Islam Times:
2025-04-13@16:25:26 GMT

ڈپٹی کمشنر لاہور کی جانب سے عورت مارچ کی اجازت دیدی گئی

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

ڈپٹی کمشنر لاہور کی جانب سے عورت مارچ کی اجازت دیدی گئی

خط کے متن کے مطابق 12 فروری کو عورت مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ عورت مارچ کے شرکا کو فول پروف سکیورٹی دی جائے۔ جسٹس انوار حسین نے لینا غنی سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے عورت مارچ کی اجازت ملنے پر درخواست نمٹا دی۔ اسلام ٹائمز۔ ڈپٹی کمشنر لاہور کی جانب سے عورت مارچ کی اجازت دے دی گئی۔ لاہور ہائیکورٹ میں عورت مارچ کی اجازت نہ دینے پر ڈی سی کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ سرکاری وکیل نے عورت مارچ کی سکیورٹی سے متعلق خط پیش کر دیا۔ خط کے متن کے مطابق 12 فروری کو عورت مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ عورت مارچ کے شرکا کو فول پروف سکیورٹی دی جائے۔ جسٹس انوار حسین نے لینا غنی سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے عورت مارچ کی اجازت ملنے پر درخواست نمٹا دی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عورت مارچ کی اجازت

پڑھیں:

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا، سپریم کورٹ

اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ایگزیکٹو ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف عدالتی افسر کی کسی بھی شکایت کے جواب میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے کوئی بھی کارروائی نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہوگا۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پہلے تو آرٹیکل 203 کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سمیت ماتحت عدالتوں کی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے اپنے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا ۔

مزید پڑھیں: 9 مئی مقدمات، چیف جسٹس فریقین میں توازن کیلیے پرعزم

دوسرا ایڈمنسٹریٹو جج کی جانب سے پریذائیڈنگ جج کے خلاف ریفرنس ناکافی بنیادوں پر خارج کرنے کی روشنی میں چیف جسٹس نے تبادلے کی درخواست پر مزید کارروائی نہ کرنے میں مکمل جواز پیش کیا کیونکہ اس درخواست میں میرٹ کا فقدان تھا اور وہ صرف ایک ایسے حوالے پر مبنی تھی جس میں ثبوت کی کمی تھی۔

چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی طرف سے تحریر کردہ 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب پراسیکشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی گئی۔

ریاست کی جانب سے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے ایک پریذائیڈنگ جج  کے دوسرے سے تبادلے کی درخواست کی سماعت میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔ 

مزید پڑھیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جج کیخلاف ریفرنس پر حکومت کو پیغام دینا تھا دے دیا، چیف جسٹس

ہم اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ کسی صوبے میں ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اس صوبے کے اندر عدلیہ کی سربراہ ہوتا  ہے۔ لہٰذا عدالتی افسر کی ایسی کسی شکایت کے جواب میں چیف جسٹس کی جانب سے کوئی بھی کارروائی نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہو گا۔

ریاست کی نمائندگی کرنے والے سپیشل پراسیکیوٹر کا بنیادی زور یہ تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیرا 8 اور 9 میں درج نتائج نہ صرف غیر ضروری تھے بلکہ چیف جسٹس کے اختیار کے مینڈیٹ سے بھی باہر تھے۔ 

واضح رہے لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے اے ٹی سی ججز کے معاملات میں ایگزیکٹو ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف موقف اختیار کیا تھا۔ انہوں نے اے ٹی سی جج راولپنڈی کے تبادلے کی پنجاب حکومت کی درخواست پر سخت استثنیٰ لیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • آزادی مارچ کیسز، زرتاج گل کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • آزادی مارچ کیسز؛ زرتاج گل کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • جی ایچ کیو حملہ سمیت 9 مئی کے تمام 14مقدمات کی سماعت آج ہوگی
  • جی ایچ کیو حملہ سمیت 9 مئی کے تمام  14مقدمات کی سماعت آج ہوگی
  • سعودی عرب نے مزید 10 ہزار پاکستانیوں کو حج کی اجازت دیدی
  • ڈانس پارٹی کے ملزمان کی ویڈیوز وائرل کرنے پر ڈی پی او قصور عدالت طلب
  • پانی کے ضیاع پر جمعہ کے خطبات میں آگاہی دینے کا سرکلر لاہور ہائیکورٹ میں پیش
  • اسلام میں عورت کے حقوق اور مروجہ ’’آزادی مارچ‘‘
  • چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا، سپریم کورٹ
  • بلوچستان ہائیکورٹ : ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