پیاری دنیا : یہ ہےفلسطین کا اتحاد!
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
ہم میں سے بہت سے لوگ جو فلسطین کی تاریخ میں فلسطینی عوام کی آواز،تجربے اور اجتماعی عمل کی اہمیت پرطویل عرصے سے زوردیتے رہے ہیں، وہ لوگ بھی غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جنگ کے نتیجے میں اٹھنے والے ثقافتی انقلاب سے ضرور چونک گئے ہوں گے۔ ثقافتی انقلاب سے میری مراد غزہ کی وہ باغی داستان ہے، جس میں لوگ صرف اسرائیلی جنگی بربریت کا شکار ہی نہیں ہوئے بلکہ عوامی مزاحمت میں ایک سرگرم حصہ دار کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
اسرائیلی نسل کشی کے 471 ویں دن جب جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تو غزہ میں فلسطینی جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی کہ وہ جنگ بندی کا جشن منا رہے تھے، لیکن ان کے نعروں، گانوں اور علامتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ درحقیقت وہ طاقتور اسرائیلی فوج (جسے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت حاصل رہی ہے اور رہے گی) کےخلاف اپنی اجتماعی فتح اور ثابت قدمی کا جشن منا رہے تھے۔ برق رفتاری کے ساتھ انہوں نے اپنی گلی کوچوں کو صاف کیا، تمام ملبہ ہٹایاتاکہ بےگھر افراد کی رسائی ان کے گھروں تک ممکن ہو سکے(اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے 90 فیصد رہائشی یونٹس اسرائیلی بمباری سےتباہ وبربادہو چکے ہیں)۔ وہ ان تباہ شدہ گھروں میں واپسی پرخوش تھے کہ ملبے پر ہی سہی لیکن اپنے گھروں کے اندر تو موجود ہوں گے۔ اس موقع پرکئی جذباتی مناظر دکھائی دئیے،ہجوم میں سےکچھ نے دست دعا بلندکر رکھے تھے، کچھ گیت گا کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے، اور کچھ آنکھوں میں نمی لئے عجیب کیفیات سے دوچارتھےکہ کوئی طاقت انہیں دوبارہ فلسطین سے اکھاڑ نہیں سکتی۔ سوشل میڈیا فلسطینیوں کے جذبات کی آمیزش سے بھرچکاتھا۔
جہاں تک بچوں کا تعلق ہے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (UNRWA) کے مطابق ان میں سے 14500 اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہو چکےہیں۔ واپس آنے والوں نے اپنا بچپن پھر سے شروع کیا ہے۔ یہ بچے رفح، بیت حنون اور دیگر جگہوں پر اسرائیلی ٹینکوں کےساتھ کھلونوں کی طرح کھیلتے اورانہیں تباہ کرنےکا دعویٰ کرتے دکھائی دیئے۔ ایک نوجوان اسکریپ میٹل سیلزمین بن کر اسرائیلی مرکاوا ٹینک برائے فروخت کی آوازیں لگاتا رہا اور جب اس کے دوستوں نے اسے فلمایا تو اس کا کہنا تھا کہ یقینی بنائیں کہ آپ یہ ویڈیو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو بھیجیں گے۔
خوشی کےاس اظہار کاہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ غزہ ناقابل تصور درد سے نہیں گزراہے، اس درد کا پوری طرح سے ادراک باقی دنیا کے لیےمشکل ہے۔ جنگ کے جذباتی اور نفسیاتی نشانات زندگی بھر رہیں گے، اور بہت سے لوگ اس صدمے سے کبھی بھی مکمل طور پر نکل نہیں پائیں گے لیکن غزہ کے باسی جانتے ہیں کہ وہ معمول کے غم کے متحمل نہیں ہو سکتے لہذا وہ غم پر قابو پا کر اپنی شناخت اور اتحاد پر زور دیتے ہیں۔ 7 اکتوبر، 2023 سے غزہ پر اپنے فوجی حملے میں اسرائیل نے فلسطینی عوام کو تقسیم کرنے اور ان کی روح کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ غزہ میں اس نے بھوک سے مرتے پناہ گزینوں پرجنگی طیاروں سےلاکھوں کی تعداد میں بم گرائے۔ صہیونی فوج نے اپنے مغویوں سےمتعلق کسی بھی قسم کی معلومات کےحصول کے لیے بڑے انعامات کی پیشکش کی، لالچ دیئے لیکن قوم میں سےایک بھی غدار نہیں نکلا۔ مزاحمت کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے اسرائیل نے منظم طریقے سے غزہ کے ان نمائندوں اور کونسلرز کو ہلاک کر دیا جنہوں نے غزہ بھر میں امداد تقسیم کرنے کی کوشش کی، خاص طور پر شمال میں جہاں قحط تباہ کن تھا۔ اس تباہی کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہواتو فلسطینیوں نے بحیثیت ایک زندہ قوم کے اس کا بھرپورجشن بھی منایا۔ غزہ کی تباہی تو ہوئی لیکن اسرائیل کے ان اقدامات نے غزہ کی طبقاتی، علاقائی، نظریاتی اور سیاسی تقسیم کو ختم کر دیا، غزہ میں ہرکوئی پناہ گزین بن گیا۔ امیر، غریب، مسلمان، عیسائی، شہر کے باشندے اور پناہ گزین کیمپ کے رہائشی، سب یکساں طور پر متاثر ہوئے۔ جدید تاریخ کی سب سے ہولناک نسل کشی کے بعد غزہ میں جو اتحاد قائم ہوا ہے، اسے ایک بیدار کال کا کام کرناچاہیے۔ یہ بیانیہ کہ فلسطینی منقسم ہیں اور انہیں مشترکہ بنیاد تلاش کرنے” کی ضرورت ہے، غلط ثابت ہوئی ہے۔ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے جنین اور دیگر پناہ گزین کیمپوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں مدد کے ساتھ، PA اور مختلف فلسطینی دھڑوں کے انضمام کے ذریعے سیاسی اتحاد کا پرانا تصور اب قابل عمل نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین کے سیاسی منظرنامے کی تقسیم کا مسئلہ محض سیاسی معاہدوں یا دھڑوں کے درمیان مذاکرات سے حل نہیں ہو سکتا۔ ایک مختلف قسم کا اتحاد پہلے ہی غزہ اور توسیعی طور پر مقبوضہ فلسطین اور باقی دنیا میں فلسطینی برادریوں میں جڑ پکڑ چکا ہے۔ یہ اتحاد ان لاکھوں فلسطینیوں میں نظر آتا ہےجنہوں نے جنگ کے خلاف مظاہرے کیے، غزہ کے لیے نعرے لگائے، غزہ کی مدد کے لیے پکارا، اور اس کے گرد ایک نیا سیاسی ڈسکورس تیار کیا۔ یہ اتحاد محض باتیں کرنے، عربی سیٹلائٹ چینلز پر یا مہنگے ہوٹلوں میں خفیہ ملاقاتوں پر انحصار نہیں کرتا۔ اسے سفارتی مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔ برسوں کی لامتناہی بحثیں،اتحاد کی دستاویزات اور شعلہ بیان تقریریں صرف مایوسی کا باعث بنیں۔ حقیقی اتحاد حاصل کیاجا چکا ہے، عام لوگوں کی آوازوں میں محسوس کیا گیا ہے جو اب دھڑوں کے ارکان کے طور پر شناخت نہیں کرتے ہیں۔ وہ غزاویہ ہیں یعنی غزہ کے فلسطینی، اور کچھ نہیں۔ یہی حقیقی اتحاد ہے جسے اب ایک نئے مکالمے کی بنیاد بناناچاہیے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں فلسطینی غزہ کی غزہ کے کے لیے
پڑھیں:
لاہور،وزرات مذہبی امور کے زیراہتمام بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس، اتحاد پر زور
وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اور وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کیسومل کھیل داس کوہستانی نے کہا کہ انسانیت کا درس دینے والوں کا غزہ میں اسرائیلی بربریت نظر نہیں آتی، ہمیں مذہبی ہم آہنگی کیلئے ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہب کی آڑ میں انتشار کی اجازت نہیں دی جائے گی، جو مذہبی فسادات کرنے کی کوشش کریں گے ان کیخلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزارت مذہبی امور و انٹرفیتھ ہارمنی کے زیراہتمام بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے مذہبی رواداری اور احترام انسانیت کیلئے انفرادی و اجتماعی سطح پر دیگر مذاہب کا احترام ناگزیر قرار دیدیا، جبکہ علماء کرام نے دنیا میں غزہ کے مسلمانوں کیلئے آواز اٹھانے کے عزم کا اظہار کیا۔ فلیٹیز ہوٹل لاہور میں منعقدہ کانفرنس میں ملک بھر کے تمام مذاہب و مسالک کے سکالرز نے شرکت کی۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اور وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کیسومل کھیل داس کوہستانی نے کہا کہ انسانیت کا درس دینے والوں کا غزہ میں اسرائیلی بربریت نظر نہیں آتی، ہمیں مذہبی ہم آہنگی کیلئے ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہب کی آڑ میں انتشار کی اجازت نہیں دی جائے گی، جو مذہبی فسادات کرنے کی کوشش کریں گے ان کیخلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔
چیئرمین رویت ہلال کمیٹی پاکستان مولاناعبدالخبیر آزاد اور چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ پاکستان کی ایک انچ زمین پر بھی دہشت گردی اور دشمن کی تخریب کاری کے نشان کو بالکل برداشت نہیں کریں گے، فلسطین بھی ہمارا ہے اور غزہ بھی ہمارا ہے، اس کے ایک زرہ پر بھی کسی کو قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ صوبائی وزیر اقلیتی امور سردار رمیش سنگھ اروڑہ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے ویژن کے مطابق نہ صرف مذہبی اہم آہنگی کو فروغ دینے لیے کوشاں ہیں بلکہ مذہبی سیاحت کی ترویج لیے ٹھوس اقدامات کو یقینی بنایا گیا ہے۔ کیونکہ 5ہزار 800 یاتری بیساکھی میلے میں شرکت کے لیے پہنچ چکے ہیں۔ معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر محمد حسین اکبر اور ڈاکٹر فادر جیمز چنن سمیت دیگر علماء کرام نے کہا کہ دشمن جو ہمارے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے اسے ناکام بنانے کی ضرورت ہے اور دشمن چاہتا ہے کہ وطن عزیز میں بدامنی و مذہبی منافرت بڑھے لیکن ہم یکجہتی سے اس سازش کو ناکام بنائیں گے کیونکہ تمام مذاہب درس دیتے ہیں، دوسروں کو قبول کریں ان کا احترام کریں۔