نورا فتیحی کی سالگرہ کے روز موت کی جھوٹی خبروں نے سوشل میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا ، حقیقت سامنے آ گئی
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
کسی عزیز کی سالگرہ کے روز اسی عزیز کی وفات کی خبر مل جائے تو یقیناً یہ ایک اذیت ناک تجربہ ہو گا، ایسا تجربہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن ایک اداکارہ کے مداحوں کو اس وقت ہوا جب انہیں اپنی فیوریت اداکارہ کی سالگرہ کے روز ان کی وفات کی اطلاع ملی۔
اخبار اور نیوز چینل کوئی فیک نیوز شائع کر دیں تو جس کو اس فیک نیوز سے جتنا نقصان پہنچتا ہے وہ اتنی ہی سخت قانونی کارروائی کر کے اخبار اور نیوز چینل کو زرِ تلافی ادا کرنے اور معافی مانگنے پر مجبور کر سکتا ہے، اس کے باوجود بہت سی فیک نیوز سے ہونے والے نقصان کی تلافی کبھی نہیں ہوتی، خصوصاً اذیت کی تلافی کبھی ممکن نہیں ہوتی۔ ایسی فیک نیوز اگر نام نہاد سوشل میڈیا کے ذریعہ پھیلائی جائے تو متاثر ہونے والے فیک نیوز پھیلانے والے کا عملاً کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اس کا تو مفت میں بنایا ہوا ایک “سوشل پلیٹ فارم کا اکاؤنٹ” ہی داؤ پر لگا ہوتا ہے، جسے پلیٹ فارم بند کر دے تو وہی شخص کسی فرضی نام سے دوسرا اکاؤنٹ بنا لیتا ہے۔
حال ہی میں فیک نیوز سے جنم لینے والی اذیت ناک صورتحال کا سامنا لاکھوں لوگوں کی پسندیدہ اداکارہ نورا فتیحی اور ان کے مداحوں کو کرنا پڑا ہے جب نورا کی سال گرہ سے ایک روز پہلے مداحوں پر یہ “اطلاع” بجلی بن کر گری کہ ان کی محبوب اداکارہ تو انتقال کر گئی ہیں۔نورا فتیحی کی موت کی جھوٹی خبروں نے سوشل میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا، لیکن کچھ دیر بعد یہ سامنے آ گیا کہ اصل ماجرا کیا تھا۔
سوشل پلیٹ فارم پر ایک ویڈیو کلپ اچانک وائرل ہو گئی کیونکہ اس ویڈیو کلپ کے کیپشن میں لکھا تھا کہ بالی وڈ کی مشہور اداکار نورا فتیحی کی موت بالی وڈ کے لیے بری خبر ہےبالی وڈ کی معروف ڈانسنگ گرل اور مراکش سے تعلق رکھنے والی اداکار نورا فتیحی اپنی سالگرہ سے ایک دن قبل ایک عجیب و غریب جھوٹی خبر کا شکار بن گئیں۔
بھارتی میڈیا مین شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اپنے مخصوص ڈانس کے اسٹیپس سے اسٹیج میں جان پھونکنے والی نورا فتیحی سے متعلق جھوٹی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیلیں کہ وہ ایک حادثے کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں۔اس اذیت ناک افواہ کا باعث بننے والی گمراہ کن ویڈیو میں ایک خاتون کو پہاڑ کی بلندی سے نیچے گرتے ہوئے دیکھا گیا۔ بھارت مین اور بھارت سے باہر نورا فتیحی کے مداحوں کو اس فیک نیوز سے گہرا صدمہ ہوا جس کا اظہار بعض نے سوشل پلیٹ فارمز پر رو دھو کر کیا، بعض ان پلیٹ فارمز سے باہر کی زندگی مین بھی دن بھر اداس رہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فیک نیوز سے نورا فتیحی
پڑھیں:
’’پیکا آرڈیننس‘‘ خطرہ کس کو ہے؟
آج صحافتی برادری اور اپوزیشن کی طرف سے جس نئے نافذ کردہ پیکا آرڈیننس پر بہت شور مچایا جا رہا ہے یہ ہمارے یا صحافت کے لئے کوئی نیا قانون نہیں۔ اس سے قبل ماضی میں جھانکیں تو اس سے ملتے جلتے کئی ناموں سے صحافت کی تاریخ میں کئی بار ایسے ہی سخت ترین قوانین کے نام پر قدغن لگائی گئی۔ اخبارات کی بندشوں سے لے کر کوڑوں تک کی سزائیں اور ڈکلیئریشن کی منسوخی کے احکامات تک سابق صدر ایوب خان کی ظلمت کی رات ہو یا بھٹو کی سخت گیر پابندیاں یا پھر ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کا سیاہ ترین دور جب سنسرشپ کی آڑ میں پاکستان کے نامور بڑے ادیبوں اور صحافیوں کو شاہی قلعے کے قیدخانوں میں ڈال کر سزائیں سنائی گئیں۔ ان میں نثار عثمانی، الطاف حسین قریشی، ضیاء شاہد اور مجیب الرحمن شامل ہیں یعنی اس دور میں سچ لکھنے والے ہاتھوں پر ہتھکڑیاں تو قلم کی نب کو توڑا گیا… یہاں اس حقیقت کو بھی دیکھتے چلیں کہ ماضی و حال میں ہر حکومت اپنی مرضی اور پسند کا میڈیا چاہتی ہے اور وہ جب اس کے بارے بولتی ہے تو شکایات کے طویل انبار لگا دیتی ہے۔ جیسے تمام معاملات کے بگاڑ کا ذمہ دار میڈیا ہے اور تمام سیاستدان سب دودھ کے دھلے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک زمانہ پرنٹ میڈیا کا گزرا، بہت طاقتور، زور آور… جس نے کئی حکومتیں توڑیں اور بنائیں، اس کے بعد الیکٹرانک میڈیا آیا جو آج بھی جاری و ساری تو ہے مگر اس قدر طاقتور نہیں بلکہ اس کے مقابلے میں طاقتور آیا تو سوشل میڈیا جس نے ایک عام آدمی سے لے کر اشرافیہ اور سیاست کے ایوانوں سے لے کر گھروں کی چار دیواریوں تک کو بھی ننگا کر دیا۔ شتر بے مہار سوشل میڈیا کو آپ کسی بھی طرح صحافت یا آزادی اظہار کے بڑے پلیٹ فارم کا درجہ نہیں دے سکتے… اور اب تو یہ ایک ایسا بدمعاش میڈیا بن گیا جس نے ہر ایک کی عزت کو دائو پر لگاتے ہوئے ماحول کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ دیکھا جائے تو اس تباہی کا آغاز بانی پی ٹی آئی اور اس کے حواریوں نے کیا اور پاکستان کی سالمیت پر یوں تابڑ توڑ حملے کر دیئے جیسے ہم پاکستان نہیں بلکہ بھارت کے ساتھ ٹکرا رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی گندی ذہنیت کے تحت سوشل میڈیا کو ایسی زبان دے ڈالی جس نے نسلوں کو بگاڑ کے رکھ دیا… میرے نزدیک سب سے بڑا تخریب کار سوشل میڈیا ہے۔ ہمارے ہاں یوں تو بڑی بڑی تخریب کاریاں ہوتی رہتی ہیں مگر سوشل میڈیا آج کے دور کا سب سے بڑا تخریبی میڈیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ دو عشروں میں ٹی وی سکرین سے لے کر اخبارات اور رسائل کی اشاعت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا اور سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں چالیس لاکھ سے زائد لوگ اخبارات، ٹی وی اور رسائل پڑھا کرتے تھے، جو اب نہیں ہے۔
