کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی آسٹریلوی ٹیم کے اسٹار آل راؤنڈر مارکس اسٹوئنس نے فوری طور پر ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ہے تاہم اب وہ ٹی20 کرکٹ میں مزید توجہ سے شرکت کریں گے۔

مارکس اسٹوئنس کو آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 میں شرکت کے لیے آسٹریلوی ٹیم کے ابتدائی 15 رکنی اسکواڈ میں شامل کیا گیا تھا، لیکن ان کی ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اب ان کے متبادل کھلاڑی کو 12 فروری تک حتمی اسکواڈ میں شامل کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: چیمپیئنز ٹرافی سے قبل آسٹریلیا کو ایک اور جھٹکا، پیٹ کمنز کی شرکت مشکوک، اگلا کپتان کون ہوگا؟

اسٹار آسٹریلوی آل راؤنڈر کو حال ہی میں جنوبی افریقہ ٹی20  لیگ میں ڈربن کے سپر جائنٹس کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے، جہاں مبینہ طور پر بولنگ کے دوران انھیں ہلکی ہیمسٹرنگ انجری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اپنے ون ڈے کرکٹ کے دنوں کے خاتمے پر مارکس اسٹوئنس کی جانب سے اپنے کیریئر کے آخری مرحلے کو آسٹریلیا اور فرنچائز کی سطح پر ٹی20 فارمیٹ کے لیے وقف کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: آسٹریلیا کا بڑا نقصان، اہم کھلاڑی چیمپیئنز ٹرافی سے آؤٹ

مارکس اسٹوئنس نے اپنا ون ڈے ڈیبیو 2015 میں انگلینڈ کے خلاف کیا تھا، وہ اب تک 71 ون ڈے میچ کھیل چکے ہیں، ان میچوں میں انہوں نے 64 اننگز میں 1495 رنز بنائے ہیں، جس میں ناقابل شکست 146 بھی شامل ہے، جو انہوں نے ایڈن پارک میں نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلتے ہوئے بنائے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آسٹریلوی آسٹریلیا آل راؤنڈر انجری مارکس اسٹوئنس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا سٹریلوی ا سٹریلیا مارکس اسٹوئنس چیمپیئنز ٹرافی مارکس اسٹوئنس ا سٹریلوی

پڑھیں:

لاہور کا لالہ جو کرکٹ کی تاریخ میں امر ہوگیا

ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیموں کا 1952 میں پہلی بار ٹیسٹ کرکٹ میں آمنا سامنا ہوا۔ دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان کی ٹیم عبدالحفیظ کاردار اور انڈین ٹیم لالہ امرناتھ کی کپتانی میں میدان میں اتری تھی۔ تقسیم سے پہلے یہ دونوں کھلاڑی مختلف وقتوں میں اندرونِ لاہور کے گلی کوچوں میں کرکٹ کھیلتے ہوئے پروان چڑھے تھے۔ کاردار بھاٹی دروازے کی ’جم پَل‘ تھے اور لالہ امر ناتھ کی سکونت شاہ عالمی میں تھی۔

لاہور میں کرکٹ کی رونقوں کا مرکز منٹو پارک دونوں کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ اسی جگہ کریسنٹ کرکٹ کلب کا نیٹ لگتا تھا جس سے یہ دونوں صاحبان وابستہ رہے تھے۔ ایک دن اتفاق سے کرکٹ کوچ ماسٹر روپ لال نے لالہ امرناتھ کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو ان کے ٹیلنٹ سے متاثر ہوئے اور انہیں کریسنٹ کرکٹ کلب کا حصہ بنا لیا۔ ماسٹر روپ لال ریلوے میں ملازم تھے۔ فضل محمود کی کتاب ‘ فرام ڈسک ٹو ڈان’ سے لالہ امرناتھ کے بھی ریلوے میں کام کرنے کی خبر ملتی ہے۔

کریسنٹ کلب کی طرف سے خوب سے خوب تر کارکردگی کی دُھن لالہ امر ناتھ کے دماغ پر سوار رہتی تھی۔ عمدہ کھیل کے باعث مقامی کرکٹ میں جلد ہی ہر سو ان کا چرچا ہونے لگا۔ کانٹے دار مقابلوں سے انہو نے پختہ کار کھلاڑی بننے کے اس سفر کا آغاز کیا جس کی منزل آل انڈیا کرکٹ ٹیم میں شمولیت تھی۔

