبارک سے یہ کلمات یاد کرلیے ہیں: ’’جو چیز شک میں مبتلا کرنے والی ہو، اسے چھوڑ کر اس کام کو پسند کرلو جو شک و شبہہ سے با لاتر ہو۔ اس لیے کہ سچائی سراپا سکون و اطمینان ہے اور جھوٹ سراپا شک و تذبذب‘‘۔ (ترمذی)
5۔توکّل: ترمذی کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے، کہ ایک آدمی نے نبی کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میں اونٹ کو باندھ کر توکل اختیار کروں یا اسے چھوڑ کر؟‘‘ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اسے باندھ لے اور پھر خدا پر توکّل کر‘‘۔ (ترمذی)
ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث جس کی روایت سیدنا عمرؓ نے کی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے سنا:
اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو، جس طرح کہ توکّل کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو اس طرح روزی دے گا جس طرح پرندوں کو روزی دی جاتی ہے۔ صبح سویرے خالی پیٹ (آشیانوں سے) نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ ہو کر پلٹتے ہیں۔ (ابن ماجہ)
پرندوں کے ساتھ تشبیہہ د ے کر رسول اللہؐ نے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ توکل یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پیر توڑکر گھر میں بیٹھا رہے، بلکہ توکل یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے اسباب و وسائل کو کام میں لا کر نتائج خدا کے حوالے کردے۔
6۔شکر: مسند احمد کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابو ہریرہؓ نے کی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’شکر گزار بے روزہ انسان صبر کرنے والے روزے دار کی طرح ہے‘‘۔ (مسنداحمد)
یعنی جو صبر کے ساتھ نفلی روزے رکھتا ہے اور جو شکر کے ساتھ خدا کی دی ہوئی حلال روزی کھا کر دن گزارتا ہے، دونوں خدا کے ہاں درجہ میں برابر ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانی پینے کے بعد بھی شکر اداکرتے تھے۔
ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابوہریرہؓ نے کی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو تم میں سے (مال، جسم اور وجاہت کے اعتبار سے) بالا تر ہیں، ان کو نہ دیکھو، اور جو تم سے (اس لحاظ سے) فروتر ہیں، ان کو دیکھو۔ اس طرح یہ صلاحیت پیدا ہوسکے گی کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے‘‘۔ (صحیح ابن حبان) ایک اورروایت ہے: ’’جب تم میں سے کسی کی نگاہ ایسے شخص کی طرف اٹھے جو مال اور جسمانی طاقت میں اس پر فضیلت دیا گیا ہے تو چاہیے کہ اسے دیکھے جو (اس لحاظ سے) فروتر ہے‘‘۔ (مسلم)
شکر ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں اور دل و دماغ کی صلاحیتوں کو اللہ کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے اور اس کی نافرمانی کے کاموں سے پرہیز کیا جائے۔
7۔صبر: مسلم کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت صہیبؓ نے کی ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے کہ اس کا سارا کام خیر ہی خیر ہے۔ یہ (سعادت) مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اسے دْکھ پہنچتا ہے اور وہ صبر کرتا ہے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور اگر اْسے خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ سراپا شکر بن جاتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ گویا وہ ہر حال میں خیر ہی سمیٹتا ہے‘‘۔ (مسلم)
بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے کہ رسول اللہؐ کا گزر ایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رورہی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور صبر سے کام لے‘‘۔ اس عورت نے نبی کریمؐ کو نہ پہچانتے ہوئے کہا: اپنی راہ لو، میری جیسی مصیبت تم پر تو نہیں پڑی ہے۔ کسی نے اس سے کہا کہ یہ تو رسول اللہؐ تھے جو تمھیں صبر کی تلقین فرمارہے تھے، تو وہ دوڑی ہوئی آئی اور حضورؐ سے عرض کیا: حضور میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ اس پر نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’بس صبر وہی ہے جو سینے پر پہلی چوٹ لگتے وقت کیاجائے‘‘۔ ایک اور حدیث ہے کہ: ’’اگر کوئی اللہ سے صبر کی توفیق مانگے تو اللہ اسے صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے‘‘۔ (بخاری)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مشکو ۃ کی ایک حدیث میں اور مشکو ۃ کی ایک نے کی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا اختیار کر یہ ہے کہ ایک اور کے ساتھ نہیں ہے کے لیے خدا کے ہے اور اس لیے
پڑھیں:
دین اسلام میں یتیموں کے حقوق
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے ،اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے،
اس میں معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑا۔ ہر ایک کے لیے ایسے اسباب و ذرائع مہیا کردیے ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ اللہ کی زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے دن گزار سکے۔ یتیم ونادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں، ان کی مکمل کفالت ان کے حقوق کی پاسداری ہے اور اس سے منہ موڑلینا انکے حقوق کی پامالی ہے۔ یتیم، اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو اور وہ شفقت پدری سے محروم ہو گیا ہو۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے۔ ترجمہ:اور یتیموں کو اُن کے مال دے دو اور اچھے مال کو خراب سے تبدیل نہ کرو، اور اُن(یتیموں) کا مال اپنے مال کے ساتھ ملاکر مت کھاؤ! بے شک یہ بڑا گناہ ہے’’(سورۃ النساء:02) یتیم کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم میں تیئیس مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، اُن کے اموال کی حفاظت اور اُن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور اُن پر ظلم و زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنیوالے کے لیے وعید بیان کی گئی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ (سورۃ الدھر)
