افغانستان کے لیے امریکی امداد کی معطلی کا کیا مطلب ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یو ایس ایڈ کے آپریشنز کو کم کرتے ہوئے امریکی غیر ملکی ترقیاتی امداد کو معطل کرنے کے اقدام سے افغانستان پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ملک ضروری خدمات کے لیے بیرونی امداد پر منحصر ہے۔
ٹرمپ کی جیت افغانستان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟
اگست 2021 میں افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کے باوجود امریکہ ملک کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے۔
انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (ایس آئی جی اے آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق، طالبان کے ملک پر مکمل کنٹرول کے بعد سے واشنگٹن نے افغانستان اور افغان مہاجرین کے لیے 21 بلین ڈالر سے زیادہ کی امداد مختص کی ہے یا دوسری صورت میں فراہم کی ہے۔
(جاری ہے)
ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی افغان شہریوں کے لیے بڑا دھچکہ
امریکہ کا موقف ہے کہ امدادی رقوم کا رخ افغان عوام کی طرف ہوتا ہے، اور طالبان کو ان تک رسائی سے روکنے کے لیے ضروری انتظامات کیے گئے ہیں۔
طالبان کو 'افراتفری' کا سامناتاہم، افغانستان میں امریکی ڈالر کی ترسیل سے طالبان کو بالواسطہ فائدہ ہوا ہے۔ اس سے افغان کرنسی کو مستحکم کرنے اور تیزی سے افراط زر کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ امریکی امداد کی معطلی سے اس نازک توازن کے بگڑنے کا خطرہ ہے۔
ایک سابق افغان سفارت کار غوث جان باز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "امریکی غیر ملکی امداد، بشمول یو ایس ایڈ کی فنڈنگ روکنا، طالبان میں افراتفری کا باعث بنا ہے۔
"بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کو غیر ملکی امداد، بشمول امریکہ کی طرف سے سالانہ فراہم کی جانے والی کروڑوں ڈالر کی امداد نے نادانستہ طور پر طالبان کو ملک پر کنٹرول برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔
ان کا خیال ہے کہ فنڈز کے بہاؤ میں کمی کے ساتھ، طالبان یا تو بین الاقوامی مطالبات کے سامنے جھک سکتے ہیں یا انہیں افغانستان کے اندر سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جاں باز نے مزید کہا، "گزشتہ تین سالوں میں، طالبان ایک خود کفیل معیشت قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اس طرح کی امداد پر بہت زیادہ منحصر ہیں۔"
'افغان عوام کو قیمت ادا کرنا پڑے گی'افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے، طالبان نے منظم طریقے سے خواتین کے بنیادی حقوق بشمول تعلیم اور گھر سے باہر کام کرنے پر روک لگادی ہے۔
طالبان کے دور حکومت میں افغان خواتین کو نقاب کے بغیر گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہے۔ خواتین کے حقوق کا مسئلہ، کسی بھی ملک کے طالبان کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔
اس کے نتیجے میں، دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت کے طور پر باضابطہ طور پر اب تک تسلیم نہیں کیا۔
طالبان ایک شمولیتی حکومت کے قیام یا افغان شہریوں کے لیے عوامی زندگی میں حصہ لینے کا عمل متعارف کرانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔
اگرچہ طالبان پر دباؤ بڑھانے کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے، تاہم کچھ لوگ اس لیے احتیاط برت رہے ہیں کہ اہم امداد میں کٹوتی افغان عوام کے لیے مزید مصائب کا باعث بنے گی۔
ملک سے باہر مقیم افغان خواتین کے حقوق کی ایک کارکن عظمی فروغ نے کہا،"اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق، افغانستان میں 26 ملین لوگ اپنی بقا کے لیے غیر ملکی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔
" فروغ افغانستان میں اب بھی کام کرنے والی امدادی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اگر انسانی ہمدردی کی تنظیمیں فنڈز تک رسائی کھو دیتی ہیں، تو وہ سب سے بنیادی امداد بھی فراہم کرنے سے قاصر ہوں گی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے پاس افغان عوام کی حمایت یا ترقی کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔
صرف اقوام متحدہ، بین الاقوامی ایجنسیوں اور افغان امدادی تنظیموں سے مدد ملتی ہے،" انہوں نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کے امداد میں کٹوتی کے فیصلے سے عام افغانوں کے حالات کافی خراب ہوں گے۔" افغانستان کے لیے ٹرمپ کا کوئی منصوبہ نہیں؟افغانستان کے لیے امداد میں کمی صدر ٹرمپ کے بڑے انتظامی احکامات کا نتیجہ ہے، جن کا ہدف خاص طور پر افغانستان پر نہیں تھا، بلکہ مجموعی طور پر ترقیاتی امداد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ افغانستان اس وقت ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے اس ایجنڈے کے حاشیے پر ہے، جس میں مشرق وسطیٰ اور یوکرین کے تنازعات پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔
چار فروری کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ایک افغان صحافی نے ٹرمپ سے افغانستان کے بارے میں ان کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا۔ جس پر ٹرمپ نے کہا، "آپ کے خوبصورت لہجے" کو میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔
اس سے یہ واضح نہیں کہ آیا ٹرمپ واقعی اس سوال کو سمجھنے میں ناکام رہے یا اس سے مکمل طور پر گریز کر رہے تھے۔فروغ نے کہا، "مجھے نہیں لگتا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاس افغانستان کے لیے ابھی کوئی منصوبہ ہے۔"
تاہم، ٹرمپ طالبان سے اپنے مطالبات کے بارے میں آواز اٹھا رہے ہیں - یعنی امریکہ کے پیچھے چھوڑے گئے فوجی سازوسامان کی واپسی اور بگرام ایئربیس پر کنٹرول، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اب چین کے زیر اثر ہے، اس دعوے کی طالبان نے تردید کی ہے۔
جاں باز کے مطابق، یہ ریمارکس افغانستان کے حوالے سے امریکی ٹھوس حکمت عملی کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ ٹرمپ کی مہم کے بیانات کا حصہ ہیں۔
جاں باز کا خیال ہے، "آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ٹرمپ افغانستان کو کس طرح سنبھالتے ہیں، لیکن جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ان کا نقطہ نظر پچھلی انتظامیہ کی طرح نہیں ہو گا۔"
ج ا ⁄ ص ز (مسعود سیف اللہ)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغانستان کے لیے کے بارے میں افغان عوام طالبان کے طالبان کو غیر ملکی کی امداد ٹرمپ کی کہ ٹرمپ رہے ہیں کے ساتھ
پڑھیں:
افغانستان میں اندرونی تناؤ، ہمارے امکانات اور امریکا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے انخلا کے انداز پر سخت تنقید کرتے آرہے ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کا افغانستان سے انخلا کا منصوبہ مختلف اور باعزت تھا، بگرام ایئر بیس پر امریکا کو اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے تھا۔ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے افغانستان سمیت دیگر ملکوں کو دی جانے والی امداد معطل کردی ہے۔ یہ معطلی تین ماہ کے لیے کی گئی، اس دوران ریویو کیا جائےگا۔ نظرثانی کے بعد امداد بحالی کے حوالے سے حتمی فیصلہ کیا جائےگا۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ کچھ امداد بحال بھی کی جا سکتی ہے۔
امریکی امداد کی بندش سے افغان کرنسی کی قیمت گری ہے۔ 28 افغان صوبوں میں 50 انٹرنیشنل این جی اوز کا کام رک گیا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب یو این سمیت عالمی ادارے افغانوں کی تکلیف دہ صورتحال کے حوالے سے مسلسل آگاہ کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ بتایا گیا کہ دیہی علاقوں میں ایک بہت بڑی آبادی کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ وہ یا تو سردی سے بچاؤ کے لیے لکڑیاں خرید کر خود کو گرم رکھ لیں یا پھر روٹی کھا لیں۔ امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ افغانوں کی طرف سے مدد کی جتنی درخواستیں آرہی ہیں ہم ان میں سے صرف آدھے لوگوں کو مدد فراہم کرسکتے ہیں۔
افغان طالبان حکومت نے چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی ہے۔ اس پابندی کے کچھ نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ افغانستان میں کم عمری کی شادی میں پھر سے ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے۔ کم عمر ماؤں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھی ہے، اہم ترین افغان طالبان اس پابندی کے خلاف اعلانیہ بیانات دے چکے ہیں۔ بیانات دینے والوں میں وزیر داخلہ سراج حقانی اور وزیر دفاع ملا یعقوب جیسے طاقتور لوگ بھی ہیں۔
19 جنوری کو ڈپٹی وزیر خارجہ شیر عباس ستانکزئی نے بھی ایک حیران کن بیان دیا تھا۔ خوست کے ایک مدرسے میں ستانکزئی نے خطاب کیا تھا۔ وہاں انہوں نے کہاکہ خواتین کی تعلیم پر اسلام میں کوئی پابندی نہیں ہے، ایسی پابندی کسی کی (ملا ہبت اللہ) ذاتی خواہش اور سمجھ ہو سکتی ہے۔ اس بیان کے بعد ستانکزئی منظر عام سے غائب ہیں اور کہا جارہا ہے کہ وہ شارجہ نکل گئے ہیں۔
پہلے ان کی ایک آڈیو آئی جس میں انہوں نے کہاکہ وہ کورونا جیسی بیماری کی وجہ سے گھر میں موجود ہیں، پھر اس کے بعد ایک اور آڈیو میں ستانکزئی کا کہنا تھا کہ طالبان امیر کے بیانات پر اندھوں کی طرح عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جو احکامات خلاف شریعت ہیں ان کو ماننے سے انکار کرنا چاہیے۔
27 جنوری کو خوست میں عائشہ صدیقہ گرلز اسکول میں افغان ڈپٹی وزیر داخلہ محمد نبی عمری نے خطاب کیا۔ عمری کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم کی اگر مذہب اور معاشرہ اجازت نہیں بھی دیتا، یہ تب بھی جائز ہے، یہ کہنے کے بعد نبی عمری نے رونا شروع کردیا اور ان کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔ ان کا کہنا تھا کہ خدا ہمیں ہدایت دے، اگر دینی تعلیم کی اجازت ہے تو سائنسی تعلیم کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔
افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی 12 دن پہلے متحدہ عرب امارات گئے تھے اور وہ وہیں مقیم ہیں۔ ان کے بیرون ملک قیام کے دوران ہی کابل میدان وردگ ہائی وے سے حقانیوں کے وفاداروں سے چارج لے کر متبادل دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔ سراج حقانی کے ساتھ انٹیلی جنس چیف عبدالحق وثیق بھی بیرون ملک دورے پر گئے ہوئے ہیں۔
اس سب سے جو صورتحال بنتی دکھائی دے رہی ہے، اس کو سمجھانے کے لیے سائنس پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے ایک دلچسپ مطالبہ بھی کیا ہے۔ وہ یہ کہ امریکی اسلحہ واپس کرو، یہ تو افغان ہیں آپ تازہ خان کو بخار دے کر واپس نہیں لے سکتے اگر اس کی مرضی نہ ہو۔ یہ ہمیں پتا ہے تو ٹرمپ کو نہیں پت؟۔ اصل مطالبہ یقینی طور پر کوئی اور ہے۔
اس اصل مطالبے کا اندازہ لگانے سے پہلے بھی کچھ سوچنے کی ضرورت ہے، اتنا کچھ ہورہا ہے، افغانستان کی موجودہ حکومت سے ہمیں کوئی ٹھنڈی ہوا نہیں آرہی تو پھر حوالدار بشیر کیا کررہا ہے۔ وہ وہی کررہا ہے جو اسے کرنا چاہیے۔ افغان اپوزیشن کے اجلاس ہورہے ہیں، ان سرگرمیوں کے پیچھے ہم بھی جھانکتے دکھائی دے ہی رہے ہیں۔ ظاہر ہے جتھے رولا ہوسی اوتھے ڈھولا ہوسی۔
افغانستان کے وزیر مائننگ نے جنوبی افغانستان میں لیتھیم اور یورینیم کے ذخائر کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔ افغانستان میں معدنیات کے معاہدے انڈیا اور چین دونوں نے کررکھے ہیں۔ ان کاموں میں امریکی یورپی کمپنیاں پیچھے رہ گئی تھیں۔ یورینیم کی مائننگ سادہ معاملہ نہیں ہے۔ رئر ارتھ منرل افغانستان میں خاصے ہیں، جدید ٹیکنالوجی کا ان پر بہت انحصار ہے۔ اس شعبے میں امریکا چین کی مسابقت بھی جاری ہے۔ اس مارکیٹ پر کنٹرول کے لیے رولز طے نہیں ہوئے، زور آزمائی جاری ہے۔ پاکستان کے لیے حسب معمول اس میں امکانات ہیں، اب تک تو ہم ایسا کرتب دکھاتے ہیں کہ جدھر فائدہ ہو ادھر پلے سے نقصان اٹھا کر آتے ہیں، اس بار کچھ نیا کرلیں سر جی!
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی باباوسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
wenews افغانستان افغانستان تناؤ امریکا پابندیاں پاکستان چین ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز