UrduPoint:
2025-04-15@06:36:24 GMT

ٹرمپ کا غزہ پٹی پر قبضے کا منصوبہ کس خواہش کی بازگشت؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

ٹرمپ کا غزہ پٹی پر قبضے کا منصوبہ کس خواہش کی بازگشت؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2025ء) امریکی صدر ٹرمپ نے منگل کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ تھا کہ فلسطینیوں کو دوسری جگہوں پر آباد کرنے کے بعد امریکہ غزہ پٹی پر قبضہ کر لے گا۔ ان کے اس منصوبے کی نہ صرف یورپی ممالک نے مذمت کی بلکہ اس کے خلاف عالمی سطح پر بھی آواز بلند کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا 'نسلی تطہیر‘ کے مترادف اور بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہو گا۔

ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت

لیکن یہ پہلا موقع نہیں کہ ٹرمپ نے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری مواقع کے حوالے سے غزہ پٹی کی بات کی ہو۔ پچھلے سال اکتوبر میں انہوں نے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر صحیح طریقے سے دوبارہ تعمیر کیا جائے، تو غزہ ''موناکو سے بہتر‘‘ ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

غزہ پٹی کا کنٹرول امریکی ’ملکیت‘ میں، ٹرمپ کی تجویز

فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان اکتوبر 2023ء میں شروع ہونے والی جنگ کے تناظر میں ایک بار پھر غزہ پٹی کی تعمیر نو کا خیال سامنے آیا ہے۔

یہ خیال خاص طور پر امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے پیش کیا ہے، جنہوں نے ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی امریکی ایلچی کے طور پر اسرائیل اور کئی عرب ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ''ابراہیمی معاہدے‘‘ کو آگے بڑھانے میں مدد کی تھی۔ جیرڈ کشنر کی تجویز

جیرڈ کشنر، جنہوں نے ایک بار عرب اسرائیلی تنازعے کو ''اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جائیداد کے تنازعے سے زیادہ کچھ نہیں‘‘ قرار دیا تھا، نے فروری 2024 میں ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک تقریب میں کہا تھا، ''غزہ پٹی میں ساحل سمندر کے قریب جائیداد بہت قیمتی ہو سکتی ہے، اگر لوگ اسے ذریعہ معاش بنانے پر توجہ دیں۔

‘‘

کشنر، جو خود ٹرمپ کے پہلے دور اقتدار سے قبل نیویارک میں ایک پراپرٹی ڈویلپر تھے، نے کہا تھا، ''وہاں یہ تھوڑی سی بدقسمتی کی صورت حال ہے، لیکن میں اسرائیل کے نقطہ نظر سے سوچتا ہوں، میں لوگوں کو باہر نکالنے اور پھر اسے صاف کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔‘‘

جیرڈ کشنر کے ترجمان نے فوری طور پر اس خبر پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہ دیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کا تعین نہیں کر سکا کہ آیا کشنر، جن کی پرائیویٹ ایکویٹی فرم نے خلیجی ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کی ہے، جس میں سعودی عرب سے دو بلین ڈالر بھی شامل ہیں، غزہ میں سرمایہ کاری کے بارے میں خطے میں کسی بھی بات چیت میں مصروف ہیں۔

عملی دشواریاں

فلسطینیوں کے لیے غزہ پٹی کو سمندر کے کنارے ایک تفریحی مقام یا ریزورٹ کے طور پر تصور کرنا ناممکن ہے۔

ساتھ ہی غزہ پٹی میں ''مشرق وسطیٰ کا رویرا‘‘ بنانے کے ٹرمپ کے وژن کو عملی جامہ پہنانے میں عملی دشواریاں بھی درپیش ہوں گی۔ اس لیے کہ غزہ پٹی میں حماس اب بھی ایک طاقت ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کی اس تجویز پر اس نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔

غزہ پٹی میں زمین کی ملکیت کا قانون عثمانی، برطانوی مینڈیٹ اور اردنی قوانین کے ساتھ ساتھ قبائلی طریقوں سے اخذ کردہ قواعد و ضوابط اور رسوم و رواج کا ایک پیچیدہ مرکب ہے، جس میں زمین کی ملکیت کو بعض اوقات پچھلی قانونی حکومتوں کی دستاویزات کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔

غزہ میں اس وقت غیر ملکیوں کے زمین خریدنے پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف، جو خود بھی ایک سابق ریئل اسٹیٹ ڈویلپر ہیں، کے مطابق غزہ کی تعمیر نو کے لیے دس پندرہ سال درکار ہوں گے، کیونکہ پندرہ ماہ کی بمباری کے بعد، صدر ٹرمپ کے الفاظ میں، غزہ ایک "مسمار شدہ جگہ‘‘ہے۔

اسٹیو وٹکوف جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ پٹی جانے والے پہلے اعلیٰ امریکی اہلکار تھے۔

غزہ پٹی کی تعمیر نو پر لاگت کا تخمینہ 100 بلین ڈالر تک لگایا جاتا ہے۔ تاہم، خلیجی ممالک، جو کہ غزہ کی تعمیر نو میں سرمایہ کاری کا ایک ممکنہ ذریعہ ہیں، نے کسی بھی مالیاتی پیشکش کو فی الحال سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ دوسری طرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ بھی اب تک بند ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز نے جن تجزیہ کاروں سے رابطے کیے، ان کے مطابق دیگر ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے کسی بھی طرح کے ممکنہ فوائد کے مقابلے میں صورت حال کہیں زیادہ غیر یقینی دکھائی دیتی ہے۔ اسرائیل کی بہت سی بڑی تعمیراتی کمپنیوں اور بلڈرز ایسوسی ایشن نے اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

