ایسے لگ رہا ہے جیسے پاکستان اشرافیہ کے لئے ہی بنا ہے کہ جہاں شہریوں کے حقوق کے نام پر ملکی خزانہ لوٹا جائے، آئی ایم ایف سے ناک رگڑ رگڑ کر قرض لیا جائے اور پھر اسے اپنے مفادات پر لٹایا جائے صحت، تعلیم سمیت متعدد ترقیاتی منصوبے بنائے جائیں اور پھر ان منصوبوں میں اپنے سالے اور سسر وغیرہ کو نوازا جائے، رات دن ترقی کے نام پر زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف عوام مہنگائی کے ہاتھوں ہمیشہ سے کلین بولڈ ہوتے چلے آرہے ہیں، اس کی حکومت کو فکر ہوتی ہے نہ ہی اپوزیشن کو! دونوں اپنی اپنی مگن میں اپنے اپنے مفادات کے لئے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں، اپنی سزائیں معاف کرانا ہوں تو نئے آرڈیننس لائے جاتے ہیں، قانون بنائے اور توڑے جاتے ہیں کیونکہ انہیں سارے کے سارے چور راستے آتے ہیں، ان چور راستوں میں حواری بھی پیش پیش ہوتے ہیں جو حکومت اور اپوزیشن کی لوٹ مار میں برابر کے شریک ہوتے ہیں، حکومت قانون کو موم کی ناک کی طرح ہینڈل کرتی ہے، اپوزیشن جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو انہیں عوام کے مسائل کا درد اٹھتاہے، دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے آخری حدوں کو چھونے سے بھی گریز نہیں کرتے، مذاق رات کے نام پر مک مکا کیا جاتا ہے اور مرضی کے فیصلے نہ ہونے پر مذاق رات کا بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے اور پھر احتجاج دھرنے کی دھمکی دی جاتی ہے حالانکہ کھانے کی ٹیبل پر حکومت اور اپوزیشن یک زبان ہوتی ہے جیسے پچھلے دونوں اپنی تنخواہوں میں اضافے کے وقت کسی جماعت نے مخالفت نہ کی اور پانچ پانچ لاکھ تنخواہیں کرا لیں جبکہ اسمبلی میں لڑائی جھگڑے کے سوا اور کچھ نہیں کرتے جبکہ مزدور کی کم از کم تنخواہ 37ہزار روپے پر آج تک عمل درآمد نہیں کرایا گیا کیونکہ ان میں ان کا اپنا مفاد عزیز نہیں، قرض پر چلنے والے ملک میں تنخواہوں میں اتنا بڑا اضافہ عوام کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے ؟پاکستان خرکاروں کے چنگل میں پھنسا ملک ہے جسے سیاستدان کئی دہائیوں سے لوٹ رہے ہیں، پروٹوکول کے نام پر اندازاً لاکھوں کا پٹرول پھونکا جاتا ہے، مثالیں صحابہ کرامؓ کے ادوار کی دی جاتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پارٹیاں بدل بدل کر نت نئے انداز میں آنے والے سیاستدانوں نے ملک اور قوم کے ساتھ ہمیشہ کھلواڑ کیا،مہنگائی نے ہر شخص کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے ہر شخص روٹی کے حصول کیلئے پریشان ہے جو لوگ حکمرانوں کو پٹرول کی قیمت 100روپے کرنے کا کہہ رہے تھے اب تو سوشل میڈیا پر وہ بھی پھٹ پڑے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اب اس حکومت کے پاس عوام کو دینے کیلئے کچھ نہیں بچا، حکمرانوں کو ملک کی فکر ہے نہ عوام کی ان کی ترجیح صرف سیاسی انتقام اور اپنے کیسز ختم کرانا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی ہر گزرتے دن کیساتھ بڑھ رہی ہے، آ ئی پی پیز کے ساتھ معا ہد وں کے خاتمہ کے بعد ہو نے وا لی بچت سے عوا م کو ریلیف فراہم کیا جانا چاہیے تھاجو نہ کیا گیا، پاکستان میں متعدد ادارے کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں جو دہشتگردی سے زیادہ خطرناک ہیں جس ملک میں کرپشن دینے والوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اس ملک کے عوام کے گلے میں غلامی کا طوق ڈال دیا جاتا ہے،کرپشن ایک ناسور ہے جو کسی بھی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے پاکستان سمیت دنیا بھر میں وہ ملک ہمیشہ تنزلی کی طرف گامزن رہے ہیں جو کرپشن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اگر اسے ختم نہ کیا گیا تو یہ قوم کو ختم کرکے رکھ دیگی، حکومت مہنگائی کم ہونے کے شادیانے بجا رہی ہے دوسری طرف ای سی سی نے چینی، گھی اور خورنی تیل سبزیوں سمیت بعض اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیاہے جس کے بعد سچ کیا ہے وہ سامنے آ ہی گیا ہے،ترقی کیلئے امن اور سیاسی استحکام کا ہونا ضروری ہے، ترقی کرنے والے ممالک نے پالیسیوں کا تعین کرکے ان کے نتائج حاصل کرنے کیلئے ایک دہائی کا وقت دیا، ہم آپسی لڑائیوں میں لگے ہیں اور بلوچستان جل رہا ہے کرم ایک ہی صوبہ میںہونے کے باوجود کٹ کر رہ گیا ہے اب تک راستے بند ہیں جرگے بھی کسی کام نہ آئے اورمتعدد افراد کو ہیلی کاپٹرزکے ذریعے پشاور منتقل کیا جا رہا ہے جو بہت بڑا المیہ ہے، پاکستان کیخلاف ایک منظم سازش ہو رہی ہے جس سے ہمیں چوکنا رہنا ہو گا، مسائل کا پائیدار حل ڈائیلاگ سے نکلتا ہے تویہ بہت ہی اچھی بات ہے، بعض عناصر بندوق کے ذریعے تشدد کا راستہ اپنا رہے ہیں، ریاست کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کو روکنا ہو گا،آج سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کی منفی ذہن سازی کی جا رہی ہے جو بہت خطرناک ہے دہشت گرد عناصر بلوچستان کے امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے بہادر سپاہی ان کے مذموم عزائم کو ہمیشہ کی طرح ناکام بناتے رہیں گے، سکیورٹی فورسز کے بہادر جوانوں نے ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دئیے قوم اپنے محافظوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی پاکستان کے عوام ملک کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اپنی سکیورٹی فورسز کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، مذاکرات کے نام پر ٹائم ضائع کیا گیا پہلے بانی پی ٹی آئی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت سے مذاکرات کی سخت مخالف تھے، پھر اسی حکومت کے مذاکراتی دروازے کھٹکھٹائے گئے، پی ٹی آئی کے اندربھی مذاکرات کے حوالے سے اختلافات ہیں، پی ٹی آئی نے پہلے کہا وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست بات کریگی، بعد میں خود انہیں سمجھ آ گئی کہ حکومت سے بات کیے بغیر کوئی راستہ نہیں نکلے گا مذاکرات کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا گیا کیونکہ یہ سب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اپنا مفاد ہو تو بلا چوں چراں تنخواہیں بڑھا لی جاتی ہیں اور عوام سے پوچھا بھی نہیں جاتا پوچھیں بھی کیوں عوام تو کیڑے مکوڑے ہیں اور ویسے بھی ملک غنڈوں کیلئے شریفوں کیلئے،زرداریوں کیلئے،چوھدریوں کیلئے بنا ہے جو گاہے بگاہے ملک پر مسلط ہو رہے ہیں۔
بقول حبیب جالب
جب کمینے عروج پاتے ہیں
اپنی اوقات بھول جاتے ہیں
کتنے کم ظرف ہیں یہ غبّارے
چند پھونکوں سے پھول جاتے ہیں
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے نام پر جاتے ہیں کیا گیا کے ساتھ ہیں اور جاتا ہے نے والے رہے ہیں رہی ہے
پڑھیں:
ای کامرس اور آن لائن کا عروج
اگر ہمیں کوئی چیز خریدنی ہوتی ہے تو ہم کسی مارکیٹ کی دکان سے خرید لیتے ہیں لیکن اگر وہی چیز ہم آن لائن گھر بیٹھے منگوائیں تو اسے ای کامرس کہتے ہیں۔ ایمازون، علی بابا اور دراز جیسے پلیٹ فارم جہاں بڑے پیمانے پر آن لائن کاروبار ہوتا ہے ایک حالیہ سروے کے مطابق ایمازون ہر ماہ بے پناہ آمدنی حاصل کرتا ہے۔ 2024 کی تیسری سہ ماہی میں، ایمازون کی کل آمدنی تقریباً 158.88 بلین ڈالر تھی، جو اس کے کاروبار میں زبردست ترقی کی عکاسی کرتی ہے۔ پچھلے بارہ مہینوں میں ایمازون کی مجموعی آمدنی 620.13 بلین ڈالر تک پہنچ گئی، جو ماہانہ اوسطاً 51.68 بلین ڈالر بنتی ہے۔ کورونا کے بعد ای کامرس کا رحجان بہت بڑھ گیا ہے، 2019 میں اس وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا تو اس کے بعد ہی اکثر لوگوں نے اپنے کاروبار کو انٹرنیٹ پہ منتقل کیا، اُس وقت کے بعد سے اس کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے اس کاروبار کے لیے صرف ایک لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ، ایک ویب سائٹ اور کچھ پروڈکٹ، ان سب کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے اس کے کچھ فوائد، نقصانات اور مستقبل کیا ہے اس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
ای کامرس کاروبار اور صارفین دونوں کے لیے بے شمار فوائد فراہم کرتا ہے۔ کاروباری اداروں کے لیے، یہ نہ صرف عالمی مارکیٹ تک وسیع رسائی فراہم کرتا ہے بلکہ 24/7 فروخت کی سہولت بھی پیش کرتا ہے جو روایتی کاروباری اوقات سے آگے بڑھتا ہے۔ صارفین کے لیے، ای کامرس آرام دہ اور اکثر معقول قیمتوں کی پیشکش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ یہ مشقت، اسٹورز اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی ضرورت کو کم کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی سہولت صارفین کہیں بھی کسی بھی موقع پر کوئی چیز خرید سکتے ہیں جیسے کہ اکثر ہم دراز پہ کوئی پروڈکٹ دیکھ رہے ہوتے ہیں اگر وہ پروڈکٹ پسند آجائے تو اسی وقت آرڈر کردیتے ہیں یا پھر ہم کو اس کو محفوظ کرلیتے ہیں کہ بعد میں خرید لیں اس کے علاوہ طرح طرح کی ورائٹی دستیاب ہوتی ہیں، اس میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ عام اسٹور سے زیادہ مصنوعات ہوتی ہیں اس کے علاوہ جو چھوٹے کاروبار والے بھی اپنے کاروبار کو ای کامرس پلیٹ فارم پر منتقل کرسکتے ہیں اور یہ ان کے لیے بہت فائدے مند ثابت ہوگا نہ صرف ان کے لیے بلکہ صارفین کے لیے بہت فائدے مند ثابت ہوگا۔
جس طرح ای کامرس کا رحجان بڑھ رہا ہے تو چھوٹے اسٹور والوں کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں کیونکہ اکثر لوگ چھوٹے اسٹور کے پاس جانے سے کتراتے ہیں اکثر صارفین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں گھر بیٹھے مصنوعات مل جائیں۔ اور ان سب میں سے بڑا نقصان ڈیٹا کی پراوئیسی ہے ای کامرس پلیٹ فارم صارفین کی ذاتی معلومات حاصل کرتی ہیں جو کہ ایک بڑا چیلنج ہے صارفین کے لیے یہ بھی ایک بڑے خطرے کی بات ہے کیونکہ جب تک وہ اپنی ذاتی معلومات کسی ای کامرس پلیٹ فارم پر نہیں دیں گے تو ان کی پسند کی گئی مصنوعات ان تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس علاوہ ای کامرس میں بھی انوینٹری، مینجمنٹ اور شپنگ کے مسائل کا سامنا بھی ہوتا ہے کیونکہ کسی مصنوعات کی پیکنگ کے لیے کئی چیزیں درکار ہوتی ہیں جیسے کوئی کارخانہ یا کوئی گودام اس کے علاوہ پورا اسٹاف پھر شپنگ کے ذریعے صارفین تک پہنچانا تو اس میں قیمتیں بڑھتی ہیں جو کہ صارفین کے لیے شکایات اور اخراجات میں اضافہ کرتی ہیں پھر ہم ایک اسٹوز سے کوئی مصنوعات خریدتے ہیں تو اس میں صارفین کے مسائل کو سمجھانا اور براہ راست تعلق قائم ہوتا ہے لیکن اس کے بہ نسبت ای کامرس میں ایسا نہیں ہوسکتا صارفین کو سمجھانا اور پھر ان سے تعلق بنانا یہ بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے اس کے علاوہ ای کامرس میں ریٹرن اور واپسی کی مشکلات بھی ایک بہت بڑا نقصان ہے صارفین کو اگر وہ مصنوعات پسند نہ آجائے تو وہ ہر حال میں اس کو اپنے پاس رکھنی پڑتی ہے اس کے علاوہ ای کامرس پلیٹ فارم جب بھی کوئی مصنوعات دیکھتے ہیں تو اس کی ایک تصویر ہوتی ہے اور اس کی کچھ تفصیلات ہوتی ہیں دیکھنے میں کچھ ہوتا لیکن جب وہ مصنوعات صارفین تک پہنچتی ہے ویسا نہیں ہوتا اکثر ایسے واقعات ہوتے ہیں صارفین کی شکایات کا سبب بنتے ہیں اس لیے اکثر صارفین کسی مارکیٹ کا رخ کرکے اس مصنوعات کو اچھی طرح دیکھ کے خرید لیتے ہیں تو یہ بھی ایک بہت بڑا نقصان ہے۔
موجودہ دور ہمارے سامنے ہے جس طرح ٹیکنالوجی آرہی ہے اس میں ای کامرس کا مستقبل ہے کیونکہ اب آدھا کاروبار آن لائن ہی ہورہا ہے اس کا مستقبل تو ہی ہے لیکن صارفین کو مطمئن کرنا ان کا اعتماد حاصل کرنا یہ ایک مشکل چیلنج ہے کیونکہ صارفین کی شکایت یہ ہوتی ہے ان کا ڈیٹا لیک نہ ہوجائے سیکورٹی کے حوالے صارفین کو بہت مشکلات ہوتی ہیں پھر ان کی جو مصنوعات ہوتی ہے وہ دیے گئے وقت تک ان کو پہنچتی ہے یا نہیں پھر شپنگ کا خرچہ، اگر ان کی مصنوعات میں کوئی خرابی ہوتی ہے یہ بھی صارفین کے ایک مشکل ہوتی ہے بہرحال آج کے دور کو ہم سامنے رکھیں جہاں فائدے ہیں وہیں نقصانات بھی ہیں جو ای کامرس کا کاروبار کرنا چاہتا ہے اس پہ دارو مدار ہے وہ اپنے صارفین کو کیسے مطمئن کرسکتا ہے کیسے ان کا اعتماد حاصل کرسکتا ہے ان کے فائدے کے لیے کیا کچھ کرسکتا ہے۔ اگر کوئی ای کامرس کاروبار کرنا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ ایمازون، علی بابا اور دراز جیسے اداروں سے سیکھے کس طرح وہ آن لائن کاروبار کررہا ہے کس طرح ان کی قیمتوں کو اور بازار کی قیمتوں میں کتنا فرق ہے ان کی مصنوعات میں اور باہر کی مصنوعات میں کتنا فرق ہے وہ اپنے صارفین کو مطمئن کرپاتے ہیں یا نہیں۔