شہباز شریف پر سب سے پہلے پیکا ایکٹ لاگو کیا جائے،سکندر راجا پر آرٹیکل 6 لگایا جائے،عمران خان
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک) عمران خان نے مطالبہ کیا ہے کہ پیکا کا قانون اگر لاگو کرنا ہی ہے تو سب سے پہلے شہباز شریف پر لاگو کریں جس نے ملکی تاریخ کے سب سے دھاندلی زدہ انتخابات کو آزادانہ اور شفاف قرار دیا۔ تفصیلات کے مطابق بانی تحریک انصاف عمران خان نے جمعرات کے روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں اور وکلاء سے کی جانے والی گفتگو میں کہا کہ “
پاکستان اس وقت ٹائوٹس کے قبضے میں ہے۔ ایک ایسا ٹائوٹ سکندر سلطان راجا بھی تھا جو 2024 الیکشن چوری کا سرغنہ ہے اور اس پر آرٹیکل6کے تحت کارروائی ہونی چاہیے تاکہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔ محسن نقوی کے پاس ایسی کون سی گیڈر سنگھی ہے جو اس پر عہدوں کی بارش کی گئی ہے۔ اشاروں پر ناچنے والا ایک عقل سے عاری شخص کرکٹ سے لے کر خارجہ اور داخلہ امور سمیت سیکورٹی معاملات کا ماہر کیسے ہو سکتا ہے؟ پاکستانی قوم اپنے مینڈیٹ پر ڈالے گئے تاریخی ڈاکے کے خلاف 8 فروری کو پورے ملک میں نکلے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروائے- صرف 17 نشستیں جیتنے والی پارٹی کو اقتدار دے کر ‘‘اردلی حکومت’’ ملک پر مسلط کر دی گئی جو پاکستان کے ہر ادارے کو تباہ کر رہی ہے- میں عدلیہ کی آزادی کے لیے دی گئی 10 فروری کی پاکستان بھر کی بار ایسوسی ایشنز اور وکلاء کی کال کی بھی حمایت کرتا ہوں۔ملک میں قانون کی حکمرانی کے بغیر کسی قسم کا استحکام ممکن نہیں ہے اور قانون کی حکمرانی آزاد عدلیہ کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ جس طرح چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی غرض سے ملک میں آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اس کے خلاف پاکستانی عوام میں شدید نفرت پائی جا رہی ہے۔ جو حالات ہیں اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ موجودہ نظام جمہوریت کے خلاف باقاعدہ برسر پیکار ہے، اور روز ایک ایسا نیا اقدام اٹھایا جاتا ہے جو جمہوریت کی روح کے عین منافی ہو۔روایتی میڈیا تو پہلے ہی بوٹوں کے نیچے ہے۔ اب پیکا کا کالا قانون منظور کر کے عوام کے حق رائے دہی کا واحد ذریعہ یعنی سوشل میڈیا پر بھی مارشل لاء لگا دیا گیا ہے۔ یہ زبان بندی کی قبیح ترین کوشش ہے اور پاکستان کو بین الاقوامی پابندیوں سے قریب تر کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ پیکا کا قانون اگر لاگو کرنا ہی ہے تو سب سے پہلے شہباز شریف پر لاگو کیا جائے جنہوں نے ملکی تاریخ کے سب سے دھاندلی زدہ انتخابات کو فری اینڈ فئیر قرار دیا ہے۔انہوں نے 26 نومبر کے قتل عام کو بھی جھٹلایا اور یہ کہا کہ کوئی گولی نہیں چلی نہ ہی کوئی شہادت ہوئی لہذا پیکا قانون کے تحت سب سے پہلی سزا شہباز شریف کو ملنی چاہیئے۔ بددیانت لوگ کبھی نیوٹرل امپائرز نہیں چاہتے۔ رجیم کیونکہ خود 26 نومبر اور نو مئی کے واقعات میں ملوث ہے اس لیے ان سے شفاف جوڈیشل کمیشن کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ ہم جوڈیشل کمیشن کا قیام صرف اس لیے چاہتے ہیں کیونکہ ہم انصاف کے متلاشی ہیں۔جو مجرم ہیں وہ نہیں چاہتے کہ حقیقت سامنے آئے۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت کسی بھی صوبے کے آئی جی اور چیف سیکرٹری کی تقرری صوبائی حکومت کی صوابدید ہے۔ ایک مرتبہ پھر آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے صوبائی حکومت کے دیے گئے تین ناموں کو اپنے ‘‘پاکٹ لاز’’ کے ذریعے ردی کی ٹوکری میں پھینک کر خیبر پختونخوا میں وفاق کی مرضی کا آئی جی انسٹال کر دیا گیا۔میں علی امین کو خصوصی ہدایت کر رہا ہوں کہ صوبے کی عوام کے حقوق کا تحفظ آپ کی ذمہ داری ہے۔ ملک کے باقی تینوں صوبوں میں پہلے ہی ہمارے کارکنان کے خلاف ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے اگر خیبرپختونخوا میں بھی ہمارے کارکنان کو یہ سب برداشت کرنا پڑا تو اس کی ذمہ داری صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ پر ہو گی۔ ہمارے کسی ورکر کے خلاف کوئی زیادتی ہوئی تو فوری ایکشن لے کر آئی جی کو فارغ کرنا ہے۔
