ماسٹر غلام حیدر سنگیت کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام جنھوں نے پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ ان کا جنم 1908 میں نارووال پنجاب میں ہوا، ان کا خاندان موسیقی میں ایک بلند مقام رکھتا تھا۔ ان کے قبیلے کی گائیکی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔
ان لوگوں کو راگ راگنیوں میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ غلام حیدر کے گھر والے اپنے بچے کو موسیقی سے دور رکھنا چاہتے تھے، انھوں نے اسے اسکول میں داخل کروایا جہاں یہ بچہ کامیابی کی منزلیں طے کرتا گیا لیکن ساتھ ساتھ وہ سنگیت سے بھی جڑا رہا اور کئی ساز بجا کر اپنا دل بہلاتا رہا۔ پھر وہ دندان سازی کے کالج میں چلا گیا اور پھر ڈگری لے کر ڈینٹسٹ بن گیا چونکہ اس کی رگوں میں اپنے خاندان کا خون دوڑ رہا تھا اس لیے وہ خود کو سنگیت سے دور نہ رکھ سکا۔ اس نے بابا گنیش لال جی سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔
جب اس نے ڈاکٹری کے پیشے کو خیر باد کہا تو گھر والے سخت ناراض ہوئے، لہٰذا اس نے سنگیت کی خاطرگھر چھوڑ دیا اور کلکتہ جا کر الفریڈ تھیٹریکل کمپنی اور پھر ایلگزینڈر تھیٹریکل کمپنی میں پیانو بجانے کی نوکری کر لی۔
بعدازاں جب وہ کلکتہ سے لاہور لوٹا تو اس نے سیٹھ جنک داس کی جینو فون میوزک کمپنی میں بطور میوزک کمپوزر کام کیا۔ وہاں پر اپنے وقت کی مشہورگائیکہ امراؤ ضیا بیگم کا گانا ریکارڈ کروایا جو پنچولی اسٹوڈیو لاہور میں کام کرتی تھیں۔ امراؤ ضیا بیگم کے دو گیت تو آج بھی سننے کو ملتے ہیں، البتہ ریڈیو پاکستان اور آل انڈیا ریڈیو کے پاس ان کے بہت سارے گیت محفوظ ہیں جن دو مشہورگانوں کا تذکرہ ہوا وہ یہ تھے۔
دنیا ہے چند دنوں کی کچھ نیک کام کر جا
٭…٭
میرا سلام لے جا وہ جان لیں گے سب کچھ
بعد میں ماسٹر غلام حیدر نے امراؤ ضیا بیگم سے شادی کر لی۔ وہیں غلام حیدر ترقی کرتے کرتے چیف کمپوزر بن گئے۔ ماسٹر غلام حیدر نے اپنے وقت کی تین مشہور فنکاراؤں کو متعارف کروایا۔ پہلی تھیں شمشاد بیگم جو صرف بارہ سال کی تھیں، غلام حیدر نے ان کی آواز میں ایک پنجابی گانا ریکارڈ کرایا یہ گیت اس قدر مقبول ہوا اور کمپنی کے مالک کو اتنا پسند آیا کہ اس نے ایک سال کے عرصے میں شمشاد بیگم کے دو سو گانے ریکارڈ کر لیے۔
امراؤ ضیا بیگم کی آواز میں انھوں نے ایک گانا ریکارڈ کرایا جس کے بول تھے:
راوی کے اس پار سجنوا راوی کے اس پار
جب یہ گیت لاہور ریڈیو سے بجا تو اس نے تہلکا مچا دیا۔ موسیقار نوشاد نے جب یہ گانا سنا تو بے حد تعریف کی۔ ماسٹر غلام حیدر کو پہلا بریک فلم ’’تھیف آف بغداد‘‘ سے ملا۔ یہ فلم 1934 میں ریلیز ہوئی۔ ماسٹر غلام حیدر نے نور جہاں اور لتا کو بھی بریک دیا۔ وہی تھے جنھوں نے پنجابی فلم ’’گل بکاؤلی‘‘ میں نور جہاں سے گانے گوائے۔ اس سے پہلے نور جہاں نے اکیلے بہت کم گانے گائے تھے۔
