استحکام کے آثار اور ریاست مخالف عناصر کی سازشیں
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
ملک استحکام کی راہ پر گامزن ہے۔ گزشتہ تین برسوں پر محیط سیاسی ہیجان کے بد اثرات اب دور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک نے مسلسل شرح سود کم کی ہے۔ افراط زر میں کمی بتدریج ہو رہی ہے۔ مثبت معاشی اشارئیے امید کی روشن کرن بن کر ابھرے ہیں۔ اس صورتحال سے ملک کا مجموعی تاثر بہتر ہو رہا ہے۔ صبح و شام ملک کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئیاں کرنے والے عناصر تلملا رہے ہیں۔ سٹاک ایکسچینج کے اعداد و شمار بھی حوصلہ افزا ہیں۔ بے یقینی کے سائے دور ہونے سے معاشی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے تجزیات کے مطابق آنے والے سال میں معاشی استحکام مزید بہتر ہوگا۔ پاکستان میں اندرونی استحکام کی بحالی پر بعض حلقے ماتم کناں ہیں۔ بعض ملک دشمن عناصر سرحد پار سے متحرک ہیں۔ جبکہ بعض نادان دوستوں کی آنکھوں پر غیر سنجیدہ سیاست کی پٹی بندھی ہے۔ دہشت گردی کا عفریت پوری قوت سے حملہ آور ہو رہا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ دہشت گردوں کے اولین ہدف بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین سے اٹھنے والی سرحد پار دہشت گردی کی آندھی کے سامنے تمام پاکستانی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جری جوان سینہ سپر ہیں۔ یہ سوال جواب طلب ہے کہ افغان طالبان کی عبوری حکومت کی ناک کے نیچے پاکستان دشمن خوارج کیوں کر سرگرم عمل ہیں؟ امریکی اسلحہ کس طرح دہشت گرد خوارج تک پہنچ رہا ہے؟ افغان طالبان کے غیر تسلی بخش اور جارحانہ روئیے کی تشریح کرنا مشکل نہیں۔ کا لعدم ٹی ٹی پی کے خارجی دہشت گردوں کو افغان طالبان کے بعض مشکوک عناصر کی تائید اور امداد حاصل ہے۔
گزشتہ ہفتے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد خارجیوں کے ساتھ واصل جہنم ہونے والے بدر الدین عرف سیف نامی افغان شہری کی شناخت ہونے پر انکشاف ہوا ہے کہ وہ بادغیس صوبے کے نائب گورنر کا بیٹا تھا۔ یہ امر تعجب خیز ہے کہ ان خوارج کے قبضے سے امریکی اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ سرحد پار سے آنے والے خوارج کی لاشوں کو افغان حکام وصول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ظاہر ہے لاش وصول کر لینے سے افغان حکومت کے وہ دعوے جھوٹ ثابت ہو جائیں گے جن میں وہ خوارج سے تعلق کی نفی کرتے رہے ہیں۔ بدر الدین کی افغانستان میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے کے شواہد خفیہ اداروں کے پاس ہیں۔ ان واقعات کو بھارتی حکام اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں ہونے والی ملاقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو سرحد پار دہشت گردی کا پیچیدہ مسئلہ سمجھ میں آجاتا ہے۔ پاکستان مخالف دہشت گرد کالعدم گروہوں کی پشت پر بھارت کا ہاتھ ہے۔ بلوچستان میں کالعدم بی ایل اے اور اس کے ہم خیال گروہ ایک جانب ریاستی اداروں کو ہدف بنا رہے ہیں تو دوسری جانب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حقوق کی پامالی کا جھوٹا واویلا مچا رہے ہیں۔ معاشی بدحالی کا رونا رونے والے بھارت کے پروردہ نام نہاد بلوچ کامریڈ سی پیک کو سبوتاژ کر کے بلوچستان کی ترقی کی راہیں مسدود کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بلوچ دشمن ریاست مخالف ایجنڈا ہے۔ بھارت عالمی طاقتوں کی معاونت سے پاک چین اقتصادی تعلقات میں دراڑ ڈالنے کے لیے دہشت گردوں کے ہر گروہ کو بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں متحرک کر چکا ہے۔میڈیا رپورٹس میں پرتشدد احتجاج کی بدولت یومیہ اربوں روپے کے نقصانات کی تفصیلات سامنے آچکی ہیں۔ خیبر پختونخواہ اس وقت سرحد پار دہشت گردی کی زد میں ہے۔ کرم میں سر اٹھانے والی یورش نے صوبے کے حالات کو مزید پیچیدہ کر رکھا ہے۔ نظریہ پاکستان سے بغض رکھنے والے نام نہاد قوم پرست پوری شدت سے لسانی تعصب کی آگ بھڑکا کر انتشار پھیلا رہے ہیں۔ ایسے نازک حالات میں بار بار احتجاج کی آڑ میں وفاقی دارالحکومت پر یلغار کرنا غیر دانشمندی کی علامت ہے۔ اس طرح کے جارحانہ اقدامات سے یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف سے معاشی استحکام کے آثار برداشت نہیں ہو رہے۔ موجودہ حکومت کی مثبت کارگردگی تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ اور بیانیے کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ سیاسی انتشار اور ہیجان انگیز بیانیے کے بجائے تحریک انصاف اپنے حسن کارگردگی سے مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش کرے۔ سوشل میڈیا پر زہریلے پروپیگنڈے کی بجائے سیاسی مکالمے کو ترجیح دی جائے۔ گزشتہ دنوں حکومت سے مذاکرات میں بھی تحریک انصاف کا موقف فہم سے بالا رہا۔ خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت کی ناقص کارگردگی اور کرپشن پر خود تحریک انصاف کی صفوں سے انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ نئے صوبائی صدر کی تعیناتی سے تحریک انصاف کی صفوں میں انتشار کی لہر اٹھی ہے۔ اڈیالہ جیل میں اسیر بانی چیئرمین سے ملنے کے بعد وزیراعلیٰ گنڈا پور نے یہ بیان دیا ہے کہ سابق وزیراعظم نے انہیں صوبے میں 40دن کے اندر کرپشن ختم کرنے کا فریضہ سونپا ہے۔ یہ بیان دراصل صوبے میں جاری بدعنوانی کا واضح اعتراف ہے۔ ملک میں استحکام کی بحالی کے لئے انتشار اور ہیجان کو ترک کر کے کارگردگی اور سیاسی مکالمے کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: افغان طالبان تحریک انصاف سرحد پار رہے ہیں رہا ہے
پڑھیں:
وفاقی حکومت کا غیر اعلانیہ طور پر افغان شہریوں کو راولپنڈی اسلام آباد سے واپس بھیجنے کا فیصلہ
اسلام آباد(نیوزڈیسک)حکومت پاکستان نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو خاموشی سے منتقل کرنے اور انہیں مرحلہ وار وطن واپس بھیجنے کا منصوبہ تیار کر لیا ۔ ذرائع کے مطابق اس منصوبے پر کسی باضابطہ اعلان کے بغیر عملدرآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔
وطن واپسی جانے والے افغانی باشندوں کی پاکستان دوبارہ آمد کو ہر قیمت پر روکنے کی ہدایت کی ہے،وزیراعظم نے ری لوکیشن منصوبے پر عملدرآمد کے دوران عوامی اعلانات نہ کرنے کی ہدایت کر دی جبکہ ری لوکیشن منصوبے پر عملدرآمد کے لئے انٹیلی جینس ایجنسیوں کو مانیٹرنگ کی ہدایت کر دی۔ پلان پر عملدرآمد کے لئے انٹیلی جینس ایجنسیوں سے متواتر رپورٹس بھی طلب کر لیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پاکستان میں مقیم افغانیوں کی وطن واپسی کے حوالے سے جائزہ اجلاس ہوا،وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان میں مقیم افغانیوں کی ری لوکیشن کے حوالے سے اہم ہدایات جاری کر دیں،وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے اجلاسوں میں حتمی شکل دی گئی، جن میں سے ایک اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی شریک تھے۔
رپورٹ کے مطابق پہلے مرحلے میں افغان سٹیزن کارڈ (ACC) رکھنے والے افغان باشندوں کو فوری طور پر اسلام آباد اور راولپنڈی سے منتقل کیا جائے گا اور بعد میں انہیں غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے ساتھ افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔
افغان سٹیزن کارڈ ایک شناختی دستاویز ہے جو نادرا کی جانب سے رجسٹرڈ افغان باشندوں کو جاری کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے مطابق یہ کارڈ افغان باشندوں کو پاکستان میں عارضی قانونی حیثیت فراہم کرتا ہے، تاہم اس کی مدت کا تعین حکومت کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دوسرے مرحلے میں پروف آف رجسٹریشن کارڈ (PoR) رکھنے والے افغان باشندوں کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے نکالا جائے گا، مگر انہیں فوری طور پر بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے پی او آر رکھنے والے افغان باشندوں کو جون تک پاکستان میں رہنے کی اجازت دے رکھی ہے۔پاکستان میں پی او آر اور اے سی سی رکھنے والے افغان باشندوں کی مجموعی تعداد تقریباً 20 لاکھ ہے، جن میں سے 13 لاکھ پی او آر اور 7 لاکھ اے سی سی کے حامل ہیں۔
تیسرے مرحلے میں جو افغان باشندے کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں، انہیں 31 مارچ تک اسلام آباد اور راولپنڈی سے منتقل کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے وزارت خارجہ عالمی اداروں اور غیر ملکی سفارتخانوں سے رابطے میں ہے تاکہ ان کی جلد از جلد منتقلی ممکن ہو سکے۔ اگر کوئی افغان مہاجر کسی تیسرے ملک میں منتقل نہ ہو سکا تو اسے افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔
دنیا بھر میں یوایس ایڈ کے10ہزار سےزائد افسر،اہلکارجبری برطرف