عسکریت پسندوں کا حملہ، تین پاکستانی پولیس افسر ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2025ء) مقامی پولیس اہلکار عباس خان نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ یہ جان لیوا حملہ افغانستان کی سرحد سے متصل شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حملے کی زد میں آنے کے بعد پولیس اہلکاروں نے بھی جوابی فائرنگ کی۔
ایک دوسرے پولیس اہلکار نذر محمد نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ 10 کے قریب عسکریت پسندوں نےکرک کے قریب واقع ایک چوکی پر رات ایک بجے کے قریب حملہ کیا۔
پاکستانی طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ قبل ازیں پولیس نے کہا تھا کہ اس کے دو اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری پاکستانی طالبان پر عائد کی ہے جبکہ انہوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے مقتول اہلکاروں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار بھی کیا ہے۔
(جاری ہے)
حالیہ مہینوں کے دوران پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور ان میں سے زیادہ تر کا الزام پاکستانی طالبان پر عائد کیا جاتا ہے، جنہیں تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی بھی کہا جاتا ہے۔
عسکریت پسندوں کی حملوں میں اضافہاسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں ہونے والے حملوں کے نتیجے میں 16 سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور یہ گزشتہ ایک دہائی میں مہلک ترین سال تھا۔
گزشتہ شب ہونے والے حملے کے بارے میں ایک مقامی انتظامی اہلکار مصباح الدین کا کہنا تھا، ''حملے کے دوران دہشت گردوں نے مارٹر گولوں سمیت بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا۔
‘‘پاکستان: افغان سرحد سے دراندازی کی کوشش ناکام، پانچ 'دہشت گرد' ہلاک
مقامی پولیس اہلکار سجاد علی کے مطابق بدھ کے روز ایک افسر خیبر پختونخوا میں اپنے تھانے سے گھر جا رہا تھا، جب مسلح افراد نے اس کی کار کو روکا اور اسے ''اغوا‘‘ کر لیا۔ اس واقعے کی ذمہ داری بھی پاکستانی طالبان نے قبول کی ہے۔
گزشتہ اتوار کو بھی مسلح عسکریت پسندوں نے خیبر پختونخوا میں ایک گاڑی پر حملہ کرتے ہوئے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے چار ارکان کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس سے ایک دن پہلے علیحدگی پسند عسکریت پسندوں نے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں 18 نیم فوجی اہلکاروں کو ہلاک کرنے والے ایک بڑے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اب تک پاکستان میں عسکریت پسندوں اور ریاست مخالف تشدد کے واقعات میں 38 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔
پاکستان کا الزام افغان طالبان پرپاکستانی طالبان نظریاتی لحاظ سے افغان طالبان کے انتہائی قریب ہیں تاہم یہ گروپ پاکستان میں سرگرم ہے اور افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی طالبان نے افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے علاقوں میں دہائیوں سے شورش برپا کر رکھی ہے۔
پاکستان افغان طالبان کی حکومت پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے حملے کرنے والے عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہی ہے جبکہ افغان طالبان اس کی تردید کرتے ہیں۔
ا ا / ع ب (اے پی، اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستانی طالبان عسکریت پسندوں پولیس اہلکار افغان طالبان پاکستان میں کی ذمہ داری حملے کی
پڑھیں:
طالبان نے خواتین کے ریڈیو اسٹیشن ’’بیگم‘‘ کو بند کروا دیا؛ 2 ملازمین گرفتار
افغانستان میں طالبان نے خاتون کے ایک معروف ریڈیو اسٹیشن ’’ بیگم‘‘ کے لائسنس کو معطل کرکے نشریات بند کروادی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان کی وزارت اطلاعات نے تصدیق کی ہے کہ خواتین کے ریڈیو اسٹیشن پر چھاپا مار کارروائی کی گئی۔
طالبان اہلکاروں نے ریڈیو اسٹیشن کی مکمل تلاشی لی، کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس اور موبائل فونز تحویل میں لے لیے اور دو مرد ملازمین کو گرفتار کرلیا۔
حراست میں لے گئے دونوں مرد ملازمین ریڈیو اسٹیشن میں کسی اعلیٰ انتظامی یا پالیسی ساز عہدے پر فائز نہیں تھے۔
بعد ازاں وزارت اطلاعات و ثقافت نے بیگم نامی ریڈیو اسٹیشن کی نشریات کو ضابطے کی متعدد خلاف ورزیوں پر غیر معینہ مددت تک معطل کردیا۔
طالبان کا کہنا ہے کہ یہ ریڈیو اسٹیشن بیرون ملک مقیم ایک ٹی وی اسٹیشن کو مواد اور پروگرام فراہم کر رہا تھا جو کہ براڈ کاسٹنگ پالیسی کی خلاف ورزی اور لائسنس کا غلط استعمال ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ریڈیو اسٹیشن کے لائسنس کی بحالی کا حتمی فیصلہ دستاویزات، اہداف اور مقاصد کا بغور جائزہ لیکر کیا جائے گا۔
دوسری جانب ریڈیو اسٹیشن ’بیگم‘ کے ترجمان نے کہا کہ کبھی بھی کسی سیاسی سرگرمی میں شامل نہیں رہے اور خاص طور پر افغان خواتین کی خدمت کے لیے پُرعزم ہیں۔
صحافتی تنظیموں اور رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے ریڈیو اسٹیشن پر عائد پابندیوں کو ہٹانے اور گرفتار ملازمین کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ ریڈیو ’’بیگم‘‘ کا آغاز 8 مارچ 2021 کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہوا تھا جس کے کچھ ماہ بعد ہی افغانستان میں اقتدار طالبان کے ہاتھوں میں آگیا تھا۔
ریڈیو اسٹیشن ’’بیگم‘‘ سے خواتین کے لیے تعلیمی، کتب بینی بک اور کال ان کاؤنسلنگ کے پروگرام پیش کیے جاتے رہے ہیں۔
بعد ازاں گزشتہ برس 2024 میں ریڈیو اسٹیشن ’’بیگم‘‘ کی افغان نژاد سوئس بانی حمیدہ امان نے ایک سیٹلائٹ ٹیلی ویژن اسٹیشن، بیگم ٹی وی کا آغاز کیا تھا۔
اس ٹی وی اسٹیشن پر پیرس سے تعلیمی پروگرام نشر کیے جاتے تھے تاکہ افغان لڑکیوں اور خواتین تعلیم جاری رکھنے میں مدد ملتی رہے۔
ان کی ویب سائٹ پر افغان قومی نصاب سے متعلق ہزاروں ویڈیوز موجود ہیں جہاں طالبات کی رسائی مفت ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں بھی طالبان نے ’آرزو ٹی وی‘ کو بند کرکے 7 ملازمین کو حراست میں لے لیا تھا۔