عمران خان
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: شہباز شریف کے خلاف
پڑھیں:
پیکا ترمیمی ایکٹ، اظہار رائے پر قدغن
اسلام ٹائمز: صدر پاکستان کے دستخط کے بعد یہ کالا قانون اب عملی طور پرنافذ العمل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں رہی سہی آزادی رائے اب مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ پیکا ترمیمی ایکٹ بلاشبہ غیر آئینی اور آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصادم ہے۔ پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں، صحافی تنظیموں نے اس قانون کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اسے پاکستان کے نوجوانوں کی سوچ پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ تحریر: قاسم جمال
پاکستان میں روز اوّل سے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جاتی رہی ہے اور جب جب حکمرانوں کو موقع ملا چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو سب اس حمام میں ننگے پائے گئے۔ موجودہ حکمرانوں نے پیکا ترمیمی ایکٹ کے ذریعے جو آزادی رائے پر کاری ضرب لگائی ہے اس کی تو کوئی مثال نہیں ملتی۔ تماشا یہ کہ اس کالے قانون پر دستخط بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر سے کروائے گئے۔ پیپلز پارٹی جو خود کو جمہوریت کا چمپئن کہتی نہیں تھکتی اور اب یہ بدنما داغ شاید کبھی پیپلز پارٹی کے چہرے سے صاف بھی نہیں ہوسکے گا اور ان کے چہرے سے نقاب بھی اتر چکی ہے۔ اقتدار کی ہوس اور کرسی کے شوق نے ان کے عزائم کو بھی بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلم لیگ کے وزیراعظم لاکھ چاہتے اور پارلیمنٹ، سینیٹ کا ایوان اس کالے قانون کو پاس بھی کر دیتا لیکن صدر آصف زرداری اس کالے قانون پر دستخط نہیں کرتے تو ان کی عزت بچ جاتی۔
ملک بھر میں صحافی برادری اور اخباری صنعت و صحافی تنظیمیں سڑکوں پر نکل آئی ہیں، اس کالے قانون کے خلاف پریس کلبوں پر کالے پرچم آویزاں کردیئے گئے ہیں اور ملک گیر احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے الیکٹرونک کرائمز کی روک تھام ترمیمی بل 2025ء پیکا کی توثیق کرکے پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال مچا دیا ہے۔ اس قانون سے اب آن لائن جعلی خبروں کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی۔ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے جس سے معاشرے میں خوف وہراس یا بدامنی پھیل سکتی ہے تو اسے تین سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزا ئیں ایک ساتھ دی جاسکے گی۔
صدر پاکستان کے دستخط کے بعد یہ کالا قانون اب عملی طور پرنافذ العمل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں رہی سہی آزادی رائے اب مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ پیکا ترمیمی ایکٹ بلاشبہ غیر آئینی اور آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصادم ہے۔ پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں، صحافی تنظیموں نے اس قانون کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اسے پاکستان کے نوجوانوں کی سوچ پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء کو لاہور ہائی کورٹ میں لاہور پریس کلب کے رکن جعفر بن یار نے اپنے وکیل کے توسط سے چلینج بھی کردیا ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پیکا بل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اور صحافتی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر لایا گیا جو آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصاوم ہے لہٰذا عدالت پیکا ترمیمی ایکٹ کو غیر آئینی قرار دے اور عدالت پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت ہونے والی کارروائیوں کو درخواست کے حتمی فیصلے سے مشروط کرے۔
