UrduPoint:
2025-04-13@19:32:35 GMT

آسٹریلیا، نفرت پر مبنی جرائم کے تدارک کے لیے نیا قانون

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

آسٹریلیا، نفرت پر مبنی جرائم کے تدارک کے لیے نیا قانون

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2025ء) جمعرات کے روز آسٹریلیا کی پارلیمنٹ نے نفرت پر مبنی جرائم کے تدارک کے لیے بنائے گئے قوانین میں ایک ترمیم کی ہے۔ اس کا مقصد بعض نسلی گروہوں کے لیے ریاستی تحفظ کو مزید بہتر بنانا بتایا گیا ہے۔

اس ترمیم کے تحت دہشت گردی کے جرائم اور نازی سواستیکا جیسی نفرت انگیز علامتوں کی نمائش کے پر بھی لازمی قید کی سزائیں شامل کر لی گئی ہیں۔

نفرت انگیز جرائم، جیسے کہ عوامی مقامات پر نازی سلیوٹ پر کم از کم بارہ ماہ کی سزا سنائی جا سکے گی۔ کچھ جرائم کے لیے ان سزاؤں کی حد بڑھا کر چھ سال بھی کر دی گئی ہے۔

آسٹریلیا کے ہیٹ کرائمز قانون کے تحت نسل، مذہب، معذوری، جنسی رجحان اور صنفی شناخت کی بنیاد پر لوگوں کے خلاف طاقت یا تشدد کی دھمکی دینے پر پابندی شامل ہے۔

(جاری ہے)

آسٹریلیا میں سامیت دشمنی کے واقعات میں اضافہ

دنیا کے دیگر حصوں کی طرحآسٹریلیا میں بھی حالیہ مہینوں میں یہودی عبادت گاہوں، عمارتوں اور یہودی برادری کی گاڑیوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ان میں دسمبر میں میلبورن میں ایک یہودی عبادت گاہ پر کیا گیا ایک حملہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح سڈنی میں دھماکہ خیز مواد سے لدی ایک گاڑی کو پکڑا گیا تھا، جس میں سے یہودی اہداف کی ایک فہرست بھی برآمد ہوئی تھی۔

آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے اس قانون کی منظوری کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں واضح کیا، ''ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ سامیت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں، انہیں پکڑا جائے، ان پر فرد جرم عائد کی جائے اور ان پر کڑی نظر رکھی جائے۔

‘‘ آسٹریلیا میں لازمی سزائیں متنازعہ کیوں؟

آسٹریلوی وزیر داخلہ ٹونی بیرک کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم آسٹریلیا میں نفرت پر مبنی جرائم کے انسداد کے لیے ایک سخت ترین قانون ہے۔

البانیز کی لیبر حکومت روایتی طور پر جرائم کے مرتکب افراد کے لیے لازمی کم از کم سزاؤں کی مخالفت کرتی ہے لیکن جمعرات کو اس پارٹی کی ممبران کی اکثریت نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا۔

آسٹریلیا میں مینڈیٹری یعنی لازمی سزاؤں کے مقامی آبادی بالخصوص نوجوانوں پر منفی اثرات کی وجہ سے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

لیکن البانیز کو شدید دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ ملک میں بڑھتی ہوئی سامیت دشمنی سے نمٹنے کے لیے فوری ایکشن لیں۔ آئندہ چند مہینوں میں آسٹریلیا میں وفاقی انتخابات کا انعقاد بھی ہونا ہے اور لیبر پارٹی اس صورتحال میں اپنا ووٹ بینک بھی مضبوط بنانا چاہتی ہے۔

کیٹ ہیئرسین / ویزلی ڈوکری (ع ب ، ا ا)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سٹریلیا میں ا سٹریلیا جرائم کے کے لیے

پڑھیں:

جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے وقف قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

پی ڈی پی کے جنرل سکریٹری محمد خورشید عالم نے بی جے پی اور نیشنل کانفرنس دونوں پر مسلمانوں کے اعتماد اور حقوق کیساتھ "منظم خیانت" کا الزام عائد کیا۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر میں برسر اقتدار جماعت نیشنل کانفرنس نے نئے وقف ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ یہ اقدام پارٹی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی ہدایت پر اُٹھایا گیا ہے۔ پارٹی کی ترجمان افراء جان نے بتایا کہ نیشنل کانفرنس کے تین ارکان اسمبلی ارجن سنگھ راجو، ریاض احمد خان اور ہلال اکبر لون نے عدالت عظمیٰ میں رِٹ پٹیشن دائر کی ہے۔ اس طرح نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر کی دوسری سیاسی جماعت بن گئی ہے جس نے متنازع قانون کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ اس سے قبل الطاف احمد بخاری کی قیادت والی جموں کشمیر اپنی پارٹی نے بھی عرضی دائر کی تھی۔

ادھر اپوزیشن جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے بھی وقف قانون کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی نے ہفتے کو سرینگر میں اپنے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جس میں کارکنان نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ پی ڈی پی کے جنرل سکریٹری محمد خورشید عالم نے بی جے پی اور نیشنل کانفرنس دونوں پر مسلمانوں کے اعتماد اور حقوق کے ساتھ "منظم خیانت" کا الزام عائد کیا۔ ان کے بقول وقف (ترمیمی) قانون مسلمانوں کے کسی بھی طبقے کو قابل قبول نہیں اور اس کا پارلیمان میں خفیہ طریقے سے پاس ہونا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف غیر جمہوری عمل نہیں بلکہ اقلیتوں کو منظم طریقے سے کمزور کرنے کی ایک دانستہ کوشش بھی ہے، جسے ہم یکسر مسترد کرتے ہیں۔

دریں اثناء پیپلز کانفرنس کے صدر اور ہندوارہ سے رکن اسمبلی سجاد غنی لون نے نیشنل کانفرنس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں وقف قانون پر سنجیدہ بحث سے بچنے کے لئے بدنظمی پیدا کی گئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسپیکر نے زیر سماعت ہونے کی بنیاد پر وقف بل پر بحث کی اجازت نہیں دی، حالانکہ ایوان میں تحریک التوا پیش کی گئی تھی۔ سجاد غنی لون کے مطابق جب مذہبی معاملات کے دفاع کی بات آئی تو نیشنل کانفرنس نے خاموشی اختیار کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسپیکر رکاوٹ تھے، تو انہیں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے عملی اقدام کے بجائے تماشہ چُنا۔ یاد رہے کہ حالیہ بجٹ اجلاس کے دوران جموں و کشمیر اسمبلی میں وقف قانون پر شدید ہنگامہ آرائی دیکھی گئی، جہاں حکومت اور اپوزیشن دونوں بحث کا مطالبہ کرتے رہے، جو اسپیکر نے مسترد کر دیا۔

متعلقہ مضامین

  • سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
  • بھارت میں وقف قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد سے 3 افراد ہلاک
  • نیا وقف قانون:اوقافی جائیدادوں پر شب خون
  • جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے وقف قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
  • استعمال شدہ موبائل فونز کی خریداری کیلئے نئی شرائط عائد
  • ٹرمپ کے سخت اقدامات: غیر ملکیوں کے لیے رجسٹریشن، قانونی حیثیت کا ثبوت ہر وقت پاس رکھنا لازمی قرار
  • مقبوضہ کشمیر, وقف ترمیمی قانون کیخلاف ایم ایم یو کی قرارداد
  • فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ دوم)
  • پاک-ترک تعلقات محض سفارتی نہیں بلکہ عقیدت اور اعتماد پر مبنی ہیں، مریم نواز
  • کراچی، پولیس اور جرائم پیشہ افراد کے درمیان متعدد مقابلے، ایک ہلاک، 4 زخمی حالت میں گرفتار