ج ا ⁄ ص ز، م م (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی صدر ٹرمپ سرمایہ کاری کی تعمیر نو غزہ پٹی میں ٹرمپ کے کے لیے

پڑھیں:

معیشت اور افراط زر کے معاملے پر صدر ٹرمپ کی حمایت میں کمی

امریکا میں ٹیرف پالیسی کے امور اور اسٹاک مارکیٹ میں ہنگامہ آرائی کے ہفتوں کے بعد معیشت اور افراط زر کے معاملے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی درجہ بندی میں کمی آئی ہے۔

اتوار کو جاری ہونے والے سی بی ایس نیوز کے 2,410 امریکیوں کے ایک نئے سروے کے مطابق،  44 فیصد رائے دہندگان نے معیشت کو سنبھالنے سے متعلق صدر ٹرمپ کے اقدامات کو سراہا جبکہ 40 فیصد نے ان کی افراط زر سے نمٹنے کے اقدامات کی منظوری دی۔

سروے کے مطابق دونوں حوالوں سے صدر ٹرمپ کی عوامی حمایت میں 30 مارچ کے مقابلے میں 4 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، امریکی صدر کی مجموعی حمایت کی درجہ بندی اس ماہ کم ہوکر 47 فیصد تک گر گئی، جو مارچ میں 50 اور فروری میں 53 فیصد تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اقتصادی جنگ میں امریکا اور چین آمنے سامنے، ٹرمپ نے بیجنگ کو دھمکی دے دی

جواب دہندگان کی سیاسی وابستگیوں کے لحاظ سے صدر ٹرمپ کے ٹیرف کے منصوبوں کے بارے میں خیالات مختلف ہوتے ہیں، 91 فیصد تک، تقریباً تمام ریپبلکنز نے کہا کہ ٹرمپ کا ٹیرف اور تجارت پر واضح منصوبہ ہے۔

صرف 43 فیصد آزاد اور 16 فیصد ڈیموکریٹس نے بھی ایسا ہی کہا، مجموعی طور پر، 58 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ درآمدی اشیا پر نئے امریکی محصولات کی مخالفت کرتے ہیں۔

8 سے 11 اپریل تک شرکا کا سروے کیا گیا، 9 اپریل کو، ٹرمپ نے ’باہمی ٹیرف‘ پر 90 دن کے وقفے کا اعلان کیا، ایک قابل ذکر استثنیٰ کے ساتھ، زیادہ تر ممالک سے آنے والی اشیا کے لیے لیوی کو کم کر کے 10 فیصد کر دیا۔

مزید پڑھیں: امریکا سمیت یورپی ممالک میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کے خلاف مظاہرے، لاکھوں افراد سڑکوں پر

دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ بڑھنے کے باعث چین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر امریکی محصولات فی الحال 145 فیصد ہیں، لیکن جمعہ کے روز صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ درآمد شدہ اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز اور الیکٹرانکس کم از کم ابھی کے لیے مستثنیٰ ہوں گے۔

صدر ٹرمپ نے ٹرتھ سوشل فرائیڈے پر لکھا کہ ہم اپنی ٹیرف پالیسی پر واقعی اچھا کام کر رہے ہیں، امریکا اور دنیا کے لیے بہت پرجوش!!! یہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

سروے کے مطابق، 51 فیصد امریکی ٹیرف اور تجارت کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے اہداف کو پسند کرتے ہیں، لیکن صرف 37 فیصد ان کے نقطہ نظر کو منظور کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف سے بچنے کے لیے ایپل نے 15 لاکھ آئی فون بھارت سے امریکا کیسے منگوائے؟

ٹرمپ کے ’باہمی ٹیرف‘ کے اعلان کے پس منظر میں کھربوں ڈالرز کے نقصان کے بعد، گزشتہ ہفتے صارفین کی دلچسپی میں کمی اور 90 دن کے وقفے کے ردعمل میں اسٹاک مارکیٹ پہلے گری اور بھی اوپر گئی، بڑے امریکی انڈیکس جمعہ کو اونچے درجے پر ختم ہوئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹاک مارکیٹ افراط زر باہمی ٹیرف ٹرتھ سوشل فرائیڈے ٹیرف چین حمایت ڈالرز ڈونلڈ ٹرمپ ڈیموکریٹس ریپبلکنز صدر ٹرمپ معیشت

متعلقہ مضامین

  • ماں بننے کا تجربہ پرسکون تھا، مزیدکتنے بچوںکی خواہش ہے ،اداکارہ عروہ حسین نے بتادیا
  • غیرمنصفانہ تجارتی رویے پر کوئی ملک ٹیرف سے نہیں بچے گا، ٹرمپ
  • ٹرمپ کا دوٹوک اعلان: چین ہم سے بدسلوکی کرے گا تو ٹیرف سے نہیں بچے گا
  • بھارت کی وکلا تنظیم نے وقف ایکٹ کو متعصبانہ قانون قرار دے دیا
  • الیکٹرانکس پر امریکی ٹیرف سے بچنا ممکن نہیں، ٹرمپ کی چین کو تنبیہ
  • معیشت اور افراط زر کے معاملے پر صدر ٹرمپ کی حمایت میں کمی
  • ٹرمپ ٹیرف مضمرات
  • برطانیہ کے چینی اسٹیل کمپنی پر قبضے کی وجہ کیا بنی؟
  • دنیا پر ٹرمپ کا قہر
  • تجارتی جنگ اور ہم