عبدالحفیظ کاردار نے اپنی کتاب ‘میموئرز آف این آل راؤنڈر ‘ میں کلب کرکٹ کے بارے میں اپنے تاثرات میں ممدوٹ کرکٹ کلب اور کریسنٹ کی حریفانہ کشاکش کے بارے میں لکھا ہے اور اس مسابقتی ماحول میں مختلف کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلنے کے تجربے سے متعلق بتایا ہے ۔ اور تو اور اختتام ہفتہ کو ہونے والے میچ بھی ٹیسٹ میچ ایسے جوش سے معمور ہوتے تھے۔ کاردار کلب کرکٹ میں خود کو وقف کر دینے والے منتظمین کا تذکرہ کرتے ہیں جو ان کے خیال میں آج کی کرکٹ میں نہیں رہے۔ کاردار نے یہ بات 38 سال پہلے شائع ہونے والی کتاب میں لکھی تھی۔ اب تو ایسے بے لوث کردار اور بھی کم یاب ہوگئے ہیں۔ کرکٹ پر ہی کیا موقوف باقی شعبوں میں بھی ایسے مخلصین کا توڑا ہے۔ استحصالی معاشروں میں ایسے کرداروں نے رفتہ رفتہ معدوم ہونا ہی ہوتا ہے۔کاردار اور امرناتھ خوش نصیب تھے کہ انہوں نے وہ زمانہ پایا جس میں یہ بلند کردار موجود تھے۔

لالہ امرناتھ کی کرکٹ میں دوڑ دھوپ کی ایک جھلک سابق ٹیسٹ امپائر اور شاہ عالمی میں ان کے ہمسائے منور حسین کی ان کے بارے میں گفتگو میں بھی ملتی ہے۔ منور حسین نے لالہ امرناتھ کے مرنے کے بعد معروف کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو سے اپنی یادوں کا ساجھا کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ لالہ امر ناتھ بہت سرگرم اور محنتی کھلاڑی تھے۔ صبح سویرے جسمانی ورزش کے لیے منٹو پارک جاتے اور بعد میں نیٹ پر بھی سب سے پہلے پہنچتے تھے۔ فٹنس کے لیے ان کی سحر خیزی سے کاردار کا خیال آتا ہے۔ وہ بھی اپنے تشکیلی دور میں باقاعدگی سے صبح تڑکے رننگ اور ورزش کرتے تھے۔ ایک دن رستے میں امتیاز احمد اور دیگر ساتھی کرکٹروں کو گھروں کی طرف لوٹتے دیکھا تو انہیں حیرانی ہوئی کہ یہ سب تو ان سے بازی لے گئے لیکن جب معلوم ہوا کہ یہ صاحبان فلم کا لیٹ نائٹ شو دیکھ کر آ رہے ہیں تو کاردار نے اطمینان کا سانس لیا۔

کاردار ممدوٹ کرکٹ کلب چھوڑ کر کریسنٹ میں گئے تھے۔ لالہ امر ناتھ ہندو جم خانہ کی طرف سے کھیلتے تھے لیکن منور حسین کے مطابق تیس کی دہائی کے معروف بولر استاد گل کی ترغیب پر وہ کریسنٹ کی نمائندگی کرنے لگے۔ لالہ امر ناتھ کے بیٹے راجندر امرناتھ نے اس کلب سے ان کے منسلک ہونے کا کریڈٹ ماسٹر روپ لال کو دیا ہے۔ پیٹر اوبورن کی کتاب ‘وونڈڈ ٹائیگر’ کے مطابق توکل مجید کی وجہ سے وہ اس کلب سے متعلق ہوئے تھے۔

ایک واقعے سے امر ناتھ کے کلب کرکٹ میں میچ ونر کھلاڑی ہونے کا پتا چلتا ہے۔ اس کے بارے میں بھی دو مختلف روایتیں ہیں۔ راجندر امرناتھ نے اپنی کتاب “دی میکنگ آف اے لیجنڈ ، لالہ امرناتھ لائف اینڈ ٹائمز” میں لکھا ہے کہ جب لالہ امرناتھ ہندو ٹیم کا حصہ تھے تو ان کی حریف مسلمان ٹیم کے حامیوں نے میچ سے ایک دن پہلے ان پر انارکلی بازار میں لاٹھیوں سے حملہ کر دیا۔ حملہ آور کہہ رہے تھے ’’امرناتھ کی ہڈیاں توڑ دو‘‘ لیکن دوستوں نے ان کی ڈھال بن کر اپنے بدن پر وار سہے۔ بعد میں ان کے ہندو حامیوں نے انہیں اس ناخوشگوار صورت حال سے نجات دلائی۔ منور حسین نے اس واقعے کو ہندو مسلم تنازع کی بجائے ممدوٹ اور کریسنٹ کرکٹ کلب کی حریفانہ کشمکش کے تناظر میں بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ لڑائی رام سرن داس کے نام سے ہر سال کھیلے جانے والے ٹورنامنٹ کے فائنل سے پہلے کی بات ہے جو کریسنٹ اور ممدوٹ کلب کے درمیان ہونا مقرر تھا۔

