امریکا سے بھارتیوں کی بیدخلی پر وزیر خارجہ جے شنکر کو وضاحت کیوں کرنا پڑی؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
امریکی فوجی طیارہ 100 سے زیادہ غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کو لے کر گزشتہ روز امرتسر کے شری گرو رام داس جی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترا، جہاں بھارتی حکام کے مطابق بیشتر تارکین وطن کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا سے غیرقانونی بھارتی تارکین وطن کی بے دخلی شروع
امریکی حکام نے بدھ کو ایک فوجی پرواز میں 104 غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا، جن کی بھارتی ریاست پنجاب کے شہر امرتسر آمد پر ان رپورٹس کے سامنے کے بعد سیاسی طوفان برپا ہوگیا کہ کچھ جلاوطن بھارتی شہریوں کو پورے سفر میں ہاتھ اور پاؤں باندھ کر رکھا گیا تھا۔
Trump sends 205 Illegal Indian Immigrants, handcuffed and chained, in a military C17 plane.
— Ashok Swain (@ashoswai) February 5, 2025
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس ضمن میں اٹھنے والے شور پر کہا کہ حکومت کے لیے قانونی امیگریشن کی حوصلہ افزائی کرنا بہت ضروری ہے، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم بیرون ملک گرفتار کیے گئے اپنے شہریوں کو واپس لے۔
ابتدائی پوچھ گچھ کے دوران، جلاوطن افراد نے حکام کو بتایا کہ وہ مختلف ایجنٹوں کا استعمال کر چکے ہیں اور پکڑے جانے سے پہلے متعدد مقامات پر ٹھہرے ہیں۔
#WATCH | After a US Air Force plane brings to Amritsar the Indian citizens who allegedly illegally migrated to the USA, Punjab NRI Affairs Minister Kuldeep Singh Dhaliwal says, "Modi ji calls Trump (US President Donald Trump) his friend. I request PM Modi ji to speak to Trump to… pic.twitter.com/VblZrVrtbq
— ANI (@ANI) February 5, 2025
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان ہندوستانیوں نے غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے کے لیے بھاری رقم ادا کی، انہیں مختلف ایجنٹوں کے ذریعے دھوکا دیا گیا لیکن انہوں نے رضاکارانہ طور پر ملک میں داخل ہونے کے لیے غیر قانونی راستوں کا انتخاب کیا۔
امریکا سے ملک بدر کیے گئے بھارتی شہریوں کے معاملہ پر راجیہ سبھا میں خطاب کرتے ہوئے، بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا تھا کہ تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو واپس لیں اگر وہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک مقیم پائے جاتے ہیں۔
Speaking in Rajya Sabha on Indian citizens deported from the US, EAM S Jaishankar says, "…It is the obligation of all countries to take back their nationals if they are found to be living illegally abroad…" pic.twitter.com/6tnkvqbuQJ
— ANI (@ANI) February 6, 2025
جے شنکر نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ امریکا بدر ہونے والوں کو پورے سفر کے دوران ہاتھ پاؤں باندھ کر جہاز پر رکھا گیا تھا، تاہم خواتین اور بچوں کو استثنیٰ تھا۔
’امریکا کی طرف سے ملک بدری امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ اتھارٹی کے ذریعہ منظم طور پر عمل میں لائی جاتی ہے، اتھارٹی کے ذریعے استعمال ہونے والے ہوائی جہاز کے ذریعے ملک بدری کے رہنما اصول 2012 سے موثر ہیں، جس کے تحت بیدخل تارکین وطن کی نقل وحرکت کو محدود کرنے کے لیے ایسا کیا جاتاہے۔‘
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد کردہ بھارتی نژاد وزیر کا روز ویلٹ ہوٹل سے متعلق بڑا دعویٰ، معاملہ کیا ہے؟
بھارتی پنجاب پہنچنے پر مقامی حکام نے مرکزی ایجنسیوں کے ساتھ ان سے پوچھ گچھ شروع کر دی ہے، الزامات ویزا کی خلاف ورزیوں سے لے کر غیر مجاز نیٹ ورکس میں ملوث ہونے تک ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کچھ کو ایجنٹوں کے ذریعے گمراہ کیا گیا، جبکہ دیگر نادانستہ طور پر ایک بڑی اسکیم کا حصہ بن گئے، پنجاب کے سمندر پار بھارتیوں سے متلعقہ امور کے وزیر کلدیپ سنگھ دھالیوال کے مطابق ڈی پورٹ کیے گئے بھارتی صحت مند ہیں۔
مزید پڑھیں:’نریندر مودی کا دورہ امریکا: شدید احتجاج، خالصتان کے جھنڈے لہرا دیے گئے
’مودی جی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا دوست کہتے ہیں، میں پی ایم مودی جی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے ٹرمپ سے بات کریں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امرتسر امریکا امریکی صدر امریکی فضائیہ بھارتی تارکین وطن ڈونلڈ ٹرمپ ڈی پورٹ ملک بدرذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی صدر امریکی فضائیہ بھارتی تارکین وطن ڈونلڈ ٹرمپ ڈی پورٹ ملک بدر بھارتی تارکین وطن کے مطابق کے ذریعے ملک بدر کے لیے
پڑھیں:
ایران اور امریکا کے درمیان عمان کی میزبانی میں بالواسطہ مذاکرات کا آغاز
ایران اور امریکا کے درمیان عمان کی میزبانی میں بالواسطہ مذاکرات کا آغاز WhatsAppFacebookTwitter 0 12 April, 2025 سب نیوز
تہران (سب نیوز )ایران اور امریکا کے درمیان عمان کی میزبانی میں تہران کے جوہری پروگرام پر بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوگیا۔غیر ملکی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی کر رہے تھے جب کہ امریکی وفد کی قیادت صدر ٹرمپ کے مشرق وسطی کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کی۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسمعیل بغائی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ ایران اور امریکا کے درمیان عمان کے وزیر خارجہ کی ثالثی سے بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔اسمعیل بغائی کا کہنا تھا کہ دونوں وفود کے لیے الگ الگ کمرے مختص کیے گئے تھے اور وہ عمان کے وزیر خارجہ کے ذریعے ایک دوسرے کو پیغامات پہنچا رہے تھے۔یاد رہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر اس نے یورینیم کی افزودگی کے بڑھتے ہوئے پروگرام کو نہ روکا تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔
اگرچہ دونوں فریق مذاکرات میں کچھ پیش رفت کی امید ظاہر کر رہے ہیں تاہم وہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری تنازع پر اتفاق رائے سے بہت دور ہیں جب کہ ابھی تک اس بات پر بھی اتفاق نہیں ہوسکا ہے کہ مذاکرات ٹرمپ کی خواہش کے مطابق براہ راست ہوں یا پھر ایران کے مطالبے پر بلواسطہ جاری رہیں۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ اور ایران کے درمیان پہلی بار ہونے والے مذاکرات سے قبل عباس عراقچی نے مسقط میں عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسعیدی سے ملاقات کی تاکہ انہیں تہران کے اہم نکات اور مقف سے آگاہ کیا جاسکے جو وہ دوسرے فریق تک پہنچائیں۔
مذاکرات میں پیش رفت مشرق وسطی میں جاری کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، جہاں پر 2023 سے غزہ اور لبنان میں تنازعات کے علاوہ ایران اور اسرائیل کے درمیان میزائل حملوں، بحیرہ احمر میں حوثی حملوں، اور شام میں حکومت کی برطرفی جیسے واقعات کے باعث کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
تاہم، مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں خطے میں تصادم کے خدشات مزید بڑھ جائیں گے۔دوسری جانب، تہران نے اپنے ان پڑوسی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ جہاں پر امریکی اڈے موجود ہیں کہ وہ اگر ایران پر کسی امریکی فوجی حملے میں ملوث ہوئے تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے ملک کے سرکاری میڈیا کو بتایا اگر امریکا برابری کی بنیاد پر مذاکرات میں شامل ہو تو ابتدائی مفاہمت کا امکان موجود ہے تاہم مذاکرات کے دورانیے سے متعلق ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
ان کا کہناتھا کہ ابھی پہلی ملاقات ہوئی ہے اور میں کئی بنیادی اور ابتدائی امور کو واضح کیا گیا ہے، اس دوران یہ بھی دیکھا جائے گا کہ دونوں فریقین مذاکرات کے حوالے سے کتنا سنجیدہ ہیں اور ان کے کیا ارادے ہیں، اس کے بعد ہی ٹائم لائن کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ایک ایرانی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عباس عراقچی کو مذاکرات کے لیے مکمل اختیار دے دیا ہے۔
امریکا کی قیادت میں مغربی ممالک نے کئی دہائیوں سے تہران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے، ایران اس الزام کو مسترد کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں صرف سویلین مقاصد کے لیے ہیں۔ہفتہ کے روز، پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ حسین سلامی نے کہا کہ ملک جنگ کے لیے تیار ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ایرنا ( آئی آر این اے ) کے مطابق حسین سلامی نے کہا کہ ہمیں جنگ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ہم جنگ میں پہل نہیں کریں گے لیکن ہم کسی بھی جنگ کے لیے تیار ہیں۔2015 میں، ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان یعنی امریکا، فرانس، چین، روس، اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ جرمنی کے ساتھ اپنی جوہری سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا۔
2015 کے معاہدے کے بعد، جسے باضابطہ طور پر مشترکہ جامع ایکشن پلان (JCPOA) کے نام سے جانا جاتا ہے، جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنے کی ضمانت کے بدلے ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔ 2018 میں، ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت کے دوران، امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا اور ایران پر سخت پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں۔
ایک سال بعد، ایران نے معاہدے کے تحت کیے گئے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا اور اپنے جوہری پروگرام کو تیز کر دیا۔گذشتہ پیر کے روز، سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریبی مشیر علی لاریجانی نے خبردار کیا تھا کہ اگرچہ ایران جوہری ہتھیار تیار نہیں کرنا چاہتا، لیکن اگر اس پر حملہ کیا جاتا ہے تو اس کے پاس ایسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