اس کے باوجود یہ آج بھی اتنا طاقتور اور مؤثر ہتھیار ہے جو کسی بھی گروہ یا قیادت کو تباہ و برباد کرکے رکھ سکتا ہے اور یہ چاہے تو کسی بھی وقت مصنوعی لیڈرشپ سے لے کر مصنوعی جماعت تک کو سامنے لا سکتا ہے اور جب چاہے لوگوں کے ذہن بدل کر رکھ دے جیسا کہ گزشتہ تین چار سالوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ یہ جب چاہتا ہے لوری دے کر گہری نیند سلا دے اور جب چاہے زندگی کو حرارت دے کر فساد برپا کرا دے۔ آج کا میڈیا نہ تو قومی دھارے میں دیکھا جا رہا ہے نہ اس کا قومی سلامتی کے ساتھ کوئی تعلق جوڑا جا سکتا اور نہ یہ عوامی تصویر بنا، یہاں اپنے ذاتی مفادات اور دولت کمانے کی آڑ میں سیاسی شرپسندوں نے سوشل میڈیا کو اپنی جاگیر سمجھ لیا اور نظریہ تخریب کاری کے تحت تمام اخلاقی حدود کو عبور کرکے حالات کو مزید سنگینی کی طرف دھکیل دیا۔
سوشل میڈیا پر ایک سیاسی جماعت کی وجہ سے پاکستان کی خوبصورت رنگوں بھری تصویر کی بجائے جس برے نقشہ کو پیش کیا جا رہا ہے، ایسا کچھ بھی نہیں، دولت کی ہوس اور وقتی شہرت نے اس معاشرے کے چند ناسوروں نے ہمارے صاف اور شفاف معاشرے اور اداروں پر انگلیاں اٹھانا شروع کیں اور صوبائی سطح سے قومی سطح تک صوبائی تعصب کا پرچار کیا جو غلط اور گہری سازش ہے۔ اگر اس سازش کو جلد نہ روکا گیا تو اس ملک پر لوگوں کا تھوڑا بہت جو اعتبار ہے وہ بھی اٹھ جائے گا۔ سوشل میڈیا کے تخریب کاروں کے لئے پیکا جیسے قوانین بہت ضروری ہیں۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اس قانون کو بے لگام سوشل میڈیا چلانے والے نام نہاد صحافیوں پر لاگو کیا جائے۔ جن کی وجہ سے ایک عام آدمی کی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس بے لگام سوشل میڈیا کی وجہ ہی سے آج ہر بندہ یہ سوال کر رہا ہے کہ ’’بنے گا کیہ‘‘ گو حکومت وقت ان پر ہاتھ ڈالنے کے لئے اس قانون کو منظور کراتے ہوئے سزائوں کا تعین بھی کر دیا ہے گو اس قانون کے خلاف اٹھنے والی آوازیں اس کو کالا قانون قرار دے رہی ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والے اس بات کو کیوں نظرانداز کرتے ہیں کہ اسی سوشل میڈیا یا واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹا گرام پر جو ہوش اڑانے والی پوسٹیں، غلط کردارکشی، غلط تصویرکشی اور ہر اچھی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا، ملک سے باہر بیٹھے تحریک انصاف کے نامور یوتھئے جو صرف ڈالرز کمانے کے چکر میں دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں، ان کو روکنے کے لئے ایسا ہی قانون چاہئے جو ان کی گردنوں کو جکڑ سکے۔ پیکا قانون تو بنایا ہی تخریب کاری صحافت کو فروغ دینے والے نام نہاد صحافیوں کے لئے جو پاکستان کو بدنام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔
مجھے تو حیرانگی ان صحافیوں پر ہو رہی ہے جو اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو کالاقانون قرار دے رہے ہیں۔ وہ تو پاکستان اور اداروں کے ساتھ مخلص ہیں پھر ان کو پیکا قانون سے خطرہ ہے کیا؟ اگر میں بطور صحافی یہ دیکھوں کہ جب مجھے ملک مخالف تحریکوں میں نہ تو حصہ لینا ہے نہ مخالف قوتوں کی آواز بننا ہے نہ میرے نظریات غلط ہیں نہ میں غلط بات لکھنے کے حق میں ہوں تو پھر خطرہ کس بات کا ہے؟ تو پھر پیکا جیسے ایک نہیں ہزاروں آرڈیننس بھی آجائیں تو خطرہ کس بات کا… بات ذرا سوچنے والی ہے، پھینکنے والی نہیں…