UrduPoint:
2025-04-13@16:15:38 GMT

امریکہ سے ڈی پورٹ بھارتیوں کے ساتھ طیارے میں ظالمانہ سلوک

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

امریکہ سے ڈی پورٹ بھارتیوں کے ساتھ طیارے میں ظالمانہ سلوک

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 فروری2025ء)امریکہ سے ڈی پورٹ کئے گئے بھارتیوں کے ساتھ طیارے میں ظالمانہ سلوک نے بھارت میں طوفان برپا کردیا ہے۔ غیر قانونی طور پر امریکہ پہنچنے والے بھارتی شہریوں نے ملک بدری کے بعد الزام لگایا کہ انہیں فوجی طیارے کے ذریعے واپس بھیجا گیا اور پورے سفر کے دوران ان کے ہاتھ اور پائوں زنجیروں میں جکڑے رہے۔

بھارتی ٹی وی کے مطابق ایک امریکی فوجی طیارہ 104 ڈی پورٹیز کو لے کر امرتسر ایئرپورٹ پہنچا، جن میں 19 خواتین اور 13 بچے شامل تھے۔ یہ کارروائی امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت پالیسی کے تحت کی گئی۔پنجاب کے گرداسپور سے تعلق رکھنے والے 36 سالہ جسپال سنگھ، جو ملک بدر ہونے والوں میں شامل تھے، نے بتایا کہ انہیں صرف امرتسر پہنچنے کے بعد ہی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کھولنے کی اجازت دی گئی۔

(جاری ہے)

جسپال سنگھ نے بھارتی خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں لگا ہمیں کسی اور کیمپ لے جایا جا رہا ہے، لیکن پھر ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ہمیں بھارت واپس بھیجا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاتھ ہتھکڑیوں میں اور پاں زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، جو صرف امرتسر ایئرپورٹ پر کھولی گئیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ ملک بدری سے قبل انہیں امریکہ میں 11 دن تک حراست میں رکھا گیا تھا۔

تاہم بدھ کو ہی بھارتی حکومت نے ایک تصویر کی حقیقت جانچتے ہوئے اس دعوے کو غلط قرار دیا کہ بھارتی تارکین وطن کو ملک بدری کے دوران ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنائی گئی تھیں۔ حکومت نے وضاحت کی کہ جو تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، وہ دراصل گوئٹے مالا کے شہریوں کی تھی، بھارتیوں کی نہیں۔جسپال سنگھ ان درجنوں بھارتی شہریوں میں شامل تھے جو 24 جنوری کو میکسیکو کی سرحد عبور کرتے وقت امریکی بارڈر پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ٹریول ایجنٹ نے انہیں قانونی طریقے سے امریکہ بھیجنے کا جھانسہ دیا تھا، مگر دھوکہ دے دیا۔جسپال نے بتایا کہ میں نے ایجنٹ سے ویزا کے ساتھ قانونی طریقے سے بھیجنے کو کہا تھا، لیکن اس نے دھوکہ دے دیا۔ ان کے مطابق اس سودے پر 30 لاکھ روپے میں معاہدہ ہوا تھا، جو انہوں نے قرض لے کر ادا کیے تھے۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک اور ڈی پورٹی ہروِندر سنگھ نے بتایا کہ انہیں قطر، برازیل، پیرو، کولمبیا، پاناما اور نکاراگوا کے راستے میکسیکو پہنچایا گیا تھا۔

ہروندر سنگھ نے بتایا کہ ہم نے پہاڑوں کو عبور کیا، سمندر میں کشتی میں سفر کیا جو تقریبا الٹنے والی تھی، مگر ہم بچ گئے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاناما کے جنگلات میں انہوں نے ایک شخص کو مرتے ہوئے دیکھا، جبکہ ایک اور شخص سمندر میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ایک اور ملک بدر ہونے والے شخص نے بتایا کہ غیر قانونی راستے سے امریکہ پہنچنے کے دوران ان کے 30 سے 35 ہزار روپے کے کپڑے چوری ہو گئے۔

ملک بدر ہونے والے 104 افراد میں 33 کا تعلق ہریانہ، 33 کا گجرات، 30 کا پنجاب، تین کا مہاراشٹر اور اتر پردیش جبکہ دو کا چندی گڑھ سے تھا۔ ان میں 19 خواتین اور 13 بچے بھی شامل تھے، جن میں ایک چار سالہ لڑکا اور دو لڑکیاں (پانچ اور سات سال کی عمر کی)بھی شامل تھیں۔امریکہ کی جانب سے بھارتی شہریوں کی ملک بدری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی واشنگٹن کے دورے پر جانے والے ہیں، جہاں وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وسیع تر امور پر بات چیت کریں گے۔ ذرائع کے مطابق، امریکی حکام نے 18,000 غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کی فہرست تیار کی ہے، جنہیں بھارت واپس بھیجا جانا ہے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے بتایا کہ ملک بدری شامل تھے انہوں نے

پڑھیں:

بالواسطہ مذاکرات اور چومکھی جنگ

اسلام ٹائمز: اسلامی جمہوریہ ایران کو ان مذاکرات میں ایک کثیر جہتی کھیل یا چومکھی جنگ کا سامنا ہے، جس میں چوکسی اور اسٹریٹجک انتظام کی سخت ضرورت ہے۔ اب تک ایران بالواسطہ مذاکرات کے اصول کو برقرار رکھتے ہوئے اور عمان کو ثالث کے طور پر منتخب کرکے پہل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ تاہم، دشمن فوجی دھمکیوں، نفسیاتی کارروائیوں اور اندرونی دھڑوں کو بھڑکا کر دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ایران کی طاقت مزاحمت اور سفارتی ذہانت کے خوبصورت امتزاج میں مضمر ہے۔ اس راستے سے کسی قسم کے انحراف کا فائدہ بہرحال دشمنوں کو ہی ہوگا۔ تحریر: حامد موفق بھروزی

عمان کی ثالثی میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور شروع ہونے سے خطے کی سیاسی فضا انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ دنیا اور علاقے کے مختلف کھلاڑی اپنے اپنے انداز میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کردار ادا کر رہے ہیں۔ مذاکرات سے پہلے کی پیش رفت اس طرح آگے بڑھ رہی ہے کہ ہر فریق مذاکراتی عمل پر اپنے مطلوبہ اصول مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایک ہوشیارانہ نقطہ نظر کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات اور اپنے قائم کردہ فریم ورک کو برقرار رکھنے پر زور دے رہا ہے، جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی مختلف ذرائع سے اس مساوات کو بدلنے کے درپے ہیں۔

ایران کے خلاف محاذ آرائی
تجزیہ کاروں نے ایران کے خلاف تین اہم دھڑوں کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف ٹولز اور ہتھیاروں کے ذریعے مذاکراتی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
1۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو، براہ راست مذاکرات اور دباؤ کے لئے فوجی دھمکیاں
امریکہ اور صیہونی حکومت بالواسطہ مذاکرات کو براہ راست مذاکرات میں بدلنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہ تحریک فوجی دھمکیوں (جیسے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بارے میں حالیہ دعوے) کے ذریعے ایران کے خلاف نفسیاتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، ماضی کے تجربات جیسے آپریشن عین الاسد، ٹینکر کی جنگ اور وعدہ صادق 1 اور 2 ظاہر کرتے ہیں کہ یہ خطرات آپریشنل سے زیادہ نفسیاتی ہیں۔