اس وقت نور جہاں، بے بی نور جہاں کہلاتی تھی۔ نور جہاں اور غلام حیدر کی جوڑی اتنی مقبول ہوگئی کہ ہر فلم ساز ان دونوں کو اپنی فلم میں سائن کرنا فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھتا تھا۔ غلام حیدر کے سنگیت میں وطن کی مٹی کی خوشبو ہے۔
انھوں نے کلاسیکل موسیقی کو لوکل ٹچ دے کر بہت بڑا کام کیا جس کی وجہ سے کئی مشہور سنگیت کاروں کو حیران کر دیا جن میں انل بسواس، شیام سندر، بنس راج بیل، حسن لال بھگت رام، فیروز نظامی اور کھیم چندر پرکاش جیسے نامور موسیقار شامل ہیں۔ انھوں نے بھی روایتی روش سے ہٹ کر غلام حیدرکی تقلید کی۔دلسکھ پنچولی کو غلام حیدر پہ بڑا بھروسا تھا، اس نے اپنی فلم خزانچی میں غلام حیدر کو موسیقی کی ذمے داری سونپ دی اس فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ یہی فلم تھی جس میں محمد رفیع نے بھی گیت گایا، خزانچی میں ایک گیت شمشاد بیگم اور غلام حیدر نے گایا تھا وہ گانا تھا:
ساون کے نظارے ہیں
غلام حیدر نے اپنی موسیقی سے یہ ثابت کیا کہ سنگیت میں جب تک مٹی کی خوشبو شامل نہ ہوگی وہ مقبول نہیں ہوگا۔ اس بات پہ عمل کرتے ہوئے ایس ڈی برمن اور سلیل چوہدری نے بنگالی لوک سنگیت اور کلاسیکل راگوں سے مزین زبردست دھنیں بنائیں۔ ماسٹر غلام حیدر کا طوطی ہر طرف بول رہا تھا۔ پنچولی برادرز نے ان سے اپنی فلم ’’خاندان‘‘ کے لیے معاہدہ کیا، اس فلم کے ہدایت کار تھے شوکت حسین رضوی اور اسے سید امتیاز علی تاج نے لکھا تھا۔
یہ پہلی فلم تھی جس میں نور جہاں ایک اہم رول ادا کر رہی تھی۔ اس فلم میں 9 گانے تھے، جن میں سے پانچ کو نور جہاں نے اپنی آواز بخشی۔ تین گانے شمشاد بیگم کے تھے اور ایک گانا غلام حیدر نے گلوکارہ نسیم اختر کے ساتھ گایا تھا۔ غلام حیدر نے بے شمار فلموں میں میوزک دیا لیکن کچھ فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں جیسے گلنار، منجدھار، خزانچی، پونجی، شمع، برسات کی ایک رات، بہرام خان، بت تراش، شہید، پت جھڑ اور زمیندار وغیرہ۔
فلمی دنیا میں لتا کو متعارف کرانے کا سہرا بھی ماسٹر غلام حیدر کے سر بندھتا ہے۔ باپ کے انتقال کے بعد لتا پر ذمے داری کا بوجھ آن پڑا۔ وہ سب سے بڑی تھی۔ وہ کورس میں گاتی تھی، مراٹھی فلموں میں چھوٹے موٹے رول بھی کرتی تھی تاکہ گھر کے اخراجات پورے ہوں۔ یہ 1942 کی بات ہے جب لتا صرف تیرہ برس کی تھی، کبھی اسے سارا دن بھوکا رہنا پڑتا۔ ایک پٹھان بھائی نے لتا کو گاتے سنا جو ایکسٹرا سپلائر تھا، اس نے اس کی سفارش ماسٹر غلام حیدر سے کی جو لاہور سے لوٹ کر بمبئی آگئے تھے۔ وہ غلام حیدر کی زبردست مداح تھی، اس نے خزانچی، شہید اور خاندان کے گانے سنے تھے وہ ان سے ملنے کے لیے بے تاب ہوگئی۔