آغا اشرف کی کتاب ’ایک دل ہزار داستان‘ میں تقسیم سے پہلے مردم خیز اندرون لاہور سے اٹھنے والے بہت سے کرکٹروں کا تذکرہ ہے جن میں کاردار اور لالہ امرناتھ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے رام سرن داس کرکٹ ٹورنامنٹ کے دنوں میں لاہور کی فضا کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:

‘دسمبر کے آخری دس دنوں کی کرسمس کی چھٹیوں میں لاہور کی سب سے بڑی گراؤنڈ منٹو پارک میں رام سرن داس کرکٹ ٹورنامنٹ ہوا کرتی تھی ۔ سارے پنجاب کی ٹیمیں اس میں شرکت کیا کرتی تھیں۔ان وقتوں میں منٹو پارک کے گردا گرد قناتیں تان دی جاتی تھیں اور چاروں طرف چوکیدار بٹھا دیے جاتے تھے کہ کوئی بغیر ٹکٹ کے اندر داخل نہ ہونے پائے. ٹورنامنٹ کے دنوں میں بڑی گہما گہمی ہوتی تھی منٹو پارک میں۔ لاہور شہر میں ایک دوسرا لاہور بس جاتا تھا۔’

لاہور کی مقامی کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کے بعد امر ناتھ کا چرچا ہونے لگا۔ خوش قسمتی سے وہ پٹیالہ کی کرکٹ ٹیم سے وابستہ آسٹریلین کوچ فرینک ٹیرنٹ کی نظروں میں آگئے تھے۔ فرینک ٹیرنٹ کو ان کا کھیل اس قدر بھایا کہ انہوں نے انڈین کرکٹ بورڈ کو خط میں لالہ امرناتھ کے وکٹ کیپر اور بلے باز کی حیثیت سے صلاحیت کی بے حد تعریف کی اور انہیں انڈین ٹیم کا حصہ بنانے کی تجویز دی۔ بورڈ نے اس تجویز کو پذیرائی نہ بخشی تو امرناتھ دل شکستہ ہونے کی بجائے اسی بات پر شاداں و فرحاں تھے کہ ان کا نام آل انڈیا ٹیم کے لیے تجویز کیا گیا تھا۔

سن 1933میں میریلیبون کرکٹ کلب (ایم سی سی) نے انڈیا کا دورہ کیا تو لاہور میں ناردرن انڈیا کے خلاف میچ میں امرناتھ کو موقع ملا لیکن وہ اس آزمائش میں ناکام رہے۔ مہاراجہ بھوپندر سنگھ آف پٹیالہ ان کی کارکردگی سے ناخوش تھے لیکن ٹیرنٹ اپنی رائے پر قائم رہے اور انہوں نے مہاراجہ کو امرتسر میں پٹیالہ اور ایم سی سی کے درمیان میچ میں امرناتھ کو ٹیم میں شامل کرنے پر راضی کرلیا۔

امرناتھ نے اس میچ میں ابھی 3 رنز ہی بنائے تھے کہ گیند ان کے بلے سے چھو کر وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ مہمان ٹیم کے کھلاڑیوں نے زور دار اپیل کی لیکن امپائر ٹس سے مس نہیں ہوا۔ خیر سے یہ امپائر کوئی اور نہیں امرناتھ کے پشتی بان ٹیرنٹ ہی تھے جو اپنے بیٹے لارنس کے ساتھ میچ میں امپائرنگ کر رہے تھے۔

اوور کے اختتام پر ایم سی سی کے کپتان جارڈن امرناتھ کے پاس گئے اور کہا گیند بلے سے لگی تھی؟ امرناتھ نے کہا یقینی طور پر آواز تو آئی تھی۔ اس پر برافروختہ جارڈن کہنے لگے یہ آواز تو سڈنی تک صاف سنائی دی ہو گی۔ یہ اشارہ اس آسٹریلین امپائر کی طرف جس نے امرناتھ کا آؤٹ پی لیا تھا۔ امپائر کی بخشی نئی زندگی ملنے کے بعد امرناتھ رکے نہیں اور شان دار سنچری سکور کی۔ اس عمدہ بلے بازی پر لاہور کے اس لڑکے کی بلّے بلّے ہو گئی۔ امرناتھ نے پٹیالہ کی طرف سے کھیلتے ہوئے ایک اور عمدہ اننگز کھیلی تو انڈین سلیکشن کمیٹی کے رکن ایچ ڈی کانگا نے انہیں بمبئی میں آل انڈیا کرکٹ ٹیم میں شمولیت کے لیے ہونے والے ٹرائل میچوں میں شرکت کے لیے بلا لیا۔ خوابوں کی تعبیر کا وقت قریب آرہا تھا۔

ابتدائی دو ٹرائل میچوں میں امرناتھ ناکام رہے لیکن تیسرے میچ میں انہوں نے پہلی اننگز میں پچاس اور دوسری میں ناقابلِ شکست 78 رنز بنا کر آل انڈیا کرکٹ ٹیم میں جگہ بنالی۔ 15 دسمبر 1933 کو بمبئی میں انگلینڈ اور انڈیا کے درمیان ٹیسٹ میچ سے لالہ امرناتھ کے ٹیسٹ کریئر کا آغاز ہوا۔ پہلی اننگز میں انہوں نے انڈین ٹیم کی طرف سے سب سے زیادہ 38 رنز بنائے لیکن اصل ہنر تو دوسری اننگز میں سامنے آیا جب انہوں نے شان دار سنچری سکور کی اور یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے انڈین کھلاڑی بن گئے۔ انہوں نے پہلے ٹیسٹ میں سنچری بنانے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔

اس پرفارمنس پر حریف کپتان جارڈن سے بھی داد وصول کی لیکن تماشائیوں نے آسمان پر اٹھا لیا جن کی بڑی تعداد اس ہیرو کو مبارک باد دینے گراؤنڈ میں اتر آئی تھی۔ امر ناتھ پر قیمتی انعامات کی بارش ہونے لگی اور ان کے وارے نیارے ہوگئے۔ فرنٹیئر میل سے وہ لاہور پہنچے تو ریلوے اسٹیشن پر ان کے استقبال کے لیے آئے ہجوم نے انہیں محاورے کے مطابق سر آنکھوں پر بٹھایا اور عملاً کندھوں پر اٹھا لیا۔

سن 1936 میں وہ دورۂ انگلینڈ کے لیے انڈین ٹیم کی امیدوں کا مرکز تھے لیکن پہلا ٹیسٹ شروع ہونے سے پہلے ہی کپتان سے اختلافات کی وجہ سے انہیں ہندوستان واپس بھیج دیا گیا۔ واپسی کے لیے جہاز پر سوار ہوتے وقت کی تصویر امرناتھ کی بے بسی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ یہ واقعہ ایک ایسا المیہ ہے جس نے ان کے بین الاقوامی کرکٹ کریئر کو نقصان پہنچایا اور پھر تیسرے سے چوتھے ٹیسٹ کے لیے انہیں 12 برس کا انتظام کرنا پڑا۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد 1946 میں ان کی ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی ہوئی تو اب وہ بیٹر کی بجائے بولر کی حیثیت سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئے کیوں کہ ٹیسٹ کرکٹ میں وکٹ کیپنگ کا موقع نہ ملنے پر انہوں نے بولنگ کی طرف توجہ دینی شروع کر دی تھی۔

چالیس کی دہائی میں کاردار نے بھی کرکٹ میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کر دیا تھا۔ کلب کرکٹ کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے نمایاں ہوئے جس کے وہ کپتان بھی رہے تھے۔ انڈیا کی ٹیم میں لالہ امرناتھ کا ساتھی بننے سے پہلے ہندوستان میں دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل کھیلتے رہے تھے۔ کاردار کی کتاب میں ان کا تذکرہ موجود ہے اور وہ 1942 میں پنجاب یونیورسٹی کے خلاف گورنر پنجاب الیون کی طرف سے لاہور میں امر ناتھ کی شاندار ڈبل سنچری کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس سے پہلے اور بعد میں ایسی شان دار کور ڈرائیونگ دیکھنے کا لطف انہیں دوبارہ نہیں ملا۔ ان کے نزدیک یہ کرکٹ کی شاعرانہ قسم تھی جس کے بیان کے لیے وہ عجزِ بیان ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس سے نیول کارڈس اور رے رابنسن جیسے رائٹر ہی انصاف کرسکتے ہیں۔

کاردار رفتہ رفتہ کرکٹ میں کامیابیاں سمیٹتے گئے۔ انہوں نے ناردرن انڈیا کی طرف سے پہلا انٹر پرووینشل میچ سدرن پنجاب کے خلاف کھیلا جس کے کپتان لالہ امرناتھ تھے۔ اس میچ میں کاردار نے 95 رنز بنا کر ظاہر کر دیا کہ کرکٹ میں ان کا مستقبل تاب ناک ہے۔ 1946 میں رانجی ٹرافی کے سیمی فائنل میں انہوں نے 145 رنز بنائے لیکن اس سے پہلے آسٹریلین سروسز الیون کے خلاف میچ میں بیٹنگ اور بولنگ میں شان دار کارکردگی نے انہیں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنایا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب عبدالحفیظ کاردار اور لالہ امرناتھ 1946 میں انگلینڈ کے خلاف لارڈز ٹیسٹ میں انڈیا کی نمائندگی کر رہے تھے۔

کاردار نے پہلی اننگز میں 43 رنر بنائے اور دوسری اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے۔ لالہ امرناتھ 12 سال بعد ٹیسٹ میچ کھیل رہے تھے۔ انگلینڈ کے خلاف انڈیا میں پہلے ٹیسٹ کو انہوں نے سنچری کے ذریعے ناقابلِ فراموش بنایا تھا لیکن اس کی سرزمین پر انہوں نے پہلی اننگز میں پانچ کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ ان کھلاڑیوں میں لین ہٹن، ویلی ہیمنڈ اور ڈینس کامپٹن جیسے بڑے کھلاڑی شامل تھے۔ دوسری اننگز میں امرناتھ نے نصف سنچری بنائی تھی۔

اس دورے کے بعد کاردار انگلینڈ میں آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے رک گئے جہاں وہ یونیورسٹی کی ٹیم میں آل راؤنڈر کی حیثیت سے کھیلتے تھے۔ واروکشائر کاؤنٹی سے بھی ان کی وابستگی رہی۔اکتوبر 1950 میں وہ پاکستان لوٹے تو ان کی شخصیت میں بدلاؤ آچکا تھا۔ اب وہ بھاٹی کے پہلے والے عبدالحفیظ نہیں تھے۔ ان کے نام میں کاردار کا اضافہ ہو چکا تھا اور وہ اپنے قبیلے کے بزرگ اور فلمی دنیا کی بڑی ہستی اے آر کاردار( عبد الرشید کاردار)کی طرز پر اے ایچ کاردار بن گئے تھے۔ ان کے رویے میں عام لوگوں سے ہی نہیں قریبی دوستوں سے برتاؤ میں بھی احساس برتری نظر آتا تھا۔

اس بارے میں فضل محمود نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ اب پرانے دوستو ں کو بھی “ہیلو” کہہ کر آگے بڑھ جاتا تھا۔ کاردار نے اپنی شخصیت کو بنا سنوار لیا تھا اور اب بھاٹی کے پرانے بے تکلفانہ انداز اور آرائش سے پاک زندگی سے منہ موڑ لیا تھا۔ مزاج کی اس تبدیلی میں ایک وجہ غالباً پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی بھی رہی ہو گی۔ لیکن لالہ امرناتھ نے کپتان بن کر بھی اپنی پرانی وضع قائم رکھی۔ وہ اپنے دیرینہ لاہوری دوستوں سے بے تکلفی سے گفتگو کرتے تھے۔

پاکستانی کرکٹر نذر محمد سے امر ناتھ کا تقسیم سے پہلے کے زمانے سے تعلق تھا۔ وہ 1952 میں انڈیا کا دورہ کرنے والی پہلی پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصہ تھے جس میں انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے لکھنؤ ٹیسٹ میں پہلی سنچری بنانے کا اعزاز حاصل کیا جس میں یہ خوشی بھی شامل تھی کہ پاکستان کی یہ ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی کامیابی تھی۔ اس ٹیسٹ سیریز کے بعد نذر محمد کا کریئر آگے نہ بڑھ سکا۔ 1953 میں وہ نور جہاں کی محبت میں ایسے گھائل ہوئے کہ پھر پاکستان کی طرف سے کھیلنا نصیب نہ ہو سکا۔ امر ناتھ 55-1954 میں انڈین ٹیم کے ساتھ منیجر کی حیثیت سے پاکستان آئے تو لاہور میں انہوں نے نذر محمد سے کرکٹ نہ کھیلنے کی وجہ دریافت کی تھی۔ اس پر نذر محمد نے مرزا غالب کا یہ شعر انہیں سنا دیا:

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
اس کے بعد نذر محمد نے نور جہاں سے اپنی محبت کی کتھا انہیں سنائی جس میں ایک موڑ پر انہیں چھت سے چھلانگ لگانی پڑی تھی اور جس کے نتیجے میں لگنے والی چوٹ نے ان کے ٹیسٹ کریئر کا خاتمہ کر دیا تھا۔
دل چسپ بات ہے کہ امرناتھ نے انڈیا کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی سنچری بنائی تو پاکستان کے لیے یہ کارنامہ نذر محمد نے انجام دیا تھا۔ لالہ امرناتھ کے بیٹے سریندر امر ناتھ نے بھی اولین ٹیسٹ میں سنچری سکور کی تھی۔ ادھر نذر محمد نے انڈیا کے خلاف بیٹ کیری کیا تو ان کے بیٹے مدثر نذر نے بھی اسی ٹیم کے خلاف یہ کارنامہ انجام دیا۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں بیٹ کیری کرنے والی باپ بیٹے کی یہ پہلی جوڑی ہے۔ نذر محمد نے بیٹ کیری کیا تو حریف ٹیم میں لالہ امرناتھ شامل تھے۔ جب مدثر نے یہ اعزاز حاصل کیا تو امر ناتھ کے بیٹے مہندر امرناتھ نہ صرف انڈین ٹیم کا حصہ تھے بلکہ اس میچ میں انہوں نے بھی سنچری بنائی تھی۔

فضل محمود نے اپنی کتاب فرام ’ڈسک ٹو ڈان‘ میں لالہ امرناتھ کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے جس میں کرکٹر کی حیثیت سے ان کے کارناموں پر بھی بحث کی گئی ہے اور ان سے ذاتی تعلق کی کہانی بھی بیان کی ہے۔ 1947 میں آسٹریلیا کے لیے دورے میں فضل محمود نے پاکستان کی محبت میں انڈین ٹیم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا لیکن انہیں لالہ امرناتھ کا محبت آمیز رویہ ہمیشہ یاد رہا جنہوں نے ٹیلی گرام کے ذریعے ان سے کہا تھا کہ وہ یہ دورہ مس نہ کریں۔ فضل محمود لیکن اپنے فیصلے پر قائم رہے۔

1952 میں پاکستان کرکٹ ٹیم انڈیا کے دورے پر گئی تو لالہ امرناتھ حریف ٹیم کے کپتان تھے لیکن اپنے لاہوری دوستوں سے پنجابی میں ان کی چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی تھی۔ فضل محمود نے لکھا ہے کہ لکھنؤ ٹیسٹ میں جب پاکستان جیت کی طرف گامزن تھا تو امرناتھ انڈیا کی آخری امید اور پاکستان کی فتح کی راہ میں آخری رکاوٹ بن گئے تھے۔

جب وہ وکٹ پر آئے تو محمود حسین باؤلنگ کر رہے تھے ۔اس موقعے پر فضل محمود نے خالص لہوری سٹائل میں جس سے لالہ امرناتھ اچھی طرح واقف تھے کہا کہ ‘مودے ایدا سر پاڑ دے’ اس اننگز کے دوران لالہ امرناتھ کا ایک بہت آسان کیچ ذوالفقار احمد نے گرا دیا تو انہوں نے کہا یہ کیچ تو میری بیوی بھی پکڑ لیتی۔

فضل محمود نے امر ناتھ کی کرکٹ کی سوجھ بوجھ کی بھی بڑی تعریف کی ہے۔ 1955 میں کراچی ٹیسٹ میں جب دوسری اننگز میں پاکستان کی میچ پر گرفت مضبوط تھی اور کاردار اور علیم الدین وکٹ پر موجود تھے تو فضل محمود نے لالہ امرناتھ سے جو اس دورے میں ٹیم مینجر کی حیثیت سے ٹیم کے ساتھ تھے یہ کہہ دیا کہ پاکستان یہ میچ جیت سکتا ہے۔ لالہ نے پرتیقن انداز میں کہا کہ وہ ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر یہ میچ ڈرا کر سکتے ہیں۔ فضل محمود نے پر تجسس ہو کر پوچھا وہ کیسے؟ راز کی یہ بات بتانے سے پہلے یہ طے ہوا کہ فضل محمود یہ کسی کو نہیں بتائیں گے۔ لالہ امرناتھ نے بتایا کہ وہ پہلے تو کاردار کو آزادی سے سکور بنانے دیں گے ۔ لنچ کے بعد وہ مزید رنز بنانے کے بعد میچ کی نتیجے سے بے نیاز ہو کر سنچری کے چکر میں پڑ جائے گا۔ 70 کے سکور پر پہنچنے کے بعد ہم اسے رنز بنانے سے روکنے کی کوشش کریں گے اور وہ اپنی سنچری کے لیے قیمتی وقت ضائع کرے گا اور اس کوشش میں پاکستانی بولرز کے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچے گا کہ وہ ہمارے بلے باز آؤٹ کر سکیں۔

