اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کی ترجمان اور سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہاہے کہ عوام نے 2018 میں چوری شدہ مینڈیٹ واپس کیا، احتجاج کس بات پر کیا جارہا ہے، پنجاب میں تجاوزات کے خلاف آپریشن سیاسی نہیں، مشکل فیصلہ تھا، تجاوزات ہٹاکر باقاعدہ جگہ دی گئی اور ریڑھی بانوں کو بھی جگہ کے ساتھ ریڑھیاں دی گئی ہیں۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ رمضان شوگرمل کیس نیب نیازی گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا، آج عدالت کا فیصلہ ان کے منہ پر تماچہ ہے، نوازشریف دور میں ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہ ہوسکی۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ آج ہم سرخرو ہوگئے، اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، ہم نے آج تک اڈیالہ میں کھانا بند کرنے کا نہیں کہا، ہمارا مقصد انتقامی سیاست کا نشانہ بنانا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ہروقت احتجاج ہی کرتی رہتی ہے، انہوں نے ساڑھے 4 سال میں کوئی کام نہیں کیا، 2018 میں چوری شدہ مینڈیٹ عوام نے واپس کیا ہے، تجاوزات کے خلاف آپریشن سیاسی فیصلہ نہیں، تجاوزات ہٹاکر باقاعدہ جگہ دی گئی ، ریڑھی بان کو جگہ کے ساتھ ریڑھیاں دی گئی ہیں۔
ن لیگ کی ترجمان نے کہاکہ سموگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، سموگ کے خاتمے کے لیے ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔
اس موقع پر سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے آرمی چیف کو خط لکھا ہے، خط لکھنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
محمد زبیر نے کہا کہ سب کو علم ہے کہ شہبازشریف کے پاس اختیار نہیں، شہباز شریف کو پتہ ہے کہ ان کے پاس مینڈیٹ نہیں، نواز شریف اور شہبازشریف کی سوچ میں بہت فرق ہے۔
انہوں نے کہا کہ گرینڈ الائنس کا مقصد ملک کو آگے لے کر چلنے کے لیے ہونا چاہئے، آرمی چیف کو خط لکھنے میں کوئی خرابی نہیں۔
سینئر سیاستدان مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ہمیں ملکی مفاد میں سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا، حکمران عوام کی رائے کیوں مقدم رکھیں گے، حکمرانوں کو عوامی رائے کے خلاف مسلط کیا گیا، نوجوان مایوس ہوکر باہر جانے کا سوچ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے، موجودہ حکمران ناکام ہوچکے ہیں، موجودہ حکمرانوں کو عوام کا اعتماد حاصل نہیں۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہاکہ وفاق اوربلوچستان کی حکومت کی اخلاقی حیثیت نہیں، ہمیں صاف اور شفاف انتخابات کی جانب جانا چاہئے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: مریم اورنگزیب نے کہا کہ انہوں نے

پڑھیں:

نیپرا کو نظرثانی درخواست سے متعلق سخت پالیسی پر تنقید کا سامنا

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو ریگولیٹری فیصلوں پر نظر ثانی اور اپیلوں کے لیے صارفین سے بھاری فیس وصول کرنے پر اندرون و بیرون ملک سے تنقید کا سامنا ہے۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ بات کراچی کے صنعتی صارف محمد عارف بلوانی کی جانب سے کے الیکٹرک کے بجلی کے پیداواری نرخوں کے معاملے میں خامیوں کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کو تکنیکی بنیاد پر مسترد کرنے پر بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے نیپرا کے ممبر (ٹیرف) متھر نیاز رانا کے سخت اختلافی نوٹ کے بعد سامنے آئی۔

10 اپریل کو جاری ہونے والے ریگولیٹری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عارف بلوانی کے الیکٹرک کے بجلی کی پیداوار کے ٹیرف کے معاملے میں فریق نہیں تھے اور انہوں نے تقریباً 10 لاکھ روپے فیس ادا نہیں کی لیکن عام صارف کے طور پر صرف ایک ہزار روپے ادا کیے اور اس وجہ سے ریگولیٹر کی جانب سے قبول کیے جانے کے اہل نہیں ہیں۔

تاہم متھر نیاز رانا نے اپنے اختلافی نوٹ میں ریگولیٹر کو یاد دلایا کہ نیپرا نے ماضی میں بھی اسی طرح کی درخواستوں کی منظوری دی تھی جس میں وفاقی حکومت بھی شامل تھی۔

انہوں نے کہا کہ نیپرا کو نیپرا ایکٹ کے تحت شفافیت اور غیر جانبداری کے ذریعے صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے فیصلوں کو چیلنج کرنے کے لیے عوام کو قابل رسائی اور سستا میکانزم فراہم کرنے کی ضرورت ہے، ’یہ انصاف، رازداری اور کارروائی کی سالمیت کو برقرار رکھتے ہوئے عوامی شرکت اور انصاف تک رسائی کو فروغ دیتا ہے‘۔

رکن نیپرا بلوچستان نے کہا کہ نیپرا کی قانونی ٹیم نے نظرثانی کی تحریک کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ عارف بلوانی ریگولیشنز کے تحت کارروائی میں براہ راست فریق نہیں تھے، لیکن نیپرا ایکٹ کے سیکشن 7 (6) نے وسیع پیمانے پر عوام کی شمولیت کی اجازت دینے کے لیے کافی لچک فراہم کی ہے، انہوں نے کم سے کم یا بغیر لاگت کے عمل کے ذریعے عوام کی جانب سے نظر ثانی کی درخواستوں کی اجازت دینے کی پرزور وکالت کی۔

انہوں نے دلیل دی کہ ’طریقہ کار کے ایسے تکنیکی معاملات جن میں عوام کے حقوق متاثر ہورہے ہوں، ان میں عوامی شرکت کو خارج نہیں کرنا چاہیے‘، اس کے بجائے گزارشات کو ان کے میرٹ کی بنیاد پر جانچا جانا چاہئے اور اگر ضروری ہو تو انہیں صرف ٹھوس بنیاد پر مسترد کیا جانا چاہیے’۔

انہوں نے کہا کہ مداخلت اور تبصروں کے ذریعے عوام کی فعال شمولیت کا مطلب ریگولیٹری شفافیت اور احتساب کو مضبوط بنانا ہے، ریگولیٹر کو یاد دلایا گیا کہ مظفر گڑھ میں 600 میگاواٹ کے سولر پلانٹ کیس میں انرجی اینڈ پاور سلوشنز (پرائیوٹ) لمیٹڈ کی مداخلت کو بھی اصل کارروائی میں فریق نہ ہونے کے باوجود قبول کیا گیا۔

اس کے علاوہ نیپرا میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جہاں نظرثانی درخواست دائر کرنے میں تاخیر کو معاف کیا گیا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ عوامی جائزے کی تحریکوں کے لیے پہلے سے طے شدہ ایک ہزار روپے کی فیس کو بحال کیا جائے کیونکہ یوٹیلیٹی کی جانب سے ادا کی جانے والی فیس کا نصف وصول کرنا غیر معقول ہے۔

توانائی کے شعبے کے تجزیہ کار اور نیپرا کی سماعتوں میں باقاعدگی سے شریک ریحان جاوید نے بھی نیپرا کے رکن متھر رانا کی حمایت کی اور کہا کہ اس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ کس طرح ریگولیٹری طریقہ کار، جس کا اصل مقصد شفافیت کو یقینی بنانا تھا، عوام کی شرکت کو محدود کرنے اور صارفین پر بوجھ ڈالنے کے لیے تیار ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیپرا کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کو طریقہ کار کی بنیاد پر مسترد کیا گیا، خاص طور پر ’فریق‘ کے طور پر اہل نہ ہونے اور صرف ایک ہزار روپے کی فیس کے بجائےاصل ٹیرف پٹیشن کی عائد کردہ نئی 50 فیصد فیس ادا کرنے میں ناکامی کو جواز بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’فیس کے ڈھانچے میں مناسب لچک کے بغیر تبدیلی مؤثر طریقے سے عوامی نگرانی کو خارج کرتی ہے‘، انہوں نے مزید کہا کہ صارفین ٹیرف میں اضافے کو چیلنج کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں جو ان کے بلوں کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔

دریں اثنا طریقہ کار کی سختی کا سبب بننے والی ریگولیٹری ترامیم ٹیرف کے فیصلوں کو وسیع تر جانچ پڑتال سے بچا کر طاقتور اسٹیک ہولڈرز کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔

ریحان جاوید نے کہا کہ ممبر (ٹیرف) متھر نیاز رانا کے اختلاف رائے نے ریگولیٹری قوانین کے بارے میں اجارہ داریوں کو تحفظ فراہم کرنے والے اوزار میں تبدیل ہونے جبکہ نااہلیوں اور نقصانات کو عوام پر منتقل کیے جانے کے خطرے کی نشاندہی کی ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس سے احتساب کو نقصان پہنچتا ہے، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور بلاجواز ٹیرف منظوریوں کے ذریعے عوام کے پیسے کا غلط استعمال ہوتا ہے۔

نیپرا نے اپنے اکثریتی فیصلے میں صارف محمد عارف کی جانب سے جمع کرائی گئی نظرثانی کی تحریک کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے واپس کردیا تھا اور موقف اپنایا تھا کہ وہ بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ کے لیے کے الیکٹرک ٹیرف پٹیشن کے معاملے میں فیصلے کی کارروائی میں فریق بننے کے اہل نہیں ہیں۔

نیپرا نے مزید کہا تھا کہ درخواست گزار نے 9 لاکھ 34 ہزار 722 روپے فیس اور درخواست دائر کرنے میں تاخیر پر یومیہ 10 ہزار روپے بھی جمع نہیں کرائے تھے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • گورنر سٹیٹ بینک نے عوام کو خوشخبری سنا دی
  • کِس سابق کرکٹر و سلیکٹر کی نواسی اسکاٹ لینڈ کی ٹیم کا حصہ ہیں؟
  • گورنر سٹیٹ بینک نے عوام کو خوشخبری سنا دی 
  • فلسطینی عوام یمن کے باوقار موقف کو کبھی فراموش نہیں کرینگے، ابوعبیدہ
  • نیپرا کو نظرثانی درخواست سے متعلق سخت پالیسی پر تنقید کا سامنا
  • امریکی ٹیرف پر پریشان ہیں مگر جوابی اقدام کا ارادہ نہیں: وزیر خزانہ
  • وقف قانون میں 44 خامیاں ہیں حکومت کی منشا وقف املاک پر قبضہ کرنا ہے، مولانا فیصل ولی رحمانی
  • مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیر اہتمام حیدرآباد میں وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف 19 اپریل کو احتجاج کی کال
  • مہنگائی میں کمی کا فائدہ عوام تک براہ راست نہیں پہنچ رہا، حکومت کا اعتراف
  •  وزیراعلی پنجاب خاتون ہیں، انھیں احتجاج کرنے والی خواتین کا کیوں خیال نہیں؟ حافظ نعیم الرحمن