افسوس کہ لوگ اس کی بھی پروا نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں، انہیں اِس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ارشاد ربانی ہے:جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں داخل کیے جائیں گے اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے(سورۃ النساء)اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے اوریہ آپ سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ ان کی خیرخواہی کرنا بہتر ہے اوراگرتم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تووہ تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ بدنیت اورنیک نیت ہر ایک کو خوب جانتا ہے، اوراگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، یقیناً اللہ غالب اورحکمت والا ہے(سورۃالبقرہ 220)
جس کے زیر سایہ کوئی یتیم ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس یتیم کی اچھی پرورش کرے، اَحادیث میں یتیم کی پرورش اوراس سے حسن سلوک کے بے شمارفضائل بیان کئے گئے ہیں،رسول اللہ ا ﷺنے ارشاد فرمایا ‘‘میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، پھراپنی شہادت والی اور در میان والی انگلی سے اشارہ فرمایا اور انہیں کشادہ کیا۔(صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، امامُ الانبیاءﷺنے ارشاد فرمایا: ‘‘جس نے مسلمانوں کے کسی یتیم بچے کے کھانے پینے کی ذمہ داری لی، اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل فرمائے گا۔(جامع ترمذی)
رسول اکرم ﷺنے تو یتیم کی کفالت کرنے کو جنت میں اپنے ساتھ ہونے کی بشارت سے نوازا ہے کہ وہ جنت میں آپﷺ کے ساتھ ہو گا۔حضرت سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا میں اوریتیم کی کفالت کرنیوالا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپﷺ نے اپنی انگشت شہادت اوردرمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سافاصلہ کرکے اشارہ کیا(صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور اکرمﷺسے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ ‘‘یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرا کرواور مسکین کو کھانا کھلایا کرو’’ (مسند احمد: 7577)
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ ایک آدمی نے رسول اللہﷺسے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو رسول اللہﷺنے فرمایا: ‘‘اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہوجائے تو تم یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرواوراسے کھلایا کرو’’ (السنن الکبریٰ للبیہقی:7095)
حضرت بشیر بن عقربہ جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد کے دن میری حضور اکرم ﷺسے ملاقات ہوئی، میں نے پوچھا میرے والد کا کیا ہوا؟’’حضورﷺ نے فرمایا ‘‘وہ تو شہید ہوگئے، اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے۔’’ میں یہ سن کر رونے لگ پڑا۔ حضورﷺنے مجھے پکڑ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے ساتھ اپنی سواری پر سوار کرلیااور فرمایا کہ ‘‘کیا تم اس پر راضی نہیں ہوکہ میں تمہارا باپ بن جاؤں اور عائشہ ؓ تمہاری ماں’’(شعب الایمان للبیہقی : 10533 )
حضرت اُم سعید بنت مرہ الفہری رضی اللہ عنہا اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ‘‘میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے، اس کے بعد آپ نے درمیان والی انگلی اور شہادت والی اُنگلی سے اشارہ فرمایا’’ (مسند الحمیدی:861)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا ‘‘مسلمانوں کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہواور اُس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہواور سب سے برُا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اُس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اِس طرح ہوں گے اور آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا’’ (الزہد والرقائق لابن المبارک:654)
آج ہمارے اس معاشرے میں یتیموں کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا جا تاہے،اور ان کو ایک کم تر تصور کیا جا تا ہے حالانکہ اسلام نے یتیموں کے بے پناہ حقوق متعین کئے ہیں،اور آج کل یتیموں کے ساتھ ظلم و ستم اور حق تلفی کا بازار گرم ہے۔ دنیا کو حاصل کرنے کی خواہش نے انسان کو اندھا کر دیا ہے حتیٰ کہ وہ خونی رشتوں کو بھی بھلا بیٹھا ہے۔ یتیم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں رہتا ان کی جائیداد پر قبضہ کرلیا جاتا ہے جو کہ انتہائی نامناسب کام ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب گھروں میں باعزت وہ گھر ہے جس میں یتیم کی عزت ہو(ترمذی 456جلد 2)
عید کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یتیم بچے کو پریشان حال دیکھا تو اسے اپنے گھر لے آئے اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میں محمد ﷺباپ بن جاؤں اور حضرت عائشہ ؓتیری ماں بن جائے۔ ان تمام قر آن و حدیث سے ثابت ہو گیا کہ یتیم کیسے حقوق رکھتا ہے؟ جہاں ہم معاشرے میں دیگر امور کی طرف توجہ کرتے ہیں،اپنی روزمرہ زندگی گزارنے میں اپنا وقت گزارتے ہیں وہاں معاشرے یتیم کی جانب دیکھنا بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے وہ ہماری امداد،محبت ،پیارکے منتظر ہو تے ہیں،خواہ وہ اپنے رشتہ دار ہوں یا اہل محلہ یا کہیں بھی رہتے ہوں،ان کا مداوا کرنا صاحب حیثیت کی ذمہ داری ہے،بہر حال ہمیں ہر حال میں ان امور کی جانب توجہ کرتے ہو ئے یتیم کے حقوق کا خیال بھی رکھنا ہو گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