پیکا ایکٹ بل کے مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس میں ڈی آر پی اے کو آن لائن مواد ہٹانے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اتھارٹی کو ممنوع یا فحش مواد تک رسائی حاصل کرنے کا اختیار ہوگا۔ اتھارٹی کو ممنوع مواد تشہیر کرنے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار ہوگا۔ ڈی آر پی اے سوشل میڈیا مواد کو ریگولیٹ کرنے کا بھی اختیار ہوگا۔ اتھارٹی پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی تحقیقات اور مواد تک رسائی کو بلاک یا محدود کرنے کی مجاز ہوگی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے قائم فریم کا تعین کرے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔ وفاقی حکومت تین سال کے لیے چیئرپرسن اور تین اراکین کا تقرر کرے گی اور یہ اتھارٹی چیئرپرسن سمیت دیگر چھے ارکان پر مشتمل ہوگی۔ سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی اے اتھارٹی کے رکن ہوں گے۔
اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قواعد کی پاسداری کے لیے رجسٹرڈ کرنے اور ان کے لیے شرائط طے کرنے کا اختیار ہوگا۔ ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل 90 روز میں کیس نمٹانے کے پابند ہوں گے۔ ٹربیونل کے فیصلے کو ساٹھ روز کے اندر عدالت عظمیٰ میں دائر کرنے کا اختیار ہوگا۔ ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ این سی سی آئی اے سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔ مجوزہ ترامیم کے تحت ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ ختم کرکے ایف آئی اے سائبر کرائم کے تمام اثاثے، بجٹ این سی سی آئی اے کو منتقل ہوجائیں گے۔ اس کے متبادل کے طور پر قائم اتھارٹی آٹھ ارکان پر مشتمل ہوگی اور پانچ ارکان کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل پیپلز پارٹی کے لیے چھچھوندر کی شکل اختیار کرچکی ہے نہ نگلی جائے اور نہ ہی اگلی جائے۔ ایک جانب وہ صحافتی تنظیموں اور میڈیا کے افراد سے یکجہتی کا اظہار کرتی رہی اور یقین دہانی کرواتی رہی کہ پیپلز پارٹی آزادی صحافت کی سب سے بڑی علمبردار ہے اور کسی قیمت پر یہ کالا قانون اسمبلی سے پاس نہیں ہوگا اور اگر ہو بھی گیا تو صدر تو پیپلز پارٹی کا ہے وہ اس پر کسی بھی قیمت پر دستخط نہیں کریں گے جس طرح انہوں نے مداراس ایکٹ بل پر دستخط نہ کر کے کیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کے صدر تو ایک ہی اشارے پر ڈھیر ہوگئے اور اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، متحدہ ودیگر اتحادی جماعتوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیکا ایکٹ کے حق میں ووٹ دیا۔
ان سے اچھے تو سابق وزیر اعظم مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی تھے جب انہیں پرویز مشرف کی جانب سے امریکا کے اشارے پر قبائلی علاقہ جات اور طالبان کی آڑ میں شمالی علاقہ جات، سوات، وزیرستان آپریشن کی پالیسوں کا علم ہوا تو وہ مستعفی ہوگئے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس گندی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ پاکستان پہلے ہی بحرانی صورتحال سے دوچار ہے اور پیکا ایکٹ کے نفاذ سے ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنے لیے اور زیادہ مشکلات پیدا نہ کریں۔ پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں اور سول سوسائٹی، مزدوروں، طلبہ اور اپوزیشن جماعتوں کی تحریک کا مقابلہ کرنے کی نہ اس میں سکت ہے اور نہ ہمت یہ تحریک وکلا تحریک سے بھی زیادہ زور دار اور توانا ہوگی اور بڑی سے بڑی طاقت اس تحریک کو نہیں روک سکے گی۔
بجھا سکو تو دیا بجھا دو
دبا سکو تو صدا دبا دو
دیا بجھے گا تو سحر ہوگی
صدا دبے گی تو حشر ہوگا