ٹرمپ کی جانب سے عالمی فوجداری عدالت پر پابندی کی تیاری بھی آخری مراحل میں
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
WASHINGTON:
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت بنانے کے بعد اقوام متحدہ کے تحت چلنے والے اداروں سے دست برداری کے بعد عالمی عدالت پر پابندی کے احکامات جاری کرنے کی تیاری کرلی ہے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعرات کو عالمی فوجداری عدالت پر پابندی کے انتظامی احکامات پر دستخط کریں گے اور اس کی وجہ بتائی ہے کہ عالمی عدالت نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے بتایا کہ احکامات میں عالمی فوجداری عدالت میں امریکی شہریوں یا امریکی اتحادیوں سے تفتیش کرنے والے افراد اور ان کے اہل خانہ پر مالی اور ویزا پابندی لگائی جائے گی۔
قبل ازیں ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ری پبلکنز نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور غزہ میں مظالم کی سربراہی کرنے والے اس کے سابق وزیر دفاع کے وارنٹ جاری کرنے پر عالمی فوجداری عدالت پر بطور احتجاج پابندی کے لیے سینیٹ میں قرار داد پیش کی تھی تاہم ڈیموکریٹس کے ارکان نے ناکام بنا دیا تھا۔
دوسری جانب عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
اس سے قبل رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عالمی فوجداری عدالت نے احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے اپنے عملے کو امریکا کی ممکنہ پابندیوں سے بچانے کے لیے تین ماہ کی تنخواہ پہلے ادا کردی تھی۔
عالمی فوجداری عدالت کے صدر جج ٹوموکو آکین نے خبردار کیا تھا کہ پابندیوں سے عدالت کے اقدامات اور مقدمات کو نقصان پہنچے گا اور اس کا وجود بھی خطرے میں پڑے گا۔
یاد رہے کہ عالمی فوجی عدالت کو اس طرح کے حالات کا دوسری مرتبہ سامنا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں بھی 2020 میں عالمی عدالت کے پراسیکیوٹر فاٹو بینسوڈا اور افغانستان میں امریکی فوج کی مبینہ جنگی جرائم کی تفتیش کرنے والے ان کے ایک معاون پر پابندی عائد کی تھی۔
عالمی فوجداری عدالت کے 125 مستقل اراکین ہیں، جو جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، نسل کشی اور رکن ممالک یا ان کے شہریوں کے خلاف جارحانہ جرائم کی تفتیش کرتی ہے اور سزائیں تجویز کرتی ہے۔
امریکا، چین، روس اور اسرائیل عالمی فوجداری عدالت کے ارکان نہیں ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عالمی فوجداری عدالت ڈونلڈ ٹرمپ پر پابندی عدالت پر عدالت کے اور اس
پڑھیں:
ٹرمپ کے اعلان کے بعد اسرائیلی فوج کو تیار رہنے کا حکم
مقبوضہ بیت المقدس/واشنگٹن /اوٹاوا/غزہ /لندن(مانیٹرنگ ڈیسک +صباح نیوز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے اعلان کے بعد اسرائیل نے اپنی فوج کو تیار رہنے کا حکم دے دیا۔غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق یہ حکم اسرائیل کے وزیر دفاع نے دیا ہے۔اسرائیلی وزیر دفاع نے فوج کو تیار رہنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ کے رہائشیوں کو رضا کارانہ طور پر علاقہ چھوڑنے کے حوالے سے منصوبہ تیارے
کرے۔وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ٹرمپ کے اس اعلان کا خیرمقدم بھی کیا۔ ایکس پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ کے جرات مندانہ منصوبے کا خیرمقدم کرتا ہوں، غزہ کے رہائشیوں کو بھی علاقہ چھوڑنے اور ہجرت کرنے کی آزادی دی جانی چاہیے جیسا کہ دنیا بھر میں معمول ہے۔اسرئیل کاٹز نے کہا کہ ان کے نقل مکانی کے مجوزہ منصوبے میں زمینی راستے سمیت سمندری اور فضائی راستوں سے بھی جانے کے لیے خصوصی انتظامات شامل ہوں گے۔ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سالانہ دعائیہ ناشتے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ے کہ اسرائیل جنگ ختم ہونے کے بعد غزہ کو امریکا کے حوالے کردے گا، اس دوران وہاں بسنے والی آبادی پہلے ہی کہیں اور آباد ہوچکی ہوگی، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی امریکی فوج کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پہلی ترجیح امریکا ہے، اپنے ملک کو مضبوط اور طاقتوربنانا ہے، امریکا اب ایک قوم بن کر رہے گا۔امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کا سنہری دور شروع ہو گیا، ہم امریکا کو مزید مضبوط بنائیں گے، امریکا اب ایک قوم بن کر رہے گا،آزادی اظہاررائے کا ہرقیمت پرتحفظ کریں گے، امریکا کو پہلے سے زیادہ طاقتور بنائیں گے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے آبائی وطن غزہ سے جبری طور پر بے دخل کرنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔انتونیو گوتیریس نے ٹرمپ کا نام لیے بغیر ان کے گزشتہ روز دیے گئے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے بیانات سے حالات مزید خراب اور پیچیدگی کی طرف جا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ غزہ کے مسئلے کا پرامن اور مستقل حل تلاش کیا جائے اور اس کے لیے سب کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا ہوگا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں ہمیں اسے مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے، یہ ضروری ہے کہ ہم بین الاقوامی قانون کی بنیادوں پر عمل پیرا رہیں اور نسلی صفائی کی کسی بھی صورت سے بچیں۔انتونیو گوتریس نے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنا ہوں گے۔دوسری جانب برطانیہ ، چین ،روس، فرانس اور جرمنی کے بعد کینیڈانے بھی غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی کا امریکی منصوبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ کینیڈانے کہا ہے کہ غزہ پر ہمارے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ہم فلسطین کو تسلیم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ روسی خبر رساں ادارے تاس کے مطابق یہ بات کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی نے ایکس پر جاری ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ کینیڈا فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے، اس سے قبل بھی بارہا کہہ چکے ہیں کہ غزہ کی پٹی کا تنازع دو ریاستوں کے پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر ہی حل کیا جا سکتا ہے جس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جائے۔قبل ازیں غزہ میں حماس کے خلاف فوجی آپریشن کرنے والے اسرائیلی فوجیوں پر بھاری کرین گر گئی۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ غزہ میں کرین گرنے کے واقعے میں 2اہلکار ہلاک ہوگئے۔ اسرائیلی فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کرین گرنے کے واقعے میں 8 دیگر اہلکار زخمی بھی ہوئے جن میں سے دو کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔مزید برآں برطانیہ کے سرکاری خبررساں ادارے بی بی سی نے غزہ پر قبضے کے حوالے سے امریکی صدر کے بیان پر لکھا ہے کہ ٹرمپ کے بیانات امریکا کی مستقل خارجہ پالیسی سے زیادہ ریئل اسٹیٹ کے مذاکرات کے دوران کھیلے جانے والے داو کی طرح ہیں،شاید ڈونلڈ ٹرمپ اس بارے میں کنفیوڑن اس لیے پھیلا رہے ہیں تاکہ وہ کسی اور منصوبے پر کام کر سکیں۔بی بی سی کے مطابق امریکی صدر کا غزہ کا ’کنٹرول سنبھالنے‘ اور اسے اپنی ’ملکیت‘ میں لینے اور اس سارے عمل کے دوران وہاں کے لوگوں کی دوبارہ آبادکاری کے منصوبے پر عملدرآمد تو نہیں ہونے والا کیونکہ اس کام کے لیے انہیں عرب ممالک کی حمایت کی ضرورت ہو گی جو پہلے ہی اس کی مخالفت کا اعلان کر چکے ہیں۔ان ممالک میں مصر، اردن اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ مصر اور اردن ان افراد کی دوبارہ آبادکاری کے لیے جگہ مہیا کریں جب کہ انہیں سعودی عرب سے امید ہوگی کہ وہ اس سارے عمل کا خرچ اٹھائے۔امریکا اور اسرائیل کے مغربی اتحادی بھی اس تجویز کے مخالف نظر آتے ہیں۔شاید غزہ کے بہت سارے فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے کا موقع کافی پرکشش لگے اور وہ اس سے فائدہ بھی اٹھانا چاہیں لیکن اگر 10لاکھ فلسطینی بھی غزہ چھوڑ کر چلے جائیں تب بھی 12 لاکھ کے قریب لوگ پیچھے رہ جائیں گے۔امریکا کو ان افراد کو وہاں سے جبری طور بے دخل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑے گا۔ 2003ء میں امریکا کے عراق پر حملے کے خوفناک نتائج کے بعد یہ کام کافی غیر مقبول ہو گا۔یہ منصوبہ اس تنازع کے 2 ریاستی حل کے کسی بھی امکان میں آخری کیل ثابت ہو گا۔
ٹرمپ اعلان