جب کھیل لالہ امرناتھ کے پلان کے تحت آگے بڑھنے لگا تو فضل محمود نے ’جنٹل مین کنٹریکٹ‘ کے تحت راز کی بات تو ٹیم کو نہیں بتائی لیکن کاردار پر اننگز ڈکلیئر کرنے کے لیے زور ڈالتے رہے لیکن انہوں نے یہ بات نہ سنی اور جب وہ 93 رنز پر آؤٹ ہوئے تو لالہ امرناتھ کا منصوبہ کامیاب ہو چکا تھا۔ فضل محمود نے لکھا کہ وہ آج بھی حیران ہوتے ہیں کہ کھیل کس طرح لالہ کے منصوبے کے مطابق آگے بڑھا۔ ان کے خیال میں وہ ایک زیرک منصوبہ ساز تھے۔

1978 میں دورہ پاکستان میں انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں سریندر اور مہندر کو عظیم پاکستانی باؤلر سے ملوایا تو کہا ‘پاپے دے گوڈیاں نو ہتھ لاؤ’ یعنی احتراماً فضل محمود کے گھٹنے چھونے کو کہا۔
ایک اور لہوری کرکٹر جس سے ان کا یارانہ رہا وہ گل محمد تھے۔ گل محمد نے نو میں سے سات ٹیسٹ امرناتھ کی کپتانی میں کھیلے جن میں سے دو ٹیسٹ پاکستان کے خلاف تھے۔ 1956 میں انہوں نے پاکستان کی طرف سے آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ کھیل کر دو ملکوں کی طرف سے ٹیسٹ میچ کھیلنے کا منفرد اعزاز حاصل کیا۔ اس سے پہلے عبدالحفیظ کاردار بھی یہ کارنامہ انجام دے چکے تھے۔

کہتے ہیں ایک تصویر ہزار لفظوں پر بھاری ہوتی ہے۔ لالہ امرناتھ اور گل محمد ایک تصویر میں دونوں جس گرم جوشی سے مل رہے ہیں اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شیروشکر ہونا کسے کہتے ہیں۔ گل محمد کی وجۂ شہرت ان کی بہترین فیلڈنگ تھی۔

2013 میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف نے پاک بھارت کرکٹ سیریز کو جناح گاندھی ٹرافی کا نام دینے کی تجویز پیش کی تو کسی نے اسے امرناتھ اور کاردار سے موسوم کرنے کا خیال پیش کیا کہ دونوں پہلی پاک انڈیا ٹیسٹ سیریز میں کپتان تھے۔ دونوں لیجنڈ کھلاڑی تھے اور سرحد سے آرپار مضبوط جڑیں رکھتے تھے۔ کاردار غیر منقسم ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کی طرف سے کھیل چکے تھے اور لالہ امرناتھ کا پاکستان میں بہت زیادہ احترام کیا جاتا تھا۔

یہ 2013 کی بات تھی، اب تو انڈیا اور پاکستان آئی سی سی ٹورنامنٹ بھی ایک دوسرے کے ملک میں نہ کھیلنے پر متفق ہو چکے ہیں ، اس لیے اب لیڈروں اور کھلاڑیوں کے نام سے سیریز منسوب کرنے کا خیال ’ایں خیال است و محال است و جنوں‘ کے مصداق بن چکا ہے۔

نامور انڈین تاریخ دان اور دانشور رام چندر گوہا اپنے ایک مضمون میں 1978 میں انڈین ٹیم کے پاکستان پہنچنے پر ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں جو ان کے لیے کرکٹ کی دل چسپ کہانیوں میں سے ہے۔ ائیرپورٹ پر ایک بس مہمان ٹیم کو ہوٹل لے جانے کے لیے موجود تھی اور ساتھ ہی ایک مرسیڈیز تھی۔ انڈین ٹیم کے منیجر مہاراجہ فتح سنگھ راؤ گائیکواڈ نے سمجھا یہ ان کے لیے ہے۔ وہ اس پر سوار ہونے کے شوق میں گاڑی کے دروازے کے قریب پہنچے تو ڈرائیور نے انہیں روک دیا اور بس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا “تم ادھر جاؤ یہ صرف لالہ صاحب کے لیے ہے۔” یہ تو سرکاری سطح پر امرناتھ کی پذیرائی کی مثال تھی اب عوامی سطح پر اس کی مثال بھی ملاحظہ کیجیے۔

1978 میں اٹھارہ سال کے بعد پاک بھارت ٹیسٹ سیریز کی صورت پیدا ہوئی اور انڈین کرکٹ ٹیم بشن سنگھ بیدی کی قیادت میں پاکستان پہنچی۔ پی ٹی وی نے ماہرانہ تبصروں کے لیے لالہ امر ناتھ کو مدعو کیا تھا۔ ان کی صحت اچھی نہیں تھی لیکن پرانے مترو سے ملاقات کے خیال نے انہیں پاکستان آنے پر آمادہ کر لیا۔ لاہور ایئر پورٹ پر انڈین ٹیم کا دیدنی استقبال ہوا۔ انڈین ٹیم میں لالہ امرناتھ کے دو بیٹے سریندر امرناتھ اور مہندر امرناتھ بھی شامل تھے جن سے لوگ ان کے والد کے بارے میں باتیں کر کے خوش ہورہے تھے۔

مہندر امرناتھ کے لیے یہ بات باعثِ حیرت تھی کہ طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی لوگوں کے دل میں ان کے والد کی یاد باقی تھی اور وہ انہیں اس قدر توقیر دیتے تھے۔ امرناتھ کا بھی لاہور میں بڑا سواگت ہوا اور انہیں یہ 1933 میں سنچری کے بعد لاہور میں والہانہ استقبال جیسا لگا۔ لیکن یہ فرق تھا کہ اب لاہور متحدہ ہندوستان کا ایک شہر نہیں تھا بلکہ پاکستان کا حصہ تھا۔ اس دورے سے ضیاء الحق کے ساتھ ان کی دوستی استوار ہوئی جو بعد میں مضبوط ہوتی گئی۔ 1982 میں سنیل گواسکر کی کپتانی میں انڈین ٹیم پاکستان آئی تو لالہ امرناتھ ایک بار پھر پی ٹی وی کی دعوت پر یہاں آئے اور لاہور سے محبتیں سمیٹ کر گئے۔

لاہوریوں کی لالہ امرناتھ سے محبتوں کے سلسلے کا ایک اہم واقعہ جو راجندر امرناتھ کی کتاب میں شامل ہے اس کے تذکرے پر ہم اپنی بات ختم کریں گے۔ ایک دن کی بات ہے لالہ امرناتھ اور پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے نمائندے جگن ناتھ راؤ رات گئے ایک سرکاری پارٹی سے فارغ ہو کر ہوٹل جانے کے لیے ٹیکسی میں سوار ہوئے۔ راستے میں امرناتھ لاہور میں بیتے دنوں کی باتیں کرتے رہے۔منزل پر پہنچ کر ان کے ہم سفر نے کرایہ دینے کے لیے پرس نکالا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ چھوٹے کرایہ نہیں دیتے۔ اس کے بعد امرناتھ نے ڈرائیور سے پوچھا:

بیٹا کتنے پیسے ہوگئے؟
“اسی پیسے نئیں لواں گے تہاڈھے توں”
“کیوں؟”
“تسی تاں لہور دی شان او”
جگن ناتھ راؤ اس سب سے بہت متاثر ہوئے:

“سکیپر کی پاکستان میں جو حقیقی عزت تھی میں نے دنیا بھر میں وہ کسی اور کرکٹر کے لیے نہیں دیکھی۔ ڈرائیور انہیں کھیلتے تو نہیں دیکھ سکا ہو گا لیکن ہاں اس نے کرکٹ کے میدان میں ان کی کامیابیوں کی کہانیاں ضرور سنی ہوں گی۔ اگر آپ سکیپر کے ساتھ شاپنگ کے لیے جاتے تو آپ کو کسی چیز کی ادائیگی کی ضرورت نہیں تھی۔ سکیپر حقیقی معنوں میں کرشماتی شخصیت تھے۔”

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسٹیڈیم جا کر پی ایس ایل کے میچز دیکھیں اور پائیں قیمتی انعامات، پی سی بی کا بڑا اعلان
  • شائقین کی تعداد بڑھانے کیلئے انعامات کی برسات کا اعلان، کیا کچھ ملے گا؟
  • لاہور کا لالہ جو کرکٹ کی تاریخ میں امر ہوگیا
  • ‘شرمندہ کرنا بند کریں’، میچ کے بہترین کھلاڑی کو ہیئر ڈرائیر دینے پر کراچی کنگز انتظامیہ تنقید کی زد میں
  • فلسفہ بیگانگی اور مزدور کا استحصال
  • پی ایس ایل میں سب سے زیادہ ٹرافی کس ٹیم نے اپنے نام کیں؟جانئے
  • پی ایس ایل 10کی افتتاحی تقریب کا راولپنڈی میں آغاز
  • پی ایس ایل جیتنے کیلئے پہلا قدم کل کا میچ ہے، ڈیوڈ وارنر
  • پی ایس ایل سیزن 10 کا آج سے آغاز، مگر اتنی خاموشی کیوں ہے؟
  • پی ایس ایل میں جتنی والی ٹیم کو کیا ملے گا؟ پی سی بی نے بڑا اعلان کردیا