2۔ انقلاب مخالف گروہ اور نفسیاتی آپریشنز
ایران کے اسلامی انقلاب کے مخالف ملکی اور غیر ملکی گروہ جن میں سابق شاہ سے وابستہ میڈیا بھی شامل ہے، جس نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ، اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ انہوں نے اپنی یہ سرگرمیاں فوجی خطرات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرکے ایران میں عوامی اور قومی حوصلے کو کمزور کرنے پر مرکوز کر رکھی ہیں۔ رضا پہلوی کا فاکس نیوز کے ساتھ حالیہ انٹرویو اور "آکٹوپس کی آنکھوں کو اندھا کرنا" کے جملے کا استعمال اس تحریک کے ایران کے دشمنوں کے ساتھ واضح تعاون کی نشاندہی کرتا ہے۔ موساد کے ساتھ ان گروپوں کے تعاون کا CNN پر انکشاف ان کے غیر ملکیوں پر مکمل انحصار کی ایک اور تصدیق ہے۔

3۔ داخلی گروہوں کی امریکہ کیساتھ ہم آہنگی اور ایران کی بارگینگ کی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش
ایران میں موجود کچھ مغرب نواز افراد من جملہ حسن روحانی اور حسام الدین آشنا ایسی باتیں کر رہے ہیں، جن کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ افراد غیر حقیقی دعوے شائع کرکے مذاکرات میں ایران کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کی طاقت کو کمزور دکھانا یا یہ کہنا کہ "ایٹمی صنعت پرانی اور درآمد ہو رہی ہے۔ ان دعووں سے یہ گروہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکیوں کی براہ راست بات چیت کی پوزیشن کو مضبوط کیا جائے اور ایرانی حکام کو مذاکرات کے متن کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ حسام الدین آشنا کی حالیہ ٹویٹ میں ایران کی جوہری صنعت کو "پرانی اور درآمد شدہ" قرار دینے کا مقصد رائے عامہ میں ایران کی نااہلی کو ابھارنا ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر ایران کی جوہری ٹیکنالوجی بے کار ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی اسے تباہ کرنے کی اتنی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔؟

اسلامی جمہوریہ ایران کو ان مذاکرات میں ایک کثیر جہتی کھیل یا چومکھی جنگ کا سامنا ہے، جس میں چوکسی اور اسٹریٹجک انتظام کی سخت ضرورت ہے۔ اب تک ایران بالواسطہ مذاکرات کے اصول کو برقرار رکھتے ہوئے اور عمان کو ثالث کے طور پر منتخب کرکے پہل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ تاہم، دشمن فوجی دھمکیوں، نفسیاتی کارروائیوں اور اندرونی دھڑوں کو بھڑکا کر دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ایران کی طاقت مزاحمت اور سفارتی ذہانت کے خوبصورت امتزاج میں مضمر ہے۔ اس راستے سے کسی قسم کے انحراف کا فائدہ بہرحال دشمنوں کو ہی ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • حاجی کیمپ میں حج تربیت کے دوسرے مرحلے کا آغاز،21اپریل تک جاری رہیگا
  • طیارے سے آف لوڈ کیا گیا شخص ایئرپورٹ سے لاپتا؛ پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم
  • بھارتی ریاست بہار میں آسمانی بجلی گرنے سے 25 افراد ہلاک
  • پنجاب میں غیرقانونی غیرملکیوں کے انخلا کی مہم جاری، 9 ہزارسے زائد ڈی پورٹ
  • بھارتی ریاست بہار میں ژالہ باری اور آسمانی بجلی گرنے سے 25 افراد ہلاک
  • ڈھاکا کی مسافر خاتون کی طبیعت خراب، طیارے کی کراچی میں ایمرجنسی لینڈنگ
  • مجرمانہ سرگرمیوں پر ڈی پورٹ پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کیے جائیں گے، وزیر داخلہ
  • ڈی پورٹ ہونے والے 53 ہزار پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کردیئے گئے
  • بھارت؛ بوائے فرینڈ کے ساتھ دہلی جانے والی لڑکی کو والد نے غصے میں بدترین سزا دے دی
  • بالواسطہ مذاکرات اور چومکھی جنگ