یہ 1947 کی بات ہے جب غلام حیدر سے اس کی ملاقات ہوئی اسے جب غلام حیدر نے ریکارڈنگ روم میں بلایا تو ہکا بکا رہ گئی۔ وہ اس خوش لباس نوجوان کو حیرت سے دیکھنے لگی جس نے نور جہاں اور شمشاد بیگم کو اتنی بلندی تک پہنچایا تھا۔ غلام حیدر نے لتا سے دو تین گانے سنے، اس نے ایک گیت نور جہاں کا گایا اور دوسرا شمشاد بیگم کا۔ انھوں نے گانا ریکارڈ کر لیا اور آواز کی فلم لے کر اس زمانے کے سب سے بڑے فلم ساز ششادھر مکرجی کے پاس گئے۔
اس زمانے میں ٹیپ نہیں تھا بلکہ فلم کے نگیٹیو پرگانا ریکارڈ ہوا کرتا تھا۔ غلام حیدر وہ نگیٹیو لے کر ششادھر مکرجی کے پاس گئے اور انھیں لتا کی آواز سنائی، مکرجی نے اس آواز کو سن کر کہا کہ ’’یہ آواز نہیں چلے گی‘‘ وہ مکرجی کی بات سے بہت دل برداشتہ ہوئے۔ انھوں نے برہم ہو کر ان سے کہا کہ ’’ مکرجی صاحب! یہ آواز چلے گی نہیں بلکہ دوڑے گی، آپ سب اس آواز کے پیچھے دوڑتے نظر آؤ گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ غصے سے ریکارڈنگ روم سے نکل کر لتا کے پاس آئے اور اسے بمبے ٹاکیز کے اسٹوڈیو میں لے گئے اور بمبے ٹاکیز ملاڈ کے منتظمین کو لتا کے بارے میں قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس نے پہلا گانا مکیش کے ساتھ ریکارڈ کرایا جس کے بعد انھوں نے لتا سے کہا کہ ’’ میری ایک بات یاد رکھنا، جس دن تمہارے گانے لوگوں تک پہنچیں گے وہ سب دوسرے گانے والوں کو بھول جائیں گے، یہاں تک کہ نور جہاں کو بھی۔‘‘ ماسٹر غلام حیدر کا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہوا۔
ششادھر مکرجی کو بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑا۔ فلم شہید کے لیے انھوں نے ایک لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی تھی، ایک لاکھ کی رقم اس وقت بہت بڑی تھی، آج کے حساب سے تقریباً ایک کروڑ بنتی ہے لیکن غلام حیدر کے سنگیت میں ایسا جادو تھا کہ ششادھر مکرجی نے پچھتر ہزار میں انھیں منا لیا اور انھوں نے فلم شہید کا سنگیت دینے کی حامی بھر لی۔ اس فلم میں غلام حیدر نے ایک نئی آواز کو متعارف کروایا، وہ آواز تھی سریندر کور کی۔ اس کا یہ گیت سپرہٹ رہا:
بدنام نہ ہو جائے محبت کا ترانہ
اے درد بھرے آنسوؤں آنکھوں میں نہ آنا
فلم شہید کے سنگیت نے بھی دھوم مچا دی تھی خاص کر محمد رفیع اور خان مستانہ کی آواز میں یہ دوگانہ:
وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہو
ملک کے بٹوارے کے بعد وہ لاہور شفٹ ہوگئے۔ 9 نومبر 1953 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ بہت بڑے موسیقار تھے لیکن افسوس کہ پاکستان میں ان کو وہ شہرت نہ ملی جیسی کہ انڈیا میں ملی۔ وہ کینسر کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہو چکے تھے۔ انھوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں اور بیوہ امراؤ ضیا بیگم کو اکیلا چھوڑ دیا۔ امراؤ ضیا بیگم نے نامساعد حالات میں بچوں کو پالا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ماسٹر غلام حیدر امراؤ ضیا بیگم گانا ریکارڈ کر غلام حیدر کے غلام حیدر نے شمشاد بیگم نور جہاں انھوں نے کی آواز اس فلم نے ایک کے پاس
پڑھیں: