امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان پر دفتر خارجہ کا درعمل
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
اسلام آباد:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق بیان پر ترجمان دفتر خارجہ نے درعمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینوں کو ان کے زمین سے ہٹانے سے متعلق بیان ناانصافی پر مبنی ہے۔
ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ فلسطین پر مؤقف واضح ہے، ہماری پالیسی جو 1947 سے آرہی ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینوں کو ان کے زمین سے ہٹانے سے متعلق بیان ناانصافی پر مبنی ہے، پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے، غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی اسرائیلی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری پر ان خلاف ورزیوں کو بند کرانے کے لیے زور دیتے ہیں 1947 سے فلسطین کے بارے یہی پالیسی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ امریکہ کا علم نہیں، بلاول بھٹو کی ناشتہ پر امریکی صدر سے ملاقات کا علم نہیں، ان کی ملاقاتوں کے بارے پارٹی بتا سکتی ہے فارن افس کے شیڈول میں نہیں ہے۔
ترجمان نے کہا کہ غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کی واپسی غیر قانونی نہیں ہے، ہم اس حوالے سے تمام متعلقہ ممالک کے ساتھ رابطے میں ہیں، ہم افغانوں کی تیسرے ملک منتقلی کے حوالے متعلقہ ممالک سے رابطہ میں ہیں، یقین ہے راولپنڈی اور اسلام آباد میں تمام 20 لاکھ افغان مقیم نہیں ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 فروری 2025ء) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ غزہ سے فلسطینیوں کو ''مستقل طور پر‘‘ کہیں اور آباد کیا جا سکتا ہے اور امریکہ اس علاقے پر کنٹرول حاصل کر کے اسے اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے۔ ان کے اس بیان کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔
سعودی عرب کا ردعملسعودی عرب نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔ سعودی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''سعودی عرب فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 'صاف اور واضح انداز میں‘ سعودی مملکت کے موقف کی توثیق کی ہے، جو کسی بھی حالت میں کسی بھی دوسری طرح کی تشریح کی اجازت نہیں دیتا۔
(جاری ہے)
‘‘ غزہ پٹی فلسطینیوں کی ملکیت ہے، جرمنیجرمنی کی خاتون وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا ہے کہ غزہ پٹی فلسطینیوں کی ہے جبکہ ان کی بے دخلی ناقابل قبول اور بین الاقوامی قانون کے منافی ہو گی۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ نئے مصائب اور نئی نفرت کا باعث بھی بنے گا ... فلسطینیوں کے سروں کی قیمت پر کوئی حل نہیں ہونا چاہیے۔
‘‘ برطانیہ کی طرف سے منصوبے کی مخالفتبرطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے بھی صدر ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے، ''ہم ہمیشہ سے ہی اپنے اس یقین میں واضح رہے ہیں کہ ہمیں دو ریاستی حل تلاش کرنا چاہیے۔ ہمیں فلسطینیوں کو ان کے آبائی علاقوں، غزہ پٹی اور مغربی کنارے میں رہتے ہوئے خوشحال دیکھنا چاہیے۔
‘‘ فرانس کسی بھی جبری بے دخلی کا مخالففرانس کی وزارت خارجہ کے ترجمان کرسٹوف لیموئن نے صدر ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے، ''فرانس غزہ پٹی کی فلسطینی آبادی کی کسی بھی جبری نقل مکانی کے خلاف اپنے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ یہ (ایسی جبری بے دخلی) بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی اور فلسطینیوں کی جائز امنگوں پر حملے کے مترادف ہونے کے علاوہ دو ریاستی حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ اور ہمارے قریبی شراکت داروں مصر اور اردن کے ساتھ ساتھ پورے خطے کے لیے بھی ایک بڑے عدم استحکام کا باعث ہو گی۔
‘‘عرب ممالک کا غزہ سے فلسطینیوں کی مجوزہ بےدخلی کے خلاف خط
غزہ فلسطینیوں کا ہے، اسپینہسپانوی وزیر خارجہ خوسے مانوئل البارس نے بھی دیگر یورپی ممالک کا موقف اپناتے ہوئے کہا ہے، ''میں اس پر بالکل واضح بات کرنا چاہتا ہوں۔ غزہ وہاں کے فلسطینیوں کی سرزمین ہے اور انہیں غزہ میں ہی رہنا چاہیے۔ غزہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہے، جس کی اسپین حمایت کرتا ہے اور اسے اسرائیلی ریاست کی خوشحالی اور حفاظت کی ضمانت کے ساتھ ساتھ رہنا ہے۔
‘‘ روس کا موقفکریملن کے ترجمان دمیتری پیسکوف نے کہا ہے کہ روس کے خیال میں مشرق وسطیٰ میں تصفیہ دو ریاستی حل کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ وہ اصول ہے، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قرارداد میں درج ہے۔ یہ وہ اصول ہے، جسے اس مسئلے میں شامل ممالک کی بھاری اکثریت نے شیئر کیا ہے۔ ہم اس سے آگے بڑھتے ہیں، ہم اس کی حمایت کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ یہ واحد ممکنہ آپشن ہے۔
‘‘ چینی وزارت خارجہ کا بیانچین کی وزارت خارجہ نے اس تناظر میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے، ''چین کو امید ہے کہ تمام فریق جنگ بندی اور تنازعے کے بعد کی حکمرانی کو، دو ریاستی حل کی بنیاد پر مسئلہ فلسطین کو صحیح راستے پر واپس لانے کے لیے استعمال کریں گے۔‘‘
امریکی صدر کا منصوبہ ناقابل قبول ہے، ترکیصدر ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان کا کہنا تھا کہ غزہ پر قبضے کے منصوبے کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تبصرے 'ناقابل قبول‘ ہیں۔
فلسطینیوں کو ''مساوی تقسیم سے باہر‘‘ نکالنے کا کوئی بھی منصوبہ مزید تنازعات کا باعث بنے گا۔ حماس کا ردعملحماس کے سینیئر عہدیدار سامی ابو زہری نے کہا ہے، ''غزہ پٹی میں ہمارے لوگ ان منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کے خلاف (اسرائیلی) قبضے اور جارحیت کو ختم کیا جائے، نہ کہ انہیں ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا جائے۔
‘‘ فلسطینی صدر محمود عباس اور فلسطینی قیادت کا ردعملفلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ فلسطینی اپنی زمین، حقوق اور مقدس مقامات سے دستبردار نہیں ہوں گے اور یہ کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے ساتھ ساتھ غزہ پٹی بھی فلسطینی ریاست کی سرزمین کا اٹوٹ حصہ ہے۔
ایران کا ردعملایران کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''ایران فلسطینیوں کی کسی بھی نقل مکانی سے اتفاق نہیں کرتا اور اس نے مختلف چینلز کے ذریعے (امریکہ کو) اس سے آگاہ کر دیا ہے۔
‘‘ آئرلینڈ دو ریاستی حل کے حق میںآئرلینڈ کے وزیر خارجہ سائمن ہیرس کا کہنا تھا، ''یہاں سفر کی سمت بالکل واضح ہے، ہمیں دو ریاستی حل کی ضرورت ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے عوام دونوں کو ہی اپنی اپنی ریاستوں میں محفوظ طریقے سے ساتھ ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے اور اسی پر توجہ دی جانا چاہیے۔ غزہ کے لوگوں کو کسی اور جگہ بے گھر کرنے کا کوئی بھی خیال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے واضح طور پر متصادم ہو گا۔
‘‘ آسٹریلوی وزیر اعظم کا بیانآسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا ہے، ''آسٹریلیا کی پوزیشن وہی ہے، جو آج صبح تھی، جیسے کہ وہ گزشتہ سال بھی تھی۔ آسٹریلیا کی حکومت دو طرفہ بنیادوں پر دو ریاستی حل کی حمایت کرتی ہے۔‘‘
ا ا/ا ب ا، م م (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)